اس صفحہ میں سورہ Al-Hajj کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
درس نمبر 146 ایک نظر میں
اس سے پہلے سبق کا خاتمہ اس پر ہوا تھا کہ نظریات ، عقائد اور ملت کے شعار کی مدافعت کے لئے جنگ کی اجازت ہے۔ جو لوگ اسلامی نظریہ حیات کے تقاضے پورے کریں گے ان کو اللہ کی طرف سے پوری پوری نصرت بھی حاصل ہوگی۔ بشرطیکہ انہوں نے خود اپنی جماعت کے اندر اسلامی نظام حیات قائم کر رکھا ہو۔
جب یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی نصرت کے استحقاق کے لئے شرائط و فرائض کیا ہیں تو اب رسول اللہ ﷺ کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ دست قدرت نے آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی حمایت میں کام شروع کردیا ہے جس طرح آپ سے قبل آپ کے بھائی رسولوں کے حق میں دست قدرت نے کیا اور ہر دور میں مکذبین کو بڑی سختی سے پکڑا۔ نیز مکذبین اور مشرکین کو بھی اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ اگر ان کا دل و دماغ کام کرتا ہے تو وہ غور و فکر کریں کیونکہ آنکھوں کا اندھا دراصل اندھا نہیں ہوتا ، بلکہ حقیقی اندھا وہ ہوتا ہے جس کے سینے میں دھڑکنے والا دل اندھا ہو۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو یہ اطمینان دلایا جاتا ہے کہ اللہ اپنے رسولوں کو شیطان کی سازشوں سے بچاتا ہے۔ اس طرح وہ جھٹلانے والوں کی سازشوں سے بھی بچاتا ہے۔ نیز وہ شیطان کی مکاریوں کو باطل کر کے ، اپنی آیات کو سلیم الطبع لوگوں کے ذہن نشین کرا رہا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے دل مریض ہیں ، یا جن کے دل کافر ہیں تو وہ اسی طرح شک میں گرفتار رہیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے برے انجام کو دیکھ لیں۔
یہ پورا سبق دست قدرت کے آثار اور کرشموں پر مشتمل ہے۔ اللہ کا ہاتھ دعوت اسلامی کو آگے بڑھانے کے لئے متحرک ہوگیا ہے لیکن نتائج سامنے تب آئیں گے جب وہ اصحاب دعوت اپنے فرائض کو بطرز احسن پورا کریں اور وہ تقاضے پورے کریں جن کے بارے میں پہلے وضاحت کردی گئی ہے یعنی اس سے پہلے سبق میں۔
درس نمبر 146 تشریح آیات
42……تا 57
وان یکذبوک ……کان نکیر (44)
تمام رسولوں کے بارے میں یہ اللہ کی اٹل سنت ہے کہ رسول معجزات لے کر آئے اور ان کی قوموں نے ان کو جھٹلایا۔ اس لئے مشرکین مکہ کی طر سے رسول آخر الزمان ﷺ کی تکذیب کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن تمام جھٹلانے والوں کا انجام بھی تو معلوم ہے۔ انجام کے لئے بھی مشرکین مکہ تیار ہوجائیں۔
فقد کذبت قبلھم قوم نوح و عاد وثمود (32) وقوم ابرہیم و قوم لوط (22 : 33) ” اس سے پہلے قوم نوح ، اور عاد وثمود اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے جھٹلایا ہے “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے علیحدہ فقرہ و کذب موسیٰ (اور موسیٰ جھٹلائے جا چکے ہیں) اس لئے کہ اس کی قوم نے انہیں نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون اور اس کے سرداروں نے جھٹلایا تھا۔ دوسرے اس لئے کہ جو معجزات حضرت موسیٰ لے کر آئے تھے وہ بہت ہی واضح تھے۔ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت ہی بڑے واقعات پیش آئے۔ ان تمام پیغمبروں کے واقعات میں اللہ نے کافروں کو ایک وقت تک مہلت دی۔ جیسا کہ اب قریشک و مہلت دی جا رہی ہے اور اس کے بعد اللہ نے بڑی سختی سے ان کو پکڑا۔ یہاں سوالیہ انداز مزید ڈرانے اور اظہار تعجب کے لئے ہے۔
فکیف کان نکیر (22 : 33) ” اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ “ نکیر کا مفہوم ہے ایسا سخت انکار جس میں تبدیلی کا شائبہ ہو۔ اس سوال کا جواب معلوم ہے کہ خوفناک عذاب تھا۔ طوفان ، خسف تدمیر ، ہلاکت ، زلزلے ، تباہی طوفان اور کڑک کی وجہ سے خوف میں مبتلا کر کے ہلاک کرنا۔
گزشتہ ہلاک شدہ اقوام پر ایک نہایت سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب گزشتہ ہلاک شدہ اقوام پر جامع تبصرہ۔
فکاین من ……مشید (45)
ایسی ہلاک شدہ بستیاں بیشمار ہیں۔ انداز کلام ان اقوام کی ہلاکتوں کے مناظر کو ایک منظر کی صورت میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ انسان کہتا ہے کہ وہ ہیں ہلاک شدہ بستیوں کے کھنڈرات۔ بڑے بڑے محل چھتوں کے اوپر پڑے ہیں۔ حالانکہ وہ دیواروں پر استوار تھے۔ جب کرے تو چھتیں نیچے اور تمام عمارتی ڈھانچہ ان کے اوپر۔ اس طر یہ منظر نہایت ہی و عشتاک ، دلدوز اور پرتاثیر بن جاتا ہے۔ یہ کہ یہ منظر اس کا مستحق ہے کہ اس کی سابق اور موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے۔ کھنڈرات میں جب انسان پھرتا ہے تو وہ بہت ہی وحشتاک نظر آتے ہیں اور ان سے اگر کوئی عبرت حاصل کرنا چاہے تو عبرت حاصل کرسکتا ہے اور انسان میں خوف خدا پیدا ہو سکتا ہے۔
ان بڑے بڑے گائوں کے آثار ہمارے سامنے ہیں ، ان کی چھتوں پر ان کی بلڈنگیں گری ہوئی ہیں اور ان کے کنوئیں خالی پڑے ہیں نہ ان پر کوئی آنے والا نظر آتا ہے اور نہ جانے والا کسی وقت تو ان پر عوام کا بےحد اژدھام تھا۔ بڑی بڑی عمارات کھڑی ہیں ، لیکن کوئی انسان نہیں ، کوئی زندہ چیز بھی نہیں ہے ، تخلیل کے پردے پر صورتیں ابھرتی ہیں کہ کسی وقت تو یہاں گہما گہمی ہوگی !
ان مناظر کو دکھانے کے بعد قرآن کریم سخت تنبیہ کے ساتھ پوچھتا ہے کہ آیا مشرکین نے کبھی ان کھنڈرات پر غور نہیں کیا ؟
افلم یسیروا فی ……فی الصدور (46)
گزشتہ زمانے کی ہلاک شدہ اقوام کے کھنڈرات کا تصور ہی مفید اور عبرت آموز ہوتا ہے۔ انسان ان کو پھٹی پھٹی نظروں سے حیرانی کے ساتھ دیکھتا ہے اور یہ کھنڈرات انسان کو خاموشی کی زبان سے بہت کچھ بتاتے ہیں۔
افلم یسیروافی الارض (22 : 36) ” کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟ “ کہ دیکھیں اور انہیں معلوم ہو کہ کیا کیا لوگ یہاں رہ گئے ہیں۔ یہ کھنڈر ان کو خاموشی کی زبان میں بہت کچھ بتا دیں گے اور کہہ دیں گے کہ دیکھو کہ ہم دیکھنے والوں کے لئے عبرت ہیں
فتکون لھم قلوب یعقلون بھا (22 : 36) ” کہ ان کے دل و دماغ سمجھنے والے ہوتے۔ “ تاکہ وہ سمجھیں کہ ان مٹے ہوئے کھنڈرات کی پشت پر تاریخ کیا ہے۔ یہ اللہ کی کس سنت کا پتہ دے رہے ہیں ، جو کبھی بدلتی نہیں ہے۔
او اذان یسمعون بھا (22 : 36) ” یا ان کے کان سننے والے ہوتے “ تاکہ وہ ان کھنڈرات سے پوچھتے کہ ان کے باسی کہاں گئے ، یہ کنوئیں کیوں خالی پڑے ہیں اور یہ محل کیوں برباد ہوئے۔
کیا ان لوگوں کے پاس عقل نہیں ہے ؟ یہ دیکھتے ہیں لیکن کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سنتے ہیں لیکن کوئی عبرت نہیں لیتے۔
فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور (22 : 36)
” حققیت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ “ یہاں دلوں کی جگہ کا بھی تعین کردیا جاتا ہے مزید تاکید کی خاطر کہ وہ سینوں میں ہیں اور ان کے سنیوں میں جو دل ہیں وہ اندھے ہیں ، اگر یہ دل اندھے نہ ہوتے تو وہ نصیحت آموزی میں بڑے پر جوش ہوتے ، وہ عبرت لیتے اور ان لوگوں جیسے انجام سے ڈر کر ایمان کی طرف مائل ہوتے ، کیونکہ اس قسم کے کھنڈرات ان کے اردگرد کئی مقامات پر ہیں۔
لیکن ان لوگوں کا رویہ بالکل الٹا ہے۔ عبرت لینے ، ایمان لانے ، عذاب الٰہی سے ڈرنے کے بجائے یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ عذاب ہم پر جلدی آجائے حالانکہ اللہ نے کسی حکمت کی وجہ سے اسے مئوخر کردیا ہے۔