سورہ زمر (39): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Az-Zumar کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الزمر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ زمر کے بارے میں معلومات

Surah Az-Zumar
سُورَةُ الزُّمَرِ
صفحہ 459 (آیات 6 سے 10 تک)

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْأَنْعَٰمِ ثَمَٰنِيَةَ أَزْوَٰجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَٰتٍ ثَلَٰثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُ ۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ إِن تَكْفُرُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ ٱلْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا۟ يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُۥ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ۞ وَإِذَا مَسَّ ٱلْإِنسَٰنَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُۥ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُۥ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِىَ مَا كَانَ يَدْعُوٓا۟ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلنَّارِ أَمَّنْ هُوَ قَٰنِتٌ ءَانَآءَ ٱلَّيْلِ سَاجِدًا وَقَآئِمًا يَحْذَرُ ٱلْءَاخِرَةَ وَيَرْجُوا۟ رَحْمَةَ رَبِّهِۦ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَٱلَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ قُلْ يَٰعِبَادِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا۟ فِى هَٰذِهِ ٱلدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ ٱللَّهِ وَٰسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّٰبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
459

سورہ زمر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ زمر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalaqakum min nafsin wahidatin thumma jaAAala minha zawjaha waanzala lakum mina alanAAami thamaniyata azwajin yakhluqukum fee butooni ommahatikum khalqan min baAAdi khalqin fee thulumatin thalathin thalikumu Allahu rabbukum lahu almulku la ilaha illa huwa faanna tusrafoona

آیت نمبر 6

انسان جب اپنے نفس پر غور کرتا ہے ، اس نفس پر جسے اس نے خود پیدا نہیں کیا اور وہ اس کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں بھی خود نہیں جانتا ۔ صرف وہی معلومات اس کے پاس ہیں جو اللہ خالق نے دیئے ہیں۔ انسان کا نفس ایک ہے ، اس کی ذات ایک ہے۔ اس کی اس ذات اور نفس کے خصائص ایک ہیں اور اس نفس انسانی کے بعض خصائص دوسری مخلوقات سے باکل جدا ہیں۔ جس طرح نفس انسانی کے تمام افراد ایک مخصوص دائرے کے اندر محدود اور متمیز ہیں۔ اسی طرح ” نفس انسانی “ ان اربوں افراد کے درمیان ایک ہے جو اس زمین میں منتشر ہیں یا رہتے ہیں۔ اسی نفس واحد سے پھر اس کا جوڑا یا بیوی بھی پیدا ہوئی۔ تمام انسانی خصوصیات کے اندر عورت مرد کے ساتھ شریک ہے۔ اگرچہ تفصیلی خصوصیات مختلف ہیں لیکن بنیادی خصوصیات ایک ہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردو عورت کی ساخت ایک ہی نقشے کے مطابق ہے۔ اسی نقشے کے اندر بعض ترمیمات کی وجہ سے مرد اور عورت الگ الگ ہوگئے ۔ ایک ہی ارادہ ہے جو مرد اور عورت کو الگ کرتا ہے۔

نفس انسانی کے اندر مرد و عورت کے اختلافات کے حوالے اور مناسبت سے یہاں دوسرے حیوانات کی اہم اجناس کے نرومادہ کے نظام کیطرف بھی اشارہ کردیا گیا کہ اس پوری کائنات میں اور انسانوں کے علاوہ دوسرے حیوانات میں بھی حق جاری ہے

وانزل لکم من الانعام ثمٰنیة ازواج (39: 6) ” اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نرو مادہ پیدا کیے “۔ یہ آٹھ جانور نرومادہ جس طرح دوسری آیات میں آئے ہیں ، بھیڑ ، بکریاں ، ڈنگر اور اونٹ ہیں۔ یعنی نرومادہ کے شمار سے آٹھ بنتے ہیں۔ اور جب نرومادہ کو جمع کیا جائے تو ان پر ازواج یعنی جوڑوں کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یوں مجموعہ بن جاتا ہے۔

انداز بیان یہ بتاتا ہے کہ اللہ نے ان کو نازل کیا ہے یعنی پیدا کرکے تمہارے لیے مسخر کیا ہے۔ یہ تسخیر اللہ کی طرف سے منزل ہے۔ یعنی اللہ کے علوشان کا یہ کارنامہ ہے اور اس اللہ نے اس کی اجازت دی ہے کہ انسان ان آٹھ قسم کے جانوروں کو گوشت استعمال کرے۔ جانوروں میں نرومادہ کی خصوصیات کے تذکرے کے بعد پھر ماؤں کے پیٹ میں پائے جانے والے جنین کے مختلف مراحل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

یخلقکم فی۔۔۔ بعد خلق (39: 6) ” پھر وہ ماؤں کے پیٹوں میں تخلیق کے بعد تخلیق کرتا چلا جاتا ہے “۔ پہلے نطفہ ، پھر لوتھڑا ، پھر گوشت کا قطعہ ، پھر ہڈیاں ، پھر واضح شکل اور آخر میں اس کے اندر انسانی حواس کا پیدا کرنا اور انسانی خصوصیات کا پیدا کرنا۔

فی ظلمٰت ثلث (39: 6) ” تین تین تاریک پردوں کے اندر “۔ پہلے اس پردے کی تاریکی جس کے اندر جنین ہوتا ہے ، رحم کی م اور کی ظلمت جس کے اندر وہ ملفوف ہوتا ہے اور پھر ماں کا پیٹ جس کے اندر رحم ہوتا ہے اور اللہ کا دست قدرت اس ذرے کو روز بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ دست قدرت روزا سے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ پھر اس کی شکل و صورت بدلتی جاتی ہے۔ یہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اللہ اس مخلوق کی نگرانی کرتا ہے اور اسے بڑھنے کی طاقت دیتا ہے۔ اور یوں شکل بدلنا اس کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ یہ قدم بقدم آگے جاتا ہے۔ اللہ کی تقدیر اور اندازے کے مطابق ۔

انسان کے اس مختصر سفر اور اس کے اندر اس کی ساخت کی ان دور رس تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالنے اور ان تغیرات کو غور سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر پائی جانے والی عجیب و غریب ضصوصیات کی کارفرمائی اور راہنمائی میں اس کمزور ترین اور خوردبینی خلیے نے جس انداز سے ترقی کی ، ان اندھیروں میں اور اس عجیب انداز میں ، تو انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ سب باتیں انسان کے علم وبصیرت اور اس کی قدرت سے وراء ہیں۔

یہ تمام حقائق اس بات کے لیے کافی ہیں کہ انسان کو خالق کائنات کی معرفت پر مجبور کریں۔ اور انسان خالق کائنات کو اس کے ان زندہ آثار کے ذریعے پہچان لے اور اس تخلیق کے اندر جو وحدانیت ہے۔ اس کے آثار بالکل ظاہر و باہر ہیں اور کوئی سوچنے والا انسان کس طرح ان سے صرف نظر کرسکتا ہے۔ ذٰلکم اللہ ربکم له الملک لا اله الاھوفانیٰ نصرفون (39: 6) ” یہی تمہارا رب ہے ' بادشاہی اسی کی ہے ' کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے ' پھر تم کدھر جارہے ہو ؟ “

اللہ وحدہ کی ان نشانیوں کو دیکھتے ہوئے ، اللہ کی بےقید قدرت کے ان نشانات کو ملاحظہ کرتے ہوئے یہاں لوگوں کو خود اپنے طرز عمل پر خود کرنے کے لیے ذرا کھڑا کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اب تمہارے سامنے صرف دو راستے ہیں۔ شکر کی راہ اور کفر کی راہ اور جو راہ بھی تم اختیار کرو گے اس کے سارے نتیجے کی ذمہ رادی انفرادی ہے۔ اور اشارہ دے دیا جاتا کہ وقت قریب ہے ۔ دنیا کا یہ مرحلہ ختم ہونے والا ہے۔ پھر حساب و کتاب ہوگا اور یہ حساب و کتاب وہ ذات لے گی جس نے تمہیں تین تاریک ترین پردوں کے اندر سے نکال کر ذمہ راد بنایا ہے۔ اور وہ اب تمارے دلوں کی خفیہ ترین باتوں کو بھی جانتا ہے۔

اردو ترجمہ

اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکر کر و تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا آخرکار تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو، وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

In takfuroo fainna Allaha ghaniyyun AAankum wala yarda liAAibadihi alkufra wain tashkuroo yardahu lakum wala taziru waziratun wizra okhra thumma ila rabbikum marjiAAukum fayunabbiokum bima kuntum taAAmaloona innahu AAaleemun bithati alssudoori

آیت نمبر 7

تمہاری ماؤں کے پیٹ کا عرصہ تو تمہارے طویل سفر زندگی کا ایک مختصر حصہ ہے۔ ابتدائی مرحلہ ہے۔ پھر پیٹ سے باہر آکر تم قدرے طویل مرحلے میں داخل ہوگے۔ اس کے بعد تیسرا طویل اور ابدی مرحلہ ہوگا۔ حساب و کتاب ہوگا اور یہ مرحلہ اللہ علیم وخبیر کی تدبیر سے طے ہوگا۔

جہاں تک اللہ کی ذات کا تعلق ہے وہ انسان جیسی کمزور مخلوق کا محتاج نہیں ہے۔ انسان بہت ہی ضعیف مخلوق ہے۔ یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ وہ انسانوں کیطرف متوجہ ہے اور انکی نگرانی اور ان پر مہربانی کرتا ہے اور وہ کس قدر ضعیف اور کس قدر کمزور ہیں

ان تکفروافان اللہ غنی عنکم (39: 7) ” اگر تم کفر کرو تو اللہ بےنیاز ہے “۔ کیونکہ تمہارا ایمان اللہ کی مملکت میں کسی چیز کا

اضافہ نہیں کرسکتا ۔ اور تمہارا کفر اس میں کسی چیز کی کمی نہیں کرسکتا۔ لیکن اللہ اپنے بندوں کی جانب سے کفر کو پسند نہیں کرتا اور کفر کو محبوب نہیں رکھتا۔

ولایرضٰی لعبادہ الکفر (39: 7) ” لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا “۔ اور اگر تم شکر کرو۔

وان تشکرواترضه لکم (39: 7) ” اگر تم شکر کرو تو اسے وہ تمہارے لیے پسند کرتا ہے “۔ وہ شکر کو محبوب رکھتا ہے ، اور اس پر جزائے خیر دیتا ہے۔

ولا تزروازرۃ وزراخرٰی (39: 7) ” کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا “۔ آخر کار ہم نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ صرف اس کے آگے پیش ہونا ہے اور اس کے سوا کوئی پناہ نہیں ہے۔

ثم الیٰ ۔۔۔۔ تعملون (39: 7) ” آخر کار تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے۔ پھر تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو “۔

اس پر کوئی امر مخفی نہیں ہے۔

انه علیم بذات الصدور (39: 7) ” وہ دلوں کا حال جانتا ہے “۔ یہ ہے انجام حیات ۔ یہ ہیں دلائل ہدایت اور یہ ہے دو راہہ جس سے دونوں راستے الگ ہوتے ہیں۔ ایک ہدایت کا راستہ اور ایک ضلالت کا راستہ۔ اب ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے جو شخص جس راستے کا اختیار کرے خوب سمجھ کر اختیار کرے غور و تدبر کے بعد کرے۔ علم اور فکر کے ساتھ کرے

اردو ترجمہ

انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتا ہے پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اُس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھیراتا ہے تاکہ اُس کی راہ سے گمراہ کرے (اے نبیؐ) اُس سے کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھا لے، یقیناً تو دوزخ میں جانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha massa alinsana durrun daAAa rabbahu muneeban ilayhi thumma itha khawwalahu niAAmatan minhu nasiya ma kana yadAAoo ilayhi min qablu wajaAAala lillahi andadan liyudilla AAan sabeelihi qul tamattaAA bikufrika qaleelan innaka min ashabi alnnari

درس نمبر 216 ایک نظر میں

پہلے سبق میں یہ بات کہی گئی کہ تخلیق انسان کی کہانی کیا ہے۔ یہ کہ تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا گیا ہے اور پھر اسی نفس سے ایک جوڑا بھی بنایا گیا ہے۔ پھر مویشیوں کو بھی بیشمار جوڑوں کی صورت میں بنایا گیا ہے۔ اور پھر تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تخلیق کے بعد تخلیق تمہیں دی اور تین ظلمتوں کے اندر تمہیں پیدا کیا ۔ پھر اللہ نے تمہیں انسانی خصوصیات عطا کیں اور پھر ان خصائص کا نظام تسلسل قائم کیا اور اس کو ترقی دی۔

اب یہاں انسانوں کی تفسیاتی دنیا کے حالات بتائے جاتے ہیں کہ خوشی اور غم اور امن وخوف کے وقت اس کی حالت کیا ہوتی ہے۔ وہ کس قدر کمزور ہیں اور کس قدر متلون مزاج ہیں اور کس قدر کمزور وناتواں ہیں الا یہ کہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ رابطہ قائم کرلیں۔ اور اسی کی طرف امید لگائے رہیں ، اس کے مطیع فرمان ہوجائیں اور صحیح راستہ پہچان لیں۔ اور اصل حقیقت کو پالیں اور اللہ نے انسان کو جو انسانی خصائص دیئے ہیں اپنے آپ کو ان کی راہ پر ڈالیں۔ درس نمبر 216 تشریح آیات

آیت نمبر 8

یہ انسان کی فطرت کا مزاج ہے کہ جب خطرات لاحق ہوں تو انسانی فطرت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور تمام پردے اور حجابات دور ہوجاتے ہیں جو اس فطرت کے اوپر چھائے ہوئے ہوں اور تمام اوہام و خرافات بھی دور ہوجاتے ہیں۔ خطرے کے وقت انسان صرف رب ذوالجلال کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے آگے جھک جاتا ہے۔ فطرت انسانی اس وقت اس بات کا ادراک کرلیتی ہے کہ یہ خطرہ صرف اللہ ہی کے ٹالنے سے ٹل سکتا ہے۔ اللہ کے سوا تمام دوسری قوتیں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں۔

لیکن جب مشکلات دور ہوتی ہیں اور امن وامان اور خوشحالی کا دور آتا ہے اور اللہ مشکلات کو نعمتوں سے بدل دیتا ہے اور یوں مشکلات دور ہوجاتی ہیں تو یہی انسان جس کی فطرت کھل کر سامنے آگئی تھی پھر اوہام و خرافات میں پھنس کر اپنی سابقہ حالت کے زیر اثر آجاتا ہے۔ اور مشکلات میں اپنے گڑگڑانے ، اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور توبہ کرنے کو بھول جاتا ہے۔

اس وقت پھر اس کی حالت نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کو پکارے ، اس سے ڈرے اور یہ سمجھے کہ اب اللہ کے سوا کوئی بھی مشکلات کو دور نہیں کرسکتا ۔ یہ تمام حالات بھلا کر اب دوبارہ اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک کرتا ہے۔ یا تو وہ ان الہوں کو پوجتا ہے جو جاہلیت کے دور میں پوجے جاتے تھے یا بعض اشخاص کو پوجتا ہے۔ یہ ایسے حالات کی بندگی کرتا ہے جو اللہ کے ساتھ سریک ہوتے ہیں ۔ جس طرح ہر جاہلیت کا ایک الٰہ ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنی خواہشات اور اپنے مفادات کو پوجتا ہے یا وہ مستقبل کی امیدوں اور ان جانے خوف سے ڈرتا ہے یا اپنی اولاد اور حکام ہے یا اپنے سرداروں اور لیڈروں کو پوجتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سردار بھی پوجے جاتے ہیں جس طرح خدا کو پوجا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ خدا سے بھی زیادہ پوجے جاتے ہیں۔ یارد ہے کہ شرک کی بھی کئی اقسام ہیں۔ بعض شرک نہایت ہی خفی ہوتے ہیں لوگ نہ اسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ان کو اس کا احساس ہوتا ہے۔ قرآن کریم صرف معروف ومشہور شرک ہی کو نہیں لیتا بلکہ وہ ہر اس بات کو لیتا ہے جو اپنے نقشے کے اعتبار شرک پر۔

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ کی راہ تو ایک ہوتی ہے۔ اس میں تعداد ممکن نہیں ہے۔ وہ یہ کہ زندگی صرف اللہ ہی کی ہوگی۔ محبت صرف اللہ کے ساتھ ہوگی۔ اور کسی شخص کے تصور میں بھی اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو۔ نہ مال کا خدا شریک ہو ، نہ اولاد کا خدا شریک ہو ، نہ وطن کا خدا شریک ہو ، نہ زمین کا خدا شریک ہو ، نہ رشتہ داری کا خدا شریک ہو ، شرک کی ان صورتوں میں سے جو کسی کے دل میں جاگزیں ہوگئی تو یہ انداز اللہ میں شامل ہوگی۔ اللہ کے راستے سے گمراہی ہوگی اور اللہ کے راستے سے گمراہی کا انجام آگ ہے اور یہ بات بہت جلد اس دنیا کی قلیل زندگی کے بعد سامنے آنے والی ہے

قل تمتع۔۔۔ النار (39: 8) ” کہہ دیجئے کہ تھوڑے ہی دن اپنے کفر سے لطف اٹھالے یقیناً تو دوزخ میں جانے والا ہے

“۔ اس دنیا کے دن جس قدر بھی طویل ہوں ، تھوڑے ہی ہیں۔ انسان کے دن زمین پر بہرحال گنے چنے ہیں اگرچہ عمر طویل کوئی

پائے۔ بلکہ خود پوری جنس انسانی کی زندگی بھی اس کرۂ ارض پر قلیل ہے۔ جب ہم اس عمر کا مقابلہ ایام اللہ سے کریں۔

اس بری تصویر کے مقابلے میں اچھی تصویر اور اچھی نفسیاتی کیفیت بھی ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا دل ، ہر حالت میں ، ہر

آفت میں اللہ کو یاد کرنے والا دل ، دنیا میں آخرت کو نظر میں رکھ کر زندگی گزارنے والا دل ، اللہ کی رحمت کا طلبگار ، اللہ کے ساتھ ایسا رابطہ کرنے والا دل جس سے علم صحیح پیدا ہو ، اور اس کائنات کی حقیقت کو پالنے والا دل ، اس کی تصویر یہ ہے :

اردو ترجمہ

(کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی) جو مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amman huwa qanitun anaa allayli sajidan waqaiman yahtharu alakhirata wayarjoo rahmata rabbihi qul hal yastawee allatheena yaAAlamoona waallatheena la yaAAlamoona innama yatathakkaru oloo alalbabi

آیت نمبر 9

یہ نہایت ہی روشن اور حساس تصویر ہے۔ مطیع فرمان ، اطاعت شعار ، سجدے کی حالت میں اور رکوع کی حالت میں ہونا دراصل حساس اطاعت شعاری ہے ۔ ایسا شخص آخرت سے ڈرتا ہے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے۔ یہ صفائی اور باطن کی یہ شفافی انسانی بصیرے کو کھول دیتی اور انسانی دل و دماغ کو دیکھنے ، اخذ کرنے اور فکر کرنے کی قوت عطا کرتی ہے۔ ان تمام امور کے ذریعہ مومنین کی بہت ہی اچھی تصویر کھنچ جاتی ہے۔ جبکہ آیت سابقہ میں مشرکین کی نہایت ہی بھونڈی تصویر تھی۔ اس کے بعد ان کے درمیان موازنہ دیکھئے۔

قل ھل ۔۔۔۔ یعلمون (39: 9) ” ان سے پوچھو کیا علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے دونوں یکساں ہوسکتے ہیں “۔

سچا علم دراصل الہی معرفت کا نام ہے۔ سچائی تک پہنچنے کا نام ہے۔ اور ایساعلم انسانی بصیرت کو کھول دیتا ہے۔ اور یوں ایک عالم ان حقائق تک رسائی حاصل کرلیتا ہے جو اس وجود میں ہوتی ہے۔ علم ان معلومات کا نام نہیں ہے جو ذہین میں جمع ہوجائیں اور جن سے کوئی سچا اصول اور کوئی سچی حقیقت ذہین نشین نہ ہو۔ اور نہ محسوسات کے علاوہ کوئی حقیقت ذہن میں بیٹھی ہو۔

یہ ہے صحیح راستہ علم حقیقی اور اس حقیقت کا جو دل و دماغ کو منور کردیتی ہے۔ یہی ہے اللہ کا مطیع فرمان ہونا۔ دل کا حساس ہونا اور آخرت اور اللہ کئ فضل وکرم کی امیدواری اور یہ ہے اللہ کا خوف اور اللہ کے سامنے ڈرے اور سہمے رہنا۔ علم اور حقیقی علم یہی ہے اور اس طرح عقلیت پیدا ہوتی ہے وہ دیکھنے والی اور سننے والی اور جس چیز کو وہ پاتی ہے اس سے فائدہ اٹھانے والی ہوتی ہے اور یوں اس قسم کا علم ان مشاہدات کے پیچھے حقیقت عظمیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ انفرادی تجربات کو علم کہتے ہیں اور صرف ان چیزوں کو معلومات کہتے ہیں جو نظر آتی ہیں۔ ایسے لوگ معلومات جمع کرنے والے تو ہیں لیکن علماء نہیں۔

انما یتذکر اولوا الالباب (39: 9) ” نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں “۔ یعنی کھلے دلوں والے ، جن کی بصیرت کے دروازے راہوں اور جو ظواہرو مشاہد کے پیچھے جھانک سکتے ہوں۔ وہ لوگ عقلمند ہیں اور وہی لوگ ہر چیز میں اللہ کے نشانات دیکھ کر اللہ کے سامنے جوابدہی کے یقین کو بھول نہیں جاتے۔ ان دو تصویروں کے بعد اہل ایمان کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کا

خوف کریں اور اچھے کام کریں اور اس مختصر زندگی میں طویل زندگی کے لیے کچھ کما کر اور سجا کر چھوڑیں۔

اردو ترجمہ

(اے نبیؐ) کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، اپنے رب سے ڈرو جن لوگوں نے اِس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ya AAibadi allatheena amanoo ittaqoo rabbakum lillatheena ahsanoo fee hathihi alddunya hasanatun waardu Allahi wasiAAatun innama yuwaffa alssabiroona ajrahum bighayri hisabin

آیت نمبر 10

کہو اے میرے بندو ، جو ایمان ہوئے ہو ، قل یٰعباد الذین اٰمنوا (39: 10) اہل ایمان کی طرف نہایت ہی نظر کرم ہے۔ اصل میں عربی عبارت یوں ہے :

قل یٰعباد الذین اٰمنوا (39: 10) یعنی ان سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ متقی بن جاؤ۔ اپنے رب سے ڈرو۔ لیکن اللہ نے اسے براہ راست پکارہ کے صیغے میں تبدیل کردیا۔ یہ ایک قسم کا اعلان اور تنبیہہ ہے۔ رسول اللہ ؐ تو مسلمانوں کو (یاعبادی) کہہ کر نہیں پکارتے تھے آپ تو عباد اللہ کہہ کر انہیں پکارتے تھے لیکن یہ اللہ کی نظر کرم ہے کہ وہ حضور ﷺ سے فرماتا ہے کہ (یاعباد) کہہ کر پکارو۔ یوں یہ پکار اللہ کی جانب سے ہو اور حضور اکرم ﷺ اللہ کے ڈائریکٹ خطاب کی حکایت فرمائیں۔

قل یٰعباد الذین اٰمنوا اتقوا ربکم (39: 10) ” اے نبی کہو ، اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو ، اپنے رب سے ڈرو “۔ تقویٰ کیا ہے ، وہی دل کی حساسیت۔ اللہ کی طرف ڈر اور خشیت کے ساتھ دیکھنا ۔ امید اور طمع کے ساتھ دیکھنا ۔ اس کے غضب ، ناراضگی سے ڈرتے رہنا۔ یہ ہے بہترین تصور اہل ایمان کی۔ اس آیت میں جو تصویر کشی کی گئی ہے اور اس میں جو رنگ بھرے گئے ہیں وہ وہی ہیں جو آیت سابقہ میں ہیں ، البتہ یہ عملی رنگ ہیں۔

للذین احسنوافی ھٰذہ الدنیا حسنة (39: 10) ” جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ، ان کے لیے بھلائی ہے “۔ کیا خوب جزاء ہے کہ اس دنیا میں اچھا سلوک کرو۔ تو یہاں اس حقیر دنیا میں بھی اچھائی پاؤ اور آخرت میں بھی اچھائی پاؤ۔ جو دار بقا دار دوام ہے۔ لیکن یہ انسان پر فضل وکرم ہے اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ انسان کس قدر ضعیف اور ناتواں ہے۔ اس لیے اللہ نے اس پر بےپناہ کرم کیا۔

وارض اللہ واسعة (39: 10) ” خدا کی زمین وسیع ہے “۔ لہٰذا زمین کی محبت اور کسی ایک جگہ کے ساتھ الفت تمہیں بہاکر نہ رکھ دے۔ نسب ، رشتہ داری اور دوستی کے روابط تمہیں بڑے کاموں سے روک نہ دیں۔ ہجرت ایک عظیم مقصد کے لیے ہوتی ہے ۔ اگر کوئی جگہ تمہارے دین کے لیے تنگ ہو اور جہاں تم اسلام کا محسنانہ نظام جاری نہیں کرسکتے تو پھر زمین سے چمٹے رہنا شیطان کی حرکت ہے۔ اور یہ انسان کے دل میں شرک کا ایک رنگ ہے۔

یہ قرآن کا نہایت ہی لطیف اشارہ ہے ، اس طرف انسان کے دل و دماغ میں خفی اس طرح سرایت کرتی ہے کہ بات اللہ کی وحدانیت اور اللہ سے ڈرنے کی ہورہی ہے۔ اور اس میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا سرچشمہ وہی ذات باری ہے جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ کیونکہ انسان کے دل و دماغ کا یہ علاج وہی ذات کرسکتی ہے جو انسان کی

خالق ہے اور جو انسان کے بارے میں پوری معلومات رکھتی ہے۔ اور انسان کی شخصیت کے خفیہ گوشوں کو جانتی ہے۔

اللہ جانتا ہے کہ یہ ہجرت انسانوں کے لیے کس قدر مشکل کام ہے۔ دنیا کے ان رابطوں کو یکلخت ترک کردیتا ، کوئی آسان

کام نہیں ہے۔ ایک چالو زندگی کو ترک کرنا ، رزق کے ایسے وسائل جن کا انسان عادی ہوجائے۔ ان کو ترک کرنا ، چلتے ہوئے کاروبار کو چھوڑنا ، اور بالکل ایک نئی سرزمین پر ازسرنو زندگی شروع کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس کے لیے انسان مشکل سے تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس معاملے کو بڑا صبر کہا گیا ہے اور اس پر بڑے اور پورے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔

انما۔۔۔۔ حساب (39: 10) ” صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جائے گا “۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسانی دلوں کو نہایت ہی برمحل یہ احساس دلاتا ہے اور ان کو اس کام کے لیے آمادہ فرماتے ہیں جو بالعموم انسانوں کے لیے بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔ اور ہجرت جیسے شدید حالات میں اللہ ان پر اپنی رحمت اور شفقت اور اپنے قرب کی شبنم گراتا ہے۔ اور وطن کے روابط ، الفت و محبت اور اہل و عیال اور رشتہ داریوں اور دوستوں کو قربان کرنے پر بعض بےحساب اجر کا وعدہ فرماتا ہے ۔ پاک ہے وہ ذات جو انسان کے بارے میں حلیم وخبیر ہے۔ اور انسانی قلوب کے ساتھ یہ مشفقانہ معاملہ کرتی ہے۔ اور انسانی نفسیات کے نشیب و فراز کے اندر گہرائیوں تک پائے جانے والے نہایت ہی خفیہ احساسات کو جانتی ہے اور ان کا مداوا کرتی ہے۔

459