سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 40 (آیات 246 سے 248 تک)

أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلْمَلَإِ مِنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ مِنۢ بَعْدِ مُوسَىٰٓ إِذْ قَالُوا۟ لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ٱبْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَٰتِلْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِتَالُ أَلَّا تُقَٰتِلُوا۟ ۖ قَالُوا۟ وَمَا لَنَآ أَلَّا نُقَٰتِلَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَٰرِنَا وَأَبْنَآئِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ ٱلْقِتَالُ تَوَلَّوْا۟ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ٱللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوٓا۟ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ ٱلْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِٱلْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ ٱلْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُۥ بَسْطَةً فِى ٱلْعِلْمِ وَٱلْجِسْمِ ۖ وَٱللَّهُ يُؤْتِى مُلْكَهُۥ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ءَايَةَ مُلْكِهِۦٓ أَن يَأْتِيَكُمُ ٱلتَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ ءَالُ مُوسَىٰ وَءَالُ هَٰرُونَ تَحْمِلُهُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
40

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر تم نے اُس معاملے پر بھی غور کیا، جو موسیٰؑ کے بعد سرداران بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا؟ اُنہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہوگا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو وہ کہنے لگے : بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راہ خدا میں نہ لڑیں، جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا، تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے، اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila almalai min banee israeela min baAAdi moosa ith qaloo linabiyyin lahumu ibAAath lana malikan nuqatil fee sabeeli Allahi qala hal AAasaytum in kutiba AAalaykumu alqitalu alla tuqatiloo qaloo wama lana alla nuqatila fee sabeeli Allahi waqad okhrijna min diyarina waabnaina falamma kutiba AAalayhimu alqitalu tawallaw illa qaleelan minhum waAllahu AAaleemun bialththalimeena

کیا تو نہیں دیکھا ، گویا یہ ابھی ابھی کا واقعہ ہے اور دیکھا ہوا منظر ہے ۔ بنی اسرائیل کے سردار جمع ہوئے ہیں ۔ ان کے اکابرین اور اہل الرائے کا ایک عظیم اجتماع ہے ۔ وہ اپنے نبی وقت کے پاس آتے ہیں ۔ سیاق کلام میں نبی کا نام نہیں لیا جاتا ، اس لئے کہ مقصد قصہ گوئی نہیں ہے ۔ اگر نبی کا نام لیا جائے تو اس سے قصے کی مقصدیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوجاتا۔ بنی اسرائیل میں نبیوں کی کثرت تھی ان کی طویل تاریخ میں بیشمار نبی مبعوث ہوئے ۔ غرض یہ سردار اور یہ امراء جمع ہیں ۔ وہ نبی وقت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ان کے اوپر ایک بادشاہ مقرر فرمادیں ، جس کی کمانڈ میں وہ فی سبیل اللہ جہاد کریں ۔ اس جنگ کے لئے وہ فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کررہے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ جنگ کی نوعیت کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان نے کروٹ لی ہے ۔ ایمان پیدا ہوکر کھڑا ہوگیا اور اپنے آپ کو جھاڑ کر اقدام کے تیار ہوگیا ۔ ان کا یہ شعور زندہ ہوگیا کہ وہ تو ایمان اور نظریہ حیات کے حاملین ہیں ۔ وہ تو حق اور سچائی کے علمبردار ہیں ۔ ان کے دشمن ضلالت ، کفر اور باطل کے علمبردار ہیں ۔ ان کے سامنے اب ایک منزل ہے ، جہاد فی سبیل اللہ کی منزل۔

غرض مقصد کی یہ وضاحت ، مقصد کا تعین اور مقصد کی قطعیت سے کامرانی اور فتح مندی کی نصف منزل طے ہوجاتی ہے ۔ اس لئے مومن کے ذہن میں سب سے پہلے یہ بات واضح ہوکر بیٹھ جانی چاہئے کہ وہ حق پر ہے اور اس کا دشمن باطل پر ہے ۔ اس کے شعور میں مقصد متعین ہو ۔ خالص اللہ کے لئے ہو ۔ اس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو اور نہ ہی اس میں کوئی التباس ہو جس کی وجہ سے اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کدھر جارہا ہے ؟

نبی نے چاہا کہ وہ نیت کی پختگی اور عزم کی سچائی کے بارے میں تسلی کرلیں ۔ معلوم کرلیں کہ آیا وہ اس قدر عظیم ذمہ داری کے اٹھانے کا بل بوتا بھی نہیں رکھتے ہیں یا نہیں ۔ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں ۔ سوچ سمجھ کر مطالبہ کررہے ہیں : قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلا تُقَاتِلُوا ” نبی نے پوچھا ! کہیں ایسا تو نہ ہوگا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو۔ “ آیا ایسا ممکن ہے کہ تم پر جہاد فرض کرلیا جائے اور تم اس سے پیٹھ پھیر لو ؟ اب تم تو آزاد ہو ۔ جہاد نہ کرو۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ تمہارے اس مطالبے کو مان لیتے ہیں اور تم کو جہاد کا حکم دیا جاتا ہے تو پھر یہ تم پر فرض ہوجائے گا ۔ پھر تم انکار نہ کرسکوگے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کو ایسا ہی سوال کرنا چاہئے کہ وہ معاملہ کی تاکید و توثیق کرے ۔ انبیاء کے کلمات اور ان کی باتیں مذاق نہیں ہوا کرتیں ۔ ان کے احکام میں نہ ترددہوتا ہے اور نہ ہی ذرہ بھر تاخیر ہوسکتی ہے۔

نبی وقت کے اس استفسار پر ان کا جوش و خروش عروج تک پہنچ گیا ۔ سردار نے بتایا کہ جنگ ناگزیر ہوچکی ہے ۔ اس کے سوا کوئی چارہ کا رہی نہیں رہا ہے۔ درستی حالات کا مدار اب صرف جہاد اور جہاد فی سبیل اللہ پر ہے۔ جنگ متعین ہے اور اس میں تردد کی کوئی گنجائش نہیں قَالُوا وَمَا لَنَا أَلا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ” کہنے لگے : بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم راہ اللہ میں نہ لڑیں جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کردئیے گئے ہیں ؟ “ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں بات واضح ہے ۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ جنگ ضروری ہے ۔ ان کے دشمن اللہ کے دشمن ہیں ۔ اللہ کے دین کے دشمن ہیں۔ انہیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے ۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا ہے ۔ اس لئے ان دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے ۔ بلکہ ان کے سامنے واحد راستہ ہی یہ ہے کہ وہ ان دشمنان حق کے ساتھ جنگ کریں ۔ اس لئے اس سلسلے میں ان سے بار بار پوچھنا اور تکرار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ تو عزم صمیم ہے اور ہم یہ عزم کئے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ وقتی بہادری ، اور حالات امن کی یہ جرأت مندی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی ۔ قرآن مجید جلہد ہی تصویر کا دوسرا رخ سامنے کردیتا ہے فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلا قَلِيلا مِنْهُمْ ” مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے۔ “

یہاں آکر بنی اسرائیل کی ایک اہم خصوصیت معلوم ہوجاتی ہے ۔ اپنی تاریخ میں وہ سخت وعدہ خلاف رہے ہیں ، عہد کرکے فوراً پھرجائیں گے ۔ جب حکم دیا جائے تو اطاعت سے پہلو تہی کریں گے ۔ فرائض کی ادائیگی میں پیچھے رہتے ہیں ۔ حق سے منہ موڑتے ہیں اور باہمی اختلافات ان کا شعار ہوتا ہے ۔ لیکن یہ صفات ہر اس جماعت میں پائی جاتی ہیں جن کی ایمانی تربیت مکمل نہ ہوئی ہو ۔ جن کو دیر تک گہری اور اعلیٰ معیار کی تربیت سے نہ گزارا گیا ہو ۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے ، جس پر تحریک کی قیادت کو خبردار رہنا چاہئے اور اس کی فکر کرنی چاہئے ۔ مشکلات راہ میں اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ یہ نہ ہو کہ مشکلات میں کمزوریاں سامنے آجائیں اور معاملات مشکل ہوجائیں ۔ ایسے حالات میں ان تمام انسانی جماعتوں کو پیش آتے رہتے ہیں جن کی صفوں میں ابھی تک کمزور لوگ موجود ہوں اور جن کو پگھلا کر میل کچیل سے صاف نہ کیا گیا ہو۔

اس روگردانی پر اللہ تعالیٰ صرف یہ تبصرہ فرماتے ہیں وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ” اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ “ یہ بنی اسرائیل کے لئے سخت نکیر ہے ۔ ان لوگوں نے پہلے جہاد کا مطالبہ کیا ۔ جہاد فرض کیا گیا اور قبل اس کے کہ یہ لوگ میدان جہاد کو جائیں ، انہوں نے انکار کردیا ۔ حالانکہ تعداد میں یہ بہت زیادہ ہیں ۔ بہت ہی ذلیل ہیں یہ لوگ ۔ ذلت کے ساتھ ساتھ ظالم بھی ہیں ۔ اپنے نفس کے لئے ظالم ، نبی کے لئے بھی ظالم ، حق کے لئے بھی ظالم ۔ انہوں نے حق کو پہچانا اور پھر اسے اہل باطل کے ہاتھوں ذلیل ہونے دیا ۔

جو شخص سچائی اور یقین کو پہچان لے اور یقین کرے کہ وہ حق پر ہے ۔ یہ جان لے کہ اس کا دشمن باطل پر ہے ۔ جس طرح بنی اسرائیل کے سرداروں نے جان لیا تھا ، اور نبی سے مطالبہ کردیا تھا کہ وہ ان کے لئے ایک باشاہ مقرر کردے تاکہ اس کی سرکردگی میں وہ دشمنوں سے ، اللہ کی خاطر جنگ کریں اور پھر یہ شخص پیٹھ پھیر لے اور دشمن کے مقابلے میں علم جہاد بلند نہ کرے اور نہ ہی تکالیف اٹھائے ، سب کچھ جانتے ہوئے تو یہ شخص ظالم ہے ، اور اسے اس ظلم کی سزا دی جائے گی ۔ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ” اور اللہ ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ “

اردو ترجمہ

اُن کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے یہ سن کر وہ بولے : "ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اُس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں وہ تو کوئی بڑا ما ل دار آدمی نہیں ہے" نبی نے جواب دیا: "اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اُس کے علم میں ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala lahum nabiyyuhum inna Allaha qad baAAatha lakum taloota malikan qaloo anna yakoonu lahu almulku AAalayna wanahnu ahaqqu bialmulki minhu walam yuta saAAatan mina almali qala inna Allaha istafahu AAalaykum wazadahu bastatan fee alAAilmi waaljismi waAllahu yutee mulkahu man yashao waAllahu wasiAAun AAaleemun

اس بحث و تکرار اور سوال و جواب سے بنی اسرائیل کی ایک اور خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے ، جس کا تذکرہ اس سورت میں بارہا ہوا ہے ۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ان کے لئے ایک بادشاہ مقرر ہو ، جس کی قیادت میں رہ کر ، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کریں ، لیکن بادشاہ کے تقرر کا اعلان ہوتے ہی انہوں نے سرجھکالئے ، گردنیں پھیرلیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بادشاہ کی تقرری اور نبی کی جانب سے اس کی اطلاع پر اس معاملے میں بحث و تکرار میں مشغول ہوگئے ۔ طالوت کی بادشاہت پر ناک بھنویں چڑھانے لگے ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ طالوت کے مقابلے میں اپنے آپ کو موروثی طور پر زیادہ مستحق رکھتے ہیں ۔ طالوت ایک تو شاہی خاندان سے نہ تھا ، دوسرے یہ کہ وہ کوئی دولت مند آدمی نہ تھا کہ دولت کی بناپر وراثت کے استحقاق کو نظر انداز کردیاجائے ۔ غرض یہ تاریک خیالی اور یہ لجاجت بنی اسرائیل کی مستقل خصوصیت ہے ۔

نبی وقت نے بتایا کہ وہ ذاتی خصوصیات کی وجہ سے زیادہ مستحق ہے اور یہ کہ اس کے انتخاب میں حکمت کارفرما ہے : قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ” اللہ نے تمہارے مقابلے میں اس کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔ “

وہ ایسا شخص ہے جسے اللہ نے چنا ہے ۔ یہ تو اس کی صفت ہے ۔ اس کو دماغی اور جسمانی قابلیتیں دی ہیں ۔ یہ اس کی دوسری ترجیح ہے اور پھر اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کردے ۔ وہ اس کا ملک ہے ۔ دنیا اس کی ہے ۔ وہ متصرف ومختار ہے ۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چن لے ۔ وہ بڑی وسعت والا ہے ۔ بڑے علم والا ہے ۔ اس کے فضل وکرم پر کوئی خازن مقرر نہیں ۔ اس کی دادوہش کے لئے کوئی حد وقید نہیں ہے ۔ وہی جانتا ہے کہ بھلائی کس میں ہے ۔ وہی جانتا ہے کہ کس موقع پر کیا فیصلہ بہتر ہے ؟

یہ ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں ایک مسلمان کا نقطہ نظر درست ہونا چاہئے ۔ اور اس کا ذہن کدورت سے صاف ہونا چاہئے ۔ لیکن کیا کیا جائے معاملہ بنی اسرائیل سے آپڑا ہے ۔ ان کے نبی اس بات سے خوب واقف ہیں ۔ نبی وقت جانتا ہے کہ نبی اسرائیل کا مزاج ان بلند حقائق کا متحمل ہی نہیں ہے ۔ حالات ایسے ہیں کہ فہمائش کے لئے وقت نہیں ہے ۔ معرکہ حق و باطل سرپر ہے۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ وقت کی کمی کے باعث ان کے سامنے ایک ایسا معجزہ ظاہر کردیا جائے جس سے ان کے دل نرم ہوجائیں ۔ وہ بےحد متاثر ہوں اور انہیں اس قیادت پر اطمینان ہوجائے اور وہ یقین کرلیں :

اردو ترجمہ

اس کے ساتھ اُن کے نبی نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ "خدا کی طرف سے اُس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا، جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکون قلب کا سامان ہے، جس میں آل موسیٰؑ اور آل ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں، اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں اگر تم مومن ہو، تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala lahum nabiyyuhum inna ayata mulkihi an yatiyakumu alttabootu feehi sakeenatun min rabbikum wabaqiyyatun mimma taraka alu moosa waalu haroona tahmiluhu almalaikatu inna fee thalika laayatan lakum in kuntum mumineena

تیہ کی سرگردانی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے زمانہ مابعد میں اس دور کا واقعہ ہے جبکہ حضرت ہوشع نبی تھے ۔ اس دور میں بنی اسرائیل کے دشمنوں نے ان پر حملہ کیا ۔ ان سے ان کا علاقہ بھی چھین لیا اور وہ تبرکات بھی چھین لئے جو ان کے پاس ایک بکس میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) کے خاندانوں سے محفوظ چلے آرہے تھے ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس بکس میں تورات کا وہ نسخہ بھی محفوظ تھا ، جو کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے دیا گیا تھا۔ نبی وقت نے اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علامت قراردیا کہ یہ معجزہ تمہارے سامنے رونما ہوگا۔ یہ بکس تمہارے پاس لوٹ آئے گا ۔ فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے تاکہ ان کے دلوں پر اطمینان کی بارش ہوجائے ۔ نبی وقت نے فرمایا کہ یہ معجزہ اس بات کا شاہد صادق ہوگا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے بشرطیکہ تمہارے دلوں میں ایمان ہو۔

سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ رونماہوا اور تب جاکر ان لوگوں کو یقین ہوا کہ طالوت اللہ کی جانب سے مقرر ہیں ۔

اب طالوت نے ان لوگوں کو منظم کیا جنہوں نے جہاد میں شریک ہونے سے انکار نہ کیا تھا ، اور انہوں نے نبی وقت کے ساتھ جو پختہ عہد کیا تھا ، وہ اس پر قائم تھے ۔ یہ سب باتیں قرآن مجید نے ، اپنے اسلوب قصص کے عین مطابق ترک کردیں ۔ قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی قصے کے ایک منظر کے بعد متصلاً دوسرا منظر پیش کردیتا ہے ۔ اور درمیان کی غیر ضروری کڑیاں چھوڑدیتا ہے (دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن) ۔ چناچہ یہاں بھی جو منظر پیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت طالوت لشکر اسلام کو لے کر دشمن کی طرف مارچ کررہے ہیں :

40