سورہ یونس (10): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yunus کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يونس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یونس کے بارے میں معلومات

Surah Yunus
سُورَةُ يُونُسَ
صفحہ 218 (آیات 79 سے 88 تک)

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ٱئْتُونِى بِكُلِّ سَٰحِرٍ عَلِيمٍ فَلَمَّا جَآءَ ٱلسَّحَرَةُ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰٓ أَلْقُوا۟ مَآ أَنتُم مُّلْقُونَ فَلَمَّآ أَلْقَوْا۟ قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ ٱلسِّحْرُ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ سَيُبْطِلُهُۥٓ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ ٱلْمُفْسِدِينَ وَيُحِقُّ ٱللَّهُ ٱلْحَقَّ بِكَلِمَٰتِهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُجْرِمُونَ فَمَآ ءَامَنَ لِمُوسَىٰٓ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِۦ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِى ٱلْأَرْضِ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلْمُسْرِفِينَ وَقَالَ مُوسَىٰ يَٰقَوْمِ إِن كُنتُمْ ءَامَنتُم بِٱللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوٓا۟ إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ فَقَالُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلْكَٰفِرِينَ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّءَا لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَٱجْعَلُوا۟ بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَآ إِنَّكَ ءَاتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُۥ زِينَةً وَأَمْوَٰلًا فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا۟ عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا ٱطْمِسْ عَلَىٰٓ أَمْوَٰلِهِمْ وَٱشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا۟ حَتَّىٰ يَرَوُا۟ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ
218

سورہ یونس کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یونس کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اور فرعون نے (اپنے آدمیوں سے) کہا کہ “ہر ماہر فن جادوگر کو میرے پاس حاضر کرو "

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala firAAawnu itoonee bikulli sahirin AAaleemin

موسیٰ ؑ بمقابلہ فرعونی ساحرین سورة اعراف، سورة طہ، سورة شعراء اور اس سورت میں بھی فرعونی جادو گروں اور حضرت موسیٰ ؑ کا مقابلہ بیان فرمایا گیا ہے۔ ہم نے اس پورے واقعہ کی تفصیل سورة اعراف کی تفسیر میں لکھ دی ہے۔ فرعون نے جادو گروں اور شعبدہ بازوں سے حضرت موسیٰ ؑ کے معجزے کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے لیے انتظام کئے۔ قدرت نے بھرے میدان میں اے شکست فاش دی اور خود جادوگر حق کو مان گئے وہ سجدے میں گر کر اللہ اور اس کے دونوں نبیوں پر وہیں ایمان لائے اور اپنے ایمان کا غیر مشتبہ الفاظ میں سب کے سامنے فرعون کی موجودگی میں اعلان کردیا۔ اس وقت فرعون کا منہ کالا ہوگیا اور اللہ کے دین کا بول بالا ہوا۔ اس نے اپنی سپاہ اور جادوگروں کے جمع کرنے کا حکم دیا۔ یہ آئے، صفیں باندھ کر کھڑے ہوئے، فرعون نے ان کی کمر ٹھوکی انعام کے وعدے دیئے، انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ بولو اب ہم پہلے اپنا کرتب دکھائیں یا تم پہل کرتے ہو۔ آپ نے اسی بات کو بہتر سمجھا کہ ان کے دل کی بھڑاس پہلے نکل جائے۔ لوگ ان کے تماشے اور بال کے ہتھکنڈے پہلے دیکھ لیں۔ پھر حق آئے اور باطل کا صفایا کر جائے۔ یہ اچھا اثر ڈالے گا، اس لیے آپ نے انہیں فرمایا کہ تمہیں جو کچھ کرنا ہے شروع کردو۔ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر کے انہیں ہیبت زدہ کرنے کا زبردست مظاہر کیا۔ جس سے حضرت موسیٰ ؑ کے دل میں بھی خطرہ پیدا ہوگیا فورا اللہ کی طرف سے وحی اتری کہ خبردار ڈرنا مت۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دے۔ وہ ان کے سو ڈھکوسلے صاف کر دے گی۔ یہ جادو کے مکر صفت ہے۔ اس میں اصلیت کہاں انہیں فوج و فلاح کیسے نصیب ہو ؟ اب حضرت موسیٰ ؑ سنبھل گئے اور زور دے کر پیشگوئی کی کہ تم تو یہ سب جادو کے کھلونے بنا لائے ہو دیکھنا اللہ تعالیٰ انہیں بھی درہم برہم کر دے گا۔ تم فسادیوں کے اعمال دیر پا ہو ہی نہیں سکتے۔ حضرت لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ان آیتوں میں اللہ کے حکم سے جادو کی شفا ہے۔ ایک برتن میں پانی لے کر اس پر یہ آیتیں پڑھ کر دم کردیں جائیں اور جس پر جادو کردیا گیا ہو اس کے سر پر وہ پانی بہا دیا جائے (آیت فلما القوا سے کرہ المجرمون) تک یہ آیتیں اور (فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ01108ۚ) 7۔ الاعراف :118) سے چار آیتوں تک اور (اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ ۭ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى 69؀) 20۔ طه :69) (ابن ابی حاتم)

اردو ترجمہ

جب جادو گر آ گئے تو موسیٰؑ نے ان سے کہا “جو کچھ تمہیں پھینکنا ہے پھینکو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma jaa alssaharatu qala lahum moosa alqoo ma antum mulqoona

اردو ترجمہ

پھر جب انہوں نے اپنے آنچھر پھینک دیے تو موسیٰؑ نے کہا “یہ جو کچھ تم نے پھینکا ہے یہ جادو ہے، اللہ ابھی اِسے باطل کیے دیتا ہے، مفسدوں کے کام کو اللہ سدھرنے نہیں دیتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falamma alqaw qala moosa ma jitum bihi alssihru inna Allaha sayubtiluhu inna Allaha la yuslihu AAamala almufsideena

اردو ترجمہ

اور اللہ اپنے فرمانوں سے حق کو حق کر دکھاتا ہے، خواہ مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayuhiqqu Allahu alhaqqa bikalimatihi walaw kariha almujrimoona

اردو ترجمہ

(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fama amana limoosa illa thurriyyatun min qawmihi AAala khawfin min firAAawna wamalaihim an yaftinahum wainna firAAawna laAAalin fee alardi wainnahu lamina almusrifeena

بزدلی ایمان کے درمیان دیوار بن گئی ان زبردست روشن دلیلوں کے اور معجزوں کے باوجود حضرت موسیٰ ؑ پر بہت کم فرعونی ایمان لاسکے۔ کیونکہ ان کے دل میں فرعون کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ خبیث رعب دبدبہ والا بھی تھا اور ترقی پر بھی تھا۔ حق ظاہر ہوگیا تھا لیکن کسی کو اس کی مخالفت کی جرت نہ تھی ہر ایک کا خوف تھا کہ اگر آج میں ایمان لے آیا تو کل اس کی سخت سزاؤں سے مجبور ہو کر دین حق چھوڑنا پڑے گا۔ پس بہت سے ایسے جانباز موحد جنہوں نے اس کی سلطنت اور سزا کی کوئی پرواہ نہ کی اور حق کے سامنے سر جھکا دیا۔ ان میں خصوصیت سے قابل ذکر فرعون کی بیوی تھی اس کی آل کا ایک اور شخص تھا ایک جو فرعون کا خزانچی تھا۔ اس کی بیوہ تھی وغیرہ ؓ اجمعین۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے حضرت موسیٰ پر بنی اسرائیل کی تھوڑی سی تعداد کا ایمان لانا ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ ذریت سے مراد قلیل ہے یعنی بہت کم لوگ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اولاد بھی مراد ہے۔ یعنی جب حضرت موسیٰ نبی بن کر آئے اس وقت جو لوگ ہیں ان کی موت کے بعد ان کی اولاد میں سے کچھ لوگ ایمان لائے۔ امام ابن جریر تو قول مجاہد کو پسند فرماتے ہیں کہ قومہ میں ضمیر کا مرجع حضرت موسیٰ ہیں کیونکہ یہی نام اس سے قریب ہے۔ لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ ذریت کے لفظ کا تقاضا جوان اور کم عمر لوگ ہیں اور بنو اسرائیل تو سب کے سب مومن تھے جیسا کہ مشہور ہے یہ تو حضرت موسیٰ کے آنے کی خوشیاں منا رہے تھے ان کی کتابوں میں موجود تھا کہ اس طرح نبی اللہ آئیں گے اور ان کے ہاتھوں انہیں فرعون کی غلامی کی ذلت سے نجات ملے گی ان کی کتابوں کی یہی بات تو فرعون کے ہوش و حواس گم کئے ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس نے حضرت موسیٰ کی دشمنی پر کمر کس لی تھی اور آپ کی نبوت کے ظاہر ہونے سے پہلے اور آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے آجانے کے بعد ہم تو اس کے ہاتھوں بہت ہی تنگ کئے گئے ہیں۔ آپ نے انہیں تسلی دی کہ جلدی نہ کرو۔ اللہ تمہارے دشمن کا ناس کرے گا، تمہیں ملک کا مالک بنائے گا پھر دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو ؟ پس یہ تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آیت سے مراد قوم موسیٰ کی نئی نسل ہو۔ اور یہ کہ بنو اسرائیل میں سے سوائے قارون کے اور کوئی دین کا چھوڑنے والا ایسا نہ تھا جس کے فتنے میں پڑجانے کا خوف ہو۔ قارون گو قوم موسیٰ میں سے تھا لیکن وہ باغی تھا فرعون کا دوست تھا۔ اس کے حاشیہ نشینوں میں تھا، اس سے گہرے تعلق رکھتا تھا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملھم میں ضمیر فرعون کی طرف عائد ہے اور بطور اس کے تابعداری کرنے والوں کی زیادتی کے ضمیر جمع کی لائی گئی ہے۔ یا یہ کہ فرعون سے پہلے لفظ ال جو مضاف تھا محذوف کردیا گیا ہے۔ اور مضاف الیہ اس کے قائم مقام رکھ دیا ہے۔ ان کا قول بھی بہت دور کا ہے۔ گو امام ابن جریر نے بعض نحویوں سے بھی ان دونوں اقوال کی حکایت کی ہے اور اس سے اگلی آیت جو آرہی ہے وہ بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل سب مومن تھے۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ “لوگو، اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala moosa ya qawmi in kuntum amantum biAllahi faAAalayhi tawakkaloo in kuntum muslimeena

اللہ پر مکمل بھروسہ ایمان کی روح حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مومن مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ رکھو جو اس پر بھروسہ کرے وہ اسے کافی ہے عبادت و توکل دونوں ہم پلہ چیزیں ہیں۔ فرمان رب ہے (فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ01203) 11۔ ھود :123) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ۔ ایک اور آیت میں اپنے نبی ﷺ کو ارشاد فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ رب رحمن پر ہم ایمان لائے اور اسی کی ذات پاک پر ہم نے توکل کیا۔ فرماتا ہے مشرق و مغرب کا رب جو عبادت کے لائق معبود ہے، جس کے سوا پرستش کے لائق اور کوئی نہیں۔ تو اسی کو اپنا وکیل و کارساز بنا لے۔ تمام ایمانداروں کو جو سورت پانچوں نمازوں میں تلاوت کرنے کا حکم ہوا اس میں بھی ان کی زبانی اقرار کرایا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ بنو اسرائیل نے اپنے نبی ؑ کا یہ حکم سن کر اطاعت کی اور جواباً عرض کیا کہ " ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے۔ پروردگار تو ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا کہ وہ ہم پر غالب رہ کر یہ سمجھنے لگیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو ہم ان پر غالب کیسے رہ سکتے " یہ مطلب بھی اس دعا کا بیان کیا گیا ہے کہ " اللہ ہم پر ان کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرانا، نہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پر نازل فرما کہ یہ لوگ کہنے لگیں کہ اگر بنی اسرائیل حق پر ہوتے تو ہماری سزائیں کیوں بھگتتے یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے ؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ہم پر غالب رہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں ہمارے سچے دین سے ہمیں ہٹانے کے لیے کوششیں کریں۔ اور اے پروردگار ان کافروں سے جنہوں نے حق سے انکار کردیا ہے حق کو چھپایا لیا تو ہمیں نجات دے، ہم تجھ پر ایمان لائے ہیں اور ہمارا بھروسہ صرف تیری ذات پر ہے۔

اردو ترجمہ

انہوں نے جواب دیا “ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faqaloo AAala Allahi tawakkalna rabbana la tajAAalna fitnatan lilqawmi alththalimeena

اردو ترجمہ

اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanajjina birahmatika mina alqawmi alkafireena

اردو ترجمہ

اور ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ “مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھیرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waawhayna ila moosa waakheehi an tabawwaa liqawmikuma bimisra buyootan waijAAaloo buyootakum qiblatan waaqeemoo alssalata wabashshiri almumineena

قوم فرعون سے بنی اسرائی کی نجات بنی اسرائیل کی فرعون اور فرعون کی قوم سے نجات پانا، اس کی کیفیت بیان ہو رہی ہے دونوں نبیوں کو اللہ کی وحی ہوئی کہ " اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بنالو۔ اور اپنے گھروں کو مسجدیں مقرر کرلو۔ اور خوف کے وقت گھروں میں نماز ادا کرلیا کرو "۔ چناچہ فرعون کی سختی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس لیے انہیں کثرت سے نماز ادا کرنے کا حکم ہوا۔ یہی حکم اس امت کو ہے کہ ایمان دار و صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ حضور ﷺ کی عادت مبارک بھی یہی تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی فوراً نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ یہاں بھی حکم ہوتا ہے کہ اپنے گھروں کو قبلہ بنا لو، اے نبی ﷺ ان مومنوں کو تم بشارت دو انہیں دار آخرت میں ثواب ملے گا اور دنیا میں ان کی تائید و نصرت ہوگی۔ اسرائیلیوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ فرعونیوں کے سامنے ہم اپنی نماز اعلان سے نہیں پڑھ سکتے تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھر قبلہ رو ہو کر وہیں نماز ادا کرسکتے ہو اپنے گھر آمنے سامنے بنانے کا حکم ہوگیا۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے دعا کی “اے ہمارے رب، تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور اموال سے نواز رکھا ہے اے رب، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے بھٹکائیں؟ اے رب، ان کے مال غارت کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala moosa rabbana innaka atayta firAAawna wamalaahu zeenatan waamwalan fee alhayati alddunya rabbana liyudilloo AAan sabeelika rabbana itmis AAala amwalihim waoshdud AAala quloobihim fala yuminoo hatta yarawoo alAAathaba alaleema

فرعون کا تکبر اور موسیٰ ؑ کی بد دعا جب فرعون اور فرعونیوں کا تکبر، تجبر، تعصب بڑھتا ہی گیا۔ ظلم و ستم بےرحمی اور جفا کاری انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ کے صابر نبیوں نے ان کے لیے بد دعا کی کہ یا اللہ تو نے انہیں دنیا کی زینت و مال خوب خوب دیا اور تو بخوبی جانتا ہے کہ وہ تیرے حکم کے مطابق مال خرچ نہیں کرتے۔ یہ صرف تیری طرف سے انہیں ڈھیل اور مہلت ہے۔ یہ مطلب تو ہے جب لیضلِّوا پڑھا جائے جو ایک قرأت ہے اور جب لِیُضِلُّوا پڑھیں تو مطلب یہ ہے کہ یہ اس لئے کہ وہ اوروں کو گمراہ کریں جن کی گمراہی تیری چاہت میں ہے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہی لوگ اللہ کے محبوب ہیں ورنہ اتنی دولت مندی اور اس قدر عیش و عشرت انہیں کیوں نصیب ہوتا ہے ؟ اب ہمای دعا ہے کہ ان کے یہ مال تو غارت اور تباہ کر دے۔ چناچہ ان کے تمام مال اسی طرح پتھر بن گئے۔ سونا چاندی ہی نہیں بلکہ کھیتیاں تک پتھر کی ہوگئیں حضرت محمد بن کعب اس سورة یونس کی تلاوت امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے سامنے کر رہے تھے جب اس آیت تک پہنچے تو خلیفۃ المسلمین نے سوال کیا کہ یہ طمس کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا ان کے مال پتھر بنا دیئے گئے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنا صندوقچہ منگوا کر اس میں سے سفید چنا نکال کر دکھایا جو پتھر بن گیا تھا۔ اور دعا کی کہ پروردگار ان کے دل سخت کر دے ان پر مہر لگادے کہ انہیں عذاب دیکھنے تک ایمان لانا نصیب نہ ہو۔ یہ بد دعا صرف دینی حمیت اور دینی دل سوزی کی وجہ سے تھی یہ غصہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر تھا۔ جب دیکھ لیا اور مایوسی کی حد آگئی حضرت نوح ؑ کی دعا ہے کہ الٰہی زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ ورنہ اروں کو بھی بہکائیں گے اور جو نسل ان کی ہوگی وہ بھی انہیں جیسی بےایمان بدکار ہوگی۔ جناب باری نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون دونوں بھائیوں کی یہ دعا قبول فرمائی۔ حضرت موسیٰ ؑ دعا کرتے جاتے تھے اور حضرت ہارون ؑ آمین کہتے جاتے تھے۔ اسی وقت وحی آئی کہ " ہماری یہ دعا مقبول ہوگئی " سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ آمین کا کہنا بمنزلہ دعا کرنے کے ہے کیونکہ دعا کرنے والے صرف حضرت موسیٰ تھے آمین کہنے والے حضرت ہارون تھے لیکن اللہ نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی پس مقتدی کے آمین کہہ لینے سے گویا فاتحہ کا پڑھ لینے والا ہے۔ پس اب تم دونوں بھائی میرے حکم پر مضبوطی سے جم جاؤ۔ جو میں کہوں بجا لاؤ۔ اسی دعا کے بعد فرعون چالیس ماہ زندہ رہا کوئی کہتا ہے چالیس دن۔

218