سورۃ الممتحنہ (60): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Mumtahana کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الممتحنة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الممتحنہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Mumtahana
سُورَةُ المُمۡتَحنَةِ
صفحہ 550 (آیات 6 سے 11 تک)

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْءَاخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ ۞ عَسَى ٱللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ۚ وَٱللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ لَّا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا۟ إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ قَٰتَلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ وَظَٰهَرُوا۟ عَلَىٰٓ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا جَآءَكُمُ ٱلْمُؤْمِنَٰتُ مُهَٰجِرَٰتٍ فَٱمْتَحِنُوهُنَّ ۖ ٱللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَٰنِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى ٱلْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَءَاتُوهُم مَّآ أَنفَقُوا۟ ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا۟ بِعِصَمِ ٱلْكَوَافِرِ وَسْـَٔلُوا۟ مَآ أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔلُوا۟ مَآ أَنفَقُوا۟ ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ ٱللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ وَإِن فَاتَكُمْ شَىْءٌ مِّنْ أَزْوَٰجِكُمْ إِلَى ٱلْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَـَٔاتُوا۟ ٱلَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَٰجُهُم مِّثْلَ مَآ أَنفَقُوا۟ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ أَنتُم بِهِۦ مُؤْمِنُونَ
550

سورۃ الممتحنہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الممتحنہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اِنہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لیے اور ہر اُس شخص کے لیے اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور روز آخر کا امیدوار ہو اِس سے کوئی منحرف ہو تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad kana lakum feehim oswatun hasanatun liman kana yarjoo Allaha waalyawma alakhira waman yatawalla fainna Allaha huwa alghanniyyu alhameedu

آیت 6{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} ”تمہارے لیے یقینا ان کے طرزِعمل میں ایک بہت اچھا نمونہ ہے“ لیکن یہ نمونہ اور اسوہ فائدہ مند کس کے لیے ہوسکتا ہے ؟ { لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ } ”اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو۔“ بالکل یہی الفاظ سورة الاحزاب میں حضور ﷺ کے اسوہ کے حوالے سے آئے ہیں : { لَقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا۔ } یعنی حضور ﷺ کی شخصیت اور سیرت یقینا اسوہ کاملہ ہے ‘ لیکن اس سے مستفیض صرف وہی لوگ ہو سکیں گے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہوں۔ { وَمَنْ یَّـتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۔ } ”اور جو کوئی منہ موڑ لے تو یقینا اللہ بےنیاز اور اپنی ذات میں خود ستودہ صفات ہے۔“

اردو ترجمہ

بعید نہیں کہ اللہ کبھی تمہارے اور اُن لوگوں کے درمیان محبت ڈال دے جن سے آج تم نے دشمنی مول لی ہے اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور وہ غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAasa Allahu an yajAAala baynakum wabayna allatheena AAadaytum minhum mawaddatan waAllahu qadeerun waAllahu ghafoorun raheemun

آیت 7{ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً } ”بعید نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے ‘ دوستی پیدا کر دے۔“ ظاہر ہے اگر وہ بھی ایمان لے آئیں گے تو وہ تمہارے بھائی بن جائیں گے ‘ جیسا کہ سورة التوبہ کی آیت 11 میں فرمایا گیا : { فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِط } ”پھر بھی اگر وہ توبہ کرلیں ‘ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں“۔ اور یہ مرحلہ کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا۔ زیرمطالعہ آیات فتح مکہ سے قبل 8 ہجری میں نازل ہوئیں اور اس سے اگلے ہی سال فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں مشرکین عرب کو چار ماہ کا الٹی میٹم دے دیا گیا کہ یا ایمان لے آئو ‘ یا سب قتل کردیے جائو گے۔ اس کے نتیجے میں سب لوگ ایمان لا کر اسلامی بھائی چارے میں شامل ہوگئے۔ آیت زیرمطالعہ میں دوستی اور محبت کے اسی رشتے کی طرف اشارہ ہے جو ان کے درمیان ایک سال بعد بننے والا تھا۔ { وَاللّٰہُ قَدِیْرٌط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”اللہ ہر شے پر قادر ہے ‘ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔“

اردو ترجمہ

اللہ تمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yanhakumu Allahu AAani allatheena lam yuqatilookum fee alddeeni walam yukhrijookum min diyarikum an tabarroohum watuqsitoo ilayhim inna Allaha yuhibbu almuqsiteena

آیت 8{ لَا یَنْہٰٹکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَـبَـرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَـیْہِمْ } ”اللہ تمہیں نہیں روکتا ان لوگوں سے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے کبھی جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان کے ساتھ کوئی بھلائی کرو یا انصاف کا معاملہ کرو۔“ یعنی وہ غیر حربی کافر ‘ جن کے ساتھ تمہاری جنگ نہیں ہے ‘ تم لوگوں کو مکہ سے بےدخل کرنے میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہوں نے تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی کبھی مدد کی ہے ‘ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا سلوک روا رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ دنیوی معاملات کے حوالے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے بھی پورے کرنے چاہئیں۔ البتہ ولایت کا رشتہ اور قلبی محبت کا تعلق ان کے ساتھ بھی قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔ } ”بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“

اردو ترجمہ

وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama yanhakumu Allahu AAani allatheena qatalookum fee alddeeni waakhrajookum min diyarikum wathaharoo AAala ikhrajikum an tawallawhum waman yatawallahum faolaika humu alththalimoona

آیت 9 { اِنَّمَا یَنْہٰٹکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ } ”وہ تو تمہیں منع کرتا ہے ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں دوسروں کی مدد کی کہ تم ان کے ساتھ ولایت اور دوستی کا رشتہ قائم کرو۔“ { وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ } ”اور جو کوئی ان کے ساتھ دوستی کرے گا تو وہی لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔“ اب اگلی آیات میں خواتین سے متعلق چند مسائل کا ذکر آ رہا ہے جو صلح حدیبیہ 6 ہجری کے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔ صلح حدیبیہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے ‘ لیکن اگر مدینہ سے کوئی مسلمان اپنا دین چھوڑ کر واپس مکہ آجائے گا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد چند مسلمان خواتین مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قریش کی طرف سے مطالبہ آیا کہ انہیں واپس کیا جائے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ معاہدے کی متعلقہ شق مردوں رجال سے متعلق ہے ‘ اس میں عورتوں نساء کا ذکر نہیں ہے ‘ اس لیے ان خواتین کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ اس مثال کے بعد مکہ سے کچھ مزید خواتین بھی آنا شروع ہوگئیں تو ایسی مہاجر خواتین کے بارے میں تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ خدشہ یہ تھا کہ ہجرت کے نام پر مشرک عورتیں جاسوسی وغیرہ کے لیے مکہ سے مدینہ آکر آباد نہ ہوجائیں اور ان کی وجہ سے بعد میں مسلمان معاشرے میں کوئی مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ پھر ان میں کچھ ایسی شادی شدہ خواتین بھی تھیں جو اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر آرہی تھیں۔ ان کے بارے میں بھی یہ سوال اپنی جگہ جواب کا متقاضی تھا کہ کیا وہ مسلمان ہوجانے کے بعد بھی مشرک شوہروں کی زوجیت میں ہیں یا کہ آزاد ہوچکی ہیں ؟ اور اسی معاملے سے متعلق یہ مسئلہ بھی اہم تھا کہ کسی ایسی عورت کے مدینہ آجانے کے بعد کیا کوئی مسلمان اس سے نکاح کرسکتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ اگلی دو آیات میں ان مسائل سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔ جبکہ اس کے بعد ایک آیت میں مسلمان خواتین کی بیعت کا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں ذکر تو مردوں کی بیعت بیعت رضوان کا بھی ہے ‘ لیکن اس بیعت کے الفاظ کیا تھے ‘ یا بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کا مضمون کیا تھا ؟ یہ تفصیل ہمیں احادیث سے ملتی ہے ‘ قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ اس لحاظ سے یہاں خواتین کو مردوں پر ایک طرح سے فضیلت دی گئی ہے کہ آیت 12 میں ان کی بیعت کے حکم کے ساتھ بیعت کا پورا متن بھی دے دیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواتین کو یہ خصوصی انعام ان کے حقوق کے پلڑے کا توازن درست رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ قوانین و ضوابط اور حقوق و فرائض کی خصوصیت ہی یہی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے متوازن ہیں۔ اگر کسی معاملے میں کوئی ایک حکم زیادہ سخت ہو تو اس کے پہلو میں کہیں کوئی نرم قانون بھی موجود ہوتا ہے۔ اگر کہیں کسی کے فرائض کا وزن زیادہ ہو رہا ہو تو اس کے حقوق کے پلڑے میں کچھ مزید ڈال کر اس کی میزان کو برابر کردیا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے حقوق و فرائض ہی کی مثال لے لیں۔ قرآن مجید نے طلاق کا حق صرف خاوند کو دیا ہے ‘ اس کے مقابلے میں بیوی صرف خلع لے سکتی ہے ‘ طلاق نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اگر میاں بیوی میں طلاق ہوجائے تو اولاد قانوناً والد کی شمار ہوتی ہے۔ ان دو مثالوں سے خاوند کے حقوق یا اختیارات کا پلڑا غیر معمولی طور پر جھکتا ہوا نظر آتا ہے ‘ لیکن دوسری طرف دیکھیں تو اولاد کے لیے ماں کا حق باپ کے حق کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رکھا گیا ہے اور جنت کی بشارت صرف ماں کے قدموں کے حوالے سے دی گئی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے قوانین و ضوابط کو متوازن بناتے ہیں اور ہر کسی کے حقوق و فرائض کی ترازو کے ہر دو پلڑوں کو برابر رکھتے ہیں۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو (ان کے مومن ہونے کی) جانچ پڑتال کر لو، اور ان کے ایمان کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے پھر جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ان کے کافر شوہروں نے جو مہر اُن کو دیے تھے وہ انہیں پھیر دو اور ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تم اُن کے مہر اُن کو ادا کر دو اور تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رہو جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha jaakumu almuminatu muhajiratin faimtahinoohunna Allahu aAAlamu bieemanihinna fain AAalimtumoohunna muminatin fala tarjiAAoohunna ila alkuffari la hunna hillun lahum wala hum yahilloona lahunna waatoohum ma anfaqoo wala junaha AAalaykum an tankihoohunna itha ataytumoohunna ojoorahunna wala tumsikoo biAAisami alkawafiri waisaloo ma anfaqtum walyasaloo ma anfaqoo thalikum hukmu Allahi yahkumu baynakum waAllahu AAaleemun hakeemun

آیت 10{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ } ”اے اہل ِایمان ! جب تمہارے پاس آئیں مومن خواتین ہجرت کر کے تو ان کا امتحان لے لیا کرو۔“ یعنی ہر خاتون سے ضروری حد تک جانچ پڑتال اور تحقیق و تفتیش کرلیا کرو کہ آیا واقعی وہ سچی اور مخلص مومنہ ہے۔ { اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ } ”اللہ تو ان کے ایمان کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتا ہے۔“ کسی کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ‘ اور اگر ہے تو کتنا ایمان ہے ‘ اس کا صحیح علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ تم لوگ اپنے طور پر کسی کے ایمان کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے۔ لیکن محض ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر مناسب طریقے سے کسی نہ کسی درجے میں ایک اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کیا کرو کہ ہجرت کرنے والی خواتین کیا واقعی مومنات ہیں اور کیا واقعی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہجرت کر کے مدینہ آئی ہیں۔ { فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ } ”پھر اگر تم جان لو کہ وہ واقعی مومنات ہیں“ { فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ } ”تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹائو۔“ { لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ } ”نہ اب یہ ان کافروں کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔“ { وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا } ”اور ان کافروں کو ادا کر دو جو کچھ انہوں نے خرچ کیا تھا۔“ یعنی ان کے کافر شوہروں نے ان کو جو مہر دیے تھے وہ انہیں بھجوا دو۔ اگر کسی مشرک کی بیوی مسلمان ہو کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئی ہے تو اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی ‘ ان کے درمیان تعلق زوجیت ختم ہوچکا ہے ‘ لیکن عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کی وہ رقم جو وہ شخص اس خاتون کو اپنی بیوی کی حیثیت سے ادا کرچکا ہے وہ اسے لوٹا دی جائے۔ اس حکم سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام بلاتفریق مذہب و ملت کسی حق دار کا حق اس تک پہنچانے کے معاملے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اور یہ سنجیدگی یا تاکید صرف قانون سازی کی حد تک ہی نہیں بلکہ حضور ﷺ نے قرآنی قوانین و احکام کے عین مطابق ایسا نظام عدل و قسط بالفعل قائم کر کے بھی دکھا دیاجس میں حق دار کو تلاش کر کے اس کا حق اس تک پہنچایا جاتا تھا۔ حضرت عمر رض کے دور خلافت میں شام کے محاذ پر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رض سپہ سالار تھے۔ انہوں نے رومیوں کے خلاف یرموک کے میدان میں صدی کی سب سے بڑی جنگ لڑی۔ جنگ یرموک کی تیاری کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت کچھ مفتوحہ علاقوں کو خالی کر کے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان علاقوں کی عیسائی رعایا سے مسلمان جزیہ وصول کرچکے تھے۔ جزیہ ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں سے ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کے عوض وصول کرتی ہے۔ اسی لیے یہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری ذِمّی کہلاتے ہیں۔ بہرحال مذکورہ علاقوں سے مسلمان وقتی طور پر چونکہ واپس جا رہے تھے اور اپنی غیر مسلم رعایا کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے سے قاصر تھے ‘ اس لیے حضرت ابوعبیدہ رض کے حکم پر جزیہ کی تمام رقم متعلقہ افراد کو واپس کردی گئی۔ مسلمانوں کے اس عمل نے عیسائیوں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے واپس جانے پر وہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔ یہ ہے اس دین کے نظام عدل و قسط کے تحت حق دار کو اس کا حق پہنچانے کی ایک مثال ‘ جس کے ماننے والوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کے مہر کی رقوم ان کے مشرک شوہروں کو لوٹا دیں۔ { وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ } ”اور اے مسلمانو ! تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم ان خواتین سے نکاح کرلو جبکہ تم انہیں ان کے مہر ادا کر دو۔“ { وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ } ”اور تم کافر خواتین کی ناموس کو اپنے قبضے میں نہ رکھو“یعنی اگر تم میں سے کچھ لوگوں کی بیویاں ایمان نہیں لائیں اور ابھی تک مکہ ہی میں ہیں تو تم ان کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو ‘ بلکہ انہیں طلاق دے دو اور انہیں بتادو کہ اب تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ { وَاسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا } ”اور تم مانگ لو وہ مال جو تم نے بطورِ مہر خرچ کیا ہے ‘ اور وہ کافر بھی مانگ لیں جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے۔“ یعنی جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو ‘ اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔ { ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَـکُمْ } ”یہ اللہ کا حکم ہے ‘ وہ تمہارے مابین فیصلہ کر رہا ہے۔“ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ } ”اور اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔“

اردو ترجمہ

اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں اُن کو اتنی رقم ادا کر دو جو اُن کے دیے ہوئے مہروں کے برابر ہو اور اُس خدا سے ڈر تے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain fatakum shayon min azwajikum ila alkuffari faAAaqabtum faatoo allatheena thahabat azwajuhum mithla ma anfaqoo waittaqoo Allaha allathee antum bihi muminoona

آیت 1 1{ وَاِنْ فَاتَـکُمْ شَیْئٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ } ”اور اگر تمہاری بیویوں کے مہر میں سے کچھ کفار کی طرف رہ جائے“ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک مسلمان مرد ہجرت کر کے مدینہ آگیا اور اس کی مشرکہ بیوی مکہ میں ہی رہ گئی۔ بعد میں اس مسلمان نے اس خاتون کو پیغام بھجوایا کہ میرا تمہارا تعلق زوجیت ختم ہوچکا ہے لہٰذا تم مہر کی رقم مجھے لوٹا دو۔ اب اگر اس عورت نے مہر کی رقم واپس نہیں کی تو اس مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے کہ ایسی صورت میں تمہیں کیا کرنا ہے۔ { فَعَاقَـبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَہَبَتْ اَزْوَاجُہُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْاط } ”تو جب تمہیں موقع ہاتھ آجائے تو جن لوگوں کی بیویاں جاتی رہی ہیں انہیں اتنی رقم ادا کر دو جتنی انہوں نے خرچ کی ہے۔“ اگر کسی جنگ سے تمہیں کچھ مال غنیمت ملے تو اس میں سے ان لوگوں کو تلافی کے طور پر کچھ مال دے دو جن کی بیویاں ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کی زوجیت میں نہیں رہیں اور وہ انہیں مہر کی رقوم بھی لوٹانے کو تیار نہیں ‘ تاکہ اس رقم سے مہر ادا کر کے وہ لوگ مکہ سے ہجرت کر کے آنے والی ان خواتین سے نکاح کرسکیں جن کے مشرک خاوند مکہ میں رہ گئے ہیں۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۔ } ”اور اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس پر تمہارا ایمان ہے۔“

550