سورۃ الحدید (57): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hadid کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحديد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحدید کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hadid
سُورَةُ الحَدِيدِ
صفحہ 539 (آیات 12 سے 18 تک)

يَوْمَ تَرَى ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَٰنِهِم بُشْرَىٰكُمُ ٱلْيَوْمَ جَنَّٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ يَوْمَ يَقُولُ ٱلْمُنَٰفِقُونَ وَٱلْمُنَٰفِقَٰتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱنظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ٱرْجِعُوا۟ وَرَآءَكُمْ فَٱلْتَمِسُوا۟ نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُۥ بَابٌۢ بَاطِنُهُۥ فِيهِ ٱلرَّحْمَةُ وَظَٰهِرُهُۥ مِن قِبَلِهِ ٱلْعَذَابُ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا۟ بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَٱرْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ ٱلْأَمَانِىُّ حَتَّىٰ جَآءَ أَمْرُ ٱللَّهِ وَغَرَّكُم بِٱللَّهِ ٱلْغَرُورُ فَٱلْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ مَأْوَىٰكُمُ ٱلنَّارُ ۖ هِىَ مَوْلَىٰكُمْ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ ۞ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ ٱللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ ٱلْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا۟ كَٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ ٱلْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَٰسِقُونَ ٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ يُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ إِنَّ ٱلْمُصَّدِّقِينَ وَٱلْمُصَّدِّقَٰتِ وَأَقْرَضُوا۟ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ
539

سورۃ الحدید کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحدید کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اُس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) "آج بشارت ہے تمہارے لیے" جنتیں ہونگی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma tara almumineena waalmuminati yasAAa nooruhum bayna aydeehim wabiaymanihim bushrakumu alyawma jannatun tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha thalika huwa alfawzu alAAatheemu

آیت 12{ یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ } ”جس دن تم دیکھو گے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو کہ ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف“ بعض مفسرین کی رائے کے مطابق ”یَوْمَ“ سے پہلے ”اُذْکُرْ“ محذوف ہے۔ یعنی ذرا تصور کرو اس دن کا جس دن مومن مردوں اور مومن عورتوں پر یہ عنایت خاص ہوگی۔ ان کے سامنے ان کے ایمان کا نور ہوگاجب کہ داہنی طرف اعمالِ صالحہ کی روشنی ہوگی۔ یہ مضمون سورة التحریم میں مکرر آئے گا۔ وہاں اس پر ‘ ان شاء اللہ ‘ قدرے تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ { بُشْرٰٹکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا } ”ان سے کہا جائے گا : آج تمہارے لیے بشارت ہے ان جنتوں کی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ‘ تم رہو گے اس میں ہمیشہ ہمیش۔“ { ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ } ”یقینا یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“

اردو ترجمہ

اُس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں، مگر ان سے کہا جائے گا پیچھے ہٹ جاؤ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اُس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yawma yaqoolu almunafiqoona waalmunafiqatu lillatheena amanoo onthuroona naqtabis min noorikum qeela irjiAAoo waraakum failtamisoo nooran faduriba baynahum bisoorin lahu babun batinuhu feehi alrrahmatu wathahiruhu min qibalihi alAAathabu

آیت 13{ یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ } ”جس دن کہیں گے منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہ ذرا ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی تمہاری روشنی سے فائدہ اٹھالیں۔“ اس صورت حال کو یوں سمجھیں جیسے کچھ مسافر ایک خطرناک جنگل کے اندر تنگ پگڈنڈی پر گھپ اندھیرے میں سفر کر رہے ہوں۔ ان میں سے جن لوگوں کے پاس ٹارچ ہے وہ تو تیز تیز قدموں کے ساتھ پگڈنڈی پر رواں دواں ہیں ‘ لیکن جن کے پاس ٹارچ نہیں ہے ‘ وہ ان کی منتیں کر رہے ہیں کہ خدا را ذرا رکو ‘ ذرا ٹھہرو ‘ ہم پر عنایت کرو ‘ ہمیں بھی ساتھ لے لو۔ نَقْتَبِسْ کا مادہ قبس ہے ‘ جس کے لغوی معنی ہیں کسی کی آگ سے چنگاری لے کر اپنی آگ جلانا۔ لفظ ”اقتباس“ اردو میں quotation کے معنی میں مستعمل ہے۔ آپ نے اپنے مضمون میں کسی اور کی تحریر سے اقتباس شامل کیا تو گویا آپ نے کسی کے چولہے کی ایک چنگاری لا کر اپنے چولہے میں شامل کی ہے۔ { قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآئَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا } ”کہا جائے گا : لوٹ جائو پیچھے کی طرف اور تلاش کرو نور !“ انہیں بتادیا جائے گا کہ یہ نور یہاں سے نہیں ملتا۔ اس وقت جن لوگوں کے پاس تمہیں نور نظر آ رہا ہے وہ اسے دنیا سے کما کر لائے ہیں۔ چناچہ اب اگر تمہیں اس کی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو اس کے لیے تمہیں واپس دنیا میں جانا ہوگا اور وہاں جاکر اسے تلاش کرنا ہوگا ‘ جس کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ یہاں پر یہ لطیف نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ منافقین روشنی کے لیے درخواست تو اہل ایمان سے کریں گے لیکن اس کا جواب کوئی اور دے گا۔ کیونکہ یہاں قَالُوْا نہیں بلکہ قِیْلَ کہا جائے گا کا صیغہ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اہل ایمان کی مروت اور شرافت سے بعید ہوگا کہ وہ انہیں کورا جواب دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کوئی فرشتہ انہیں ان کی مذکورہ درخواست کا جواب دے گا۔ { فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ} ”پھر ان کے درمیان ایک فصیل کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔“ { بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ۔ } ”اس فصیل کی اندرونی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا۔“ یعنی اس دیوار کے اندر کی طرف رحمت باری تعالیٰ کا نزول شروع ہوجائے گا ‘ اہل ایمان کی ابتدائی مہمان نوازی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ‘ جبکہ اس فصیل کے باہر کی طرف عذاب الٰہی کا نزول شروع ہوجائے گا۔ اس طرح اس چھلنی سے گزار کر منافقین کو سچے اہل ایمان سے الگ کرلیا جائے گا۔ اب اگلی دو آیات میں منافقت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ مرض کیسے پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیتھالوجی کیسے ارتقاء پاتی ہے۔

اردو ترجمہ

وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیں گے ہاں، مگر تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا، موقع پرستی کی، شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ گیا، اور آخر وقت تک وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yunadoonahum alam nakun maAAakum qaloo bala walakinnakum fatantum anfusakum watarabbastum wairtabtum wagharratkumu alamaniyyu hatta jaa amru Allahi wagharrakum biAllahi algharooru

آیت 14{ یُــنَادُوْنَھُمْ اَلَمْ نَـکُنْ مَّـعَکُمْ } ”وہ منافق انہیں پکار کر کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟“ ہم تمہارے ساتھ مسجد نبوی ﷺ میں نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ عیدوں کی نمازوں میں بھی ہم تمہارے ساتھ ہوتے تھے۔ ہم نے تمہارے ساتھ فلاں فلاں مہمات میں بھی حصہ لیا۔ ہر جگہ ‘ ہر مقام پر ہم تمہارے ساتھ ہی تو تھے۔ پھر آج تمہارے اور ہمارے مابین اتنا فرق و تفاوت کیوں ہے ؟ { قَالُوْا بَلٰی } ”وہ کہیں گے : ہاں کیوں نہیں ! تم تھے تو ہمارے ساتھ ہی۔“ { وَلٰـکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ } ”لیکن تم نے اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں فتنے میں ڈالا“ فتنہ کیا ہے ؟ قرآن مجید میں فتنے کی تین نسبتیں بیان کی گئی ہیں۔ کہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی نسبت اپنی طرف کرتا ہے کہ ہم نے ان کو فتنے میں ڈالا ہے کہ ہم آزما کر ظاہر کردیں کہ کون کھرا ہے ‘ کون کھوٹا ہے۔ دوسری نسبت ان کفار کی طرف کی گئی جو مسلمانوں کو ستا رہے تھے اور انہیں فتنے میں ڈال رہے تھے۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالتا ہے۔ یعنی جو لوگ اہل و عیال اور متاع دنیوی کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کی محبت کو اللہ کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں وہ اپنے آپ کو فتنے میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ اس فتنے کا ذکر سورة التغابن میں بایں الفاظ فرمایا گیا : { اِنَّمَآ اَمْوَالُـکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ} آیت 15 ”بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے حق میں فتنہ ہیں“۔ اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول ﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں اپنے مال و متاع اور اہل و عیال کو عزیز ترجاننا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ یہاں پر سورة التوبہ کی یہ آیت بھی ذہن میں تازہ کرلیں :{ قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ } ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘ تمہارے بیٹے ‘ تمہارے بھائی ‘ تمہاری بیویاں اور بیویوں کے لیے شوہر ‘ تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘ اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘ اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ‘ اگر یہ سب چیزیں تمہیں محبوب تر ہیں اللہ ‘ اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد سے ‘ تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔ اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔“ اس آیت نے گویا ایک ترازو نصب کر کے اس کے ایک پلڑے میں آٹھ اور دوسرے میں تین محبتیں رکھ دی ہیں۔ اب ہر کوئی اپنے اپنے پلڑوں کی کیفیت کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔ تو اے گروہ منافقین ! تم خود بتائو تم نے اپنی زندگیوں میں ان میں سے کونسے پلڑے کو جھکا کر رکھا تھا ؟ آٹھ محبتوں والے پلڑے کو یا اللہ و رسول ﷺ اور جہاد کی محبت والے پلڑے کو ؟ ظاہر ہے دنیا میں تم لوگ دنیاداری کے تقاضوں کو ‘ اپنے مال و منال اور اہل و عیال کو اللہ کی رضا اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر ترجیح دیتے رہے ہو۔ یہ تمہارا اپنا فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ کرکے تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ { وَتَرَبَّصْتُمْ } ”اور تم گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے“ یہ وہی لفظ ہے جو سورة التوبہ کی مذکورہ بالا آیت کے آخر میں فَتَرَبَّصُوْا آیا ہے۔ تَرَبُّص کے معنی انتظار کے بھی ہیں کہ آدمی کسی جگہ پر ٹھٹک کر کھڑا ہوجائے۔ ایمان و عمل کے معاملے میں یہ ”انتظار“ ہی دراصل فتنہ ہے۔ یہ ایمان کی ڈانواں ڈول کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے آدمی فیصلہ نہیں کرسکتا کہ آگے بڑھوں یا نہ بڑھوں ! آگے بڑھتا ہوں تو جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں اور رکتا ہوں تو باز پرس کا ڈر ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ سوچنے لگتا ہے کہ کچھ دیر انتظار کرتا ہوں ‘ اگر خطرہ ٹل گیا تو آگے بڑھ جائوں گا ‘ ورنہ پیچھے مڑ جائوں گا۔ اور باز پرس ہوگی تو جھوٹ بول کر جان بچا لوں گا۔ { وَارْتَبْتُمْ } ”اور تم لوگ شکوک و شبہات میں پڑگئے“ پھر تمہاری منافقت کا مرض بڑھ کر اگلے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ یعنی پہلے اللہ کے مقابلے میں مال و اولاد کی محبت نے فتنے میں ڈالا ‘ اس کا نتیجہ ”تربُّص“ گومگو کی کیفیت کی صورت میں سامنے آیا۔ پھر اس کے بعد ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب بچے کھچے ایمان میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھنے شروع ہوگئے کہ کیا پتا قیامت آئے گی بھی کہ نہیں ! معلوم نہیں یہ مر کر زندہ ہونے کی باتیں سچی اور واقعی ہیں یا محض افسانے ہیں ! یہ دنیا تو ایک حقیقت ہے ‘ لیکن آخرت کا کیا اعتبار ! یہاں کا عیش اور یہاں کے مزے تو نقد ہیں۔ اس آرام و آسائش کو اگر میں آخرت کے موہوم وعدے پر قربان کر دوں تو پتا نہیں اس کا اجر ملے گا بھی یا نہیں ! اس کے بعد اس مرض کی آخری نشانی بتائی گئی : { وَغَرَّتْکُمُ الْاَمَانِیُّ } ”اور تمہیں دھوکے میں ڈال دیا تمہاری خواہشات نے“ ان خواہشات کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے۔ وہ بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دیتا ہے۔ ہم جو بھی ہیں ‘ جیسے بھی ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ کی امت ہیں۔ بالکل ایسا ہی زعم یہودیوں کو بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب و برگزیدہ بندے ہیں : We are the chosen people of the Lord۔ چناچہ تم لوگ اپنی انہی خوش فہمیوں میں مگن رہے۔ اس مرحلے میں اگر کبھی توبہ کرنے اور روش تبدیل کرنے کا خیال تمہیں آیا بھی تو خوشنما آرزوئوں wishful thinkings کے تصور نے تمہارے ضمیر کو تھپک تھپک کر پھر سے سلا دیا۔ { حَتّٰی جَآئَ اَمْرُ اللّٰہِ وَغَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ۔ } ”یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا اور تمہیں خوب دھوکہ دیا اللہ کے معاملے میں اس بڑے دھوکے باز نے۔“ یعنی شیطان لعین نے تم لوگوں کو اللہ کے نام پر دھوکہ دیا۔ اس حوالے سے سورة لقمان میں ہم یہ تنبیہہ پڑھ چکے ہیں : { فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاوقفۃ وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ۔ } ”تو دیکھو ! تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے دنیا کی زندگی اور دیکھنا ! تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے اللہ کے حوالے سے وہ بڑا دھوکے باز۔“ زیر مطالعہ اس آیت میں بہت جامع انداز میں منافقت کے مدارج اور مراحل کے بارے میں بتادیا گیا ہے۔ مرض کا نقطہ آغاز مال و اولاد کی حد سے بڑھی ہوئی محبت سے ہوتا ہے۔ ان چیزوں میں انہماک کی وجہ سے انسان کے دل میں اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ اور جہاد کی محبت بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں تَرَبَّصکی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایمان کے اندر شکوک و شبہات کے رخنے پڑجاتے ہیں اور یہ وہ مرحلہ ہے جب نفاق اپنی اصلی شکل میں نمودار ہو کر دل میں مستقل ڈیرے جما لیتا ہے۔

اردو ترجمہ

لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا تمہارا ٹھکانا جہنم ہے، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalyawma la yukhathu minkum fidyatun wala mina allatheena kafaroo mawakumu alnnaru hiya mawlakum wabisa almaseeru

آیت 15{ فَالْیَوْمَ لَا یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَّلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا } ”تو آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ہی کافروں سے۔“ ان الفاظ میں گویا واضح کردیا گیا کہ دنیا میں تمہارا شمار بیشک مسلمانوں میں ہوتا رہا تھا لیکن یہاں تمہارا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔ دنیا میں تو منافق خود کو مسلمان ہی کہتا ہے اور قانوناً بھی وہ مسلمان ہی شمار ہوتا ہے ‘ لیکن اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے اور وہ صرف ایک زبانی عقیدہ dogma لیے پھرتا ہے۔ ظاہر ہے جب دل میں ایمان ہی نہیں تو اس کے نیک اعمال بھی ریاکاری اور دکھاوے پر مبنی ہیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کو ان کے نیک اعمال کا بھی بالکل کوئی اجر نہیں ملے گا۔ بہرحال میدانِ محشر میں یہ لوگ نور سے محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا۔ { مَاْوٰٹکُمُ النَّارُ ھِیَ مَوْلٰـٹکُمْ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔ } ”تمہارا ٹھکانہ آگ ہے ‘ وہی تمہاری غم خوار ہے ‘ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔“ ”مَاْوٰی“ سے مراد ہے پناہ گاہ ‘ جس کی طرف انسان کسی خطرے سے بچنے کے لیے دوڑتا اور لپکتا ہے۔ یہاں طنزاً فرمایا کہ اب تمہاری پناہ گاہ اور ٹھکانہ یہی آگ ہے۔ اسی طرح یہاں ”مَوْلٰی“ کا لفظ بھی طنزاً استعمال ہوا ہے۔ مَوْلٰی کا مطلب ہے ہمدرد ‘ مونس و غم خوار ‘ غم گسار ‘ مددگار ‘ دوست ‘ پشت پناہ ‘ دمساز ‘ ساتھی وغیرہ۔ چناچہ فرمایا کہ اب یہی آگ تمہاری ہمدرد ‘ غم گسار اور خبرگیری کرنے والی ہے ‘ دکھ درد کہنا ہے تو اس سے کہو ‘ نالہ و شیون ہے تو اسی سے کرو ! مزید فرمایا کہ وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ ”مَصِیْر“ کا مطلب ہے لوٹنے کی جگہ ‘ وہ جگہ جہاں انسان بانجامِ کار پہنچا دیا جائے۔۔۔۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ !

اردو ترجمہ

کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam yani lillatheena amanoo an takhshaAAa quloobuhum lithikri Allahi wama nazala mina alhaqqi wala yakoonoo kaallatheena ootoo alkitaba min qablu fatala AAalayhimu alamadu faqasat quloobuhum wakatheerun minhum fasiqoona

اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ہر اس شخص سے سوال کر رہے ہیں جس نے اب تک کی یہ سب باتیں پڑھ کر یا سن کر اپنے دل میں اتار لی ہیں۔ سوال و خطاب کا یہ بہت جذباتی انداز ہے :آیت 16{ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ } ”کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے اہل ایمان کے لیے کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد کے لیے اور اس قرآن کے آگے کہ جو حق میں سے نازل ہوچکا ہے ؟“ یہاں قرآن کے بارے میں فرمایا گیا : { وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ } یہی بات سورة بنی اسرائیل میں زیادہ ُ پرزور انداز میں فرمائی گئی ہے : { وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰـہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ } آیت 105 ”اور ہم نے اس کو نازل کیا ہے حق کے ساتھ اور یہ نازل ہوا ہے حق کے ساتھ۔“ دین یا نیکی کے معاملے میں فیصلہ کرتے ہوئے انسان ہمیشہ تاخیر و تعویق سے کام لیتا ہے کہ یہ کرلوں ‘ وہ کرلوں ‘ بس اس کے بعد اپناطرزِ زندگی درست کرلوں گا ! ابھی ذرا بچیوں کے ہاتھ پیلے کرلوں ! بس ذرا یہ بچوں کی تعلیم مکمل ہو لے وغیرہ وغیرہ۔ اور دیکھا جائے تو بچوں کی تعلیم ہے کیا ؟ صرف دنیا بنانے اور دنیا کمانے کے علم و فن کی تحصیل ! گویا جس کوئے ملامت کے طواف میں خود ساری عمر برباد کردی انہی راستوں پر اپنی اولاد کو گامزن کرنے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ! پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ بچوں کے کیریئرز بنانے کے جنون میں انہیں کچی عمر میں برطانیہ اور امریکہ بھیجنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ وہاں جا کر بچے جب ”ترقی“ کی منازل طے کرتے کرتے اس ”مقام“ پر پہنچ جاتے ہیں کہ مذہب و اخلاق سے اپنے تعلق کو باعث عار سمجھنے لگتے ہیں تو پھر یہ لوگ بیٹھ کر روتے ہیں اور لادینی تہذیب و تمدن کو کو ستے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال پر لازم ہے کہ ہم سب اپنے اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہو کر خود سے پوچھیں کہ کیا ہماری زندگیوں میں وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ہم اللہ اور قرآن کے احکام کے سامنے جھک جائیں ؟ { وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ } ”اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی“ { فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْ } ”تو جب ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔“ یہاں پر { فَقَسَتْ قُلُوْبُھُمْ } کے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے سورة البقرۃ کی آیت 74 کا وہ حصہ بھی ذہن میں تازہ کرلیں جس میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : { ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُـکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً } ”پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس سب کچھ کے بعد ‘ پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی زیادہ شدید ہیں۔“ { وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ۔ } ”اور ان کی اکثریت اب فاسقوں پر مشتمل ہے۔“ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ { وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَـبْلُ } میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ بنی اسرائیل بھی تمہاری طرح اپنے زمانے کی امت ِمسلمہ تھے۔ ان کی روش کو بھی تم جانتے ہو اور ان کے انجام سے بھی تم آگاہ ہو۔ دیکھ لو ! اگر تم نے اب بھی توبہ نہ کی اور اپنی روش تبدیل نہ کی تو یہ مت بھولو کہ ان کی طرح تمہیں بھی نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے۔ اس ڈانٹ کے بعد اب اگلی آیت میں ہمت افزائی کی جا رہی ہے کہ دیکھو ! اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہارے دل کی ”زمین“ ایمان کی فصل کے قابل نہیں رہی ‘ تو بھی تمہیں گھبرانے یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

اردو ترجمہ

خوب جان لو کہ، اللہ زمین کو اُس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے، ہم نے نشانیاں تم کو صاف صاف دکھا دی ہیں، شاید کہ تم عقل سے کام لو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

IAAlamoo anna Allaha yuhyee alarda baAAda mawtiha qad bayyanna lakumu alayati laAAallakum taAAqiloona

آیت 17{ اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا } ”جان لو کہ اللہ زندہ کردیتا ہے زمین کو اس کے مرنے کے بعد۔“ تم اکثر دیکھتے ہو کہ بےآب وگیاہ بنجر زمین پر جب بارش برستی ہے تو اس کے ذرے ذرے میں زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اگر تم لوگ بھی خلوص نیت کے ساتھ توبہ کر لوگے اور اللہ کے حضور جھک جائو گے تو وہ اپنی نظر رحمت سے تمہارے دلوں کی زمین کو بھی ازسر نو زندگی بخش دے گا اور اسے پھر سے ایمان کی فصل کے قابل بنا دے گا۔ { قَدْ بَیَّنَّا لَـکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ } ”ہم نے تو تمہارے لیے اپنی آیات خوب واضح کردی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔“ لہٰذا تم عقل سے کام لیتے ہوئے اس مثال سے سبق سیکھو ! تم خوب سمجھتے ہو کہ فصلیں کب برباد ہوتی ہیں اور زمینیں کیونکر بنجر بنتی ہیں ‘ تمہیں بنجر زمینوں کو پھر سے سرسبز و شاداب بنانے کا نسخہ بھی معلوم ہے۔ یہی نسخہ ذرا اپنے دل کی زمین پر بھی آزمائو اور اس زمین کو بھی پھر سے آباد کرنے پر کمر ہمت باندھو۔ توکل علی اللہ کا سرمایہ اکٹھا کرو ‘ انفاق فی سبیل اللہ کے ہل چلا کر حب مال کے جھاڑ جھنکاڑ سے جان چھڑائو ‘ پھر اللہ کی اطاعت و محبت کے بیج بو کر اس کے ذکر کے پانی سے مسلسل آبیاری کرتے چلے جائو اور دل میں یقین رکھو کہ اللہ مردہ زمینوں کو پھر سے زندہ کردیا کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، اُن کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna almussaddiqeena waalmussaddiqati waaqradoo Allaha qardan hasanan yudaAAafu lahum walahum ajrun kareemun

آیت 18{ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ } ”یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو قرض دیں اللہ کو قرض حسنہ ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہے۔“ سورة البقرۃ کے رکوع 35 اور 36 کے مطالعہ کے دوران بھی یہ نکتہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو مدیں ہیں۔۔۔۔ یعنی ایک صدقہ اور دوسری انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے لیے قرض حسنہ۔ چناچہ وہ مال جو اللہ کی رضا کے لیے غربائ ‘ مساکین ‘ بیوائوں ‘ یتیموں ‘ بیماروں ‘ مسافروں ‘ مقروضوں ‘ محتاجوں اور ضرورت مند انسانوں کی مدد اور حاجت روائی کے لیے خرچ کیا جائے وہ صدقہ ہے۔ اسی مفہوم میں سورة التوبہ کی آیت 60 میں زکوٰۃ کو بھی ”صدقہ“ قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ بنیادی طور پر غرباء و مساکین اور محتاجوں کے لیے ہے۔ اس میں اللہ کے لیے فی سبیل اللہ صرف ایک مد رکھی گئی ہے۔ اس حوالے سے دوسری اصطلاح ”انفاق فی سبیل اللہ“ یا اللہ کے لیے قرض حسنہ کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ باقاعدہ ایک اصطلاح کی بات ہو رہی ہے ‘ ورنہ عرفِ عام میں تو صدقہ بھی فی سبیل اللہ ہی ہے ‘ کیونکہ وہ بھی اللہ کے لیے اور اس کی رضاجوئی کے لیے ہی دیا جاتا ہے۔ بہرحال ایک باقاعدہ اصطلاح کے اعتبار سے انفاق فی سبیل اللہ ایسا انفاق ہے جو اللہ کے دین کے لیے ‘ دین کی نشرو اشاعت کے لیے اور اس کے غلبہ و اقامت کی جدوجہد کے لیے کیا جائے اور یہی وہ انفاق ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے۔ اللہ کی مشیت سے مردہ زمین کے زندہ ہوجانے کے ذکرکے بعد یہاں صدقہ اور اللہ کے لیے قرض حسنہ کی ترغیب میں گویا دل کی مردہ زمین کو پھر سے ایمان کی فصل کے لائق بنانے کی ترکیب پنہاں ہے۔ یعنی اگر تم نے دل کی مردہ زمین کو زندہ کرنا ہے تو اس میں انفاقِ مال کا ہل چلائو اور اس میں سے ُ حب ِدنیا کی جڑوں کو کھود کھود کر نکال باہر کرو۔ یقین رکھو کہ جیسے جیسے تم اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے جائو گے ‘ ویسے ویسے تمہارے دل کی زمین میں ایمان کی فصل جڑیں پکڑتی چلی جائے گی۔ دنیا کی محبت کو میں عام طور پر گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دیا کرتا ہوں۔ جس طرح گاڑی کو بریک لگی ہو تو وہ حرکت میں نہیں آسکتی ‘ اسی طرح اگر دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیوست ہوچکی ہے تو اس میں اللہ کے راستے پر گامزن ہونے کی امنگ پیدا نہیں ہوسکتی۔ چناچہ دل کی گاڑی کو رضائے الٰہی کی شاہراہ پر رواں دواں کرنے کے لیے اس کی بریک سے پائوں اٹھانا بہت ضروری ہے۔ یعنی اس کے لیے مال کی محبت کو دل سے نکالنا ناگزیر ہے۔ اور اس محبت کو دل سے نکالنے کی ترکیب یہی ہے کہ اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔

539