سورہ الحج (22): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hajj کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الحج کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hajj
سُورَةُ الحَجِّ
صفحہ 335 (آیات 24 سے 30 تک)

وَهُدُوٓا۟ إِلَى ٱلطَّيِّبِ مِنَ ٱلْقَوْلِ وَهُدُوٓا۟ إِلَىٰ صِرَٰطِ ٱلْحَمِيدِ إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ٱلَّذِى جَعَلْنَٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءً ٱلْعَٰكِفُ فِيهِ وَٱلْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَٰهِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِى شَيْـًٔا وَطَهِّرْ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ وَأَذِّن فِى ٱلنَّاسِ بِٱلْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِّيَشْهَدُوا۟ مَنَٰفِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۖ فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ ثُمَّ لْيَقْضُوا۟ تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا۟ نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا۟ بِٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِۦ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ ٱلْأَنْعَٰمُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَٰنِ وَٱجْتَنِبُوا۟ قَوْلَ ٱلزُّورِ
335

سورہ الحج کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الحج کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انہیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahudoo ila alttayyibi mina alqawli wahudoo ila sirati alhameedi

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کیا اور جو (آج) اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں (اُن کی روش یقیناً سزا کی مستحق ہے) اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo wayasuddoona AAan sabeeli Allahi waalmasjidi alharami allathee jaAAalnahu lilnnasi sawaan alAAakifu feehi waalbadi waman yurid feehi biilhadin bithulmin nuthiqhu min AAathabin aleemin

درس نمبر 145 ایک نظر میں

پچھلے سبق کا خاتمہ اس پر ہوا تھا کہ ذات باری کے بارے میں لوگوں کے دو گروہ ہیں۔ کافروں کا انجام قیامت میں کیا ہوگا اور اہل ایمان کے حالات کیسے ہوں گے۔ اسی حوالے سے کفار نے اس طرز عمل پر بحث کی جاتی ہے جو انہوں نے اس دنیا میں اختیار کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کو مسجد حرام کی زیارت سے اب روکنے لگے ہیں۔ مکہ میں تو انہوں نے دعوت اسلامی کی راہ روکنے کی بےحد جدوجہد کی ، مگر جب یہ تحریک مدینہ منتقل ہوگئی تو انہوں نے مسلمانوں کو زیارت حرم سے روک دیا۔

اس حوالے سے بتایاج اتا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اس حرم کو تعمیر کیا تھا تو ان کے پیش نظر کیا مقاصد تھے۔ انہوں نے کن مقاصد کے لئے اس کی تعمیر کے بعد لوگوں میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس حرم کی زیارت کے لئے آزادانہ آئیں۔ اس گھر کی تعمیر ہی عقیدہ توحید پر ہوئی تھی۔ یہ توحید کا گھر تھا۔ اس میں شرک کرنے کا تو جواز ہی نہیں ہے۔ پھر یہ گھر تمام انسانوں کے لئے تھا۔ خواہ اس میں کوئی مقیم ہو یا باہر سے آئے۔ یہ سب کی مشترکہ جگہ ہے۔ کوئی وہاں کسی کو روک نہیں سکتا۔ کوئی اس کا مالک نہیں ہو سکتا۔ یہاں بعض شعائر زیارت و حج بھی بیان کردیئے جاتے ہیں اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے خدا خوفی اور خدا کے ساتھ تعلق کا کیا جذبہ ہے۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ حرم کے اندر کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی پر کوئی بھی زیادتی کرے۔ خصوصاً وہ لوگ جو حرم کو ان مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں جن کے لئے وہ بنا نہیں ہے۔ ان کو تو کوئی حق ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے متولی ہوں۔ اس حرم کو آزاد کرنے کے لئے جو بھی اٹھے گا اور اس مشن کے تقاضے پورے کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال ہوگی۔ یہ جارحیت نہ ہوگی بلکہ مقاصد حرم پر دست درازی کرنے والوں کے مقابلے میں مدافعت ہوگی۔

درس نمبر 145 تشریح آیات

25……تا……41

ان الذین ……… الیم (25)

یہ مشرکین قریشی کی کارروائی تھی کہ لوگوں کو وہ اللہ کے دین سے اور مسجد حرام سے روکتے تھے ، حالانکہ مسجد حرام بنی ہی لوگوں کے لئے تھی چاہے وہ اس میں بسنے والے ہوں یا باہر سے زیارت کے لئے آنے والے ہوں۔ دین الٰہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر لوگوں کے لئے یہ ایک نظام زندگی ہے جس کے مطابق انہوں نے زندگی بسر کرنی ہے کیونکہ یہ ان کی زندگی کا منہاج ہے۔ قریش لوگوں کو دین اسلام سے بھی روکتے تھے اور مسجد حرام سے بھی روکتے تھے۔ حج و عمر سے بھی مسلمانوں کو روکتے تھے حالانکہ مسجد حرام کو اللہ نے دار امن وامان قرار دیا تھا جس میں مکہ کے باشندے اور باہر کے لوگ سب مساوی تھے۔ یہاں کسی کو کوئی امتیازی پوزیشن حاصل نہ تھی۔ نہ اس میں کوئی مالک بن سکتا تھا اور نہ امتیازی حقوق حاصل کرسکتا تھا۔

یہ وہ مقام احرام تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ایک پرامن خطہ قرار دینے کے لئے سب سے پہلے مکہ مکرمہ کو منتخب کیا۔ اس خطے میں لوگ اسلحہ پھینکتے تھے ، باہم سخت عداوت رکھنے والے دو شخص بھی یہاں امن سے رہتے تھے۔ یہاں ہر قسم کی خونریزی ممنوع تھی۔ یہ کسی کی جانب سے کوئی مہربانی نہ تھی بلکہ تمام انسانوں کا یہ حق تھا اور اس حق میں سب برابر تھے۔

فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ مکہ کے وہ گھر جن میں ان کے مالک رہائش نہیں رکھتے ، آیا ان کا کوئی مالک ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر ملکیت کا جواز بھی ثابت ہو تو آیا ان مکانات کا کرایہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ امام شافعی “ اس طرف گئے ہیں کہ ملکیت بھی جائز ہے ، وراثت بھی جائز ہے ، کرایہ پر دینا بھی جائز ہے۔ وہ حضرت عمر ابن الخطاب کی روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں نے صفوان ابن امیہ سے ایک مکان مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض خریدا تھا اور اس سے انہوں نے جیل خانہ بنایا تھا۔ اسحاق ابن راہویہ اس طرف گئے ہیں کہ نہ ان کا کوئی وارث ہو سکتا ہے اور نہ ہی کرایہ پر دیئے جاسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فوت ہوئے اس حال میں کہ مکہ کے میدان شاملات کہلاتے تھے ، جس کو ضرورت ہوتی وہ اس میں رہتا اور جس کی ضرورت سے زیادہ ہوتے وہ دوسرے کو اس میں بسا دیتا۔ عبدالرزاق نے مجاہد ، اس کے باپ سے ، عبداللہ ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ مکہ کے مکانات کو بچینا جائز نہیں ہے اور نہ ان کا کرایہ لینا جائز ہے۔ انہوں نے ابن جریج سے بھی نقل کیا ہے کہ عطاء حرم میں مکانات کو کرایہ پر دینے سے منع کرتے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ حضرت عمر ابن الخطاب مکہ کے مکانات کے دروازے لگانے سے منع کرتے تھے تاکہ حجاج ان کے صحنوں میں ٹھہر سکیں۔ سب سے پہلے سہیل ابن عمرو نے دروازہ لگایا۔ حضرت عمر ابن الخطاب نے اس معاملے میں اسے لکھا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امیر المومنین میں ایک تاجر آدمی ہوں اس لئے میں نے دو دروازے لگائے ہیں تاکہ میں اپنی سواریاں یہاں بند کروں۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ تمہیں اس کی اجازت ہے۔ مجاہد کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے اہل مکہ سے کہا ، اپنے گھروں کے سامنے گیٹ نہ لگائو تاکہ حج کو آنے والا جہاں چاہے اتر جائے۔ امام احمد بن حنبل نے ایک متوسط مذہب اختیار کیا ہے کہ ملکیت اور وراثت تو ان میں چلے گی مگر کرایہ پر دینا جائز نہ ہوگا۔ یوں انہوں نے دلائل میں تطبیق کردی ہے۔

یوں اسلام نے تمام مذاہب کے مقابلے میں سب سے پہلے ایک خطے کو دار الامن قرار دیا۔ بلکہ اسے تمام انسانوں کا شہر قرار دیا اور اس میں ملکیت اور دوسری حد بندیوں کو ناجائز قرار دیا۔ چناچہ اس صاف ستھرے اور سیدھے طریقے میں جو شخص ٹیڑھ پیدا کرتا ہے اس کو قرآن کریم دھمکی دیتا ہے کہ اسے سخت سزا دی جائے گی۔

ومن یردفیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم (22 : 25) ” اس میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ “ یہ سزا تو اس شخص کے لئے ہے جو ارادہ کرے اور جو ارادہ کر کے ظلم کا ارتکاب بھی کرے تو اس کی سزا پھر بہت زیادہ ہوگی۔ صرف ارادے پر سزا کا اعلان بہت زیادہ تاکید کی خاطر ہے۔ یہ قرآن مجید کی نہایت ہی دقیق تعبیر ہے۔

پھر قرآن مجید کے گہرے تاکیدی انداز کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ اس جملہ میں لفظ ان کی خبر کا ذکر نہیں کی اگیا۔

ان الذین کفروا ویصدون عن سبیل اللہ والمسجد الحرام (22 : 25)

یہاں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ ان کفار کے بارے میں حکم کیا ہے ؟ ان کا کیا انجام ہوگا ؟ ان کو کیا سزا ملے گی ؟ کفر کے ذکر ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی جزاء کیا ہے جبکہ وہ یہاں سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور اسلام کی راہ بھی روک رہے ہیں۔

اب روئے سخن اس گھر کی تعمیر اور تاریخ کی طرف ، جس پر مشرکین کا قبضہ ہے۔ اس میں یہ لوگ بتوں کو پوجتے ہیں اور اہل توحید کو حق زیارت سے بھی محروم کر رہے ہیں محض اس لئے کہ وہ شرک سے پاک ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ رب تعالیٰ کی ہدایات اور احکام کے مطابق یہ کعبہ کس طرح وجود میں آیا یہ کہ یہ بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ یہ توحید کی بنیاد ہوگا اور اس کا استعمال یہ ہوگا کہ اس میں اللہ وحدہ کی پرستش کی جائے گی اور یہ کہ وہ یہاں کے مقیم لوگوں اور زائرین دونوں کے لئے مخصوص ہوگا۔

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ "میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith bawwana liibraheema makana albayti an la tushrik bee shayan watahhir baytiya lilttaifeena waalqaimeena waalrrukkaAAi alssujoodi

واذا بوانا ………بالبیت العتیق (29)

پہلے دن سے یہ گھر توحید کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اس کی جگہ کی نشاندہی کی اور ان کو اس بات کا اختیار دیا کہ وہ اس بنیاد پر اس کی تعمیر کریں۔

ان لا تشرک بی شیئاً (22 : 25) ” میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ “ کیونکہ یہ صرف اللہ کا گھر ہے۔ اللہ کے سوا اس میں کسی کا حصہ نہیں اور اسے پاک رکھو حاجیوں اور نماز قائم کرنے والوں کے لئے۔

وطھر بیتی للظائفین و القآئمین والرکع السجود (22 : 25) ” اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع اور سجود کرنے والوں کے پاک رکھو۔ “ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے بیت اللہ بنایا گیا ہے۔ مشرکین کے لئے نہیں بنایا گیا جو اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کرتے ہیں۔

اس کے بعد اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بانی بیت اللہ کو حکم دیا کہ ان مقاصد کے لئے اس گھر کو تعمیر کرنے کے بعد لوگوں میں اعلان کردیں کہ وہ حج کے لئے آئیں اور اللہ نے وعدہ کیا کہ لوگ اس اعلان کو قبول کریں گے۔ لہٰذا وہ قطار در قطار اونٹوں پر اور پیدل دور دراز مقامات سے آئیں گے۔ اتنی دور سے کہ ان کے اونٹ دوری سفر کی وجہ سے دبلے ہوجائیں گے۔

اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جو وعدہ کیا تھا وہ آج بھی پورا ہو رہا ہے اور کل بھی ہوگا۔ آج تک لوگوں کے دل خانہ کعبہ کے ساتھ اٹکے ہوئے ہیں۔ بیت اللہ کو دیکھنے اور طواف کے لئے لوگوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ جو غنی ہے ، زاد سفر پر قدرت رکھتا ہے سواری کی سہولت رکھتا ہے وہ سواری پر ، جدید ترین سواری پر ، اور جس کے پاس صرف پائوں ہیں وہ اپنے پائوں پر چل کر اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں۔ لاکھوں افراد دور دراز علاقوں سے فج عمیق سے ، بلکہ فضائے بلند سے قطار اندر قطار ہر سال ٹوٹ پڑتے ہیں ، ہزارہا سال گزر گئے ہیں اور حضرت ابراہیم کا اعلان اور اللہ کا وعدہ پورا ہو رہا ہے۔

یہاں حج کے بعض شعائر اور بعض مقاصد بھی بتا دیئے جاتے ہیں :

لیشھدوا منافع ……بالبیت العتیق (29) (22 : 28-29) ” تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں ، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ “

وہ منافع کیا ہیں جو حجاج دیکھتے ہیں ؟ حج دراصل ایک عالمی اجتماع اور میلہ ہے ، یہ تجارت کا موسم اور عبادت کا موسم ہے۔ یہ ایک ایسا عالمی اجتماع ہے ، جس میں تمام دنیا کے مسلمان ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ان کے درمیان یک جہتی پیدا ہوتی ہے۔

یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں دنیا اور آخرت دونوں جمع ہوتی ہیں اور یہ دراصل اسلامی نظریہ حیات کے آثار قدیمہ کی زیارت بھی ہے۔ سامان زیارت اور مصنوعات والے لوگوں کے لئے یہ ایک بہترین منڈی ہے۔ آپ دیکھیں کہ دنیا کے سامان خوردو نوش اور دنیا کے پھل اس گھر کی طرف ، اطراف زمین سے آتے ہیں اور لائے جاتے ہیں۔ تمام علاقوں سے حجاج کھنچے چلے آتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے علاقوں کی بھلائیاں اور حسن اخلاق بھی آتے ہیں اور پھر یہ خوشبو پورے عالم اسلام میں بکھرتی ہے۔ یہ تمام لوگ بیت الحرام میں مختلف موسموں میں جمع ہوتے ہیں اور ایک موسم میں بھی جمع ہوتے ہیں گویا یہ ایک تجارتی منڈی ہے اور تجارتی میلہ بھی۔

پھر حج عبادات کا ایک عالمی اجتماع ہے ، جس میں روحانی صفائی کی جاتی ہے۔ انسان کی روح یہ محسوس کرتی ہے کہ اللہ کے اس محترم گھر میں وہ اللہ کے زیادہ قریب ہوگئی ہے۔ یہ روح خانہ کعبہ کی طرف مشتاق ہوتی ہے اور خانہ کعبہ کے ساتھ جو روحانی یادیں وابستہ ہیں ، جن برگزیدہ ہستیوں کی ذات اس سے وابستہ ہے ان کی روحیں اسے یہاں گھومتی محسوس ہوتی ہیں ، زمانہ قریب کی روحیں اور زمانہ بعید کی روحیں۔

دیکھیے یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی روح ہے ، وہ بیت اللہ میں اپنے جگر گوشہ اسماعیل اور ان کی والدہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ وہ اپنے ڈرنے والے اور دھڑکنے والے دل کے ساتھ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

ربنا انی اسکنت ……لعلھم یشکرن (13 : 38) پروردگار ، میں نے ایک بےآب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار ، یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے ، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔

پھر حضرت ہاجرہ کی تصویر پر دہ خیال پر آتی ہے ، وہ اپنے لیے اور اپنے شیر خوار بچے کے لئے پانی کی تلاش میں جھلسا دینے والی گرمی میں ، بیت اللہ کے گرد گھوم رہی ہیں۔ پھر صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتی نظر آتی ہیں ، وہ پیاس سے نڈھال ہیں ، تھک کر چور چور ہوگئی ہیں اور ان کو اپنے بچے کی جان کا خطرہ ہے۔ وہ جب ساتویں بار واپس آتی ہیں تو مایوسی کی وجہ سے ٹوٹ چکی ہیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ اس خوبصورت بچے کے سامنے شفاف پانی کا ایک چشمہ اہل برہا ہے۔ یہ ہے چشمہ زم زم۔ خشکی اور مایوسی کے صحرا میں چشمہ رحمت الٰہی ہے۔

پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تصور پردہ خیال پر نمودار ہوتا ہے۔ آپ خواب دیکھ رہے ہیں کہ آپ حضرت اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ آپ فوراً اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ لمحہ بھر کے لئے بھی تردد نہیں کرتے اور مومنانہ اطاعت شعاری کا بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں۔

قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری ” اس نے کہا ، اے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، تمہارا کیا خیال ہے ؟ “ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی بڑی فرمانبرداری سے جواب دیتے ہیں :

یا ابت افعل ماتومر ستجدنی انشاء اللہ من الصبرین ” ابا جان ، آپ کو جو حکم دیا گیا ہے ، اسے کر گزریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ “ جب وہ دونوں تیار ہوجاتے ہیں تو اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اس قربانی کے بدلے فدیہ قبول کرلیا جاتا ہے۔

ونادینہ ان یا ابراہیم (103) قد صدقت الرء یا انا کذلک نجزی المحسنین (105) ان ھذا لھو البلوء المبین (106) وقدینہ بذبح عظیم (108) (38 : 103 تا 108) اور ہم نے نداوی کہ ” اے ابراہیم “ تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائی تھی۔ “ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔

اور پھر حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) دونوں خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نہایت عاجزی اور خضوع و خشوع کے ساتھ دعا کر رہے ہیں۔

ربنا تقبل منا ………الرحیم (128) ” اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے تو سب کچھ سننے اور سب کچھ جاننے الا ہے۔ اے رب ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

یہ خیالی تصویر اور شخصیت پردہ خیال پر آگے پیچھے آرہی ہیں اور یہ یادیں سامنے آتی ہیں اور جاتی ہیں کہ اچانک حضرت عبدالمطلب سامنے آتے ہیں۔ وہ یہ نذر مانتے ہیں کہ اے اللہ اگر تو نے مجھے دس بیٹے عطا کئے تو میں دسویں بیٹے کو تیرے لئے نذر کر دوں گا۔ دسواں بیٹا عبداللہ ہے۔ عبدالمطلب نذر پوری کرنا چاہتے ہیں اور ان کی قوم ان کے اردگرد جمع ہے اور وہ تجویز دے رہے ہیں کہ آپ فدیہ دے دیں۔ وہ خانہ کعبہ کے گرد وہ تیر نکالتے ہیں اور ہر بار تیر عبداللہ کے ذبح کرنے کا نکلتا ہے۔ وہ فدیہ بڑھاتے جاتے ہیں یہاں تک کہ فدیہ کے اونٹ سو تک پہنچ جاتے ہیں حالانکہ فدیہ کا ابتدائی نصاب ، دس اونٹنیاں تھیں۔ آخر کار فدیہ کا تیر نکلا۔ انہوں نے سو اونٹ ذبح کئے اور عبداللہ کی جان بخشی ہوئی۔ یہ اللہ کی منشاء تھی کیونکہ اللہ نے ان کی پشت اور رحم آمنہ سے حضرت محمد ﷺ جیسے جلیل القدر پیغمبر کو پیدا کرنا تھا۔ گویا یہ فدیہ ، عظیم فدیہ اللہ نے حضرت محمد ﷺ کی خاطر دلایا۔

اس کے بعد بھی اس گھر کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں اور تخلیل کے پردے پر بار بار نئی شخصیات ابھر رہی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ مدارج طفولیت طے کر رہے ہیں ، بیت اللہ کے اردگرد وہ گھوم رہے ہیں۔ دیکھیے ، آپ حجر اسود کو اپنے پاک ہاتھوں سے اٹھا رہے ہیں اور اپنی جگہ پر رکھ رہے ہیں تاکہ اس فتنے کو فرد کردیں جس کی وجہ سے خیال کے اندر جنگ چھڑنے کا خطرہ تھا۔ آپ نماز پڑھتے نظر آتے ہیں ، طواف کرتے نظر آتے ہیں ، خطبہ دیتے نظر آتے ہیں ، اعتکاف کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے قدم پردہ خیال پر ہیں۔ آپ کی صورت ضمیروں پر زندہ ہے۔ قریب ہے کہ ایک حاجی آپ کو آنکھوں سے دیکھ لے جبکہ وہ ان یادوں کی وسچ میں گم اور مستغرق ہوتا ہے۔ پھر ہمارے سامنے آپ کے صحابہ کرام غول کے غول آتے ہیں اور اس مٹی پر گھومتے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ یہ نقشے ایسے ہیں کہ قریب ہے کہ کان سنیں اور نظریں دیکھیں۔ اور پھر ان یادوں اور تصورات کے علاوہ حج مسلمانوں کا ایک جامع عالمی اجتماع ہے۔ اس میں ان کو اپنی اصلیت اور جڑ کا پتہ چلتا ہے جو دور تک تاریخ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک چلی گئی ہے۔

ملۃ ابیکم ابراھیم ھو سمکم المسلمین من قبل وفی ھذا ” اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس میں بھی۔ “ یہ مسلمانوں کا محور ہے جس کے اردگرد وہ گھومتے ہیں ، جس نے انہیں متحد کر رکھا ہے۔ یہ ان کے لئے ایک شعار اور ایک جھنڈا یہ۔ اس کے نیچے سب جمع ہوتے ہیں ، یہ ایک ایسا نظریاتی شعار اور نظریاتی جھنڈا ہے جس کے سائے میں تمام اقوام کے افراد ، تمام نسلوں اور تمام رنگوں اور تمام زبانوں کے لوگ آ کر جمع ہوجاتے ہیں۔ تمام امتیازات مٹ جاتے ہیں۔ یہاں آ کر مسلمان اپنی اس قوت کو ایک محدود وقت کے لئے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ عقیدہ توحید کی قوت ، ایک ملت ہونے کی قوت اور اربوں مسلمانوں کے باہم اتحاد و اتفاق کی قوت۔ اس اجتماع میں وہ اپنی بھلائی ہوئی قوت کو ایک محدود وقت کے لئے ہی محسوس کرتے ہیں اور اس طرح محسوس کرتے ہیں کہ اگر یہ ایک ہوجائیں تو ان کے سامنے دنیا کی کوئی قوت نہیں ٹھہر سکتی بشرطیکہ یہ سب لوگ عقیدہ توحید پر ایک جھنڈ تلے جمع ہوجائیں۔

اللہ جو فرماتے ہیں لیشھدوا منافع لھم (22 : 28) ” تاکہ وہ اپنے ان مفادات کو دیکھیں جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں۔ “ ہر نسل اپنے ظروف و احوال کے مطابق ، اپنی حاجت اور ضرورت کے مطابق ، اپنے تجربے اور اپنے تقاضوں کے مطابق اس اجتماع سے مفادات حاصل کرسکتی ہے۔ یہ بات اس وقت سے اللہ نے اس اجمتاع کے مقاصد میں رکھی ہے جب سے اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ لوگوں کو اس گھر کی زیارت کے لئے بلائو۔

قرآن مجید اس اجتماع کے لئے بعض مناسک اور بعض بنیادی شعائر دیتا ہے اور سب میں سب کا بھلا ہے۔

ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومت علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام (22 : 28) ” اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ “ اس آیت میں اشارہ ہے قربانی کی طرف جو عید کے دن اور ایام تشریق میں کی جاتی ہے اور قربانی کے مختلف جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم قربانی کے ذکر میں سب سے پہلے یہ حکم دیتا ہے کہ اس پر اللہ کا نا ملیا جائے کیونکہ مقصد اللہ کی بندگی اور اللہ کی رضا مندی کا حصول ہے۔ یہاں قربانی کے عمل میں سب سے زیادہ امتیاز کے ساتھ جس عمل کا ذکر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف جانور ذبح کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصد اپ پر اللہ کا نام لینا ہے۔ (احناف کا فتویٰ اس پر ہے کہ یوم نحر کے بعد صرف دو دنوں میں قربانی جائز ہے۔ )

یہ قربانی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ذبح عظیم کی یادگار ہے۔ اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزے اور اللہ کی اطاعتوں میں سے ایک عظیم تعمیل حکم کی بھی یادگار ہے۔ جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے یادگار کے طور پر چھوڑی۔ اس یادگار میں فائدہ یہ ہے کہ فقفراء اور مساکین کے لئے کھانے کا انتظام ہوجاتا ہے۔ قربانی کے جانور اونٹ ، گائے ، بھینس اور بھیڑ بکری ہے۔ (گائے اور بھینس دونوں کے لئے عربی میں بقر کا لفظ آتا ہے)

فکلوا منھا وا طعموا البائس الفقیر (22 : 28) ” اس سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ “ قربانی کے گوشت کے استعمال کے لئے جو حکم قربانی کرنے والے کو ہے یہ استحبابی ہے لیکن فقیروں کو دینے کے لئے جو حکم ہے وہ وجوبی ہے۔ خود کھانے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ فقراء محسوس کریں کہ یہ پاک صاف اور طیب گوشت ہے۔

قربانی کرتے ہی حاجی کے لئے وہ باتیں جائز ہوجاتی ہیں جو اس کے لئے دوران حج ممنوع تھیں۔ مثلاً بال منڈوانا ، کاٹنا ، ناخن کاٹنا ، بغلوں کے بال کاٹنا اور غسل وغیرہ جو کام بھی احرام کے دوران منع تھے وہ جائز ہوجاتے ہیں ، اس کے بارے میں کہا گیا۔

ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم (22 : 29) ” پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔ “ جو نذریں انہوں نے مانی ہوں یعنی حج کی قربانی کے علاوہ جو نذریں انہوں نے مانی ہوں۔

ولیطوفوا بالبیت العتیق (22 : 29) ” اور قدیم گھر کا طواف کریں۔ “ اس سے مراد طواف اقامہ یا طواف زیارت (جو نام بھی دیں) ہے۔ طواف اقامہ طواف وراع سے علیحدہ ہے۔

بیت عتیق سے مراد مسجد حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کسی بھی جبار کی حکمرانی سے بچایا ہے اور اسی طرح اسے گرنے اور نشانات کے مٹ جانے سے بھی بچایا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے آباد کرنے سے یہ ہمیشہ آباد رہا ہے اور رہے گا۔

یہ تھا قصہ بیت الحرام کی تعمیر کا۔ اور یہ ہے وہ بنیادی عقیدہ جس پر اس کی تعمیر ہوئی ، یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے حکم دیا کہ اسے توحید کے گھر کے طور پر تعمیر کریں اور اسے شرک و بت پرستی سے پاک رکھیں اور حکم دیا کہ عامتہ الناس کو حکم دیں کہ وہ اس کی زیارت کو آئیں۔ قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں ، اس کے سوا کسی دوسرے الہ کا نام نہ لیں۔ قربانی کے گوشت کو خود بھی کھائیں اور تنگ دست اور فقیر کو بھی کھلائیں۔ یہ بیت الحرام ہے اور اس میں اللہ کی حرمتیں محفوظ ہیں۔ ان پر عمل ہوگا اور اللہ کی حرمتوں میں سے پہلی چیز اسلامی نظریہ حیات اور عقیدہ توحید ہے۔ اس گھر کے دروازے تمام لوگوں کے لئے کھلے ہوں اور یہاں سب لوگوں کی جان و مال محفوظ ہوں ، یہاں تمام عہد پورے کئے جائیں اور امن و سلامتی کا احترام کیا جائے۔

اردو ترجمہ

اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaththin fee alnnasi bialhajji yatooka rijalan waAAala kulli damirin yateena min kulli fajjin AAameeqin

اردو ترجمہ

تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Liyashhadoo manafiAAa lahum wayathkuroo isma Allahi fee ayyamin maAAloomatin AAala ma razaqahum min baheemati alanAAami fakuloo minha waatAAimoo albaisa alfaqeera

اردو ترجمہ

پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma lyaqdoo tafathahum walyoofoo nuthoorahum walyattawwafoo bialbayti alAAateeqi

اردو ترجمہ

یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، ما سوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika waman yuAAaththim hurumati Allahi fahuwa khayrun lahu AAinda rabbihi waohillat lakumu alanAAamu illa ma yutla AAalaykum faijtaniboo alrrijsa mina alawthani waijtaniboo qawla alzzoori

ذلک ومن ……مکان سحیق (31)

اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا جائے۔ یہ اللہ کی ہاں بہت بڑی نیکی اور خیر ہے۔ انسانی شعور اور انسانیضمیر کی دنیا میں بھی خیر کثیر ہے۔ واقعی اور عملی زندگی میں بھی یہ خبر ہے ، کیونکہ جو ضمیر حرمتوں کا شعور رکھتے ہوئے بچنے کی کوشش کرے گا وہی پاک ہوگا۔ جس زندگی میں اللہ کی حرمتوں کا احترام ہوگا۔ وہی زندگی امن وامان اور سلامتی کی نعمت سے مالا مال ہو سکتی ہے اور اس میں کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہو سکتی۔ ایسی ہی زندگی میں امن کے مقامات اور اطمینان کے گھر مل سکتے ہیں۔

مشرکین بھی بعض جانوروں کا احترام کرتے تھے۔ مثلاً بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام۔ ان کے نزدیک یہ جانور محترم تھے اور ان کو ہاتھ لگانا بھی جرم تھا۔ لیکن یہ مشرکین کی خود ساختہ حرمتیں تھیں۔ اللہ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی حکم نہ تھا تو یہاں کہہ دیا کہ اللہ نے کھانے کے جانوروں میں سے جو حرام قرار دیتے ہیں ان کا ذکر ہو چا ہے مثلاً مردار ، خون ، خنزیر اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کی نذر ہو۔

واحلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم (22 : 30) ” تمہارے لئے مویشی حلال کئے گئے ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں۔ “ یہ اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی مقرر کردہ کوئی حرمت نہ ہو۔ اللہ کے سوا کسی کو حلال و حرام قرار دینے کی اجازت نہیں اور اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور شریعت کے مطابق احکام جاری نہ ہوں۔

حلت اور حرمت کی بحث ہی کی مناسبت سے بتوں کی گندگی سے بچنے کی بھی تاکید کردی گئی۔ مشرکین بتوں پر جانور ذبح کرتے تھے حالانکہ یہ ناپاکی تھی۔ رجس اس ناپاکی کو کہتے ہیں جس کا تعلق انسان کے نفس ، ضمیر اور دماغ سے ہو ، شرک اسی قسم کی معنوی ناپاکی ہے۔ شرک قلب و ضمیر کو اسی طرح ناپاک کر دیات ہے جس طرح گندگی کپڑے کو ناپاک کردیتی ہے۔

پھر شرک اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور سفید جھوٹ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اس بڑے جھوٹ کے ساتھ ساتھ تمام جھوٹوں سے بچو۔

فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور (22 : 30) ” بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ “ قرآن مجید نے جھوٹ کو شرک کے ساتھ جوڑ کر اس کے گناہ کو اور بھیانک بنا دیا ہے۔ امام احمد روایت کرتے ہیں کہ قاتک اسدی نے حضور ت سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نما زپڑھی اور منہ پھیر کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔

عدلت شھادۃ الزور الا شراک باللہ عزوجل ” اور جھوٹی شہادت کو شرک کے برابر کردیا گیا ہے۔ “ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کی خواہش یہ ہے کہ لوگ ہر قسم کے شرک کو چھوڑ دیں اور ہر قسم کے جھٹ کو چھوڑدیں اور خلاص عقیدہ توحیدہ پر جم جائیں۔

حنفآء اللہ غیر مشرکین بہ (22 : 31) ” یکسو ہو کر اللہ کے بندے ہو جائو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ “ اس کے بعد آیت میں ایک خوفناک منظر ایک مثال کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو شخص توحید کے بلند افق سے گرا تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ شرک کی پستیوں میں جا گرتا ہے اور وہ اس طرح ختم ہوجاتا ہے کہ اس کا نام و نشان ہی نہیں رہتا۔ گویا وہ تھا ہی نہیں۔

ومن یشرک باللہ فکانما خرمن السمآء فتخطفہ الطیر اوتھوی بہ الریح فی مکان سحیق (22 : 31) ” اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اسے ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ “

یہ منظر ایسے شخص کا ہے جو بہت ہی بلند جگہ سے گر جائے جیسا کہ آسمان سے گر کر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا اسے نظروں سے دور پھینک دے۔ یا ہوا اسے ایسی جگہ پھینک دے ایسے گڑھے میں جہاں اسے کوئی قرار نصیب نہ ہو۔ یعنی اس منظر میں تمام مراحل بڑی تیزی سے سرانجام پاتے ہیں۔ سخت تیزی اور پھر اقدامات لگاتار ہیں اور ہر مرحلے کے … کا استعمال ہے۔ جو ترتیب واقعات بغیر فاصلہ وقت پر دلالت کرتی ہے یعنی یہ شخص بڑی تیزی سے منظر سے غائب ہوتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز ہے تصویر کشی کا۔

پھر جس طرح قرآن کریم نے شرک کرنے والے کی تصویر کشی کی ہے فی الواقعہ بھی اس کی حالت کچھ ایسی ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ توحید اور ایمان کے بلند مقام سے گر جاتا ہے اور اس کی شخصیت منتشر ہوجاتی ہے کیونکہ اس کیپ اس وہ مضبوط اساس یعنی عقیدہ توحید ہی نہ رہا جس پر وہ کھڑا ہو سکے۔ اب اس کے لئے کوئی جائے قرار ہی باقی نہیں ہے۔ پرندے اس کو اچک لیں گے یعنی خواہشات نفسانیہ اور ادہام و خرافات ہر طرف سے اسے اپنی طرف کھینچیں گے۔ چونکہ اس کے ہاتھ میں مضبوط رسی نہ ہوگی اس لئے وہ ہر طرف کھینچتا چلا جائے گا۔ کبھی ایک طرف گرے گا اور کبھی دوسری طرف کیونکہ اسکے پائوں کے نیچے مضبوط بنیاد نہ ہوگی۔

اب بات آگے بڑھتی ہے۔ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی حرمتوں کا احترام کرو اور ان سے تعرض نہ کرو۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے شعائر کی تعظیم کر ، شعائر لالہ کیا ہیں۔ وہ جانور جو حج کے موقع پر ذبح ہوں گے ، ان کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ موٹے تازے ہوں اور قیمتی ہوں۔

335