سورہ الواقیہ (56): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Waaqia کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الواقعة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الواقیہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Waaqia
سُورَةُ الوَاقِعَةِ
صفحہ 536 (آیات 51 سے 76 تک)

ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا ٱلضَّآلُّونَ ٱلْمُكَذِّبُونَ لَءَاكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ فَمَالِـُٔونَ مِنْهَا ٱلْبُطُونَ فَشَٰرِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ ٱلْحَمِيمِ فَشَٰرِبُونَ شُرْبَ ٱلْهِيمِ هَٰذَا نُزُلُهُمْ يَوْمَ ٱلدِّينِ نَحْنُ خَلَقْنَٰكُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُونَ أَفَرَءَيْتُم مَّا تُمْنُونَ ءَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُۥٓ أَمْ نَحْنُ ٱلْخَٰلِقُونَ نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ ٱلْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ عَلَىٰٓ أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَٰلَكُمْ وَنُنشِئَكُمْ فِى مَا لَا تَعْلَمُونَ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْأُولَىٰ فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَ أَفَرَءَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ءَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُۥٓ أَمْ نَحْنُ ٱلزَّٰرِعُونَ لَوْ نَشَآءُ لَجَعَلْنَٰهُ حُطَٰمًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ إِنَّا لَمُغْرَمُونَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ أَفَرَءَيْتُمُ ٱلْمَآءَ ٱلَّذِى تَشْرَبُونَ ءَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ ٱلْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ ٱلْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنَٰهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ أَفَرَءَيْتُمُ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى تُورُونَ ءَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَآ أَمْ نَحْنُ ٱلْمُنشِـُٔونَ نَحْنُ جَعَلْنَٰهَا تَذْكِرَةً وَمَتَٰعًا لِّلْمُقْوِينَ فَسَبِّحْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلْعَظِيمِ ۞ فَلَآ أُقْسِمُ بِمَوَٰقِعِ ٱلنُّجُومِ وَإِنَّهُۥ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ
536

سورہ الواقیہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الواقیہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر اے گمراہو اور جھٹلانے والو!

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma innakum ayyuha alddalloona almukaththiboona

ثم انکم ............ زقوم (6 5: 2 5) ” پھر اے گمرا ہوا اور جھٹلانے والو ، تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والے ہو۔ “ اور زقوم کے درخت کے بارے میں انسان صرف اسی قدر جانتے ہیں جس قدر اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ اس کا پھل اس طرح ہے جس طرح شیطان کا سر اور شیطان کا سر تو کسی نے دیکھا نہیں ہے لیکن احساس کے اندر جو بری صورت کی سری ہوسکتی ہے وہ شیطان کا سر ہے اور اس طرح یہ پھل بھی۔ لفظ زقوم کا تلفظ بھی یہ بتاتا ہے کہ وہ کرخت کانٹے دار قسم کی کوئی بدصورت اور بدذائقہ چیز ہو کہ ہاتھوں میں لیتے ہی کانٹے چبھ جائیں گے۔ حلق کو زخمی کردے گا اور یہ ہے بمقابلہ ان بیریوں کے جن کے کانٹے صاف ہے اور ان کیلوں کے جو تہ بر تہ میزوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ وہ رؤس شیاطین کی طرح ہوں گے۔ یہ اس کو کھائیں گے۔

اردو ترجمہ

تم شجر زقوم کی غذا کھانے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laakiloona min shajarin min zaqqoomin

اردو ترجمہ

اُسی سے تم پیٹ بھرو گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Famalioona minha albutoona

فمالؤن ............ البطون (6 5: 3 5) ” اسی سے تم پیٹ بھروگے “ اس لئے کہ بھوک سخت مجبور کرنے والی چیز ہے اور مجبوری سب کچھ کراتی ہے اور یہ کرخت کانٹے دار خوراک پھر مجبور کرتی ہے کہ پانی استعمال کرو کہ یہ نیچے اترے اور پیٹوں کو بھرے اور پانی۔

اردو ترجمہ

اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fashariboona AAalayhi mina alhameemi

فشربون ............ الحمیم (6 5: 3 5) ” اوپر سے کھولتا ہوا پانی۔ “ ایسا گرم جو پیاس نہ بجھائے اور ٹھنڈک اس میں نہ ہو۔

اردو ترجمہ

تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fashariboona shurba alheemi

فشربون ............ الھیم (6 5:55) ” تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گئے۔ “ اونٹ کو جب تونس کی بیماری لگ جاتی ہے تو وہ پانی پیتا رہتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔

اردو ترجمہ

یہ ہے بائیں والوں کی ضیافت کا سامان روز جزا میں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hatha nuzuluhum yawma alddeeni

ھذا ................ الدین (6 5: 6 5) ” یہ ہے ان کا سامان ضیافت روز جزا میں۔ “ حالانکہ قیام ونزول راحت اور آرام کے لئے ہوتا ہے لیکن اصحاب الشمال کا نزول اجلال جہنم میں ایسا ہوگا جس میں نہ راحت ہوگی اور نہ قرار ہوگا۔ یہ ہے ان کی ضیافت اس دن کی جس کے بارے میں وہ شک میں پڑے ہوئے تھے۔ اس کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے اور قرآن کی تصدیق کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ دوسری طرف شرک بھی کرتے تھے اور اس دن کے ڈراوے سے بھی نہ ڈرتے تھے۔

یہاں آکر سب فریقوں کا انجام ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ عظیم واقعہ ہوگا جو اوپر نیچے کردینے والا ہوگا اور اس پر اس سورة کا پہلا دور ختم ہوتا ہے۔

رہا دوسرا دور تو اس میں اسلامی نظریہ حیات کو مکمل طور پر لیا گیا ہے۔ اگرچہ اس میں واضح پہلو قضیہ حشر ونشر ہی ہے۔ اس دوسرے دور سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن انسانی فطرت کو کس خوبصورتی کے ساتھ خطاب کرتا ہے۔ دلائل کس طرح بیان کرتا ہے اور کس قدر سادگی کے ساتھ لوگوں کی نفسیات کے اندر اتر جاتا ہے حالانکہ موضوع سخن نظریات وفلاسفی کے اعلیٰ مضامین ہوتے ہیں۔

قرآن کا کمال یہ ہے کہ وہ آسمانوں کے ان امور سے جو روٹین میں چلتے رہتے ہیں ، ایسے نکات اخذ کرتا ہے جو کائنات کا عظیم مسئلہ قرار پاتے ہیں۔ وہ پا افتادہ حقائق ومناظر سے نوامیس فطرت اخذ کرتا ہے۔ ان سے ایک نظریہ حیات تشکیل کرتا ہے اور ان واقعات کو مرکز فکر ونظر بنا دیتا ہے جن سے روحانی زندگی میں ترقی و شعور کی بیداری ، حواس کی تیزی پیدا ہوتی ہے اور جن مظاہر کو انسان رات اور دن دیکھتے ہیں اور ان پر سے غافلوں کی طرح گزر جاتے ہیں ، ان کے بارے میں انسانی شعور کو پیدا کرتا ہے اور انسان کو بتاتا ہے کہ تم تو معجزات کے اندر ڈوبے ہوئے ہو جو تمہارے ارد گرد رات دن ہوتے رہتے ہیں۔

قرآن لوگوں کو چند محدود معجزات کے حوالے نہیں کرتا جو کسی محدود زمان ومکان کے اندر پائے گئے ہوں بلکہ وہ خود ان کے نفس میں معجزات ان کو دکھاتا ہے۔ ان کے ماحول میں پائے جانے والے معمول کے واقعات میں سے معجزات تلاش کرلیتا ہے۔ ان کے قریب جو کائناتی مظاہر ہیں۔ ان سے دوران کو نہیں لے جاتا کہ وہ انہیں پیچیدہ فلاسفی میں الجھاتا ہے یا محض عقلی فرائض پر کلام کرتا ہے یا ان سے سائنسی تجربات کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر شخص نہیں کرسکتا۔ اسلام کوئی ایسا فلسفہ البیات لوگوں کے لئے نہیں تجویز کرتا۔ قرآن کا انداز مختلف ہے۔

لوگوں کے نفوس اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ لوگوں کے ارد گردجو مظاہر فطرت ہیں وہ بھی اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ اللہ نے اس جہاں میں جو جو چیز پیدا کی ہے ، وہ معجزہ ہے۔ یہ اللہ کا قرآن ہے۔ اس لئے وہ انہیں انہی معجزات کی طرف لے جاتا ہے جو ان کی ذات میں ہیں۔ جو ان کے ماحول میں ہیں۔ وہ ایسے معجزات ان کو سمجھاتا ہے جن کو وہ رات دن دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ ان کو دیکھتے ہیں لیکن ان مظاہر کا اعجاز پہلوان کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ راتدن انہوں نے اس عمل کو دیکھتے دیکھتے اسے ایک معمول کا عمل سمجھ لیا ہے۔ قرآن انہی واقعات کے بارے میں ان کی آنکھیں کھولتا ہے۔ بتاتا ہے ان سب قدرت الیہ کا راز کیا ہے۔ ان کے اندر کس قدر وحدت پائی جاتی ہے اور کس طرح یہ قدرت الٰہیہ تمہارے نفسوں میں کام کررہی ہے جس طرح اس کائنات کے اندر کام کررہی ہے جو ان کے ماحول میں ہے جس کے اندر دلائل ایمان ، براہین حقیقت موجود ہیں۔ اس طرح اسلام ان چیزوں کو انسان کی فطرت کے سامنے کھولتا ہے اور ان کی فطرت کو جگاتا ہے۔

قرآن کریم اس سبق میں یہی انداز اختیار کرتا ہے۔ سب سے پہلے ان کے سامنے وہ دلائل اعجاز پیش کئے جاتے ہیں جو خود ان کی تخلیق میں ہیں۔ پھر وہ جو ان کے فصلوں میں ہیں جن کو وہ رات دن بوتے ہیں جو پانی وہ پیتے ہیں کیا یہ کم اعجاز ہے۔ یہ آگ جو وہ جلاتے ہیں۔ یہ آگ تو صبح وشام تمہارے چولہوں میں جلتی ہے پھر تمہارے سامنے تمہارے رشتہ داروں کی اموات ہوتی ہیں۔ یہ عالم آخرت کے سفر پر جاتے ہیں۔ ہر شخص کو یہ وقت پیش آنا ہے اور ہر زندہ کو قدرت قادرہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے جس سے کوئی فرار ممکن نہیں ہے۔ تمام حیلے اور تمام بہانے ختم ہوجاتے ہیں۔

قرآن نے جس انداز سے فطرت سے خطاب کیا ہے یہ انداز بذات خود دلائل اعجاز میں سے ہے کہ قرآن خالق کی طرف سے ہے۔ قرآن کا سرچشمہ وہی ہے جس سے یہ کائنات صادر ہوئی چناچہ قرآن دنیا کی زندگی کے سادہ مظاہر اور اشکال سے عظیم حقائق نکال کر فطری آواز میں انسان کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ ایک ذرہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پوری کائنات کی پہلی اکائی ہے اور خلیہ جو زندگی کا پہلا مادہ ہوتا ہے۔ ذرہ بذات خود معجزہ ہے اور خلیہ حیات بذات خود معجزہ ہے۔ یہاں قرآن کریم نہایت ہی سادہ مظاہرے سے دینی عقائد اخذ کرتا ہے۔ ایسے مظاہر سے جو ہر انسان کے تجربے میں ہوتے ہیں۔ نسل انسانی ، زراعت ، پانی ، آگ ، موت ہر انسان ان اشیاء کے ساتھ عملی معاملہ رکھتا ہے۔ غار کے رہنے والے بھی جنین کی زندگی سے واقف ہیں اور تھے۔ نباتات کے اگنے سے واقف تھے۔ بارش سے واقف تھے۔ آگ جلاتے تھے اور موت کی گھڑی ان پر آتی تھی۔ ان مشاہد کے میٹریل سے قرآن ایک عظیم الہیاتی عقیدہ اور نظریہ اور فلسفہ تشکیل دیتا ہے۔ اس لئے کہ قرآن ہر انسان کی کتاب ہے اور یہ مشاہدات وہ ہیں جن سے ہر انسان دو چار ہوتا ہے۔ یہ عظیم کائناتی حقائق ہیں لیکن پیش پا افتادیہ اعلیٰ اسرار ہیں لیکن ہر شخص کے سامنے کھلے ، اس پوری بحث میں ایک اشارہ دور رس بھی ہے وہ ہے ستارے کے محل وقوع کی طرف جو مطالعہ فطرت کا موضوع ہے اور ایک عام انسان اور ایک بہت بڑے سائنس داں مواقع النجوم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

مواقع النجوم سے مراد کائنات کی انجینئرنگ ہے اور یہ بہت بڑا راز بھی ہے اور پیش پا افتادہ بھی ہے۔ پھر حیاتیات ونباتات دونوں معجزات ہیں۔ پھر پانی تو اصل حیات ہے اور آگ اور اب بجلی تو تہذیب کی پہلی علامت ہے۔

موجود اور منظور چیزوں کو اس انداز سے دیکھنا مطالعہ کرنا اور ان سے فکر و عقیدہ اور نظریہ ونظام اخذ کرنا انسان کا طریقہ علم وتعلیم نہیں رہا ہے۔ انسانوں نے جب بھی ان مسائل پر بحث کی ہے انہوں نے ان کائناتی مواد اور مظاہر کو سامنے کبھی نہیں رکھا ہے اور جب انہوں نے کبھی اسے دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے تو اسے پیچیدہ بنا دیا ہے اور اس قدر سادگی سے نہیں لیا جس طرح قرآن نے لیا ہے بلکہ انسان نے ان سادہ مظاہر کو بھی ایک پیچیدہ فلسفیانہ مسئلہ بنا کر اسے چیستان بنا دیا ہے اور دنیا کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

لیکن اللہ نے اپنی کتاب میں ایک فطری انداز اختیار کیا ہے یعنی اونچے مسائل کے لئے بھی ایسا میٹریل استعمال کیا جو عوام کے لئے قابل فہم ہو جس سے جو نتائج بھی اخذ کئے گئے وہ لوگوں کے لئے قریب الفہم ہوگئے جس طرح اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کے اندر حیاتیاتی تسلسل نہایت سہولت سے قائم کیا ہے اسی طرح اس کائنات سے سادہ انداز میں الہ العلمین کو ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔

اردو ترجمہ

ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nahnu khalaqnakum falawla tusaddiqoona

پیدائش اور موت اور انتہا ، حیات اور موت ، ایک ایسا واقعہ ہے جس کے تجربے سے ہر شخص خود بھی گزرتا ہے اور لوگوں کی زندگی میں بھی مشاہدہ کرتا ہے۔ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ وہ تصدیق نہ کریں کہ اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اس حقیقت کا انسان پر اس قدر دباؤ ہے کہ انسان کے لئے خدا پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے۔

نحن ............................ تصدقون (6 5: 7 5) ” ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر کیوں تصدیق نہیں کرتے۔ “

اردو ترجمہ

کبھی تم نے غور کیا، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaraaytum ma tumnoona

افرءیتم ................ الخلقون (6 5: 9 5) ” کبھی تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو ، اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں “ تخلیق یا تناسل میں انسان کا کردار یہی ہے کہ وہ نطفہ رحم زوجہ میں ڈال دے۔ پھر دونوں کا کردار ختم ہوجاتا ہے۔ (ٹیوب بےبی نے یہ بھی ختم کردیا ہے) اب یہ کمزور پانی رب تعالیٰ کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ صرف دست قدرت اس کی تخلیق اور تربیت اور بڑھو تری میں کام کرتا ہے۔ اس کو شکل دیتا ہے ۔ روح دیتا ہے اور پہلے لحظہ سے لے کر تمام مراحل معجزات ہی معجزات ہیں۔ ہر مرحلے میں ایسا خارق العادت معجزہ رونما ہوتا ہے جس میں اللہ کے سوا کسی کا کوئی کردار نہیں۔ بشر تو آج تک اسی طریقہ تخلیق وتناسل کی حقیقت تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ معجزہ کیسے ہوتا ہے۔ اس میں ان کی شرکت کا تو تصور بھی نہیں ؟

اس قدر سوچ تو ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے اور اس معجزے کو سمجھنے اور اس سے متاثر ہونے کے لئے اسی قدر کافی ہے لیکن اس خلیے کا اس قدر قصہ کہ جب یہ نطفہ رحم مادر میں رکھا گیا اور اس سے ایک مکمل انسان بن گیا۔ یہ کہانی تخیلات سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ اگر یہ قصہ عملاً وقوع پذیر نہ ہوتا رہتا اور یہ انسان اسے شب وروز دیکھتا نہ رہتا تو عقل انسانی کبھی اس کی تصدیق نہ کرتی۔

یہ خلیہ پھر تقسیم ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھر بڑھتا رہتا ہے اور تھوڑا ہی عرصہ گزرتا ہے کہ اس ایک خلیے کی جگہ کئی ملین خلیے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خلیہ دوسرے خلیوں سے ممتاز خصوصیات رکھتا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک خلیہ ایک خاص پہلو تخلیق کرتا ہے۔ بعض ہڈیوں کے خلیے ہوتے ہیں۔ بعض عضلات کے خلیے ہوتے ہیں۔ بعض جلدی خلیات ہوتے ہیں۔ ان خلیوں سے آنکھیں بنتی ہیں۔ ان خلیوں سے زبان بنتی ہے اور ان خلیوں سے غدود بنتے ہیں۔ غدودوں کے خلیے زیادہ مخصوص نوعیت رکھتے ہیں۔ ہر خلیہ جانتا ہے کہ اس نے کہاں جاکر کام کرنا ہے۔ مثلاً آنکھ کے خلیے غلطی سے پیٹ میں یا پاؤں میں نہیں چلے جاتے لیکن اگر ان کو مصنوعی طور پر پشت کے اوپر لے جایا جائے تو یہ وہاں آنکھ بنادیں گے لیکن ان کو اللہ کی طرف سے جو حکم اور الہام ہوتا ہے وہ آنکھ ہی کی جگہ مجتمع ہوتے ہیں اور وہیں آنکھ بناتے ہیں۔ اسی طرح کان کے خلیے پاؤں میں نہیں جاتے تاکہ وہاں جاکر وہ کان بنادیں۔ یہ سب خلیے اللہ کے حکم اور الہام کے مطابق اس انسان کو بہترین تقدیم اور نقشے کے مطابق بناتے ہیں۔ ان کی نظروں کے نیچے اور اس تشکیل میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

یہ ہے انسان کی ابتدائ، رہی انسان کی انتہا تو وہ بھی اس سے زیادہ عجیب و غریب ہے۔ اگرچہ انسان اسے روز دیکھتے دیکھتے اس سے اثر نہیں لیتا۔

اردو ترجمہ

اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aantum takhluqoonahu am nahnu alkhaliqoona

اردو ترجمہ

ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے، اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nahnu qaddarna baynakumu almawta wama nahnu bimasbooqeena

نحن ............ تعلمون (6 5: 16) ” ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تم جیسے اور لوگ لے آئیں اور کسی ایسے جہاں میں تمہیں دوبارہ پیدا کردیں جس کو تم نہیں جانتے۔ “

یہ موت جس تک تمام زندہ مخلوق سفر کرکے پہنچتی ہے یہ کیا ہے ؟ کس طرح واقع ہوتی ہے ؟ اس کی کس قدر طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اللہ کی تقدیر ہے۔ اس لئے اس سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔ اس سے کوئی آگے نہیں جاسکتا۔ یہ ایک حلقہ اور کڑی ہے اس تخلیق کے سلسلے میں جس نے پورا ہونا ہے۔

اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں اس زمین سے نابود کرکے اس کی تعمیروترقی کے لئے دوسرے لوگوں کو وہ لاسکتا ہے کیونکہ جس نے موت مقرر کی زندگی کے بارے میں بھی اسی نے طے کیا ہے۔ اس نے جن لوگوں کی موت کا فیصلہ کیا اتنے ہی لوگ اور وہ لاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے تاکہ قیامت تک جنہوں نے آنا ہے آئیں اور جب وقت مقرر آجائے گا تو پھر قیامت برپا ہوگی۔

وننشئکم ................ تعلمون (6 5: 16) ” اور تمہیں اس میں پیدا کریں جسے تم نہیں جانتے۔ “ ایک ایسے عالم میں جس کو تم نہیں جانتے اور اس کے بارے میں تمہاری معلومات صرف ان معلومات تک محدود ہیں جو تم کو اللہ دیتا ہے اور جب تمہیں اس نامعلوم جہاں (آخرت) میں پیدا کردیا جائے گا تو تب قافلہ انسانیت اپنے منزل مقصود تک پہنچ جائے گی ........ یہ تو ہے دوسری پیدائش اور۔

اردو ترجمہ

کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

AAala an nubaddila amthalakum wanunshiakum fee ma la taAAlamoona

اردو ترجمہ

اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہو، پھر کیوں سبق نہیں لیتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad AAalimtumu alnnashata aloola falawla tathakkaroona

ولقد ................ تذکرون (6 5: 26) ” اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہی ہو ، پھر کیوں سبق نہیں لیتے ؟ “ اور یہ دوسری پیدائش بہت ہی قریب ہے اور اس میں کوئی بات قابل تعجب نہیں ہے۔

اس سادگی اور اس سہل انداز میں قرآن کریم پہلی پیدائش اور دوبارہ پیدائش کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے۔ ہمیں ایک ایسے طریقہ استدلال سے دو چار کرتا ہے جسے ہم جانتے ہیں اور جس کا ہم کوئی انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ منطق بدیہات پر مبنی ہے اور انسانوں کے مشاہدات پر مبنی ہے اور جس میں کوئی پیچیدگی اور کوئی تجرید نہیں ہے ، نہ فلسفہ ہے اور نہ ذہنی تھکاوٹ ہے اور کوئی ایسی بحث نہیں جو وجدان تک پہنچتی ہو۔

یہ ایک بالکل جدید طریقہ ہے جو بدیع السموت اور قرآن کے نازل کرنے والے اختیار کیا ہے۔

ایک بار پھر نہایت سادہ اور سہل الفہم انداز میں ، ان کے سامنے ان کے روز مرہ کی چیزیں پیش کی جاتی ہیں اور ان میں سے ان کو ایک معجزانہ پہلو دکھایا جاتا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس سے غافل ہوتے ہیں۔

اردو ترجمہ

کبھی تم نے سوچا، یہ بیج جو تم بوتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaraaytum ma tahruthoona

افرءیتم ............................ محرومون (76) (6 5:4 6 تا

” کبھی تم نے سوچا ، یہ بیج جو تم بوتے ہو ، ان سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں ؟ ہم چاہیں تو ان کھیتوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑگئی بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں۔ “

یہ زرعی پودے ان کے سامنے اگتے ہیں اور اپنی فصل دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں ان کا کردار کیا ہے۔ یہ لوگ ہل چلا کر اس میں دانے یا بیچ ڈال دیتے ہیں۔ جسے اللہ نے پیدا کیا۔ اس کے بعد ان کا کردار ختم ہوجاتا ہے اور دست قدرت ان پر عمل پیرا ہوتی ہے اور معجزانہ انداز میں یہ پودا تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔

یہ بیج یا یہ دانہ اپنی نوع کو دہرانے کا عمل شروع کرتا ہے اور یہ اپنی راہ اس طرح طے کرتا ہے کہ گویا یہ عقلمند اور خبردار چیز ہے اور اپنی راہ پر سیدھا سیدھا گامزن ہے اور مراحل طے کر رہا ہے۔ انسان تو اپنے کام میں غلطی کرسکتا ہے لیکن یہ بیج کوئی غلطی نہیں کرتا۔ یہ اس طریق کار کے مطابق کام کرتا ہے جو اللہ نے اس کے لئے وضع کیا ہے۔ وہ کبھی اپنے مقررہ ہدف کو خطا نہیں کرتا کیونکہ اسے دست قدرت چلارہی ہوتی ہے اور یہ ایک عجیب سفر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے کہ اگر روز وشب ہمارے سامنے دہرایا نہ جاتا تو عقل اس کی تصدیق نہ کرتی اور جہان اس کا تصور نہ کرسکتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کون سی عقل یہ باور کرسکتی ہے کہ گندم کے اس چھوٹے سے دانہ میں ڈالی پتے اور دانے سب کچھ موجود ہیں یا کھجور کی گٹھلی میں اس قدر بلند درخت موجود ہے۔

اگر یہ چیزیں ہمارے سامنے رات دن دہرائی نہ جاتیں تو عقل انہیں تسلیم نہ کرتی اور کوئی خیال ان چیزوں کی طرف کاتا ہی نہیں لیکن چونکہ سب لوگوں کے سامنے یہ قصہ دہرایا جاتا ہے اور یہ سفر صبح وشام طے ہوتا رہتا ہے اس لئے لوگ اسے مانتے ہیں اور کون ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ ماسوائے دانہ بونے کے اس کا اس عمل میں کوئی اور کردار ہے۔

لوگ کہتے ہیں ہم نے فصل اگائی اور ہم نے اتنی پروڈکشن دی حالانکہ ان سب امور میں ان کا کردار بہت ہی محدود ہے۔ رہا وہ پورا عمل جو بیج یا دانہ طے کرتا ہے اور وہ معجزہ کہ ایک چھوٹے سے بیج کے قلب سے ایک عظیم درخت وجود میں آتا ہے تو یہ تو سب کچھ خالق کی صفت ہے۔ اگر ایسا اللہ نہ چاہتا تو کوئی دانہ یہ معجزہ نہ دکھاتا۔ یہ قصہ یوں سرے تک نہ پہنچتا اور اگر اللہ چاہتا تو قبل اس کے کہ دانہ دے اسے بھس بنا دیتا ۔ یہ تو اللہ کی مشیت ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو لوگ اس پر عبرتناک تبصرے کرتے۔ انالمغرمون (ہم پر تو چٹی چڑھ گئی) نقصان ہوگیا بلکہ یہ کہیں بل نحن محرومون (بلکہ ہم تو محروم اور بدنصیب ہیں) لیکن یہ اللہ کا فضل کہ وہ ان کو پھل دیتا ہے اور یہ دانے دورہ مکمل کرتے ہیں۔ انسانی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ انسانی خلیہ بھی یہی کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی قدرت انسان پیدا کرتی ہے۔ کیا مشکل ہے کہ دوبارہ اللہ اسی زمین سے انسان کو برآمد نہیں کرسکتا ........ آخرت کی دوبارہ پیدائش میں آخر کیا چیز تمہیں انوکھی لگتی ہے۔

اردو ترجمہ

اِن سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا اُن کے اگانے والے ہم ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aantum tazraAAoonahu am nahnu alzzariAAoona

اردو ترجمہ

ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Law nashao lajaAAalnahu hutaman fathaltum tafakkahoona

اردو ترجمہ

کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑ گئی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna lamughramoona

اردو ترجمہ

بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal nahnu mahroomoona

اردو ترجمہ

کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا، یہ پانی جو تم پیتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaraaytumu almaa allathee tashraboona

افرءیتم ................ تشکرون (07) (6 5: 86) ” کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ، یہ پانی جو تم پیتے ہو ، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں ، پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے ؟ “

یہ پانی تو زندگی کی اصل بنیاد ہے اور پانی کے سوا زندگی نشوونما ہی نہیں پاسکتی۔ اس طرح اللہ نے اسے مقدر کیا ہے۔ اس پانی کی تخلیق میں انسان کا کردار کیا ہے۔ اس کا کردار بس یہ ہے کہ انسان اسے حلق سے اتار دے۔ یہ کہ اس کے عناصر کس نے بنائے ، اسے بادلوں سے کس نے اتارا۔ اسے ندیوں میں کس نے بہایا۔ اسے میٹھا کس نے بنایا۔

اردو ترجمہ

اِسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اِس کے برسانے والے ہم ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aantum anzaltumoohu mina almuzni am nahnu almunziloona

اردو ترجمہ

ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں، پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Law nashao jaAAalnahu ojajan falawla tashkuroona

لو نشائ ................ اجاجا (6 5: 07) ” اگر ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں “ بس ہوا کو یہ حکم دیتا ہے کہ بادلوں میں پانی کے ساتھ نمکیات بھی لاؤ۔ پھر وہ نہ آدمیوں کے کام آتے نہ فصلوں کے۔ کوئی پروڈکشن نہ دے۔ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔

قرآن کے ابتدائی مخاطین کے لئے پانی صرف بادلوں سے آتا تھا۔ براہ راست ، یہ ان کے لئے زندگی کا بڑا مواد تھا۔ وہ اس کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اور اس کے متعلق بات سے ان کے دل کانپ اٹھتے تھے۔ بارش کے بارے میں ان کے قصائد واشعار نے ان کے اس شعور کو لازوال بنادیا ہے لیکن انسان کی تمام تر مادی ترقیات نے پانی کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ وہ جس قدر علمی تحقیقات اور تجزیہ کرنے میں اس کی قدروقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور سائنس دان محسوس کرتے ہیں کہ حیات اور اس کی نشوونما میں پانی کا بڑا کردار ہے۔ لہٰذا پانی اہم ہے چرواہے کے لئے بھی اور ایک عظیم جدید صنعت کار کے لئے بھی اور ایک سائنس دان کے نزدیک بھی۔

اردو ترجمہ

کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaraaytumu alnnara allatee tooroona

افرءیتم ................ للمقوین (37) (6 5: 17 تا 37) ” کبھی تم نے خیال کیا یہ آگ جو تم سلگاتے ہو ، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاددہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے “

انسان کی زندگی میں آگ کا وجود انسان کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوئی اور انسان نے اپنی تہذیبی زندگی کا آغاز ہی آگ سے کیا ہے لیکن صبح وشام آگ جلانا اس کے لئے تو ایک معمول کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں انسان کا کردار کتنا ہے۔ بس انسان آگ جلاتا ہے لیکن جلنے کا عمل کس نے پیدا کیا اور جلنے کے عمل میں استعمال ہونے والا ایندھن کس نے بنایا۔ درخت کس نے پیدا کئے۔ اس کے بارے میں اس سے قبل تفصیلی بات ہم کرچکے ہیں۔ یہاں ” اس کے درخت “ میں ایک اشارہ ہے کہ عرب ایک درخت کی شاخ کو دوسری سے رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے اور یہ وہ طریقہ ہے جو شاید آج بھی پسماندہ علاقوں میں رائج ہے۔ یہ انداز ان کے تجربات میں تھا اس لئے قرآن نے اس طرف اشارہ کردیا۔ رہا آگ کا معجزہ اور سائنس دانوں کے نزدیک اس کا راز تو یہ ایک دوسری اہم بحث ہے اور اس آگ کی مناسبت سے آخرت کی آگ۔

اردو ترجمہ

اِس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aantum anshatum shajarataha am nahnu almunshioona

اردو ترجمہ

ہم نے اُس کو یاد دہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لیے سامان زیست بنایا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Nahnu jaAAalnaha tathkiratan wamataAAan lilmuqweena

نحن ............ تذکرة (6 5: 37) ” یہ اس کو یاددہانی کا ذریعہ بنایا۔ “ یعنی آخرت کی آگ کی یاددہانی کا اور ہم نے اس کو۔

ومتاعا للمقوین (6 5: 37) ” حاجت مندوں مسافروں کے لئے سامان زیست بنایا ہے۔ “ مقوین کے معنی مسافر ہیں۔ مخاطین کے نفوس پر اس کا بہت اثر تھا کیونکہ ان کے سامنے ان کا ایک زندہ تجربہ پیش کیا گیا۔

جس اس حد تک اسرار ورموزفاش کردیئے گئے جن سے دلائل ایمان روز روشن کی طرح سامنے آگئے۔ اور لوگوں کے لئے قابل فہم ، تو اب اشارہ کرنا لازم ہوگیا کہ یہ سب کچھ فراہم کرنے والاکون ہے ؟ کیا ایک عظیم خالق اور رب کی موجودگی کا سوال تمہارے ذہنوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کی طرف فطرت متوجہ ہوتی ہے اور وہ فطرت انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اللہ کی تسبیح کریں اور اس حقیقت کو زندہ کریں اور دلوں کو اس سے متاثر کریں۔

اردو ترجمہ

پس اے نبیؐ، اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasabbih biismi rabbika alAAatheemi

فسبح ........ العظیم (6 5:4 7) ” پس اے نبی اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ “

اب روئے سخن مکذبین کی طرف پھیر کر سخت انداز میں قرآن کو اس کائنات سے مربوط کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala oqsimu bimawaqiAAi alnnujoomi

فلا ............ النجوم (6 5:5 7) ” پس میں قسم نہیں کھاتا تاروں کے مواقع کی۔ “ یہ بات تو بہت واضح ہے اور روشن ہے اور قسم کی محتاج نہیں ہے۔

اس دور میں مخاطین ستاروں کے مواقع اور محل وقوع کے بارے میں زیادہ نہ جانتے تھے۔ صرف اس قدر جو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس پر قسم اٹھائی۔

اردو ترجمہ

اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainnahu laqasamun law taAAlamoona AAatheemun

وانہ ................ عظیم (6 5: 67) ” اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے ۔ “ لیکن آج ہم کس قدر جانتے ہیں کہ یہ کس قدر عظیم قسم ہے۔ ہمارا علم مخاطین اول کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ ہمارا موجود علم بھی بہت قلیل ہے اور ہم مواقع النجوم کی عظمت کا پورا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

ستاروں کے مواقع کے بارے میں جو قلیل علم حاصل ہوا ہے یہ ہماری نہایت ہی چھوٹی چھوٹی رصد گاہوں کے ذریعہ حاصل ہوا ہے۔ جن کی نظر کی حدود بہت ہی محدود ہیں۔ ان رصد گاہوں کے ذریعے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ یہ ہیں کہ ستاروں کے دوسرے مجموعے کتنے ہیں ان کی تعداد معلوم نہیں ہے اور ان کی حدود کا تعین نہیں ہے۔

” سائنس دان کہتے ہیں کہ ستارے اور سیارے جن کی تعداد کئی بلین ستاروں سے زیادہ ہے ، ان کو صرف سادہ نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان کو صرف دور بینوں اور رصدگاہوں کے ذریعے دیکھاجاسکتا ہے اور ان کو دیکھے بغیر یہ مشینیں اور آلات بھی ان کو محسوس نہیں کرسکتے۔ یہ سب اس تاریک اور نامعلوم فضائے آسمانی میں تیر رہے ہیں اور کوئی احتمال اس بات کا نہیں ہے کہ کسی ایک ستارے کے مقناطیسی دائرے کے اندر دوسرا ستارہ آجائے یا کسی دوسرے ستارے کے ساتھ متصادم ہوجائے جس طرح اس بات کا احتمال نہیں ہے کہ بحربیض میں چلنے والی کشتی بحر مردار میں چلنے والی کشتی کے ساتھ متصادم ہوجائے جبکہ وہ دونوں ایک ہی سمت میں ایک ہی سرعت کے ساتھ چل رہی ہوں۔ جس طرح یہ احتمال بعید ہے اسی طرح دو ستاروں کا ٹکرانا محال ہے۔ (اللہ اور سائنس۔ ص 33)

ہر ستارے کو اپنے قریبی ستارے سے اس فاصلے پر رکھا گیا ہے اور اس حکمت اور تدبیر سے رکھا گیا ہے اور ان تمام ستاروں کی کشش کو اس طرح متوازن رکھا گیا ہے کہ وہ اس لامتناہی فضا میں پھرنے اور تیرے والے کھربوں ستاروں کے ساتھ متوازن ہے۔ یہ تو ہے ایک پہلو عظمت محل وقوع ستارگان کا۔ لیکن اگرچہ عظمت کا ہمارا تصور اس وقت کے مخاطین قرآن سے بہت زیادہ ہے لیکن اگلی نسلوں کا جو تصور ہوگا وہ ہمارے اس وسیع تصور کو بھی محدود سمجھیں گی۔

وانہ ................ عظیم (6 5: 67) ” اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ “ قسم کی طرف یہ اشارہ اور پھر قسم نہ کھانا ایک اسلوب ہے۔ ایک زیادہ موثر اور دل نشین انداز اور اس سے بات زیادہ پختگی سے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کیونکہ اس پر قسم کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔

536