سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 41 (آیات 249 سے 252 تک)

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِٱلْجُنُودِ قَالَ إِنَّ ٱللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّى وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُۥ مِنِّىٓ إِلَّا مَنِ ٱغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِيَدِهِۦ ۚ فَشَرِبُوا۟ مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُۥ هُوَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ قَالُوا۟ لَا طَاقَةَ لَنَا ٱلْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِۦ ۚ قَالَ ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُوا۟ ٱللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةًۢ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ وَلَمَّا بَرَزُوا۟ لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِۦ قَالُوا۟ رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَٰفِرِينَ فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُۥدُ جَالُوتَ وَءَاتَىٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ وَٱلْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُۥ مِمَّا يَشَآءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ ٱللَّهِ ٱلنَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ ٱلْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى ٱلْعَٰلَمِينَ تِلْكَ ءَايَٰتُ ٱللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِٱلْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ ٱلْمُرْسَلِينَ
41

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اُس نے کہا: "ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے جواس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے، ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے، تو پی لے" مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے، تو اُنہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: "بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma fasala talootu bialjunoodi qala inna Allaha mubtaleekum binaharin faman shariba minhu falaysa minnee waman lam yatAAamhu fainnahu minnee illa mani ightarafa ghurfatan biyadihi fashariboo minhu illa qaleelan minhum falamma jawazahu huwa waallatheena amanoo maAAahu qaloo la taqata lana alyawma bijaloota wajunoodihi qala allatheena yathunnoona annahum mulaqoo Allahi kam min fiatin qaleelatin ghalabat fiatan katheeratan biithni Allahi waAllahu maAAa alssabireena

یہاں پہلے قدم پر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت کا انتخاب کیوں فرمایا تھا۔ وہ ایک سخت معرکہ سر کرنے جارہے تھے ، لیکن ان کے ساتھ جو فوج تھی وہ شکست خوردہ لوگوں پر مشتمل تھی ۔ یہ لوگ اپنی طویل تاریخ میں بار بار ہزیمت اٹھاچکے تھے ۔ اور بار بار ذلت اٹھانے کے خوگر ہوگئے تھے ۔۔ اور مقاتلہ ایک فاتح اور غالب قوم کی فوج کے ساتھ تھا ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ اس ظاہریہ شان و شوکت والی فوج کے مقابلے میں ایک ایسی فوج لے کر جائیں جن کے ضمیر قوت ، پوشیدہ قوت سے بھرے ہوئے ہوں ، یہ پوشیدہ قوت ، قوت ارادہ ہی ہوسکتی ہے۔ اتنا پختہ ارادہ کہ وہ ہر خواہش اور ہر رجحان کو ضبط کرسکے ۔ وہ محرومیت اور شدائد کے مقابلے میں چٹان کی طرح کھڑا ہوسکے ۔ جو ضروریات اور لازمی حاجات سے بھی بلند ہوجائے ۔ وہ اطاعت حکم کو ترجیح دے اور اس سلسلے میں مشکلات اور تکلیفات کو انگیز کرے ۔ آزمائش کے بعد آزمائش سے گزرتا چلاجائے ، لہٰذا اس چنے ہوئے ، اللہ کے پسند کئے ہوئے کمانڈر کا فرض تھا کہ وہ اپنی فوج کی قوت ارادی کو آزمائے ۔ اس کی ثابت قدمی اور صبر کو پرکھے کس حدتک وہ خواہشات نفس اور مرغوبات کے مقابلے میں ٹھہر سکتے ہیں ۔ کس قدر وہ ضروریات زندگی سے محرومی اور مشکلات برداشت کرسکتے ہیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ کمانڈر نے یہ حکم فوج کو اس وقت دیا جبکہ وہ سخت پیاسے تھے ۔ پیاس سے نڈھال ہورہے تھے ۔ یہ جاننے کے لئے کہ کون ہے جو صبر کرتا ہے اور کون ہے جو پیٹھ پھیر کر واپس ہوجاتا ہے ، الٹے پاؤں پھرتا ہے اور کنج عافیت میں بیٹھ جاتا ہے چناچہ اس مختا رکمانڈر کی فراست صحیح ثابت ہوئی ۔

فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلا قَلِيلا مِنْهُمْ ” ایک گروہ قلیل کے سب اس سے سیراب ہوئے ۔ “ انہوں نے پیا لیکن خوب پیٹ بھر کر حالانکہ ان کو اجازت یہ دی گئی تھی کہ وہ صرف ہاتھ سے ایک آدھ چلو بھر کر پی لیں ۔ اس قدر کہ پیاس کی تیزی ختم ہوجائے ۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ وہ واپس ہونا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت نے گویا ہتھیار ڈال دئیے ۔ پیاس کے سامنے ، اور پیٹھ پھیرلی دشمن سے ، اس لئے یہ جدا ہوگئے ۔ یہ اس قابل ہی نہ تھے کہ طالوت اور اس کے ساتھیوں کے ذمہ جو مہم سر کرنی تھی اس میں ان کو شریک کیا جائے ۔ بہتری اسی میں تھی ۔ دانشمندی یہی تھی کہ وہ اس فوج سے الگ ہوجائیں جس نے فی الوقعہ جنگ لڑنی ہے ۔ یہ دراصل کمزوری ، شکست اور ناکامی کا بیج تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج کی کامیابی عظیم تعداد کی وجہ سے نہیں ہوا کرتی بلکہ پختہ ارادے اور مضبوط ایمان ، مضبوط دل اور مستقبل مزاجی سے ہوا کرتی ہے۔

اس تجربہ سے معلوم ہوا کہ صرف چھپی ہوئی نیت ہی کافی نہیں بلکہ عملی تجربہ بھی ضروری ہے ۔ میدان جنگ میں قدم رکھنے سے پہلے اس راہ کے نشیب و فراز سے واقفیت ضروری ہے ۔ اس تجربے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو قائد چنا تھا وہ کس قدر اولوالعزم تھا ۔ اس کی ہمت کی بلندی تو دیکھو کہ اکثر لوگوں نے اعلان جہاد کے وقت ہی انکار کردیا لیکن اس کا ارادہ متزلزل نہ ہوا۔ پھر پہلے تجربہ ہی میں اس کی فوج کی اکثریت ناکام رہی اور انہوں نے پیٹھ پھیرلی ۔ لیکن وہ ثابت قدم رہا اور اپنی راہ پر گامزن رہا ۔

یہاں پہلے تجربے نے جیش طالوت کو اگرچہ چھان کر رکھ دیا ، کمزور لوگ اگرچہ الگ ہوگئے تھے لیکن اب بھی تجربات کا سلسلہ جاری ہے :

اب یہاں آکر فی الواقعہ وہ ایک قلیل تعداد میں رہ گئے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ دشمن کے پاس ایک عظیم قوت ہے ۔ جالوت جیسا کمانڈر اس کی قیادت کررہا ہے ۔ وہ مومن ہیں انہوں نے اپنے نبی کے ساتھ جو کیا تھا ، اس پر وہ اب بھی قائم ہیں ۔ لیکن اب وہ اپنی آنکھوں سے حالات کو دیکھ رہے ہیں ، وہ صدق دل سے محسوس کررہے ہیں کہ وہ اس عظیم قوت کے ساتھ مقابلے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ اب یہ آخری اور فیصلہ کن تجربہ ہے ۔ یہ تجربہ کہ کون دنیا کی ظاہری قوت پر بھروسہ کرتا ہے اور کون ہے جو ظاہری قوت کے مقابلے میں اللہ کی عظیم قوت پر بھروسہ کرتا ہے۔ ایسے معاملات میں صرف وہ لوگ ہی ثابت رہ سکتے ہیں جن کا ایمان مکمل ہوچکا ہو ، ان کے دل اللہ تک پہنچ چکے ہوں ۔ ان کی قدریں بدل چکی ہوں ۔ وہ خیر وشر کا امتیاز اپنے ایمان کی روشنی میں متعین کرتے ہوں ، ان ظاہری حالات کی روشنی میں نہیں جن میں عوام الناس گرفتارہوتے ہیں۔

یہاں آکر اب وہ مٹھی بھرگنے چنے اہل ایمان کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ وہ لوگ جن کی تعداد کا یقین ایمان کی روشنی میں ہوتا ہے۔ جن کا پیمانہ ظاہر بیں کے پیمانوں سے مختلف ہوتا ہے :

یہ ہے اصول ان لوگوں کا جنہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ، کہ بار بار ایسا ہوا ہے کہ کم لوگ کثیر تعداد پر غالب آگئے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ مصائب وشدائد کے مختلف مراحل سے گزرکر ، کٹھن حالات سے دوچار ہوکر ، مقام برگزیدگی اور مقام عالی پر فائز ہوچکے ہوتے ہیں اور غالب اس لئے ہوتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ اس عظیم قوت تک رسائی پاچکے ہوتے ہیں ، جو تمام قوتوں کا سرچشمہ ہوتی ہے ، تمام قوتوں پر غالب ہوتی ہے جس کے احکام نافذ ہوتے ہیں جو اپنی مخلوق کے مقابلے میں جبار ہے ، جو دنیا کے جباروں کو پاش پاش کردیتی ہ ہے ، جو ظالموں کو ذلیل کردیتی ہے اور بڑے بڑے گردن فرازوں پر غلبہ پالیتی ہے ۔

ان کو یہ کامیابی اللہ کے اذن سے ہوتی ہے ، خود ان میں کوئی کمال نہیں ہوتا ۔ اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی ذات برترہوتی ہے ۔ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ اس لئے کہ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہوتا ہے ۔ وہ اس لئے کامیاب ہوتے ہیں کہ اذن الٰہی ایسا ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں کہہ کر یہ مٹھی بھر لوگ ثابت کردیتے ہیں کہ یہ ہیں وہ لوگ جو معرکہ حق و باطل کے لئے چن لئے گئے ہیں۔

اب ہم اس کہانی کو لے کر ذرا آگے بڑھتے ہیں ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نہایت ہی قلیل افراد پر مشتمل ایک گروہ ہے جسے یہ یقین ہے کہ وہ ایک دن اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ۔ اسے اس ملاقات کا پورا یقین ہے اور یہی یقین اس کی اس مصابرت کا سرچشمہ ہے ۔ یہ گروہ اپنی قوت حکم الٰہی اور اذن اللہ میں تلاش کرتا ہے ۔ اسے اللہ پر پورا بھروسہ ہے ، اس لئے اسے اپنی کامیابی کو پورا یقین ہے اور یہ گروہ ان لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے جو اللہ کے ہاں صابرین کہلاتے ہیں ۔ غرض یہ گروہ جو صابر ہے ثابت قدم ہے اور غیر متزلزل ، ضعف و قلت کے باوجود خائف نہیں ۔ یہ گروہ اچانک میدان معرکہ میں ایک عظیم قوت کے مقابلے میں کود پڑتا ہے اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے ۔ یہ تجدید عہد کرتا ہے ۔ اس کے دل اللہ تک جاپہنچتے ہیں ، صرف اللہ سے نصرت مانگتے ہیں اور اس ہولناک معرکے میں کود پڑتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے، تو انہوں نے دعا کی: "اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walamma barazoo lijaloota wajunoodihi qaloo rabbana afrigh AAalayna sabran wathabbit aqdamana waonsurna AAala alqawmi alkafireena

یہ ہے صحیح طریقہ ” اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر۔ “ یہ ایسی تعبیر ہے جس سے فیضان صبر کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اللہ کی طرف سے فیضان اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک برتن بھر کر ان پر انڈیل دیا جائے اور ان کا پیالہ دل اس سے لبریز ہوجائے ۔ اس کے نتیجے میں ان پر طمانیت اور سکینت نازل ہوجاتی ہے اور وہ اس ہولناک معرکے کے تیارہوجاتے ہیں ۔” ہمارے قدم جمادے۔ “ اس لئے کہ قدم اس کے دست قدرت میں ہیں ۔ وہی ہے جو ان کو اپنی جگہ ثابت کرتا ہے کہ متزلزل نہ ہوں ، پھسلیں نہیں ، جگہ چھوڑ کر نہ جائیں ” اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب فرما۔ “ موقف واضح ہے ایمان کا مقابلہ کفر کے ساتھ ہے حق باطل کے مقابلے میں صف آراء ہے اسی لئے اللہ کو پکارا جاتا ہے کہ اللہ اپنے دوستوں کی مددفرما ، جو تیرے کافر دشمنوں کے مقابلے میں صف آراء ہیں ۔ ان لوگوں کے ضمیر میں کوئی شک وشبہ نہیں ، کوئی خلجان نہیں ، ان کی فکر میں کوئی کھوٹ نہیں اور نصب العین کی صحت اور طریق کار کے تعین میں کوئی شک نہیں ۔

اردو ترجمہ

آخر کا ر اللہ کے اذن سے اُنہوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤدؑ نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا، اس کو علم دیا اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اِس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fahazamoohum biithni Allahi waqatala dawoodu jaloota waatahu Allahu almulka waalhikmata waAAallamahu mimma yashao walawla dafAAu Allahi alnnasa baAAdahum bibaAAdin lafasadati alardu walakinna Allaha thoo fadlin AAala alAAalameena

نتیجہ وہی ہوا جس کے وہ منتظر تھے ، جس کا انہیں پوری طرح یقین تھا فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِآخر کار انہوں نے کافروں کو مار بھگایا ” اللہ کے اذن سے “ کا لفظ استعمال کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ فتح ونصرت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اور مسلمانوں کو اس معاملے میں اپنا ذہن اچھی طرح صاف کرلینا چاہئے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے اذن سے ہوتا ہے ، اس قوت کی منشا کے مطابق ہوتا ہے جو اس کائنات کو چلارہی ہے ۔ مومن تو دراصل قدرت کا ایک ہاتھ ہیں ۔ ان کے ذریعے اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جو چاہتا ہے ان کے ذریعے نافذ کرتا ہے ۔ وہ خود مختار نہیں ہیں نہ ان کے ہاتھ میں کوئی قدرت ہے ۔ نہ ان کے پاس کوئی طاقت ہے ۔ اللہ ان کے ذریعے اپنی مشئیت نافذ کرتا ہے ۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے ، ان کے ذریعے وہ چیز صادرہوجاتی ہے ۔ یہ ہے وہ حقیقت جو مرد مومن کے دل کو ایمان ، اطمینان اور یقین و سکون سے بھردیتی ہے ۔ مومن اللہ کا غلام ہے ۔ اللہ نے اسے اہم رول ادا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ اور یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اس اہم روک کے لئے مومنین کا انتخاب کیا تاکہ وہ اس قدر اہم رول ادا کرے ۔ یعنی وہ اللہ کی تقدیر کو حقیقت بنانے والا ہو۔ اس اہم رول کے لئے اسے چن لینے کے بعد اللہ مزید فضل وکرم کا اظہار یوں کرتا ہے کہ یہ اہم رول ادا کرنے کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس کا ثواب بھی عطا کرتا ہے ۔ اگر اللہ کا یہ کرم نہ ہوتا تو ہرگز ایسا نہ کرتا ۔ اور اگر اللہ کی کرم نوازی نہ ہوتی تو اس پر وہ ثواب نہ دیتا ۔ پھر مرد مومن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ضرور اپنی منزل مقصود تک پہنچے گا ۔ اس کا مقصد پاک ہوتا ہے ۔ اس کا طریقہ کار پاکیزہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ سے اس کی کوئی ذاتی غرض وابستہ نہیں ہوتی ۔ وہ تو اللہ کی مشیئت کا نافذ کنندہ ہوتا ہے ۔ اس کے ارادے کا تابع ہوتا ہے اور اس مقام کا وہ مستحق بھی اس لئے ہوا کہ اس کی نیت صاف ہے ۔ وہ اطاعت کا عزم صمیم کئے ہوئے ہے اور پر خلوص طریقے سے اللہ کی طرف متوجہ ہے۔

قرآن مجید حضرت داؤد کا نام لے کر کہتا ہے وَقَتَلَ دَاوُدُ جَالُوتَ ” اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا “ داؤد بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا سا لڑکا تھا ۔ جبکہ جالوت ایک شہنشاہ اور خوفناک قائد تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت تھی کہ وہ مسلمانوں کو موقع پر ہی یہ سبق دے دے کہ معاملات ہمیشہ اس طرح نہیں چلتے رہتے جس طرح بظاہر نظر آتے ہیں ۔ بلکہ معاملات کا فیصلہ حقائق کے مطابق ہوتا ہے۔ اور حقائق کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ واقعات کی قدریں اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ۔ مومنین کا فرض یہ ہے کہ ان کے ذمے جو ڈیوٹی ہے وہ بس اسے ادا کردیں۔ اللہ کے ساتھ انہوں نے جو عہد باندھا ہوا ہے اسے پورا کردیں ، اس کے بعد فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیں ، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوگا۔ دیکھئے اللہ نے چاہا کہ اس جبار اور طاقتور بادشاہ کا کام اس چھوٹے سے نوجوان کے ہاتھوں تمام کردے ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا ، تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ وہ جبار وقہار لوگ جن سے ضعفاء ڈرتے رہتے ہیں ، جب اللہ چاہتا ہے کہ وہ ختم ہوجائیں تو ایسے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں ۔ ایک دوسری پوشیدہ حکمت یہ تھی کہ مشیئت الٰہی میں یہ بات طے شدہ تھی کہ طالوت کے بعد داؤد نظام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اس کے بعد داؤد کے بیٹے سلیمان تک یہ نظام پہنچے تاکہ سلیمان (علیہ السلام) اور داؤد (علیہ السلام) کا دور بنی اسرائیل کا سنہری دور بنے ۔ اس لئے کہ بنی اسرائیل محض اسلامی نظریہ حیات لے کر اٹھے ۔ بڑے عرصہ تک وہ گمراہی کی حالت میں پھرتے رہے ۔ بار بار نقص عہد اور نافرمانی کرتے رہے ، لیکن جب بھی انہوں نے اسلامی نظریہ حیات کے مطابق انقلاب برپا کیا تو بطور جزاء اللہ تعالیٰ نے انہیں بام عروج پر پہنچایا وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ” اور اللہ نے اسے سلطنت و حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا اس کو علم دیا۔ “

حضرت داؤد بیک وقت نبی اور بادشاہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو زرہ اور دوسرا سامان جنگ کی تیاری کی مہارت دی تھی ، جن کی تفصیلات قرآن مجید نے دوسری جگہ دی ہیں ۔ یہاں اس قصے کو لانے کا مقصد چونکہ اور ہے اس لئے یہاں تفصیلات ترک کردی ہیں ۔

جب بات یہاں تک پہنچ گئی اور اعلان ہوگیا کہ فتح نظریہ حیات اور پختہ عقائد کی ہوگی ، مادیت کو شکست ہوگی ، کثرت تعداد کو نہیں بلکہ ہمت بلند کو کامرانی ہوگی ۔ اس لئے یہاں وہ بلند حکمت بیان کردی جاتی ہے ۔ وہ فلسفہ بتایا جاتا ہے ، جو حق و باطل کے اس ٹکراؤ کے پس پشت کارفرما ہے۔ اللہ نے جہاد و قتال اس لئے نہیں فرض کیا کہ مال غنیمت حاصل کیا جائے ، لوٹ مار کی جائے ، دنیا میں عزت و برتری حاصل کی جائے ، بلکہ اسلام کا فلسفہ جنگ یہ ہے کہ یہ جنگ دراصل بھلائی اور شر کا ٹکراؤ ہے ۔ یہ اس لئے کہ کرہ ارض پر حق وصداقت اور خیر کو غلبہ حاصل ہو اور شر مغلوب ہو۔ اس لئے ہے کہ طاقت کو اصلاح فی الارض کے لئے استعمال کیا جائے ۔

اب اشخاص پس منظر میں چلے جاتے ہیں ۔ واقعات اختتام پذیر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ایک مختصر فقرے میں ، اس کرہ ارض پر مختلف طاقتوں کے ٹکراؤ ، مختلف قوتوں کی باہمی منافست اور زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کی سعی اور جدوجہد کا عظیم فلسفہ بیان کردیتے ہیں ۔ اب اسکرین پر کرہ ارض کا وسیع و عریض میدان ہے ۔ اس میدان میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے ۔ دھکم پیل شروع ہے ، کھینچا تانی شروع ہے ، مختلف لوگوں کے سامنے مختلف مقاصد ہیں اور حصول مقاصد کے لئے ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ہر شخص کی یہ کوشش ہے کہ وہ گیند لے جائے لیکن سب کی ڈوری اللہ جل شانہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جسے چاہتا ہے آگے بڑھا دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے ڈوری کھینچ لیتا ہے ۔ اس اژدہام میں جو لوگ بھلائی اصلاح اور ترقی کے لئے کوشش کررہے ہیں آخر کار نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ جاتے ہیں اور دست قدرت تمام اہل باطل کی لگام کھینچ لیتا ہے۔

اگر لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نہ ہوتے اور ان کا مزاج ، جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے ایک دوسرے سے مختلف نہ ہوتا ، ان کے ظاہری رجحانات اور ان کے قریبی مقاصد باہم متعارض نہ ہوتے ، تو زندگی باسی ہوکر متعفن ہوجاتی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے مزاج مختلف بنائے تاکہ وہ اپنی تمام قوتوں کو کام میں لاکر ایک دوسرے کی مزاحمت کریں ، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی سعی کریں وہ سستی اور جمود کو ختم کریں ، اپنی خفیہ قوتوں کو بیدار کریں ، ہر وقت چوکنے رہیں ۔ زمین کے خفیہ ذخائر کی تلاش کریں ۔ زمین کی خفیہ قوتوں اور پوشیدہ اسرار کو دریافت کریں اور آخر کار اصلاح ، بھلائی اور ترقی کا دور دورہ ہو۔

لیکن یہ سارا کام اللہ تعالیٰ کس طرح کرتے ہیں ؟ ایک صالح ، ہدایات یافتہ اور مخلص جماعت کے قیام سے ، جو اس سچائی سے واقف ہو ، جسے اللہ تعالیٰ نے سچائی قرار دیا ہو ، وہ اس طریقہ کار سے بھی واقف ہو ، جو طریقہ کار اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے ۔ اسے یہ یقین ہو کہ وہ اس کرہ ارض پر سچائی کو غالب کرنے اور باطل کا مقابلہ کرنے کے لئے من جانب اللہ مامور ہے ۔ اسے یہ یقین ہو کہ اس کی نجات اسی میں ہے کہ وہ بلند رول ادا کرے ۔ وہ صرف اسی صورت میں نجات پاسکتی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے مشکلات برداشت کرے ۔ اور یہ سب کچھ وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اور حصول رضائے الٰہی کے لئے کرے۔

جب ایسی جماعت قائم ہوتی ہے اور جدوجہد کرتی ہے تو پھر امر ونہی نافذ ہوتا ہے ، اللہ کی تقدیر ظاہر ہوتی ہے ۔ سچائی ، بھلائی اور اصلاح کا کلمہ بلند ہوجاتا ہے۔ اس کشمکش ، باہمی منافست اور باہمی مدافعت کا حاصل اس قوت کے ہاتھ آتا ہے جو اس کرہ ارض پر بھلائی اور تعمیر کی علمبردار ہوتی ہے ، وہ اس کشمکش کے نتیجے میں آگے بڑھتے ہیں اور ان کو درجات کمال کی انتہاؤں کو پہنچادیا جاتا ہے جو ان کے لئے مقرر اور مقدر تھا ۔ سب سے آخر میں ، اس پورے قصے پر ایک تعقیب ہے :

اردو ترجمہ

یہ اللہ کی آیات ہیں، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو، جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka ayatu Allahi natlooha AAalayka bialhaqqi wainnaka lamina almursaleena

یہ آیات عالی مقام ہیں ، دوررس مقاصد کی حامل ہیں ، اور اللہ تعالیٰ خود ان کو اپنے نبی کو پڑھ کر سناتے ہیں نَتْلُوهَا عَلَيْكَ

” ہم خود تم کو سنا رہے ہیں ۔ “ ہم خود سنا رہے ہیں ۔ کس قدر عظیم بات ہے ۔ انتہائی مہیب حقیقت ہے یہ ۔ سوچنے کی بات ہے کہ خود رب ذوالجلال ان آیات کو پڑھ کر سنارہا ہے اور جو بالحق سچائی کے ساتھ ۔ خود ذات باری یہ آیات سنارہی ہے جسے سنانے کا حق ہے ۔ جس کے حکم پر یہ آیات نازل ہورہی ہیں ، جس کے حکم سے یہ انسانوں کا دستور العمل بنی ہیں ۔ اللہ کے سوا یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ اس لئے جو شخص انسانوں کے لئے از خود کوئی نظام تجویز کرتا ہے وہ مفتری ہے ۔ وہ حق تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے۔ وہ خود اپنے ظلم کررہا ہے اور بندوں پر بھی ظلم کررہا ہے ۔ وہ ایک ایسا دعویٰ کررہا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے ۔ وہ باطل پرست ہے اور اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے ۔ اطاعت تو امرالٰہی کے لئے مخصوص ہے ۔ پھر اس کی اطاعت کی جانی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت لیتا ہے ۔ اس کے سوا کوئی مستحق اطاعت نہیں ہے۔

وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ” تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو ، جو رسول بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ “ یہی وجہ ہے باری تعالیٰ خود تم پر آیات کی تلاوت فرماتے ہیں اور پوری انسانی تاریخ کے تمام تجربات سے تمہیں آگاہ کررہے ہیں ۔ قافلہ اہل ایمان کے تمام تجربے ، تمام مراحل کے نشیب و فراز تمہیں بتائے جارہے ہیں اور تمام مرسلین کی میراث تمہارے حوالے کی جارہی ہے ۔

چناچہ یہاں یہ سبق ختم ہوجاتا ہے ، جو تحریکی تجربات کیے ذخیرہ سے بھر پڑا ہے ۔ اس سبق پر فی ظلال القرآن کا یہ دوسرا حصہ بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ جس میں تحریک اسلامی کو مختلف سمتوں میں لے جایا گیا اور مختلف میدانوں اسے پھرایا گیا ۔ اور اسے اس عظیم رول کے لئے تربیت دی گئی جس کو اس نے کرہ ارض پر ادا کرنا تھا ، جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا نگران مقرر کیا اور اسے امت وسط قرار دیا تاکہ وہ زمانہ آخر تک لوگوں کے لئے اس ربانی نظام زندگی کی حامل ہو۔

41