سورۃ المطففین (83): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mutaffifin کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المطففين کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ المطففین کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mutaffifin
سُورَةُ المُطَفِّفِينَ
صفحہ 588 (آیات 7 سے 34 تک)

كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلْفُجَّارِ لَفِى سِجِّينٍ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا سِجِّينٌ كِتَٰبٌ مَّرْقُومٌ وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ ٱلَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ ٱلدِّينِ وَمَا يُكَذِّبُ بِهِۦٓ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا قَالَ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ كَلَّآ إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُوا۟ ٱلْجَحِيمِ ثُمَّ يُقَالُ هَٰذَا ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ كَلَّآ إِنَّ كِتَٰبَ ٱلْأَبْرَارِ لَفِى عِلِّيِّينَ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا عِلِّيُّونَ كِتَٰبٌ مَّرْقُومٌ يَشْهَدُهُ ٱلْمُقَرَّبُونَ إِنَّ ٱلْأَبْرَارَ لَفِى نَعِيمٍ عَلَى ٱلْأَرَآئِكِ يَنظُرُونَ تَعْرِفُ فِى وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ ٱلنَّعِيمِ يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ خِتَٰمُهُۥ مِسْكٌ ۚ وَفِى ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ ٱلْمُتَنَٰفِسُونَ وَمِزَاجُهُۥ مِن تَسْنِيمٍ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا ٱلْمُقَرَّبُونَ إِنَّ ٱلَّذِينَ أَجْرَمُوا۟ كَانُوا۟ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا۟ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ وَإِذَا ٱنقَلَبُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَهْلِهِمُ ٱنقَلَبُوا۟ فَكِهِينَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّ هَٰٓؤُلَآءِ لَضَآلُّونَ وَمَآ أُرْسِلُوا۟ عَلَيْهِمْ حَٰفِظِينَ فَٱلْيَوْمَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنَ ٱلْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ
588

سورۃ المطففین کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ المطففین کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، یقیناً بد کاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla inna kitaba alfujjari lafee sijjeenin

ان لوگوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ یہ لوگ قیامت کے یوم عظیم میں اٹھائے جائیں گے۔ اسی لئے قرآن کریم نہایت سرزنش اور زجروتوبیخ کے انداز میں اس سے روکتا ہے اور نہایت تاکید کے ساتھ بتاتا ہے کہ ایک کتاب میں ان کے تمام اعمال ثبت کئے جارہے ہیں۔ اور اس بات کو زیادہ تاکیدی بنانے کے لئے یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ کتاب کہاں رکھی ہوئی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب ان فساق وفجار کے سامنے ، اس عظیم دن میں ان کی کتاب پیش کی جائے گی تو ان پر بڑی بربادی واقع ہوگی۔

کلا ان .................................... للمکذبین (7:83 تا 10) ” ہرگز نہیں ، یقینا بدکاروں کا نامہ اعمال قید خانے کے دفتر میں ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ قید خانے کا دفتر ؟ وہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے “۔ فجار ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اثم ومعصیت میں حدوں سے گزر جائیں ، خود لفظ فجار کی صوتی لہروں میں یہ مفہوم پوشیدہ ہے۔ ان کی کتاب سے مراد ان کا اعمال نامہ ہے۔ اس کی ماہیت اور کیفیت کا علم انسانوں کو نہیں ہے۔ یہ غیبی امور میں سے ہے اور اس کے بارے میں ہم صرف اتنی بات کرسکتے ہیں جو مخبر صادق نے ہمیں اطلاع دی ہو ۔ قرآن نے یہ کہا ہے کہ بدکاروں کے اعمال کا ایک دفتر ہے اور یہ سجین میں ہے۔ قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ کسی بات کو خوفناک بنانے کے لئے ایک سوال کردیتا ہے۔

وما ادرک ما سجین (8:83) ” تمہیں کیا معلوم کہ سجین کیا ہے ؟ “ مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ یہ معاملہ تمہارے حد ادراک سے آگے اور دور ہے اور بہت عظیم ہے اور تمہارے دائرہ ادراک سے بڑا ہے۔ لیکن قرآن بہرحال اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ

ان کتب .................... سجین (7:83) ” فجار کا اعمال نامہ سجین میں ہے “۔ جو ایک متعین جگہ ہے۔ اگرچہ انسان کو معلوم نہیں ہے۔ اس طرح قارئین کو ایک یقینی اطلاح دی جارہی ہے کہ یہ اعمال نامہ تیار اور موجود ہے اور یہی یہاں مقصود ہے۔

کتب مرقوم (9:83) ” وہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی “۔ اعمال نامہ کی تفصیلات کہ فجار کا یہ اعمال نامہ تیار شدہ ہے۔ اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ بس اس عظیم دن میں اسے کھولا جائے گا۔ اس لئے خیال کرو۔

اردو ترجمہ

اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma sijjeenun

اردو ترجمہ

ایک کتاب ہے لکھی ہوئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kitabun marqoomun

اردو ترجمہ

تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waylun yawmaithin lilmukaththibeena

ویل یومئذ للمکذبین (10:83) ” اس دن مکذبین کے لئے بربادی ہے “۔ اور مکذبین کی تعریف بھی کردی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

جو روز جزا کو جھٹلاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yukaththiboona biyawmi alddeeni

الذین ........................ الاولین (11:83 تا 13) ” اور اسے نہیں جھٹلاتا مگر ہر وہ شخص جو حد سے گزر جانے والا بد عمل ہے۔ اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے ، ” یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں “۔ یہ الزام وہ اس لئے دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں امم سابقہ کے قصے اور حالات برائے عبرت لائے گئے ہیں۔ اور ان کے ذریعہ اس کائنات میں چلنے والی سنت الٰہیہ کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ سنت ایک اٹل قانون کی طرح لوگوں کو گرفت میں لیتی ہے۔

اس دست درازی اور تکذیب کے بعد اب ایک سرزنش اور تنبیہہ آتی ہے اور یہ کلا سے شروع ہوتی ہے اور اس میں ان کی اس روش کی اصلی علت اور سبب بتایا جاتا ہے کہ وہ کیوں ظلم کرتے ہیں اور حق کو کو یں جھٹلاتے ہیں ؟ یہ کہ وہ غافل ہوگئے ہیں اور ان کے دل مسخ ہوکر زنگ آلود ہوگئے ہیں۔

اردو ترجمہ

اور اُسے نہیں جھٹلاتا مگر ہر وہ شخص جو حد سے گزر جانے والا بد عمل ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama yukaththibu bihi illa kullu muAAtadin atheemin

اردو ترجمہ

اُسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Itha tutla AAalayhi ayatuna qala asateeru alawwaleena

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla bal rana AAala quloobihim ma kanoo yaksiboona

کلا بل ........................ یکسبون (14:83) ” ہرگز نہیں ، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے “۔ یعنی وہ جن گناہوں اور نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے ہیں انہوں نے ان کے دلوں کو ڈھانپ لیا ہے۔ اور جب کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا دل زنگ پکڑ کر سیاہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح اس پر ایک دبیز پردہ پڑجاتا ہے اور یہ دل نور سے چھپ جاتا ہے اور اس کا احساس دھیرے دھیرے ختم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ احساس ہی ختم ہوجاتا ہے۔

امام ترمذی اور نسائی نے محمد ابن عملان سے انہوں نے قنقاع سے انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس سے اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ اب اگر وہ توبہ کرے تو وہ نقطہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ پھر گناہ کرے تو یہ سیاہی بڑھ جاتی ہے “۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ اور امام نسائی کے الفاظ یہ ہیں : ” جب انسان کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ اگر اس نے برائی سے ہاتھ کھینچ لیا ، استغفار کیا اور توبہ کرلیا تو اس کا دل صیقل ہوجاتا ہے۔ اگر اس نے دوبارہ اس برائی کا ارتکاب کیا تو اس نقطے میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ سیاہی اسکے پورے دل پر چھا جاتی ہے۔ یہ ہے وہ زنگ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

کلا بل ........................ یکسبون (14:83) ؟ ؟ ہرگز نہیں ، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ” یہ گناہ پر گناہ ہے ، یہاں تک کہ دل اندھا ہوجاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے “۔

یہ ہے تکذیب کرنے والوں کا حال اور یہ ہے ان کی تکذیب اور ان کے فسق وفجور کی علت۔ اب اس عظیم دن میں ان کے ہونے والے انجام کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ان کا اس عظیم دن میں جو انجام ہورہا ہے وہ ان کے فسق وفجور اور ان کی تکذیب کے حسب حال ہے۔

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بالیقین اُس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla innahum AAan rabbihim yawmaithin lamahjooboona

کلا انھم ................................ تکذبون (15:83 تا 17) ” ہرگز نہیں ، بالیقین اس روز یہ اپنے رب کی دید سے محروم رکھے جائیں گے ، پھر یہ جہنم میں جاپڑیں گے ، پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے “۔

فسق وفجور اور گناہوں نے ان کے دلوں کو ڈھانپ لیا تھا۔ دنیا میں ان کے دل رب تعالیٰ کے احساس سے دور ہوگئے تھے اور گناہوں نے ان کی زندگی کو بےنور اور تاریک کردیا تھا ، وہ زندگی میں ایسی روش رکھتے تھے جس طرح اندھے ہوں۔ اب آخرت میں ان کا انجام بھی طبعی ہے اور ان کے حسب حال ہے۔ آخرت میں وہ دیدار رب کی عظیم نعمت سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ یہ ایک عظیم محرومی ہوگی۔ قیامت میں یہ نعمت صرف اس شخص کو نصیب ہوگی جس کی روح صاف اور شفاف ہوچکی ہو اور اس کی اس صفائی کی وجہ سے اس کے اور رب کے درمیان سب پردے دور ہوجائیں گے۔ سورة قیامت میں انہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔

وجوہ یومئذ ........................ ناظرہ ” کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “۔ قیامت میں رب تعالیٰ سے حجاب ان کے لئے عذاب قیامت سے بھی بڑا عذاب ہوگا۔ تمام محرومیوں سے یہ بڑی محرومی ہوگی اور یہ کسی انسان کی انسانیت کا بدترین انجام ہوگا کہ اس کی انسانیت رب کریم کے ساتھ جاملنے اور اس تک پہنچ جانے سے محروم رہے۔ کیونکہ جب کوئی رب کریم تک پہنچنے سے محروم ہوجائے تو وہ اپنے انسانی خصائص کھو بیٹھتا ہے۔ اور اس حد تک گر جاتا ہے کہ وہ اب جہنم کے لائق اور مستحق ہوجاتا ہے۔

ثم انھم .................... الجحیم (16:83) ” پھر یہ جہنم میں پڑجائیں گے “۔ لیکن اس جہنم رسیدگی کے ساتھ ساتھ وہاں ان کی سرزنش بھی ہوگی اور یہ اس عذاب سے بھی زیادہ کڑوی ہوگی۔

ثم یقال .................... تکذبون (17:83) ” پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے “۔

اب اس کے بعد صفحہ بالمقابل پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کا یہ مستقل انداز بیان ہے کہ وہ بالعموم اچھائی اور برائی دونوں کی تصویر کے دونوں رخ پیش کرتا ہے تاکہ حسن وقبح کے تقابل سے لوگ بات کو اچھی طرح سمجھیں اور حقیقت ان کے ذہن نشین ہوجائے اور اچھوں اور بروں دونوں کا انجام بھی سامنے آجائے۔

اردو ترجمہ

پھر یہ جہنم میں جا پڑیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innahum lasaloo aljaheemi

اردو ترجمہ

پھر اِن سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma yuqalu hatha allathee kuntum bihi tukaththiboona

اردو ترجمہ

ہرگز نہیں، بے شک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kalla inna kitaba alabrari lafee AAilliyyeena

اس پیراگراف کے آغاز میں لفظ کلا ” ہرگز نہیں “۔ زجروتوبیخ اور سرزنش کے لئے آیا ہے اور یہ زجر اس سے ماقبلی مذکور ہے۔

ثم یقال ........................ تکذبون (17:83) ” پھر ان سے کہا جائے گا یہ وہی ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے “۔ اس پر بطور نتیجہ کہا ، ہرگز نہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور اس کے بعد نیک لوگوں کا بیان شروع ہوتا ہے اور یہ مثبت اور تاکیدی انداز میں آتا ہے۔

جس طرح پہلے کہا گیا تھا کہ بدکاروں کا نامہ اعمال سجین میں ہے تو یہاں کہا جارہا ہے کہ نیکوکاروں کا نامہ اعمال علیین میں ہے۔ اور ابرار ” نیکوکار “ وہ لوگ ہیں جو اطاعت کیش اور ہر نیک کام کرنے والے ہیں۔ یہ نافرمانوں اور حد سے گزرنے والوں کے بالمقابل یہاں لائے گئے ہیں۔

لفظ علیین سے علو اور بلندی کا مفہوم ذہن میں آتا ہے ، اور اس سے ہم یہ بات اخذ کرسکتے ہیں کہ سجین کے اندر انحطاط ، پستی اور گراﺅٹ کا مفہوم ہوگا۔ اور اس کے بعد سوال ایک خوفناک سوال آتا ہے جو بتاتا ہے کہ مخاطب کو معلوم نہیں ہے کہ علییون ہے کیا ؟ مطلب یہ ہے کہ تم ان بلندیوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ مقام تمہارے حد ادراک سے ماوراء ہے۔

اس اشاراتی فضا سے نکل کر اب روئے سخن نیکوکاروں کے اعمال نامے کی طرف مڑ جاتا ہے تو وہ کیا ہے۔

اردو ترجمہ

اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama adraka ma AAilliyyoona

اردو ترجمہ

ایک لکھی ہوئی کتاب ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kitabun marqoomun

کتب ............................ المقربون (21:80) ” ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں “۔ لکھی ہوئی (مرقوم) کے معنی ہم پہلے بتا چکے ہیں۔ یہاں اس قدر اضافہ ہے کہ مقرب فرشتے اس کتاب کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ کتاب نہایت پاکیزہ ، نہایت قابل قدر ، نہایت بلند مرتبہ کتاب ہے جس پر اللہ کے مقرب فرشتے حاضر رہتے ہیں اور اس کتاب میں چونکہ نہایت اعلیٰ اخلاق اور اعمال کا ذکر ہے۔ اس لئے یہ ان مقرب فرشتوں کے لئے متاع حیات ہے اور وہ ایسا لکھیں گے اس کتاب کی اس فضا کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ یہ قابل قدر کتاب ہے۔

اس قابل قدر کتاب کے ذکر کے بعد اب خود ابرار کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس اچھے اعمال نامے کے مالک ہیں اور ان انعامات واکرامات کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں وہ رہ رہے ہوں گے۔

اردو ترجمہ

جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yashhaduhu almuqarraboona

اردو ترجمہ

بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna alabrara lafee naAAeemin

ان الابرار ................ نعیم (22:83) ” بیشک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے “۔ یہ نعیم حجیم کے مقابلے میں ہے۔

اردو ترجمہ

اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAala alaraiki yanthuroona

علی .................... ینظرون (23:83) ” اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کررہے ہوں گے “۔ یعنی نہایت ہی مکرم مقام پر ہوں گے۔ اور اس مقام پر یہ جہاں چاہیں گے ، سیر کرتے پھریں گے۔ ذلت و خواری کی وجہ سے ان کی نظریں سہمی ہوئی نہ ہوں گی۔ اور نہ تھک تھکا کر وہ آنکھیں بند کرلیں گے۔ یہ لوگ تختوں پر اور مسندوں پر بیٹھے ہوں گے اور نظارے کررہے ہوں گے جس طرح حجلہ عروسی پہ لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک عیش و عشرت اور نعمت اور آرام کا یہ ارفع مقام ہوا کرتا تھا کہ کوئی حجلہ عروسی میں ہو ، اور اونچی اوانچی مسندوں پر آرام سے بیٹھا ہو کیونکہ بالعموم ایک عربی کی زندگی سخت مشقت کی زندگی ہوتی ہے۔ یہ تو دنیاوی زندگی کی ایک تمثیل ہے۔ آخرت میں جو صورت ہوگی وہ ناقابل تصور حد تک ارفع وبلند ہوگی۔ اور ان کے بلند سے بلند تصور سے بھی اعلیٰ وارفع ہوگی۔ اور زمین اور اس دنیا کے اونچے سے اونچے تصور اور تجربے سے بھی اونچی ہوگی۔

ان نعمتوں میں وہ جسمانی طور پر بھی نرم ونازک ہوں گے۔ اور ان کی اسی نزاکت اور نرمی اور خوشی اور خوشحالی کے اثرات ان کے چہرے سے ظاہر ہوں گے۔ اور ہر آدمی اس کا مشاہدہ کررہا ہوگا۔

اردو ترجمہ

ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

TaAArifu fee wujoohihim nadrata alnnaAAeemi

تعرف .................... النعیم (24:83) ” ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کروں گے “۔

اردو ترجمہ

ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yusqawna min raheeqin makhtoomin

یسقون .................... مسک (25:83) ” ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہریں لگی ہوں گی “۔ رحیق ، خالص اور صاف شراب کو کہتے ہیں ، جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہوگی اور نہ کوئی کدورت ہوگی۔ شراب کی یہ صفت کہ وہ سر بند ہوگی اور اس کی مہر مشک سے بنی ہوئی ہوگی۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ برتنوں میں ہوگی اور یہ برتن سربند اور مہرزدہ ہوں گے اور پینے کے وقت ان کو کھولا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت اہتمام اور صفائی سے اسے تیار کیا جائے گا اور مشک سے مہر کرنا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ صاف اور خوش ذائقہ ہوگی۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو ان اصطلاحات میں بتائے گئے ہیں جن کے ساتھ انسان اس دنیا میں مانوس ہے ، لیکن جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا ذوق اس دنیا کے ذوق سے آزاد ہوگا کیونکہ دنیا کا ذوق نہایت محدود ہے۔

اردو ترجمہ

جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اِس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khitamuhu miskun wafee thalika falyatanafasi almutanafisoona

اردو ترجمہ

اُس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamizajuhu min tasneemin

شراب کے وصف کا اختتام جو ان دو آیات میں ہوتا ہے۔

ومزاجہ .................... المقربون (28:83) ” اسی شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی ، یہ چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے “۔ اس اختتام سے پہلے ہی ، درمیان میں ایک اہم ہدایت دے دی جاتی ہے اور یہ ہدایت ہے۔

وفی ذلک .................... المتنافسون (26:83) ” جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں “۔ یہ ایک گہرا اشارہ ہے اور اس کے اندر ایک جہان معانی پوشیدہ ہے۔

یہ ڈنڈی مارنے والے ، جو لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھاتے ہیں ، اور آخرت کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ قیامت کے حساب و کتاب کی تکذیب کرتے ہیں ، اور ان کی بدکاری اور معصیت اور ظلم کی وجہ سے ان کے دلوں پر سیاہی چھاگئی ہے۔ یہ لوگ تو اس دنیا کے مال ومتاع میں ایک دوسرے کے ساتھ تنافس کرتے ہیں ، ان میں ہر شخص اس دنیا کے مال ومتاع میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتا ہے ، اور دنیا کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنا چاہتے ہے۔ اس لئے ظلم کرتا ہے اور فسق وفجور میں مبتلا ہے۔ اور اس زوال پذیر سازوسامان کے لئے مرمٹ رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کا مال ومنال اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی مقابلہ ہو ، مقابلہ اور بازی لے جانا اگر کوئی چاہتا بھی ہے تو چاہئے کہ وہ قیامت اور آخرت کے سازو سامان کے لئے کرے۔

وفی ذلک ........................ المتنافسون (26:83) ” جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس اخروی چیز کو حاصل کرنے کے لئے بازی لے جائیں “۔ کیونکہ یہی تو مطلوب مومن ہے۔ یہی وہ نصب العین ہے جس کی طرف وہ دوڑیں اور یہی وہ ٹارگٹ ہے جس کی طرف وہ سب سے آگے بڑھیں۔

دنیا کا سازو سامان ، جاہ مرتبہ جس قدر عظیم کیوں نہ ہو ، اعلیٰ وارفع کیوں نہ ہو۔ آخرت کے سازوسامان کے مقابلے میں حقیر اور بےقیمت ہے۔ یہ پوری دنیا اللہ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتی۔ آخرت اللہ کے پیمانوں میں بھاری ہے۔ لہٰذا آخرت ہی ایک ایسی قیمت حقیقت ہے جس کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانا مناسب ہے نہ کہ دنیا۔

یہ عجیب بات ہے کہ آخرت کے لئے مقابلہ کرنے والوں کی روحیں بہت بلند ہوجاتی ہیں جبکہ دنیا کے لئے مقابلہ کرنے والے باہم حسد ودشمنی کی وجہ سے گر جاتے ہیں۔ ان کی روح گر جاتی ہے اور جو لوگ آخرت کے لئے سعی اور مقابلہ کرتے ہیں اس کی وجہ سے یہ پوری دنیا بھی خیروبرکت سے معمور ہوجاتی ہے اور یہ سب کے لئے پاکیزہ جائے رہائش بن جاتی ہے۔ جبکہ مقابلہ اگر دنیاوی مقاصد کے لئے ہو تو بغض وعداوت پیدا ہوجاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو اس طرح نوچ کھاتے ہیں جس طرح حشرات الارض ایک دوسرے کو کھاتے ہیں اور نیک لوگوں کی زندگی تو اس ماحول میں سخت دشوار ہوتی ہے۔ ہر طرف سے ان کی ٹانگ کھینچی جاتی ہے اور ہر طرف سے ان کو نوچا جاتا ہے۔

یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ اگر ہم آخرت ہی کے لئے باہم مقابلہ اور مسابقت کریں تو یہ دنیا خراب اور برباد ہوجائے گی ، جیسا کہ بعض دنیا پرستوں کا خیال ہے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ دنیا آخرت کے لئے ایک کھیت ہے۔ یہاں فصل کی بوائی ہوگی اور آخرت میں فصل کاٹی جائے گی۔ اصلاح وتقویٰ کے ساتھ اسلامی نظام زندگی کے مطابق اس دنیا کو آباد کرنا اور ترقی دینا ، اسلامی نظریہ خلافت ارضی کے مطابق ایک مومن کا مطلوب ومقصود ہے۔ اسلام اس دنیا کی ترقی کی راہ ہی سے آخرت کی ترقی کا قائل ہے۔ یہی اسلام کا نظریہ عبادت ہے کہ اس دنیا کی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت کرنا ہی انسان کا مقصد تخلیق ہے۔

وما خلقت ........................ لیعبدون (ذاریات :56) ” اور میں نے جن وانس کو اس کے سوا کسی اور مقصد کے لئے نہیں پیدا کیا کہ وہ میری اطاعت کریں “۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے سورة ذرایات ، پارہ 27)

وفی ذلک .................... المتنافسون (26:83) ” جو لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز میں بازی لے جائیں “۔ یہ ایک ایسی ہدایت ہے جو اس دنیا کے لوگوں کی نظریں اس کم قیمت اور حقیر زمین سے بلند کرکے آخرت پر مرکوز کراتی ہے۔ جبکہ عملاً وہ اسی دینا میں انسان کے منصب خلافت کو ادا کرتے ہوئے اس زمین کی تعمیروترقی میں بھی مصروف ہوتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ مسلمان اس دنیا میں پائی جانے والی گندگی کی تطہیر میں بھی مصروف ہوتے ہیں اور اس گندگی سے دامن بھی بچاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی زندگی بہت ہی مختصر ہے۔ اور آخرت کے جہاں میں انسان کی عمر طویل ہے۔ اور اس کی انتہا کا علم اللہ ہی کو ہے۔ پھر اس دنیا کا سازو سامان بھی محدود ہے۔ اور جنت کا سازو سامان اس قدر زیادہ اور لامحدود ہے کہ انسان کے حد ادراک سے ماوراء ہے۔ اس دنیا میں سازوسامان اور عیس و آرام کی سطح بھی معلوم اور محدود ہے جبکہ آخرت کا عیش و آرام لامحدود ہے۔ آخرت کا میدان بہت ہی وسیع اور دنیا کا میدان بہت ہی محدود ہے۔ دونوں کے مقاصد میں بھی بہت بڑا فرق ہے۔ دونوں کا نفع نقصان بھی بہت ہی مختلف ہے۔ اس لئے مقابلہ بھی مختلف ہے۔ اور حکم یہ ہے ۔ وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون (26:83) ” جو لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں بازی لے جانا چاہتے ہیں وہ اس چیز میں بازی لے جائیں “۔ یہاں ابرار اور نیکوکاروں کے انعامات اخروی کی تفصیلات ذرا طویل ہوگئیں اور یہ اس لئے بیان کی گئیں کہ مکہ کی سوسائٹی میں وہ فجار اور فساق کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار تھے ۔ ان کو اذیت دی جارہی تھی ، ان کے ساتھ مذاق کیا جارہا تھا ، اور ان پر زیادتیاں ہورہی تھیں ، اس لئے ان انعامات کی بھی تفصیلات دی گئیں جو ان کے لئے تیار رکھی ہیں ، اور مذاق کے بدلے پھر کافروں کے ساتھ بھی مذاق ہوگا ، اس وقت وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ ابرار کو وہ انعامات پورے کے پورے مل گئے ہیں۔

اردو ترجمہ

یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAaynan yashrabu biha almuqarraboona

اردو ترجمہ

مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena ajramoo kanoo mina allatheena amanoo yadhakoona

اہل ایمان کے ساتھ مجرموں کے استہزا کے مناظر ، ان کی جانب سے دست درازیوں اور زیادتیوں کے جو شاید قرآن نے یہاں قلم بند کیے ہیں خصوصاً ان کا یہ تبصرہ کہ مسلمان گمراہ لوگ ہیں ، یہ سب مناظر مکہ کی سوسائٹی کے عملی مناظر ہیں ، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقامت دین کی ہر کسی تحریک کے کارکن انہی حالات اور نہی ریمارکس سے دو چار ہوتے ہیں۔ ہر دور اور ہر نسل میں یہی صورت حالات ہوا کرتی ہے۔ آج ہم اپنے دور کے حالات کو جب دیکھتے ہیں تو یہ نظر آتا کہ شاید یہ آیات ابھی ہمارے حسب حال اتری ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فساق وفجار کا مزاج ایک جیسا ہوتا ہے اور اہل حق کے مقابلے میں ان کا موقف بھی ہمیشہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ اس میں زمان ومکان کے فرق سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ان الذین ........................ یضحکون (29:83) ” مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اڑاتے تھے “۔ یہ ایسے ہی تھے ، اس ” تھے “ نے صدیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ آخرت کی بات ہورہی ہے۔ یہ اپنی آنکھوں سے اہل جنت کی نعمتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ یہاں آخرت میں ان کو ذرا یاد دلایا جارہا ہے کہ تم تو یہ رویہ رکھتے تھے۔ یاد ہے نا۔

یہ اہل ایمان سے بطور مذاق ہنستے تھے کہ یہ ہیں مومن۔ یہ ہیں ” صالح “۔ یہ ہیں ” صالحین “۔ یہ کیوں ہنستے تھے۔ یا تو اس لئے کہ یہ لوگ غریب اور فقیر تھے اور بات انقلاب کی کرتے تھے اور پہنے ہوئے ہوتے تھے چیتھڑے۔ یا اس لئے کہ ہر طرف سے ان پر مار پڑتی ہے۔ جیلوں میں ہیں ، اپنا دفاع بھی نہیں کرکستے۔ یا اس لئے کہ یہ لوگ ان کی حماقتوں میں شریک نہ ہوتے تھے۔ ان لوگوں کے ہاں یہ سب باتیں مضحکہ خیز تھیں۔ چناچہ وہ اہل ایمان پر طنز وتشنیع کے تیر برساتے تھے۔ ان کو اذیت دیتے تھے۔ ان پر تشدد کرتے تھے اور نہایت ہی رذالت اور گھٹیا انداز میں ان سے مذاق کرتے تھے۔ اس بات کا اہل ایمان پر برا اثر ہوتا تھا۔ اور ان کی تکلیف ہوتی تھی لیکن وہ صبر کرتے تھے۔ بلند اخلاقی اختیار کرتے تھے اور نہایت شائستگی سے بات کو ٹال دیتے تھے۔

اردو ترجمہ

جب اُن کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر اُن کی طرف اشارے کرتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha marroo bihim yataghamazoona

واذامرو .................... یتغامرون (30:83) ” جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے “۔ یعنی وہ آنکھوں سے اشارے کرتے تھے یا ہاتھوں سے اشارے کرتے تھے یا کوئی ایسی حرکت کرتے تھے جو ان کے درمیان مذاق اڑانے کے لئے متعارف تھی ۔ یہ ایسی گری ہوئی حرکت ہوتی جس سے ان کی گستاخی اور بےادبی کا اظہار ہوتا ، یہ حرکت تہذیب کے دائرے سے نکلی ہوئی ہوتی ، اور ایسی حرکات سے ان لوگوں کا مقصد یہ ہوتا کہ اہل اسلام کے دل ٹوٹ جائیں اور ان کو شرمندہ کیا جائے اور وہ اس تحریک کی کامیابی سے مایوس ہوجائیں ، اس لئے یہ لوگ اس طرح کے اشارے کرتے اور چھچھوری حرکات کرتے۔

اردو ترجمہ

اپنے گھروں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha inqalaboo ila ahlihimu inqalaboo fakiheena

واذا ................ اھلھم (31:83) ” اور جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے “۔ یعنی مومنین کو ایذائیں دے کر اور ان کا مذاف اڑا کر جب وہ تھک جاتے تو اپنے گھروں کی طرف انقلبوا فکھین (31:83) ” تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے “۔ وہ اپنی ان حرکات پر خوش ہوتے ، اور نہایت مزے سے اتراتے ہوئے جاتے ، اور اپنی ان گھٹیا حرکات اور شرارتوں پر ان کو سخت مسرت ہوتی۔ حالانکہ اگر ان کا ضمیر زندہ ہوتا تو ان کو ملامت کرتا ، اور ان کو اپنے ان افعال پر ندامت ہوتی ، ان کو بالکل احساس نہ ہوتا کہ وہ کس قدر حقیر حرکت کررہے اور کس قدر گنداطرز عمل ہے ان کا۔ قلب ونظر کے مسخ ہونے اور ضمیر کے مرجانے کی یہ آخری حد ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raawhum qaloo inna haolai ladalloona

واذا .................................... لضالون (32:83) ” اور جب انہیں دیکھتے تھے تو کہتے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں “۔ اور یہ تو نہایت ہی تعجب خیز بات ہے کہ اب یہ لوگ ہدایت وضلالت کے موضوع پر بات کرنے لگے ہیں اور بزعم خود یہ اہل حق اور اہل ہدایت کو اہل ضلالت اور گمراہ کہتے ہیں ، اور نہایت وثوق اور تحقیر آمیز طریقے سے یہ تبصرہ کرتے ہیں۔

ان ھولاء لضالون (32:83) ” کہ یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں “۔

فسق وفجور کا یہ مزاج ہے کہ وہ ایک حد پر نہیں رکتا ، وہ کسی بات سے نہیں شرماتا ، کسی فعل پر ناد نہیں ہوتا۔ ان فساق وفجار کی طرف سے اہل ایمان جیسے معیاری لوگوں پر یہ الزام لگانا کہ وہ بہکے ہوئے ہیں ، اس بات کا ظاہر کرتا ہے کہ فساق وفجار کسی حد پر جاکر نہیں رکتے اور بےحیا ہوتے ہیں۔

قرآن کریم اہل ایمان کی جانب سے نہ مناظرہ کرتا ہے اور نہ مجادلہ۔ نہ وہ اس افترا کی تردید کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی ناسقانہ گھٹیا بات ہے جس کی طرف سنجیدہ التفات کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن قرآن کریم ان لوگوں کے ساتھ ایک سنجیدہ مذاق ضرور کرتا ہے جو ایک ایسے معاملے میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ان کا ہدایت وضلالت سے کیا کام ہے۔ اور مسلمانوں کی نگرانی پر ان کو کس نے مامور کیا۔

اردو ترجمہ

حالانکہ وہ اُن پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama orsiloo AAalayhim hafitheena

وما ارسلوا .................... حفظین (33:83) ” حالانکہ وہ ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے “۔ نہ مسلمانوں کے امور ان کے سپرد کیے گئے ہیں ، نہ یہ ان پر قیم ہیں ، نہ اہل ایمان کے حالات و کوائف ان سے پوچھے گئے ہیں ، لہٰذا ان کی جانب سے مسلمانوں پر یہ تبصرہ ایک بےتکی بات ہے۔

دنیا میں مجرمین اہل ایمان کے ساتھ جو برتاﺅ کرتے تھے ، اس کا منظر اب یہاں اس سنجیدہ مذاق کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے اور اب قیامت کے دن کا حاضر منظر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھو اب جنت میں یہ اہل ایمان کس مزے میں ہیں۔

اردو ترجمہ

آج ایمان لانے والے کفار پر ہنس رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalyawma allatheena amanoo mina alkuffari yadhakoona

فالیوم ........................ ینظرون (35:83) ” آج ایمان لانے والے کفار پر ہنس رہے ہیں ، مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان کا حال دیکھ رہے ہیں “۔ آج کا دن کیسا ہے کہ کفار دیدار ربانی جیسی نعمت سے محروم اور محجوب ہیں۔ اور اس محرومیت کا ان کو بےحد غم ہے ، اس کی وجہ سے ان کی انسانیت گرگئی اور وہ واصل جہنم ہوگئے اور اس جہنم رسیدگی پر مزید یہ کہ ان کی اہانت بھی ہوگی اور سرزنش بھی ہوگی۔

ھذا ................ تکذبون (17:83) ” وہ یہی ہے نا وہ چیز جس کی تم تکذیب کرتے تھے ؟ “ آج کا دن تو یوں ہے کہ اہل ایمان اونچی اونچی مسندوں پر بیٹھے ہیں اور کفار کے حالات کا نظارہ کررہے ہیں اور دائمی نعمتوں میں مزے لے رہے ہیں ، سر بند خالص اور صاف شراب سے ان کی تواضع ہورہی ہے اور اس سر بند شراب پر مہر اور سیل مشک کی ہوگی اور اس کے اندر چشمہ تسنیم کے خوش ذائقہ پانی کا امتزاج ہوگا اور آج کفار کے حالات کو دیکھ کر اہل ایمان مسکرائیں گے۔

588