سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 8 (آیات 49 سے 57 تک)

وَإِذْ نَجَّيْنَٰكُم مِّنْ ءَالِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوٓءَ ٱلْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ ۚ وَفِى ذَٰلِكُم بَلَآءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ ٱلْبَحْرَ فَأَنجَيْنَٰكُمْ وَأَغْرَقْنَآ ءَالَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ وَإِذْ وَٰعَدْنَا مُوسَىٰٓ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ ٱتَّخَذْتُمُ ٱلْعِجْلَ مِنۢ بَعْدِهِۦ وَأَنتُمْ ظَٰلِمُونَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ يَٰقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِٱتِّخَاذِكُمُ ٱلْعِجْلَ فَتُوبُوٓا۟ إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَٱقْتُلُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى ٱللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ ٱلصَّٰعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَٰكُم مِّنۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ ٱلْمَنَّ وَٱلسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا۟ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقْنَٰكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
8

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا، تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith najjaynakum min ali firAAawna yasoomoonakum sooa alAAathabi yuthabbihoona abnaakum wayastahyoona nisaakum wafee thalikum balaon min rabbikum AAatheemun

یہاں اس کربناک صورتحال کو ان کے پردہ ذہن پر دوبارہ اجاگر کیا جارہا ہے ، جس میں ان کے آباء و اجداد فرعون کے زمانے میں مبتلا تھے ۔ کیونکہ یہ لوگ ان بنی اسرائیل کی اولاد تھے جو اس عذاب میں مبتلا ہوئے ۔ تعذیب اور مظالم کی تصویر کشی کے بعد ، اللہ تعالیٰ ان کے سامنے وہ منظر بھی پیش فرماتے ہیں ، جس سے انہیں نجات دی گئی ۔ انہیں کہا جاتا ہے ذرا اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی ، جو تمہیں مسلسل عذاب میں مبتلا کئے ہوئے تھے ۔ يَسُومُونَ کے معنی ہیں ” ہمیشہ تمہیں عذاب میں رکھتے تھے۔ “ یہ لفاظ سام الماشیتہ ” اس نے مویشیوں کو ہمیشہ چرنے والا (سائمہ) بنایا۔ “ گویا فرعونیوں نے ان مظالم کو بنی اسرائیل کے لئے ایک قسم کی غذا بنادیا تھا ، جو انہیں مسلسل کھلائی جاتی تھی ۔ اس کے بعد اس عذاب کی ایک خاص قسم کا ذکر کیا جارہا ہے یعنی وہ مردوں کو ذبح کرتے تھے ۔ اور عورتوں کو زندہ رکھتے تھے تاکہ بنی اسرائیل کی قوت کم ہو۔

اس سے پہلے کہ بنی اسرائیل کی نجات کے واقعے کی تفصیلات پیش ہوں انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ مصیبت بنی اسرائیل کے لئے ابتلا عظیم تھی ۔ تاکہ ان کے احساس و شعور بلکہ ہر مسلمان کے احساس و شعور میں جو کسی مصیبت میں مبتلا ہو ، یہ بات بیٹھ جائے کہ اللہ کے بندوں پر مصائب کا آنا دراصل ان کے لئے ابتلا وامتحان ہوتا ہے ۔ انہیں آزمائشوں اور فتنوں میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ جو شخص ابتلا کی اس حقیقت کو سمجھتا ہے وہ سختی اور مصیبت سے فائدہ حاصل کرتا ہے ، وہ اپنے اس شعور کی وجہ سے مصائب وشدائد سے کچھ حاصل ہی کرلیتا ہے ۔ رنج والم میں مبتلا شخص اگر یہ جانتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جارہا ہے اور اس کے بعد اس سختی سے ، اسے کوئی فائدہ ہی پہنچنے والا ہے تو یہ رنج والم اس کے لئے بےفائدہ نہیں ہوتے ۔ جب آدمی اس تصور کے ساتھ مصیبت کی زندگی گزار رہا ہو تو اس کی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔ بالخصوص جبکہ ان دردناک تجربات کے دوران حاصل ہونے والے ثبات اور علم ومعرفت کو پیش نظر رکھا جارہا ہو۔

نیز جبکہ یہ احساس بھی ہو کہ اللہ کے ہاں اس مصیبت کا اجر محفوظ ہے اور اللہ کے سامنے سلسلہ عجز ونیاز بھی جاری ہو اور اس کی جانب سے نجات کی پوری امید بھی ہو اور اس کی رحمت و شفقت سے کسی قسم کی مایوسی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مصیبت بنی اسرائیل کے ذکر کے ساتھ ہی یہ فرمادیا

وَفِي ذَلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ ” اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ “

اس کے بعد بنی اسرائیل کے قصہ نجات کی تمہید شروع ہوتی ہے۔

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونوں کو غرقاب کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith faraqna bikumu albahra faanjaynakum waaghraqna ala firAAawna waantum tanthuroona

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ “ اس نجات کی تفصیلات سورة بقرہ سے پہلے نازل ہونے والی مکی سورتوں میں بالتفصیل آچکی تھی۔ یہاں ان لوگوں کو جو تفصیلات سے واقف تھے ، محض یاددہانی کے طور پر بتایا جارہا ہے ۔ مخاطب اس قصے کی تفصیلات کو جانتے تھے ، قرآن کریم سے یا اپنے محفوظ قصوں یا مذہبی کتابوں کی وساطت سے ، یہاں ان کے سامنے دوبارہ اس نجات کی تصویر کشی کی جارہی ہے تاکہ وہ اسے پردہ خیال پر لاکر اس سے متاثر ہوں ۔ انداز بیان تو دیکھئے کہ گویا خودمخاطب دیکھ رہے ہیں کہ دریا پھٹ رہا ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں دریا کو پار کررہے ہیں ۔ قرآن کریم کا یہ اسلوب بیان ، یعنی منظر کشی کے ذریعے مخاطب کو تاثر دینا ، وہ خاص معجزانہ اسلوب بیان ہے جو قرآن کے لئے مخصوص ہے ۔ اب گفتگوکا سلسلہ خروج بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے ۔ بنی اسرائیل مصر کی غلامی سے نجات پاچکے ہیں۔

اردو ترجمہ

یاد کرو، جب ہم نے موسیٰؑ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith waAAadna moosa arbaAAeena laylatan thumma ittakhathtumu alAAijla min baAAdihi waantum thalimoona

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کا بچھڑے کو خدا بنا لینا ، اور اس کی پوجا کرنا ، جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لئے کوہ طور پر گئے تھے ، سورة بقرہ سے پہلے نازل ہونے والی سورت ، سورت طہٰ میں بالتفصیل بیان ہوا ہے ۔ یہاں صرف انہیں اس کی یاددہانی کرائی جارہی ہے کیونکہ وہ اس کی تفصیلات سے خوب واقف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں یاد دلا رہے ہیں کہ ان کی یہ حالت تھی کہ نبی کے اوجھل ہوتے ہی بچھڑے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ حالانکہ نبی نے انہیں فرعونیوں کے دردناک عذاب سے محض اللہ تعالیٰ کے نام پر رہائی دلائی تھی ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ ” اور تم ظالم تھے۔ “ اس سے بڑاظالم اور کون ہوگا ، جو اللہ کی بندگی ترک کرکے اپنے پیغمبر کی وصیت کو بھلاکر ، ایک بچھڑے جیسے جسم کی پوجا شروع کردے ، حالانکہ اللہ ہی تھا ، جس نے اسے ان لوگوں کی غلامی سے نجات دی جو گائے کے بچھڑے کو مقدس سمجھتے تھے ۔

لیکن اس کے باوجود اللہ انہیں معاف کردیتے ہیں ۔ ان کے نبی کو کتاب ہدایت ، تورات دیتے ہیں جس میں جو کچھ لکھا تھا وہ حق و باطل کے درمیان فرقان تھا ، اس امید پر کہ شاید یہ لوگ گمراہی چھوڑ کر واضح حق کو قبول کرلیں۔

لیکن پھر بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ سنگدلی سے ان کی تطہیر کی جائے ، کیونکہ ان کی بگڑی ہوئی فطرت کو صرف ننگی تلوار اور سخت ترین عذاب کے ذریعے ہی سیدھا کیا جاسکتا تھا۔ ان کی فطرت کا تقاضا تھا کہ ان کے سزا بھی سخت ہو اور انوکھی بھی ۔ چناچہ حکم ہوا وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ ” یاد کرو ، جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو ! تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اوپرسخت ظلم کیا ہے ، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو ، اسی میں میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے ۔ “ اپنے آپ کو قتل کروتا کہ اسے بھی پاک کردے اور خود اپنے آپ کو بھی پاک کردے ۔ تم میں سے فرمانبردار محترم قتل کرے ۔ اس سخت عذاب اور شدید کفارہ کے بارے میں روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے ۔ بیشک یہ ایک جانگسل اور روح فرسا ذمہ داری تھی کہ بھائی بھائی کو قتل کرے ۔ گویا وہ اپنے آپ کو قتل کرے ۔ لیکن اس کے بگڑے ہوئے مزاج اور بزدلانہ طبیعت کی تربیت کے لئے یہ ضروری تھا ، کیونکہ ان کا مزاج ہر شر پر مائل تھا ، اور کسی ناپسندیدہ فعل کے کر گزرنے سے وہ نہ چوکتے تھے ۔ اگر وہ ناپسندیدہ امور سے رکنے کی صلاحیت رکھتے تو نبی کے غیر حاضر ہوتے ہی وہ بچھڑے کی پوجا پر نہ پل پڑتے۔ ان کا علاج یہ تھا ۔ کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے ۔ ان کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ اس قسم کا بھاری بھرکم تاوان ادا کریں تاکہ انہیں کچھ نفع ہو ، اور بگڑے ہوئے مزاج کی تربیت ہو۔

لیکن اس سزا کے بعد پھر اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ” اس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “

لیکن بنی اسرائیل بھی تو بنی اسرائیل تھے وہ موٹا دماغ رکھنے والے دنیا پرست اور عالم غیب اور آخرت کی نظروں سے اوجھل اور مستور تھا ۔ اس لئے انہیں صرف یہی سوجھتا کہ روئیت الٰہی کا مطالبہ کردیں اور جنہوں نے یہ مطالبہ کیا وہ کوئی عام لوگ نہ تھے ، بلکہ ان میں ستر مختار اور برگزیدہ لوگ تھے جنہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر پوری قوم سے چنا تھا اور ساتھ لے گئے تھے ۔ جس کی پوری تفصیل ، اس سے پہلے کی مکی آیات میں بیان ہوچکی ہے ۔ غرض بنی اسرائیل نے علانیہ اللہ کو دیکھنے سے پہلے ، ایمان لانے سے صاف صاف انکار کردیا۔ قرآن کریم یہاں بنی اسرائیل کے آباء و اجداد کی گستاخی کو نقل کرکے یہ بتانا چاہتا ہے کہ زمانہ قدیم سے یہ قوم ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا چلی آرہی ہے اور ان کی یہ قدیم ہٹ دھرمی اس ہٹ دھرمی کے بالکل مشابہ ہے جو اس وقت یہ لوگ نبی آخر الزمان ﷺ کے مقابلے میں اختیارکئے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ خود بھی ، اپنے آباء و اجداد کی طرح معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں اور سادہ دل مومنین کو بھی اس پر آمادہ کرنے کی سعی کررہے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سچائی کو آزمانے کے لئے معجزات کا مطالبہ کریں۔

اردو ترجمہ

مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma AAafawna AAankum min baAAdi thalika laAAallakum tashkuroona

اردو ترجمہ

یاد کرو کہ (ٹھیک اس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے) ہم نے موسیٰؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith atayna moosa alkitaba waalfurqana laAAallakum tahtadoona

اردو ترجمہ

یاد کرو جب موسیٰؑ (یہ نعمت لیتے ہوئے پلٹا، تو اُس) نے اپنی قوم سے کہا کہ "لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے" اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala moosa liqawmihi ya qawmi innakum thalamtum anfusakum biittikhathikumu alAAijla fatooboo ila bariikum faoqtuloo anfusakum thalikum khayrun lakum AAinda bariikum fataba AAalaykum innahu huwa alttawwabu alrraheemu

اردو ترجمہ

یاد کرو جب تم نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے) نہ دیکھ لیں اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آ لیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qultum ya moosa lan numina laka hatta nara Allaha jahratan faakhathatkumu alssaAAiqatu waantum tanthuroona

اللہ کی بیشمار نشانیاں ، اس کی نعمتیں بار بار کی عفو اور درگزر ، ان سب چیزوں کا ان کی اس مادی فطرت اور مادہ پرست طبیعت کے سامنے بالکل بےاثر تھیں ۔ ان سب نعمتوں کے باوجود یہ لوگ سخت جھگڑالو اور فریب کار تھے ، اور کسی سخت عذاب اور انتقام کے بغیر ، قبول حق کے لئے ہرگز تیار نہ تھے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی غلامی اور اس کے ظالمانہ نظام نے ان بیچاروں کی فطرت ہی کو بری طرح مسخ کرڈالا تھا ۔ یاد رہے کہ جب کوئی ظالمانہ اور جابرانہ نظام ایک طویل عرصے تک کسی قوم پر مسلط رہے گا تو وہ قوم اس کی فطرت سلیمہ کو بالکل مسخ کردیتا ہے اور اس سے تمام انسانی فضائل اور اچھی عادات ایک ایک کرکے ختم ہوجاتی ہیں ۔ غلامی سے انسانیت کے بنیادی فضائل اور اساسی عناصر ضائع ہوجاتے ہیں اور اقوام کے اندر غلاموں کی معروف اور گھٹیا صفات اور عادات پیدا ہوجاتی ہیں ، ایسے لوگوں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ جب ان کے سروں پر ڈنڈا مسلط ہو ، تو وہ رام ہوجاتے ہیں اور جونہی آزاد ہوتے اور آزادی کے سائے میں قوت اور آسائش پاتے تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ۔ جنوں کی سی سرکشی کرنے لگتے ہیں ۔ یہی حالت تھی بنی اسرائیل کی جو آج تک اس پر قائم ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے کفریہ کلمات کہتے ہیں اور ذلت وگمراہی کے گہرے گڑھے میں جاپڑتے ہیں ۔

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً ” یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے ، جب تک اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے ) نہ دیکھ لیں ۔ “

یہی وجہ ہے کہ ابھی وہ پہاڑ پر ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ، ان کے اس کافرانہ رویے کے بدلے یہ سزا دی ۔ فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ” اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ، ایک زبردست صاعقہ نے تم کو آلیا ۔ “

اردو ترجمہ

تم بے جان ہو کر گر چکے تھے، مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اٹھایا، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma baAAathnakum min baAAdi mawtikum laAAallakum tashkuroona

چناچہ اس کے بعد دوبارہ ان کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے ۔ انہیں دوبارہ زندگی کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور رب العزت کا شکر ادا کریں۔

یہاں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی وہ نعمت یاددلاتے ہیں ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ” مگر پھر ہم نے تم کو جلااٹھایا ، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ۔ “

اردو ترجمہ

ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنہیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا، وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathallalna AAalaykumu alghamama waanzalna AAalaykumu almanna waalssalwa kuloo min tayyibati ma razaqnakum wama thalamoona walakin kanoo anfusahum yathlimoona

اس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں وہ مراعات اور احسانات یاددلاتے ہیں ، جو اس نے ان پر سینائی کے چٹیل میدان میں کئے ، ان کو کھانے کے لئے مطلوبہ خوراک دی گئی ۔ جس کے لئے انہیں کوئی خاص محنت نہ کرنی پڑتی تھی ، بےکدوکاش وہ انہیں مل جاتی تھی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور تدبیر خاص سے انہیں صحرا کی تپش اور سورج کی جھلسادینے والی گرمی سے بچایا۔

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ” ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا ، من سلویٰ کی غذا تمہارے لئے فراہم کی اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں ، انہیں کھاؤ ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا وہ ہم پر ظلم نہ تھا ، انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا۔ “

روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بادل کا ایک ٹکڑا ان کے سروں پر قائم رکھا تاکہ وہ گرمی سے محفوظ رہیں ۔ صحرا کا موسم ایسا ہوتا ہے کہ اگر بادل اور بارش نہ ہو تو وہ ایک کھولتی ہوئی جہنم کے مانندہوتا ہے ۔ اس سے آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر صحرا میں بارش ہوجائے اور مطلع ابرآلود ہو تو اس کا موسم تروتازہ اور نہایت خوشگوار ہوتا ہے ۔ جس میں جسم و روح دونوں فرحت محسوس کرتے ہیں ۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے من کا انتظام فرمایا ، جو درختوں پر ہوتا تھا اور شہد کی طرح میٹھا ہوتا تھا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان کی خوراک کے لئے سلویٰ پرندے کی وافر مقدار پیدا کردی اور ان کے گھروں کے قریب بڑی مقدار میں پائے جاتے تھے ۔ ان دوچیزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے ایسے لذیذ کھانے کا بندوبست کیا جس کی نظیر دنیا نہ تھی ۔ رہائش کے لئے مقام کو خوشگوار بنایا اور ان پاکیزہ چیزوں کو ان کے حلال کیا ۔ لیکن اب ذرا اس قوم کی روش تو دیکھئے ! کیا اب بھی وہ شکر گزار بنتی ہے یا نہیں ؟ ہدایت پاتی ہے یا نہیں ؟ آیت کا آخری حصہ صاف صاف نشان دہی کررہا ہے کہ انہوں نے ان تمام نعمتوں کا انکار کیا اور ظلم کا ارتکاب کیا لیکن یہ ظلم خود اپنے اوپر تھا۔

وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ” تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا وہ ہم پر ظلم نہ تھا ، انہوں نے اپنے ہی اوپر ظلم کیا۔ “

اس کے بعد بنی اسرائیل کے انحراف ، انکار حق اور معصیت پر مسلسل اصرار کی یہ طویل داستان اور آگے بڑھتی ہے۔

8