سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 26 (آیات 170 سے 176 تک)

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُوا۟ بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآ ۗ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْـًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ وَمَثَلُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ كَمَثَلِ ٱلَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَآءً وَنِدَآءً ۚ صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُلُوا۟ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقْنَٰكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيْرِ ٱللَّهِ ۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْكِتَٰبِ وَيَشْتَرُونَ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُو۟لَٰٓئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ إِلَّا ٱلنَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلضَّلَٰلَةَ بِٱلْهُدَىٰ وَٱلْعَذَابَ بِٱلْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى ٱلنَّارِ ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ نَزَّلَ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ ۗ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخْتَلَفُوا۟ فِى ٱلْكِتَٰبِ لَفِى شِقَاقٍۭ بَعِيدٍ
26

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahumu ittabiAAoo ma anzala Allahu qaloo bal nattabiAAu ma alfayna AAalayhi abaana awalaw kana abaohum la yaAAqiloona shayan wala yahtadoona

یہ کون لوگ تھے ، مشرکین بھی ہوسکتے ہیں جو باربار یہ ورد کرتے تھے کہ جب بھی انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جاتی اور کہا جاتا کہ وہ اپنی اقدار اور اپنے قانون کا ماخذ اسلام کو تسلیم کرلیں اور جاہلیت کی ان تمام باتوں کو ترک کردیں جنہیں اسلام نے بحال نہیں رکھا ، تو وہ یہی دلیل دیتے ۔ یہودی بھی مراد ہوسکتے ہیں جنہوں نے اپنی روایات کو سختی سے پکڑا ہوا تھا ، اور وہ دین اسلام کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے ۔ بہرحال مراد مشرکین ہوں یا یہود ، اسلام اپنے پیروکاروں کو بڑی شدت سے منع کرتا ہے کہ وہ نظریہ وعمل میں کوئی چیز ان لوگوں سے اخذ کریں ۔ مسلمان ان لوگوں کی تقلید کریں ۔ اور نہ ہی ان سے کوئی چیز سوچے سمجھے بغیر درآمد کریں۔

أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلا يَهْتَدُونَ ” اگر ان کے آباء اجداد نے کسی چیز کو سمجھانہ ہو کوئی راہ نہ پائی ہو تو پھر بھی “ اگر ان کے آباء اجداد کی فہم و فراست یہ ہو تو کیا پھر بھی یہ لوگ ان کے اتباع پر اصرار کریں گے ؟ تقلید وجمود کی یہ کیا گھناؤنی مثال ہے ۔ اس تقلید وجمود کی وجہ سے ہی قرآن مجید ان کے لئے نفرت آمیز خاکہ تجویز کرتا ہے ۔ انہیں ایک ایسے حیوان سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا ۔ اگر چرواہا ہے تو وہ صرف آواز سنتا ہے ۔ کچھ نہیں سمجھتا کہ اس نے کہا کیا۔ بلکہ ان کی حالت اس حیوان سے بھی بدتر ہے ۔ حیوان بہرحال دیکھتا ہے سنتا ہے ، آواز نکالتا ہے اور یہ لوگ نپٹ اندھے ، گونگے اور بہرے ہیں ۔

اردو ترجمہ

یہ لوگ جنہوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے اِن کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamathalu allatheena kafaroo kamathali allathee yanAAiqu bima la yasmaAAu illa duAAaan wanidaan summun bukmun AAumyun fahum la yaAAqiloona

گونگے ، بہرے اور اندھے ہیں ۔ اگرچہ وہ کانوں ، آنکھوں اور زبانوں والے ہیں ۔ وہ کیوں ایسے نہ ہوں کہ ان چیزوں کے باوجود وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ راہِ ہدایت نہیں پاتے ۔ جو آنکھیں ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو اندھا ہے ، کان ہوتے نہیں سنتاتو بہرہ ہے ، زبان ہوتے حق بات نہیں کرتا تو ، گونگا ہے۔

جو شخص غور وفکر چھوڑ دے ۔ علم ومعرفت اور رشد وہدایت کے دروازے اپنے اپر بند کردے اور نظریہ حیات اور راہ عمل کا مآخذ ومصدر اس ذریعے کو قرار دے جو دراصل ماخذ ومصدر نہ ہو اور نہ اس کا مستحق ہو تو ایسے شخص کی اس سے زیادہ گھناؤنی تصویر کھینچنا ممکن نہیں ہے ۔

اب یہاں روئے سخن مومنین کی طرف پھرجاتا ہے ۔ ان کے لئے کھانے پینے کی پاک چیزوں کو حلال قرار دیا جاتا ہے ۔ حکم دیا جاتا ہے لپ وہ اپنے منعم کا شکریہ ادا کریں ۔ غیر پاکیزہ چیزوں میں بعض کو بصراحت حرام قرا ردیا جاتا ہے ۔ یہودی ، مسلمانوں کے ساتھ ان طیبات اور محرمات کے معاملے میں خوامخواہ الجھتے تھے ۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ حلال و حرام کے یہ احکامات اور یہ اصول تو خود ان کے ہاں بھی بصراحت موجود تھے۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں اُنہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo kuloo min tayyibati ma razaqnakum waoshkuroo lillahi in kuntum iyyahu taAAbudoona

یہاں مسلمانوں کو ” اے ایمان والو “ کے الفاظ سے پکارا گیا ہے ۔ اس لئے کہ ایمان ہی اہل اسلام کے درمیان مضبوط رابطہ ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ میں ہی ماخذ قانون ہوں اس لئے قانون مجھ سے اخذ کرو ۔ مجھ سے ہی حلال و حرام کے احکام اخذ کرو ۔ بتایا جاتا ہے کہ میں نے تم پر جو انعامات کئے ہیں انہیں یاد رکھو ۔ میں ہی تمہارا رازق ہوں اور میں نے ہی تمہارے لئے کھانے پینے کی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ۔ پاکیزہ چیزوں میں سے کسی ایک کو بھی حرام نہیں قرار دیا گیا۔ جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں وہ اس لئے حرام نہیں کہ اللہ تم پر تنگی کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے وہ پاک اور طیب نہیں ہیں ۔ وہی تو ہے جو ابتدائے آفرینش سے تمہیں رزق دے رہا ہے ۔ پھر تلقین ہوتی ہے کہ اگر وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی چاہتے ہیں تو پھر اس کا شکر ادا کریں ۔ چکر بھی عبادت اور بندگی کی ایک قسم ہے ۔ اور اللہ شکر ادا کرنے سے بہت راضی ہوتا ہے ۔ یہ تمام ہدایات اس آیت میں دے دی گئی ، جو چند کلمات پر مشتمل ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ” ایمان لانے والوں اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بےتکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ “

اردو ترجمہ

اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama harrama AAalaykumu almaytata waalddama walahma alkhinzeeri wama ohilla bihi lighayri Allahi famani idturra ghayra baghin wala AAadin fala ithma AAalayhi inna Allaha ghafoorun raheemun

اس کے بعد مخصوص طور پر بعض ان چیزوں کو جو حرام قرار دی گئی ہیں بیان کردیا جاتا ہے ۔ اور لفظ قصر ” انما “ استعمال کرکے دائرہ محرمات کو محدود کردیا إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ” اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ تم حرام نہ کھاؤ۔ خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ “

ہر سلیم الفطرت انسان ، ازروئے طبع مردار کو ناپسند کرتا ہے ۔ یہی حال خون کا ہے لیکن فطرت کی کراہت کے علاوہ قرآن اور اس سے پہلے تورات کی بیان کردہ حرمت کے طویل عرصہ بعد ، طب جدید نے بھی اس سلسلے میں کچھ قیمتی انکشافات کئے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ خون اور مردار میں کئی قسم کے مضر صحت اجزاء اور جراثیم (Microses) جمع ہوجاتے ہیں ۔ لیکن ہمیں کوئی یقینی علم نہیں ہے کہ طب جدید نے وہ تمام مضرات اور نجاستیں معلوم کرلی ہیں اور کوئی اور سبب تحریم اب باقی نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان اشیاء کی تحریم کے لئے کچھ اور اسباب بھی ہوں جن کا علم تک ہمیں نہ ہوسکا ہو۔ رہا خنزیر تو اس کے متعلق ابھی تک بعض لوگ اچھی رائے رکھتے ہیں ۔ لیکن فطرت سلیمہ اس سے بھی شدید متنفر ہے ۔ ایک طویل عرصہ سے شرائع سماویہ نے اسے حرام قرار دیا ہوا ہے ۔ اب جاکر یہ معلوم ہوا کہ اس کے خون ، گوشت اور انٹریوں میں ایک خطرناک کیڑا موجود ہے ۔ یہ کیڑا لمبے دھاگے (TapWrom) کی شکل میں ہوتا ہے ۔ اور اس کے انڈے ملفوف ہوتے ہیں ۔ اس کے بارے میں بعض سور خور کہتے ہیں ۔ صحت وصفائی کے وسائل بہت ترقی کرچکے ہیں ۔ لہٰذا یہ کیڑے اور ان کے انڈے مضر صحت نہیں رہے ۔ کیوں کہ زیادہ حرارت سے یہ انڈے اور کیڑے یکسر ختم ہوجاتے ہیں ۔ اور صحت وصفائی کے جدید وسائل کے تحت یہ سہولتیں ہر جگہ میسر ہیں لیکن یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قرون طویلہ کے بعد ان کی علمی جدوجہد نے صرف ایک مضر کیڑا دریافت کیا ۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خنزیر کے گوشت میں کوئی اور ایسا مضر صحت جز نہیں ہے ۔ جس کا انکشاف نہ ہوا ہو۔ شریعت الٰہیہ جس نے ہزاروں سے سال پہلے ، انسانی علم و آگہی سے بہت پہلے اس مضر صحت کو ممنوع قرار دیا ، کیا اس بات کی مستحق نہیں ہے کہ اس پر کلی اعتماد کیا جائے ۔ اس کے فیصلے کو قول فیصل سمجھاجائے اور اس کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام قرار دیا جائے ۔ اس لئے کہ یہ شریعت حکیم وخبیر اللہ کی جانب سے نازل شدہ ہے ۔

وہ چیزیں جن پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام لیا گیا ہو۔ ان چیزوں کے مالکان نے انہیں غیر اللہ کی طرف موڑ دیا ہو۔ یہ چیزیں بھی حرام ہیں ۔ اس لئے کہ ان چیزوں کی ذات میں حرمت کی کوئی وجہ ہے ، محض اس لئے کہ ان چیزوں کا رخ غیر اللہ کی طرف کردیا گیا ہے ۔ مرکز توجہ بدل گیا ، ضمیر خالص نہ رہا ۔ روح پاک نہ رہی ، دل اللہ کے لئے سالم نہ رہا اور عقیدہ ونظریہ پاک نہ رہا۔ یہ ہے وہ روحانی سبب جس کی وجہ سے ان چیزوں کا استعمال حرام قرار دیا گیا اور یہ بھی اسی طرح ناپاک ہوا ، جس طرح مادی نجاست ناپاک ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ بھی غیر طیب اور وہ بھی غیر طیب ۔ چونکہ اسلام اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ مسلمان تعظیم و تکریم کے ساتھ صرف بارگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہوں اور اس میں کسی اور کو شریک نہ کریں ، اس لئے ان چیزوں کو بھی اسی طرح نجس قرار دے کر نجس العین اشیاء کے ساتھ رکھا ۔ کیونکہ یہ اشیاء نظریاتی طور پر ناپاک ہیں

پاکی قلب ونظر اور جسم وجگر ان تمام حرام کردہ چیزوں کے اسباب میں قدر مشترک ہے ۔ چونکہ سابقہ آیات میں عقیدہ توحید بیان ہوا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ تمہارا خالق و رازق ایک ہے ۔ یہاں کہا گیا کہ شارع اور مقنن بھی وہی ہے ۔ رزق وخلق کا مصدر اور قانون و شریعت کا مآخذ ایک ہے ۔ ان آیات میں یہ تصور ایک گہرا ربط پیدا کردیتا ہے ۔

اس حرمت کے باوجود اسلام بعض حالات و ضرورت کا خیال بھی رکھتا ہے ۔ ایسے حالات میں محدود طور پر ، ضرورت کی کم سے کم حد تک ، ان محرمات کو جائز قرار دے دیتا ہے۔ لیکن ہدایت کرتا ہے کہ ضرورت کی حد سے ہرگز آگے نہ بڑھاجائے ۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو۔ یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے ، تو اس پر کچھ گناہ نہیں اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ “ استثناء کا یہ اصول بذاتہ تو عام ہے ، لیکن یہاں یہ مذکورہ بالا محرمات پر متفرع ہے ۔ لیکن ان محرمات کے علاوہ اس کا اطلاق دوسرے محرمات پر بھی ہوسکتا ہے ۔ جہاں ایسی ضرورت ہو ، جہاں زندگی خطرے میں ہو اور ان محرمات کے علاوہ کوئی اور چیز سامنے نہ ہو تو وہاں بھی ممنوعہ چیز کو کم ازکم ضرورت پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ضرورت کے مقامات کے بارے میں فقہاء کے درمیان فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں ، مثلاً کیا ضرورت کے مسئلے میں قیاس چلے گا یا محض منصوص ضرورت تک استفادہ محدود ہوگا ؟ پھر ضرورت پوری کرنے کی مقدار کیا ہے ؟ کم ازکم استعمال ہے یا سیر ہو کر کھالینا ہے ؟ میں یہاں ان اختلافات کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا ۔ جو کچھ کہا گیا وہ فی ظلال القرآن کے لئے کافی ہے۔

جن چیزوں کو حرام یا حلال قراردیا گیا تھا ، ان کے بارے میں یہودیوں نے غوغا آرائی شروع کردی تھی ۔ جیسا کہ قرآن مجید نے دوسری جگہ صراحت کی ہے ۔ بعض چیزیں ایسی بھی تھیں جو صرف یہودیوں پر حرام کی گئی تھیں۔ وَعَلَی الَّذِینَ ھَادُواحَرَّمنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ وَمِنَ البَقَرِ وَالغَنَمِ حَرَّمنَا عَلَیھِم شُحُومَھُمَا اِلَّا مَا حَمَلَت ظُھُورُھُمَا اَوِالحَوَایَا اَو مَا اختَلَطَ بِعَظمٍ ” اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے تھے ، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں میں لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے ۔ “ یہ چیزیں مسلمانوں کے لئے جائز تھیں۔ غالباً اس جواز پر وہ سخت معترض تھے ۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ان چیزوں کی حرمت پر بھی اعتراض تھا جو یہاں حرام کردی گئی ہیں حالانکہ یہ چیزیں تورات میں خود ان کے لئے بھی حرام بیان ہوئی تھیں ۔ مطلب ان کا صرف یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح قرآنی احکامات کو مشکوک کیا جائے اور مسلمانوں کے دل میں یہ شبہ ڈال دیا جائے کہ رسول ﷺ پر وحی منجانب اللہ آتی ہے یا نہیں ۔

اردو ترجمہ

حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدوں پرا نہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yaktumoona ma anzala Allahu mina alkitabi wayashtaroona bihi thamanan qaleelan olaika ma yakuloona fee butoonihim illa alnnara wala yukallimuhumu Allahu yawma alqiyamati wala yuzakkeehim walahum AAathabun aleemun

جو لوگ آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات چھپاتے ہیں ان پر ان آیات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔

کون لوگ تھے وہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھپاتے تھے ؟ سب سے پہلے ان سے مراد اہل کتاب ہیں ۔ لیکن قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم میں ہر مذہب وملت کے وہ لوگ شامل ہیں جو سوچنے سمجھنے کے باوجود حق کو چھپاتے ہیں ۔ کیوں چند ٹکوں کی خاطر ان مفادات کی خاطر جو وہ کتمان حق کے نتیجے میں حاصل کرتے ہیں یا اس لئے کہ انہوں نے کچھ مفادات پیش نظر رکھے ہوتے ہیں اور اگر وہ حق بیان کریں تو یہ مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں ۔ یا ثمن قلیل سے مراد پوری دنیا ہے ۔ کتمان حق سے یہ لوگ ثواب آخرت اور رضائے الٰہی سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ ایک عظیم خسارہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں بیشک پوری دنیا ثمن قلیل ہے۔

کھانے پینے کے حلال و حرام اشیاء کے بیان کے سلسلے میں اعلان ہوتا ہے ۔ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلا النَّار ” وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۔ “ حلال و حرام کے بیان کی مناسبت سے ان کے لئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا ۔ یعنی حق چھپا کر وہ جو قلیل اجرت لیتے ہیں اور اسے کھاتے ہیں ، یہ دراصل ان کے پیٹ میں آگ ہوگی اور ان کا کھانا بھی آگ ہی ہوگی۔

انہوں نے حق کو چھپایا ۔ اس کے تحت سزا ملے گی انہیں ۔ انہیں قیامت کے دن ذلت اور اہانت کی حالت میں چھوڑدیاجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور نظر کرم سے وہ محروم رہیں گے اور اس حالت زار ، بےقدری اور ذلت کی تعبیر اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔

وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا يُزَكِّيهِمْ ” قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا اور نہ ہی انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا۔ “ ان کے ساتھ کوئی بات نہ ہوگی ، ان کا کوئی اہتمام نہ ہوگا ، انہیں پاک نہ کیا جائے گا اور ان کی مغفرت بھی نہ ہوگی ۔ اور انہیں مکمل طور پر نطر انداز کردیا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ اہل ایمان کی نظر میں ان کی سزا خوفناک ہوجائے اور صورت حال عام لوگوں کے حس و شعور کے قریب ہوجائے وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” اور ان کے لئے دردناک سزا ہے۔ “

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika allatheena ishtarawoo alddalalata bialhuda waalAAathaba bialmaghfirati fama asbarahum AAala alnnari

اور ایک دوسری زندہ تعبیر أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ” وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لیا ۔ “ گویا یہ ایک خرید وفروخت ہے ۔ جس میں یہ لوگ ہدایت سے روگردانی کرتے ہیں اور ضلالت خریدتے ہیں ۔ مغفرت سے محروم ہوتے ہیں اور عذاب دائمی خریدتے ہیں ۔ کس قدر ناسمجھ ہیں یہ لوگ جو اس قدر عظیم خسارے کا سودا کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک عظیم الشان برائی خریدلی ہے ۔ ہدایت ان کے لئے عام تھی مگر انہوں نے اسے ترک کرکے ضلالت کو اختیار کرلیا۔ مغفرت کے مواقع انہیں فراہم تھے ۔ مگر انہوں نے انہیں گنوادیا اور عذاب کو اپنالیا۔ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ” کیا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ “ اس کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں ۔ ان کے اس احمقانہ کام پر قدرت خندہ زن ہے ۔

اردو ترجمہ

یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika bianna Allaha nazzala alkitaba bialhaqqi wainna allatheena ikhtalafoo fee alkitabi lafee shiqaqin baAAeedin

انہوں نے سخت گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور یہ اس کی پوری سزا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو کتاب اس لئے بھیجی تھی کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے ، اسے زمین پر نافذ کیا جائے ۔ اور وہ ان کا قانون ہو ، ان کا نظام زندگی ہو ، لیکن ان ظالموں نے اس کو چھپالیا ۔ اسے چھپا کر میدان عمل سے خارج کردیا ۔ حالانکہ وہ ایک ایسی سچائی تھی جس پر عمل کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی ۔ “ اور جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے وہ ہدایت پر آگئے ، حق کے ساتھی بن گئے ، ان لوگوں کے ٹولے میں آگئے جو حق کے راہ یاب تھے ۔ انہوں نے فطرت کائنات کا ساتھ دیا اور فطرت کے حقیقی اصولوں پر آگئے ۔

وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ” مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ “ ایسے لوگ حق سے دور جاچکے ہیں ۔

وہ اصول فطرت سے بھی ٹکراتے ہیں ۔ وہ خود ایک دوسرے سے بلکہ خود اپنے نفس سے بھی ٹکراتے ہیں ۔ وہ اس طرح تھے اور اسی طرح رہیں گے ۔ یہی حال ہوگا ہر اس امت کا جو کتاب اللہ میں جھگڑے ڈالتی ہے ۔ کتاب الٰہی کو پورے طور قبول نہیں کرتی ۔ بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے ۔ ہر دور اور ہر زمانے میں ، ہر امت اور ہر قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے ۔ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں ، اس آیت کا مصداق ہمیں اچھی طرح نظر آرہا ہے ۔

سب سے آخر میں ایک اور صرف ایک آیت میں ایمانی تصور زندگی کے تمام اصول رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ ایمانی طرز عمل کا معیار بیان کردیا جاتا ہے اور بتادیا جاتا ہے کہ قرآن کی رو سے نیک لوگوں کی صفات کیا ہیں ؟

26