سورہ یونس (10): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yunus کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يونس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یونس کے بارے میں معلومات

Surah Yunus
سُورَةُ يُونُسَ
صفحہ 216 (آیات 62 سے 70 تک)

أَلَآ إِنَّ أَوْلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَكَانُوا۟ يَتَّقُونَ لَهُمُ ٱلْبُشْرَىٰ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَٰتِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ أَلَآ إِنَّ لِلَّهِ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ شُرَكَآءَ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلَّيْلَ لِتَسْكُنُوا۟ فِيهِ وَٱلنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَٰتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ قَالُوا۟ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَٰنَهُۥ ۖ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ۖ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَٰنٍۭ بِهَٰذَآ ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ قُلْ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ مَتَٰعٌ فِى ٱلدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ ٱلْعَذَابَ ٱلشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا۟ يَكْفُرُونَ
216

سورہ یونس کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یونس کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا،

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala inna awliyaa Allahi la khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ خوب سن لو کہ (قیامت کے دن جب سب لوگوں کو مصیبت میں مبتلا ہونے کا خوف ہوگا) اللہ کے دوستوں کو (عذاب کا) کوئی اندیشہ نہ ہوگا اور نہ وہ (اپنی کسی امید کی ناکامی کے) غم میں مبتلا ہوں گے (یعنی ان کی ہر امید پوری کی جائے گی) ۔

دلاء اور تو الی کا لغوی معنی ہے دو یا زیادہ چیزوں کا براہ راست بلاواسطہ تعلق و اتصال۔ مجازاً اس سے مراد ہوتا ہے قرب خواہ مکانی ہو ‘ یا نسبی ‘ یا دینی ‘ یا اعتقادی ‘ یا دوستی اور مدد کے لحاظ سے ہو۔ قاموس میں ہے : وَلْیٌ قرب وَلِیٌّ۔ وَلْیٌسے صفت کا صیغہ ہے ‘ جس کا معنی ہے قرب رکھنے والا ‘ دوست ‘ مددگار۔

تنقیح

یوں تو ہر شخص بلکہ ہر چیز کا اللہ سے قرب ہے جس کی کیفیت نہیں جانی جاسکتی۔ اللہ نے فرمایا ہے : نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ رگ جان سے بھی زیادہ ہم بندہ کے قریب ہیں۔ اسی قرب کی وجہ سے یہ کائنات جامۂ ہستی پہنتی اور دائرۂ وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ قرب نہ ہوتا تو کوئی وجود کی بو بھی نہیں سونگھ سکتا۔ اصل ذات کے اعتبار سے ہر چیز نیست ہے ‘ سب کی اصل عدم ہے لیکن خاص بندوں کو ایک بےکیف قرب اور بھی حاصل ہے ‘ یہ قرب محبت ہے۔ عالم مثال میں اہل کشف کو یہ بےکیف محبت ‘ قرب جسمانی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ لفظ قرب کا قرب خلقی اور قرب محبت دونوں پر اطلاق بطور اشتراک لفظی کے ہوتا ہے۔ حقیقت قرب دونوں جگہ جدا جدا ہے۔ مؤخر الذکر قرب کے ان گنت ‘ غیر محدود درجات ہیں۔ ایک حدیث قدسی ہے (ا اللہ نے فرمایا) میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے پیار کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس کو پیار کرتا ہوں تو پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ الی آخر الحدیث (یعنی اس وقت وہ جو کام کرتا ہے ‘ وہ گویا میرا عمل ہوتا ہے) رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔

اس قرب کا ابتدائی درجہ صرف ایمان سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور آخری انتہائی درجہ انبیاء کا خصوصی حصہ ہے ‘ جن کے سردار رسول اللہ (ﷺ) ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) کے درجات ترقی پذیر ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔

صوفیہ کی اصطلاح میں کم سے کم وہ درجہ جس پر لفظ ولی کا اطلاق ہو سکتا ہے ‘ اس شخص کا ہے جس کا دل اللہ کی یاد میں ہر وقت ڈوبا رہتا ہے۔ وہ صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ اللہ کی محبت میں سرشار رہتا ہے۔ کسی اور کی محبت کی اس میں گنجائش نہیں ہوتی خواہ باپ ہو ‘ یا بیٹا ‘ یا بھائی ‘ یا بیوی ‘ یا دوسرے کنبہ والے ‘ کسی سے اس کو محبت نہیں ہوتی۔ اگر کسی سے محبت ہوتی ہے تو محض اللہ کیلئے اور نفرت ہوتی ہے تب بھی خوشنودئ مولیٰ کے حصول کیلئے۔ وہ کسی کو کچھ دیتا ہے تو صرف اللہ کیلئے اور نہیں دیتا ہے تب بھی اللہ کی مرضی کیلئے۔ اس گروہ کی آپس میں محبت لوجہ اللہ ہوتی ہے۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اس صفت کو فناء قلب کہا جاتا ہے۔ ولی کا ظاہر و باطن تقویٰ سے آراستہ ہوتا ہے۔ جو اعمال و اخلاق اللہ کو ناپسند ہیں ‘ ان سے وہ پرہیز رکھتا ہے۔ شرک خفی و جلی سے پاک رہتا ہے ‘ بلکہ وہ شرک جو چیونٹی کی رفتار کی آواز سے بھی زیادہ خفی ہوتا ہے ‘ اس سے بھی بچتا ہے۔ غرور ‘ کینہ ‘ حسد ‘ حرص اور ہوس سے منزہ ہوتا ہے اور انہی کے ساتھ عمدہ اخلاق و اعمال سے متصف ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کو صوفیہ فناء نفس کا مرتبہ کہتے ہیں۔ صوفیہ کا قول ہے کہ اس درجہ پر جب ولی پہنچ جاتا ہے تو اس کا شیطان اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور فرمانبردار بن جاتا ہے۔ ولایت کے ابتدائی درجہ کی طرف اللہ نے

اردو ترجمہ

ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena amanoo wakanoo yattaqoona

الذین امنوا سے اشارہ فرمایا : اولیا اللہ وہ ہیں جو ایمان لے آئے ‘ یعنی حقیقت ایمان ان کے اندر پیدا ہوگئی۔ ایمان کا محل قلب ہے۔ کمال ایمان یہ ہے کہ اللہ کی یاد سے دل میں اطمینان پیدا ہوجائے ‘ اللہ کے ذکر سے لمحہ بھر غافل نہ ہو ‘ کسی دوسرے کی طرف توجہ ہی نہ ہو۔ دوسرے مرتبہ کی طرف اشارہ فرمایا۔

وکانوا یتقون۔ اور (شرک و معاصی سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ یعنی اللہ کے اوامرو نواہی کی ظاہری اور باطنی ہر طرح پابندی کرتے ہیں۔

ابو داؤد نے حضرت عمر بن خطاب کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ انبیاء ہیں نہ شہدا لیکن قیامت کے دن ان کے مرتبۂ قرب کو دیکھ کر انبیاء اور شہدا ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! وہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : جو بندگان خدا سے محض اللہ کیلئے محبت رکھتے ہیں۔ اس میں نہ ان کی باہم رشتہ داریاں ہیں نہ مالی لین دین (کہ قرابت یا مالی لالچ کی وجہ سے ایک کو دوسرے سے محبت ہو) خدا کی قسم ! انکے چہرے (قیامت کے دن جسم) نور ہوں گے ‘ بالائے نور۔ جب اور لوگوں کو (عذاب کا) خوف ہوگا ‘ ان کو خوف نہ ہوگا۔ جب اور لوگ غم میں مبتلا ہوں گے ‘ وہ غمگین نہیں ہوں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : اَلاآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَ خوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھمْ یَحزَنُوْنَ بغوی نے ابو مالک اشعری کی روایت سے بھی یہ حدیث اسی طرح نقل کی ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں یہی لکھا ہے۔

حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سے آیت الاآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ کا معنی دریافت کیا گیا۔ فرمایا : یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں۔ ابن مردویہ نے حضرت جابر کی روایت سے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔

حصول ولایت کے ذرائع

مرتبۂ ولایت کا حصول رسول اللہ (ﷺ) کی پرتو اندازی سے ہوتا ہے ‘ خواہ عکس رسالت براہ راست پڑے ‘ یا کسی ایک واسطہ سے ‘ یا چند واسطوں سے۔ رسول اللہ (ﷺ) یا آپ کے نائبوں سے محبت اور ان کی ہم نشینی و اطاعت حصول ولایت کیلئے ضروری ہے ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے قلب ‘ نفس اور جسم کا رنگ ولی کے قلب ‘ قالب اور جسم پر ان ہی دونوں اوصاف کی وجہ سے چڑھ جاتا ہے اور یہی صبغۃ اللہ ہے جس کے متعلق فرمایا : صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً طریق مسنون کے مطابق ذکر اللہ کی کثرت عکس پذیری کیلئے مددگار ہوتی ہے ‘ اس سے دل کا میل دور ہوجاتا ہے اور آئینۂ قلب کی صفائی ہو کر عکس پذیری کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ہر چیز کی منجھائی ہوتی ہے اور دل کو مانجھنے والا اللہ کا ذکر ہے۔ رواہ البیہقی۔

عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص ۔ امام مالک ‘ امام احمد اور بیہقی نے حضرت معاذ بن جبل کی روایت سے بیان کیا ‘ حضرت معاذ نے فرمایا : میں نے خود ‘ خود حضور (ﷺ) کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ نے فرمایا : جو دو آدمی میرے لئے باہم محبت کرتے ہیں ‘ میرے لئے مل کر بیٹھتے ہیں ‘ میرے لئے خرچ کرتے ہیں ‘ ان سے میری محبت واجب ہوجاتی ہے۔

امام احمد ‘ طبرانی اور حاکم نے حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے آیا ہے کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! اس شخص کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت رکھتا ہے مگر اس قوم (کے عمل) تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ فرمایا : آدمی کا شمار انہی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی۔ رسائی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے عمل اس قوم کے اعمال کی طرح نہ ہو سکے ہوں۔ صحیحین میں حضرت انس کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے۔

بیہقی نے شعب الایمان میں لکھا ہے کہ حضرت ابو رزین نے بیان کیا : مجھ سے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میں تجھے بتاؤں کہ اس کام کا مدار کس چیز پر ہے جس سے تجھے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل جائے (مدار خیر یہ ہے کہ اہل ذکر کی مجلسوں میں حاضری کی پابندی کر اور تنہائی ہو تو جہاں تک ہو سکے اللہ کے ذکر سے زبان کو ہلاتا رہ اور اللہ کے واسطے محبت اور اللہ کے واسطے نفرت کر (یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے محبت و عداوت رکھ ‘ ذاتی غرض کوئی نہ ہو) ۔

امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت ابو ذر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے پیارا عمل یہ ہے کہ اللہ کی خوشنودی کیلئے محبت اور بغض کیا جائے۔

اللہ کا محبوب کون ہے

اولیاء میں ایک جماعت اللہ کی محبوبیت کے درجہ پر بھی فائز ہوجاتی ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ جب کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل کو طلب فرما کر حکم دیتا ہے : میں فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں ‘ تو بھی اس سے محبت کر۔ حسب الحکم حضرت جبرئیل اس بندے سے پیار کرنے لگتے ہیں ‘ پھر حضرت جبرئیل آسمان پر (اہل سمٰوات کو) ندا دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے ‘ تم بھی اس سے محبت کرو۔ حسب الارشاد اہل سماء اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔

پھر زمین (والوں) میں اس کو مقبولیت عطا کردی جاتی ہے۔ اور جب اللہ کسی بندہ سے نفرت کرتا ہے تو حضرت جبریل کو طلب فرما کر حکم دیتا ہے : میں فلاں شخص سے نفرت کرتا ہوں ‘ تو بھی اس سے نفرت کر۔ حسب الحکم حضرت جبرئیل اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ‘ پھر آسمان والوں کو حضرت جبرئیل ندا کرتے اور کہتے ہیں : اللہ فلاں شخص سے نفرت کرتا ہے ‘ تم بھی اس سے نفرت کرو۔ لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ‘ پھر زمین والوں میں سے اس سے نفرت پیدا کردی جاتی ہے (اور زمین والے اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں) ۔

فصل

اولیاء اللہ کی علامات کیا ہیں ؟

رسول اللہ (ﷺ) سے دریافت کیا گیا : اولیاء اللہ کون ہوتے ہیں ؟ فرمایا : جن کو دیکھنے سے اللہ کی یاد ہوتی ہے (بغوی) ۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ نے ارشاد فرمایا : میرے بندوں میں میرے اولیاء وہ ہیں جن کی یاد میرے ذکر سے اور میری یاد ان کا ذکر کرنے سے ہوتی ہے (بغوی) ۔

حضرت اسماء بنت یزید نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے سنا : سنو ! کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے اچھے کون لوگ ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ضرور فرمائیے۔ فرمایا : جن کو دیکھنے سے اللہ کی یاد ہوتی ہے (رواہ ابن ماجہ) ۔

فائدہ : اس کا گریہ ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ سے قرب اور بےکیف مصاحبت حاصل ہوتی ہے ‘ اسی وجہ سے ان کی ہم نشینی گویا اللہ کی ہم نشینی اور ان کا دیدار اللہ کی یاد دلانے والا اور ان کا ذکر اللہ کے ذکر کا موجب ہوتا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے سورج کے سامنے رکھا ہوا آئینہ جو سورج کی شعاعوں سے جگمگا جاتا ہے اور اس آئینہ کے سامنے جو چیز رکھی جاتی ہے آئینہ کی عکس ریزی سے وہ چیز بھی روشن ہوجاتی ہے ‘ بلکہ اگر روئی کو اس آئینے کے سامنے زیادہ قریب رکھا جائے تو آئینہ کے قرب کی وجہ سے روئی جل جاتی ہے اور سورج چونکہ دور ہوتا ہے ‘ اسلئے دھوپ میں روئی نہیں جلتی۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے اولیاء کے اندر اثر پذیری اور اثر اندازی کی قوی طاقت رکھی ہے۔ اللہ سے قرب اور بےکیف مناسبت رکھنے کی وجہ سے اولیاء میں اثر پذیری کی صلاحیت زیادہ قوی ہوتی ہے اور جنسیت نوعیت اور شخصیت کے اشتراک کی وجہ سے دوسرے ہم جنس ‘ ہم نوع اور مناسب التشخص افراد پر اثر اندازی کی استعداد بھی ان میں قوی ہوتی ہے۔ یہی تأثر و تاثیر کا تعلق اس امر کا باعث ہوتا ہے کہ ان کا حضور ‘ اللہ کے سامنے حضور کا ذریعہ اور ان کو دیکھنا اور ان کے ساتھ بیٹھنا اللہ کی یاد کا موجب ہوتا ہے ‘ مگر شرط یہ ہے کہ دیکھنے والے اور بیٹھنے والے کے دل میں انکار نہ ہو (منکروں کو کوئی فیض حاصل نہیں ہوتا) وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ اللہ ایمان و اطاعت کی حدود سے نکل جانے والوں کو ہدایت نہیں کرتا۔

رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ اللہ نے فرمایا : جس نے میرے ولی سے دشمنی کی ‘ میں نے اس کو (اپنی طرف سے) جنگ کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔ رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ

حضرت حنظلہ نے عرض کیا تھا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! جب ہم آپ کی خدمت میں موجود ہوتے ہیں اور آپ دوزخ اور جنت کی ہم کو یاد دلاتے ہیں تو گویا ہم اپنی آنکھوں سے جنت و دوزخ کو دیکھ لیتے ہیں ‘ لیکن جب آپ کے پاس سے نکل کر ہم باہر جاتے ہیں اور بیویوں ‘ بچوں اور زمینوں کے جھگڑوں میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ (جنت و دوزخ کو) بھول جاتے ہیں۔ فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ہر وقت تم اسی حالت پر رہو ‘ جس حالت پر میرے پاس اور میرے نصیحت کرنے کے وقت ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں ‘ مگر حنظلہ ! وقت ‘ وقت ہوتا ہے (ایک حضور کا وقت ‘ ایک غیبوبت کا وقت) یہ الفاظ حضور (ﷺ) نے تین مرتبہ فرمائے۔ رواہ مسلم

فائدہ : عام لوگ کشف و کرامت کو ولایت کی خصوصی نشانی سمجھتے ہیں ‘ مگر یہ غلط ہے۔ بہت سے اولیاء کشف و کرامت سے خالی ہوتے ہیں اور کبھی بطور استدراج دوسرے لوگوں میں اولیاء کے علاوہ بھی خرق عادات اور انکشافات غیبی پایا جاتا ہے (اسلئے کشف و کرامت معیار ولایت نہیں ہے ( اگر بعض اولیاء سے اتفاقاً کشف و کرامت کا ظہور ہوجائے تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ کشف و کرامت معیار ولایت ہے۔ اللہ نے اپنے رسول مکرم (ﷺ) کو خطاب کر کے فرمایا : قلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَيَّ آپ کہہ دیجئے کہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں تم جیسا انسان ہوں (مگر مجھے یہ امتیاز ہے کہ) میرے پاس وحی آتی ہے۔ دوسری جگہ خطاب کر کے فرمایا : قُلْ لَّوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓہُ اگر میں غیب داں ہوتا تو کثیر بھلائی سمیٹ لیتا اور برائی مجھے چھو بھی نہ جاتی۔ ایک جگہ اور خطاب فرمایا ہے : قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ آپ کہہ دیجئے کہ معجزات تو اللہ کے قبضہ میں ہیں۔

صوفیاء کرام کا قول ہے : کرامت تو مردوں کا حیض ہے ‘ اس کو چھپانا ہی ضروری ہے۔ کرامت کی وجہ سے ایک ولی کو دوسرے ولی پر فضیلت نہیں ہوتی ‘ اسی لئے جن اولیاء کے ہاتھوں سے کرامات کا ظہور زیادہ ہوا ان کو اپنے اس فعل پر ندامت ہوئی۔

اردو ترجمہ

دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahumu albushra fee alhayati alddunya wafee alakhirati la tabdeela likalimati Allahi thalika huwa alfawzu alAAatheemu

لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا دنیوی زندگی میں انہی کیلئے بشارت ہے۔ یہ بشارت وہی ہے جو رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کو عموماً اور بعض مخصوص صحابہ کو خصوصاً دی تھی۔

ترمذی نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی روایت سے اور ابن ماجہ نے حضرت سعید بن زید کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ابوبکر جنت میں (یعنی جنتی ) ہے ‘ عمر جنتی ہے ‘ عثمان جنتی ہے ‘ علی جنتی ہے ‘ طلحہ جنتی ہے ‘ زبیر جنتی ہے ‘ عبدالرحمن بن عوف جنتی ہے ‘ سعد بن ابی وقاص جنتی ہے ‘ سعید بن زید جنتی ہے ‘ ابو عبیدہ بن جراح جنتی ہے۔

ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : میری امت میں سب سے پہلے اے ابوبکر ! تم جنت میں جاؤ گے۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : سب سے پہلے زمین پھٹ کر میں برآمد ہوں گا ‘ پھر ابوبکر ‘ پھر عمر۔ ترمذی نے حضرت طلحہ بن عبیدا اللہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوگا اور میرا رفیق جنت کے اندر عثمان ہوگا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت سے بخاری و مسلم نے صحیحین میں بیان کیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی سے فرمایا : تم مجھ سے اس جگہ پر ہو جس جگہ پر حضرت ہارون ‘ حضرت موسیٰ سے تھے (یعنی جو قرب درجہ یا قرب نسب یا قرب محبت حضرت موسیٰ کی طرف سے حضرت ہارون کو تھا ‘ وہی قرب تم کو مجھ سے حاصل ہے) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

حضرت زید بن ارقم کی روایت سے امام احمد اور ترمذی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس کا مولیٰ (آقا ‘ سردار ‘ دوست) میں ہوں ‘ علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔

حضرت مسوربن مخرمہ کی روایت سے صحیحین میں آیا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔ جس نے اس کو ناراض کیا ‘ اس نے مجھے ناراض کیا۔

ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ یہ بھی فرمایا : جنت کی عورتوں میں سب سے بہتر مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ اور فرمایا : عورتوں پر عائشہ کی برتری ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت (باقی) کھانوں پر اور یہ بھی فرمایا کہ عبد اللہ یعنی ابن عمر صالح آدمی ہیں (رواہ البخاری و مسلم فی الصحیحین عن ابن عمر) حضرت عبد اللہ بن سلام کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل جنت میں سے ہے ( متفق علیہ عن سعد بن ابی وقاص) اور فرمایا : انصار سے محبت نہیں رکھتا ‘ مگر مؤمن اور ان سے بغض نہیں رکھتا ‘ مگر منافق (یعنی انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت اور ان سے بعض رکھنا نفاق کی نشانی ہے) جو ان سے محبت کرے گا ‘ اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بعض رکھے گا ‘ اللہ اس سے نفرت کرے گا۔ اور فرمایا : اسید بن حضیر کیسا اچھا آدمی ہے۔ ثابت بن قیس کیسا اچھا آدمی ہے۔ معاذ بن جبل کیسا اچھا آدمی ہے۔ معاذ بن عمرو بن جموح کیسا اچھا آدمی ہے۔

اور فرمایا : جنت تین شخصوں کی مشتاق ہے : علی ‘ عمار ‘ سلمان۔ حضور (ﷺ) نے اسی طرح بکثرت صحابہ کو تفصیل کے ساتھ بشارتیں دی تھیں۔ اور اللہ نے سب صحابہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے : وَکُلاّآ وَّعْدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی اور اللہ نے ہر ایک (مخلص صحابی) سے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ دوسری آیت میں بھی عمومی بشارت دی ہے ‘ فرمایا ہے : مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ الخ۔

حضور (ﷺ) نے فرمایا : میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی (کوہ) احد کے برابر سونا راہ خدا میں صرف کرے تو ان کے ایک سیر بلکہ آدھ سیر (راہ خدا میں صرف کرنے) کو نہیں پہنچے گا۔ رواہ البخاری ومسلم فی الصحیحین عن ابی سعید خدری

رزین نے حضرت عمر کی روایت سے بیان کیا کہ حضور (ﷺ) نے فرمایا : میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں ۔ جس کی (روشنی کی) پیروی کرو گے ‘ ہدایت پا لوگے۔

اور فرمایا : میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں ‘ پھر وہ لوگ جو ان سے متصل آئیں گے اور پھر وہ لوگ جو ان کے متصل آئیں گے (متفق علیہ عن عمران بن حصین) ۔

رسول اللہ (ﷺ) کی وفات کے بعد دنیوی بشارت وہ ہوتی ہے جو اللہ اپنے اولیاء کو خواب یا بیداری کی حالت میں عالم مثال کا انکشاف کر کے دیتا ہے۔ رویائے صالحہ (اچھے خواب) سے یہی عالم مثال کا انکشاف مراد ہے۔

رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : سوائے مبشرات (بشارتوں) کے ‘ نبوت کا کوئی جزء باقی نہیں رہا (یعنی میرے بعد لوگوں کو سوائے بشارتوں کے ‘ اللہ کے کسی قول کی اطلاع براہ راست یا ملائکہ کی معرفت آئندہ نہ ہوگی ‘ نبوت کا دروازہ بند ہوگیا) صحابہ نے عرض کیا : مبشرات کیا ہیں ؟ فرمایا : سچے خواب۔ رواہ البخاری عن ابی ہریرۃ۔

حضرت عبادہ بن صامت راوی ہیں : میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے آیت لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کی تشریح دریافت کی۔ فرمایا : (بشریٰ سے مراد) سچا خواب ہے جو آدمی کو دکھایا جاتا ہے (بغوی) ۔

حضرت ابو درداء سے لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کا معنی دریافت کیا گیا تو فرمایا : جب سے میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی ‘ اب تک سوائے تیرے کسی نے مجھ سے اس کی تفسیر دریافت نہیں کی۔ میں نے حضور (ﷺ) سے پوچھا تھا تو حضور (ﷺ) نے فرمایا تھا : جب سے یہ آیت نازل ہوئی ‘ کسی نے تیرے سوا اس کی مراد نہیں دریافت کی۔ (بشریٰ ) سے مراد) سچا خواب ہے جو مؤمن کو دکھایا جاتا ہے۔ دنیوی زندگی میں بھی اس کیلئے بشارت ہے اور آخرت میں جنت بشارت ہوگی (امام احمد و سعید بن منصور) یہ حدیث بہت سندوں سے آئی ہے۔

سچے خواب سے مراد عوام کے خواب نہیں بلکہ اولیاء اور صالحین کے خواب مراد ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : خواب تین ہوتے ہیں : (ایک) اللہ کی طرف سے بشارت ‘ (دوسرا) حدیث نفس (یعنی دماغی تخیلات یا تحت الشعور تصورات) ‘ (تیسرا) شیطان کی طرف سے ڈراوا (یعنی ہیبت ناک ‘ بےسروپا خواب) ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔

ایک شبہ : خواب خواہ اولیاء اور صلحاء کا ہو ‘ مفید یقین نہیں (اور اللہ کی طرف سے بشارت کو مفید یقین ہونا چاہئے) ۔

ازالہ : خواب سے یقین نہیں تو غالب گمان ضرور حاصل ہوجاتا ہے اور بشارت کیلئے غلبۂ ظن ہی کافی ہے۔

رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : نبوت کے 46 اجزاء میں سے اک جزء سچا خواب ہے۔ یہ حدیث بخاری نے حضرت ابو سعید راویت سے اور مسلم نے حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور احمد و ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کی ہے۔ اسی کی مثل ابن ماجہ نے حضرت عوف بن مالک کی روایت سے بھی بیان کیا ہے۔ 1 ؂

امام احمد نے حضرت ابن عمرو حضرت ابن عباس کی روایت سے اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر کی روایت سے بیان کیا ہے کہ سچا خواب نبوت کے ستر اجزاء میں سے ایک ہے۔

ابن النجار نے حضرت ابن عمر کا قول بیان کیا ہے کہ سچا خواب نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔

البشرٰی سے وہ عمومی بشارت مراد ہے جس کا تعلق جنت اور ثواب سے ہے۔ یہ بشارت ضرورتمام مؤمنوں کو دی گئی ہے مگر اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب ایمان پر خاتمہ ہو اور ایمان پر خاتمہ کیا معلوم ہو یا نہ ہو۔

بعض علماء کے نزدیک البشرٰی سے مراد لوگوں کی طرف سے ستائش ہے۔ بغوی نے عبد اللہ بن صامت کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابو ذر نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! آدمی (اچھے) کام تو اپنے لئے کرتا ہے مگر لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ فرمایا : مؤمن کیلئے یہ بشارت (دنیوی) ہے۔ مسلم کی روایت میں (بجائے محبت کرنے کے) لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں ‘ آیا ہے۔ زہری اور قتادہ نے کہا : مرنے کے وقت اللہ کی طرف سے ملائکہ بشارت لے کر نازل ہوتے ہیں ‘ البشرٰی سے یہی مراد ہے۔ اللہ نے فرمایا : تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلاآءِکَۃ الاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَلْبَشِرُ وَابَالْجَنَّۃ۔ عطاء کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول ہے۔

وفی الاخرۃ اور آخرت میں۔ یعنی جان نکلنے کے وقت مؤمن کی روح کو قرب الٰہی کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اللہ کی خوشنودی کی بشارت دی جاتی ہے اور قیامت کے دن قبر سے نکلنے کے وقت بھی اس کو بشارت دی جائے گی۔

حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جو شخص اللہ سے ملنا پسند کرتا ہے ‘ اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے ‘ اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ یا کسی اور بی بی نے عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہم کو تو موت پسند نہیں۔ فرمایا : یہ مطلب نہیں ہے ‘ بلکہ مؤمن کے مرنے کا جب وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی خوشنودی اور رحمت کی بشارت دی جاتی ہے ‘ پس وہ اللہ سے ملنے کا خواستگار ہوجاتا ہے اور کافر کی موت سامنے آتی ہے تو اس کو اللہ کے عذاب اور سزا کی اطلاع دی جاتی ہے۔ اس کو اپنے سامنے آنے والے عذاب سے زیادہ ناگوار اور کوئی چیز نہیں ہوتی ‘ اسلئے اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا اور اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ رواہ البخاری ومسلم فی الصحیحین۔

حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : لاآ اِلٰہَ الاَّ اللہ والوں کو نہ موت کے وقت وحشت ہوگی ‘ نہ قبروں میں ‘ نہ قبروں سے اٹھنے کے وقت۔ گویا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ چیخ (صور کی آواز) کے وقت وہ (اہل ایمان) سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہہ رہے تھے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْھَبَ عَنَّا الْحَزَنُ سزاوار ستائش ہے وہ اللہ جس نے ہم سے سختی کو دور کردیا۔ رواہ الطبرانی۔ ختلی نے دیباج میں حضرت ابن عباس کا مرفوع قول بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔

لا تبدیل لکلمات اللہ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یعنی اللہ کے وعدوں کے خلاف نہیں ہو سکتا۔

ذلک ھو الفوز العظیم۔ وہ یعنی مؤمنوں کا دونوں جہان میں بشارت یافتہ ہونا ہی بڑی کامیابی ہے۔ یہ اور اس سے پہلے کا جملہ ” معترضہ جملے “ ہیں جن سے اس جزاء کی عظمت و حقانیت کا اظہار مقصود ہے جس کی بشارت دی گئی ہے۔ جملہ معترضہ ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ کلام کے اوّل و آخر کے درمیان آئے اور کلام کا آخری حصہ وہ ہو جو اوّل سے مربوط ہے۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ تجھ پر بناتے ہیں وہ تجھے رنجیدہ نہ کریں، عزّت ساری کی ساری خدا کے اختیار میں ہے، اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala yahzunka qawluhum inna alAAizzata lillahi jameeAAan huwa alssameeAAu alAAaleemu

ولا یحزنک قولھم ان کا قول آپ کو رنجیدہ نہ کرے (آپ ان کی باتوں سے غمگین نہ ہوں) قول سے مراد ہے

کلمۂ شرک اور رسول اللہ (ﷺ) کی تکذیب اور دکھ پہنچانے کی دھمکیاں۔

ان العزۃ اللہ جمیعًا کیونکہ غلبہ تو سارا کا سارا اللہ ہی کو حاصل ہے (ساری طاقت اسی کو حاصل ہے) کسی کے قبضہ میں کوئی چیز نہیں۔ اللہ سب پر غالب ہے ‘ وہی آپ کی مدد کرے گا اور کامیاب فرمائے گا۔

ھو السمیع العلیم۔ وہی (ان کے اقوال کو) سننے والا (اور ان کی نیتوں کو) جاننے والا ہے۔ یعنی ان کو خود سزا دے گا۔

اردو ترجمہ

آگاہ رہو! آسمان کے بسنے والے ہوں یا زمین کے، سب سے سب اللہ کے مملوک ہیں اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala inna lillahi man fee alssamawati waman fee alardi wama yattabiAAu allatheena yadAAoona min dooni Allahi shurakaa in yattabiAAoona illa alththanna wain hum illa yakhrusoona

الا ان اللہ من فی السموت ومن فی الارض خوب سن لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو لوگ (ملائکہ ‘ جن ‘ انس) ہیں ‘ وہ اللہ کے (پیدا کئے ہوئے اور مملوک و مقبوض اور بندے) ہیں اور جب وہ ہستیاں جو تمام مخلوق میں اعلیٰ ہیں ‘ اللہ کی محکوم و پرستار ہیں ‘ ان میں کوئی بھی رب ہونے کے قابل نہیں۔ تو جو مخلوق نادان ‘ بےجان ‘ بےعقل ہے وہ اللہ کی شریک اور مثل کیسے ہو سکتی ہے ‘ اسلئے

وما یتبع الذین یدعون من دون اللہ شرکاء جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ‘ وہ ایسی مخلوق کا اتباع نہیں کرتے جو اللہ کی شریک ہو۔

ان یتبعون الا الظن صرف اپنے گمان کی پیروی کرتے ہیں۔ اپنے خیال میں جن کو شریک عبادت قرار دے رکھا ہے ‘

بس ان کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ما یتبع میں ما استفہامیہ انکار یہ ہو یا موصولہ ہو اور اس کا عطف مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ پر ہو۔

وان ھم الا یخرصون۔ اور محض قیاسی باتیں کر رہے ہیں۔

یعنی ان معبودوں کو اللہ کا شریک قرار دینے میں جھوٹ بولتے ہیں یا یہ ان کی محض من گھڑت ہے۔ غلط طور پر یہ اپنے معبودوں کو شریک الوہیت قرار دے رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (کھلے کانوں سے پیغمبر کی دعوت کو) سنتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee jaAAala lakumu allayla litaskunoo feehi waalnnahara mubsiran inna fee thalika laayatin liqawmin yasmaAAoona

ھو الذی جعل لکم الیل لتسکنوا فیہ اللہ وہی تو ہے جس نے تمہارے سکون کیلئے رات بنائی۔ یعنی دن کی محنت سے جو تم تھک جاتے ہو ‘ رات میں اس تکان سے آرام حاصل کرلو۔

والنھار مبصرًا اور دن کو روشنی بخش بنایا ‘ جس کی روشنی میں دنیا کی چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔

ان فی ذلک لایت لقوم یسمعون۔ اس میں ان لوگوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں جو سنیں۔ یعنی اللہ نے جو اپنی حکمت کے زیر اثر اتنی بڑی بڑی چیزیں پیدا کیں ‘ ان کی تخلیق کے اندر ایسی نشانیاں موجود ہیں جو اللہ کی قدرت تامہ ‘ نعمت عظیمہ اور حکمت شاملہ کو ظاہر کر رہی ہیں اور اللہ کو مستحق معبودیت ثابت کر رہی ہیں ‘ مگر یہ تمام نشانیاں انہی لوگوں کیلئے مفید ہیں جو اللہ کا کلام اور ہدایت کرنے والوں کی نصیحت کو تفکر و عبرت کے کانوں سے سنیں۔

اردو ترجمہ

لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے سبحان اللہ! وہ تو بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے تمہارے پاس اس قول کے لیے آخر کیا دلیل ہے؟ کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo ittakhatha Allahu waladan subhanahu huwa alghaniyyu lahu ma fee alssamawati wama fee alardi in AAindakum min sultanin bihatha ataqooloona AAala Allahi ma la taAAlamoona

قالا اتخذ اللہ ولدًا مشرکوں کا کہنا ہے کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ یعنی فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔

سبحٰنہ اللہ (اس تہمت سے) پاک ہے۔ یعنی کسی کا باپ بننے سے منزہ ہے۔ یہ فقرہ تنزیہیہ بھی ہے اور احمقوں کے کلام پر تعجب کا اظہار بھی ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کا وقوع بھی ناممکن اور تصور بھی (یعنی سبحان اللہ ! کیسی سخت بات کہہ رہے ہیں) ۔

ھو الغنی وہی بےنیاز ہے ‘ کسی چیز کا حاجتمند نہیں۔ کسی کی اس کو احتیاج نہیں ‘ اس کے سوا ہر چیز ممکن ہے۔ اپنے وجود ‘ بقائے وجود اور تمام حالات وصفات میں اسی کی محتاج ہے۔ بےنیاز اللہ اور محتاج ممکن میں کوئی مناسبت نہیں ‘ پھر کس طرح اللہ والد اور کوئی مخلوق اس کی اولاد ہو سکتی ہے ؟ اولاد کو تو اپنے والد کا ہم جنس ہونا چاہئے۔ یا یوں کہا جائے کہ اولاد کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں باپ کمزور ہو اور بیٹے کی وجہ سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہو ‘ یا مفلس ہو اور بیٹے سے مالی مدد کا خواستگارہو ‘ یا اس کو عزت حاصل نہ ہو اور قابل بیٹا اس کیلئے باعث عزت ہوجائے ‘ یا باپ مر جانے والا ہو اور اپنی نسل قائم رکھنا چاہتا ہو (بہرحال باپ کو بیٹے کی ضرورت کسی غرض اور حاجت کے زیر اثر ہوتی ہے) اور مذکورۂ بالا کسی قسم کی حاجتمندی سے اللہ بےنیاز ہے ‘ وہ غنی اور قدیم ہے۔

لہ ما فی السموت وما فی الارض اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ یعنی اسی کی مخلوق و ملک ہے ‘ پھر کس طرح اس میں سے کوئی چیز اللہ کی اولاد ہو سکتی ہے (اولاد نہ والد کی ملک ہوتی ہے نہ مخلوق) ۔

ان عند کم من سلطن بھدا تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یعنی نفی ولد کی دلیل کے مقابل کوئی دلیل نہیں ہے۔

اتقولون علی اللہ ما لا تعلمون۔ کیا تم اللہ پر ایسی تہمت باندھ رہے ہو جس کا علم (کسی دلیل کی روشنی میں) تم کو خود نہیں ہے۔

اس جملہ میں مشرکوں کو ان کی جہالت پر زجر ہے اور اس امر پر تنبیہ ہے کہ بےدلیل کوئی بات کہنی درست نہیں۔ عقائد کیلئے تو ناقابل شک قطعی دلیل کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے مفروضات فکریہ کی تقلید کسی طرح جائز نہیں۔

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، کہہ دو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پا سکتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul inna allatheena yaftaroona AAala Allahi alkathiba la yuflihoona

قل ان الذین یفترون (اے محمد (ﷺ) ! ) آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر دروغ بندی کرتے ہیں ‘ وہ یقیناً کامیاب نہیں ہوں گے۔ نہ دوزخ سے بچیں گے ‘ نہ جنت میں پہنچیں گے۔

اردو ترجمہ

دنیا کی چند روزہ زندگی میں مزے کر لیں، پھر ہماری طرف اُن کو پلٹنا ہے پھر ہم اس کفر کے بدلے جس کا ارتکاب وہ کر رہے ہیں ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

MataAAun fee alddunya thumma ilayna marjiAAuhum thumma nutheequhumu alAAathaba alshshadeeda bima kanoo yakfuroona

متاع فی الدنیا یہ دنیا میں (چند روزہ) تھوڑا سا عیش ہے۔ یعنی یہ دورغ بندی دنیا میں کچھ مزہ اڑانے کا سبب ہوجائے گی۔ اس طریقے سے وہ کفر کی حالت میں اپنی ریاست کو قائم رکھ سکیں گے۔ یا ان کی زندگی دنیوی متاع حقیر ہے۔

ثم الینا مرجعھم ثم نذیقھم العذاب الشدید بما کانوا یکفرون۔ پھر (موت کے بعد) ان کی واپسی ہماری ہی طرف ہوگی ‘ پھر ان کے کفر کی پاداش میں ہم ان کو عذاب شدید کا مزہ چکھائیں گے۔

216