اس صفحہ میں سورہ Yunus کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يونس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
واتل علیھم نبا نوح اور (اے محمد (ﷺ) ! ) آپ (مکہ والوں کو) نوح کی خبر پڑھ کر سنائیے۔ یعنی قوم کے ساتھ حضرت نوح کی سرگزشت ان کے سامنے پڑھئے۔
اذ قال لقومہ یاد کیجئے کہ جب نوح نے اپنی قوم سے کہا۔ برقول بغوی قوم نوح قابیل کی نسل سے تھی ‘ لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ حضرت نوح ‘ حضرت شیت کی نسل میں سے تھے ‘ قابیل کی نسل میں سے نہیں تھے اور چونکہ قوم کی نسبت حضرت نوح کی طرف کی گئی ہے ‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم نوح حضرت شیت کی نسل میں سے تھی۔
یقوم ان کان کبر علیکم مقامی اے میری قوم ! اگر تم پر میرا قیام شاق ہوگیا ہو۔ یعنی مدت دراز تک تمہارے اندر میرا رہنا یا دعوت پر قائم رہنا اگر تمہارے لئے ناگوار ہوگیا ہو۔
وتذکیری بایت اللہ اور احکام خداوندی کی نصیحت کرنا (ناگوار اور بھاری معلوم ہوگیا ہو) ۔
فعلے اللہ توکلت پس اللہ ہی پر میرا بھروسہ ہے (میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھتا ہوں) ۔
فاجمعوا امرکم وشرکاء کم تم مع اپنی مفروضہ شرکاء کے (مجھے ضرر پہنچانے کی) اپنی تدبیر پختہ کرلو۔
اَجْمَعَ الْاَمْرَ کسی کام کا پختہ ارادہ کرلیا ‘ عزم کرلیا۔ یعنی تم اور تمہارے مفروضہ شرکاء مجھ کو قتل کرنے یا دکھ پہنچانے کا پختہ عزم کرلو (کذا قال الزجاج) یا شرکاء سے پہلے مضاف محذوف ہے ‘ یعنی اپنے کام کو اور اپنے شرکاء کے کام کو درست کرلو۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم اپنے کام کا پختہ ارادہ کرلو اور اپنے (مفروضہ) شریکوں کو بھی بلا لو۔
ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ پھر وہ تدبیر تمہارے دلوں کی گھٹن کا باعث بھی نہ ہونا چاہئے۔ غُمَّۃً پوشید ‘ چھپا ہوا۔ غَمَّہٗاس کو چھپایا ‘ یعنی تمہاری تدبیر پوشیدہ بھی نہ ہو ‘ بالکل واضح طور پر اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب تم مجھے ہلاک کر چکو اور میری دن رات کی نصیحت و وعظ کے بار سے آزاد ہوجاؤ تو تمہارا حال تم پر مستور نہ رہنا چاہئے۔
ثم اقضوا الی پھر جو کچھ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو ‘ کر گذرو۔
ولا تنظرون اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو ۔ حضرت نوح کے اس کلام میں امر بمعنی تعجیز ہے (یعنی تم ایسا کر ہی نہیں سکتے ‘ اگر کرسکتے ہو تو کر گذرو ‘ انتظار کس بات کا ہے) اس کلام کو نقل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ حضرت نوح کا اعتماد اپنے رب پر نہایت مضبوط تھا۔ ان کو اللہ کی مدد پر بھروسہ تھا۔ وہ قوم کی کسی خفیہ تدبیر سے خائف نہ تھے۔ ان کو یقین تھا کہ ان کی قوم اور قوم کے معبود کچھ نہیں کرسکتے۔ نہ نفع ان کے قبضہ میں ہے نہ ضرر۔
فان تولیتم فما سالتکم من اجر پھر بھی تم اگر اعراض ہی کئے جاؤ تو (اتنا سمجھ لو کہ) میں تم سے کسی معاوضہ کا طالب نہیں۔
جزاء کو حذف کر کے جزاء کی علت کو اس کے قائم مقام ذکر کیا ہے۔ اصل مطلب (تشریحی) اس طرح ہے کہ اگر تم میرے وعظ و نصیحت سے اب بھی روگردانی کرو گے اور میری بات نہیں مانو گے تو ہلاک ہوجاؤ گے ‘ یا اللہ تم کو عذاب دے گا کیونکہ تمہاری روگردانی کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ قبول حق سے کوئی امر مانع نہیں۔ اس وعظ و تذکیر میں میرا کوئی مقصد نہیں۔ میں اس دعوت کا معاوضہ تم سے نہیں چاہتا کہ تم معاوضہ ادا کرنے سے قاصر ہو اور اسلئے روگردانی کر رہے ہو ‘ یا مجھے (دنیا طلبی کی تہمت سے) متہم کرسکو۔ یا یہ مطلب ہے کہ روگردانی کرو گے تو خود اپنا نقصان کرو گے ‘ میرا کچھ بگاڑ نہ ہوگا۔ میں تم سے معاوضہ کا طلبگار نہیں کہ تمہاری روگردانی سے مجھے معاوضہ نہ ملے۔ تمہارا ہی بگاڑ ہوگا ‘ تم ہی ہدایت سے محروم ہو گے۔
ان اجری الا علی اللہ (اس دعوت و وعظ کا) میرا معاوضہ تو بس اللہ کے ذمہ ہے۔ یعنی تم سے معاوضہ کا کوئی تعلق نہیں۔ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ ‘ میرے عمل کا ثواب تو اللہ دے گا۔
اس فقرہ سے اشارۃً نکلتا ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ کی اجرت لینی جائز نہیں (تعلیم قرآن و احادیث بھی تبلیغ دین ہے اور تبلیغ دین کی اجرت ان لوگوں سے لینی جن کو تبلیغ کی گئی ہو ‘ بظاہر اس آیت سے ناجائز قرار پاتی ہے) ۔
وامرت ان اکون من المسلمین۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (ا اللہ کے حکم کی) اطاعت کروں ‘ ایمان لاؤں۔
اعمال میں بھی اتباع حکم الٰہی کروں اور لوگوں کو بھی دعوت دوں اور اس حکم کی تعمیل میں نے کی ہے اور کر رہا ہوں۔
فکذبوہ (حق واضح ہونے کے بعد بھی محض عناد اور ضد کی وجہ سے) قوم نوح تکذیب پر جمی رہی۔
فنجینہ ومن معہ فی الفلک پس ہم نے نوح کو اور ان کے ساتھیوں کو کشتی میں (غرق ہونے سے) بچا لیا۔ یہ سب اسّی آدمی تھے۔
وجعلھم خلف واغرقنا الذین کذبوا بایتنا اور ہم نے ان کو (مرنے والوں کا) جانشین بنایا اور جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا ‘ ان کو (طوفان میں) ڈبو دیا۔
فانظر کیف کان عاقبۃ المنذرین۔ سو آپ دیکھئے کہ جو لوگ ڈرائے گئے تھے ان کا انجام کیسا ہوا۔ یعنی جن لوگوں کو پیغمبروں نے اللہ کی نافرمانی کے عذاب سے ڈرایا تھا اور وہ ایمان نہیں لائے تھے ‘ وہ کس طرح تباہ ہوئے۔
اس جملہ میں رسول اللہ (ﷺ) کیلئے پیام تسکین اور تکذیب کرنے والوں کو عظیم الشان عذاب سے تخویف ہے۔
ثم بعثنا من بعدہ رسلا الی قومھم پھر نوح کے بعد ہم نے (مختلف بکثرت) پیغمبروں کو ان کی قوم کے پاس (ہدایت کیلئے ) بھیجا۔ یعنی ہر رسول کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔
فجاء وھم بالبینت پس پیغمبر قوم والوں کے پاس کھلے ہوئے واضح دلائل (صداقت) لے کر پہنچے۔
فما کانوا لیؤمنوا بما کذبوا بہ من قبل اور بسبب اس کے جس چیز کی تکذیب انہوں نے پہلی بار کی تھی (اس پر اڑے رہے ‘ بعد کو بھی) ایمان نہیں لائے۔
کذلک نطبع علی قلوب المعتدین۔ اسی طرح ہم کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتے ہیں۔
یعنی جس طرح ہم نے قوم نوح اور نوح کے بعد آنے والے پیغمبروں کی امتوں کے دلوں پر مہر لگا دی تھی (بےمدد چھوڑ دیا تھا) اسی طرح آپ کی امت میں سے جو لوگ حکم خداوندی سے تجاوز کرنے والے ہیں ‘ ان کے دلوں پر بھی مہر لگا دیتے ہیں۔ اور چونکہ وہ خود گمراہی میں غرق ہیں اور خواہشات نفس کو نہیں چھوڑتے ‘ اسلئے ہم بھی ان کو بےمدد چھوڑ دیتے ہیں۔
ثم بعثنا من بعدھم موسیٰ وھٰرون الی فرعون وملاۂ بایتنا پھر ان (پیغمبروں) کے بعد ہم نے موسیٰ (بن عمران) اور (ان کے بھائی) ہارون کو فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ چونکہ اگلی آیت میں قوم فرعون کی سرکشی کا بیان کیا گیا ہے ‘ اسلئے اس جگہ فرعون کے ساتھ سرداران قوم کا لفظ بھی ذکر کردیا۔
فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین۔ پس انہوں نے اپنے کو بڑا سمجھا اور وہ تھے مجرم لوگ۔
یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی بات ماننے کو حقیر سمجھا اور مغرور ہوگئے (اسلئے اتباع نہیں کیا) اور وہ جرم کے خوگر تھے ‘ عادی تھے ‘ اسلئے انہوں نے رسالت کے پیام کو حقیر سمجھا اور تردید رسالت کی جرأت کی۔
فلماء جاء ھم الحق الخ : پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچ گیا تو کہنے لگے : بلاشبہ یہ (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات) کھلا ہوا جادو ہے۔ یعنی جب فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس دین حق پہنچا اور واضح ‘ ناقابل شک معجزات سے اس کی حقانیت و صداقت کو وہ سمجھ بھی گئے تب بھی ضد اور سرکشی کی وجہ سے انہوں نے نہ مانا اور موسیٰ کے پیش کردہ معجزات کو کھلاہوا جادو قرار دیا اور موسیٰ کو ماہر جادوگر کہا۔
قال موسیٰ اتقولون للحق لما جاء کم اسحر ھذا موسیٰ نے کہا : کیا حق جب تمہارے پاس آگیا تو تم اس کو سحر کہتے ہو۔ کیا یہ جادو ہے ؟
یعنی حضررت موسیٰ نے بطور عجب و انکار کہا کہ جس امر کی صداقت و حقانیت اللہ کی طرف سے ہے ‘ تم اس کو سحر کہتے ہو ؟ سحر کی تو کوئی حقیقت نہیں ہوتی ‘ وہ تو صرف فریب کاری ہوتا ہے۔ یَقُوْلُوْنَ کا مفعول محذوف ہے۔ اَسِحْرٌ مفعول نہیں ہے ‘ یہ الگ جملہ ہے۔
ولا یفلح الساحرون۔ اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتے۔ یہ جملہ حضرت موسیٰ کے کلام کا تتمہ ہے ‘ یعنی یہ جادو نہیں ہے۔ اگر جادو ہوتا تو نابود ہوجاتا اور جادوگروں کے جادو کو تباہ نہ کرسکتا۔ یا یہ فقرہ فرعونیوں کے قول (سحر ھذا) کا تکملہ اور جزء ہے۔ گویا فرعونیوں نے کہا تھا کہ موسیٰ ! کیا تم جادو کا مظاہر کر کے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو ‘ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
قالوا اجئتنا لتلفتنا عما وجدنا علیہ ابآء نا وتکون لکم الکبریاء فی الارض وما نحن لکما بمؤمنین۔ فرعون نے کہا : (موسیٰ ! ) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ جس (مذہب) پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ‘ اس سے ہم کو پھیر دو ( موڑ دو ۔ قتادہ۔ یعنی بت پرستی یا فرعون کی پوجا سے ہم کو پھیرنے کیلئے آئے ہو) اور تم دونوں کی ملک مصر میں حکومت ہوجائے اور ہم تمہاری بات کو سچا نہیں مانیں گے۔ کبریاء سے مراد ہے حکومت اور اقتدار اعلیٰ ۔ بادشاہوں میں غرور دنیوی پیدا ہو ہی جاتا ہے ‘ اسلئے بادشاہت کا نام ہی غرور ہوگیا۔