سورہ الواقیہ (56): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Waaqia کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الواقعة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الواقیہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Waaqia
سُورَةُ الوَاقِعَةِ
صفحہ 537 (آیات 77 سے 96 تک)

إِنَّهُۥ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ فِى كِتَٰبٍ مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّهُۥٓ إِلَّا ٱلْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ أَفَبِهَٰذَا ٱلْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ فَلَوْلَآ إِذَا بَلَغَتِ ٱلْحُلْقُومَ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ فَلَوْلَآ إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَآ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ فَأَمَّآ إِن كَانَ مِنَ ٱلْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلْيَمِينِ فَسَلَٰمٌ لَّكَ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلْيَمِينِ وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنَ ٱلْمُكَذِّبِينَ ٱلضَّآلِّينَ فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ حَقُّ ٱلْيَقِينِ فَسَبِّحْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلْعَظِيمِ
537

سورہ الواقیہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الواقیہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

کہ یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innahu laquranun kareemun

آیت 77{ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ } ”یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔“ یہاں پر ہم میں سے ہر شخص کو پوری دیانت داری سے اپنا جائزہ لیناچاہیے کہ اس نے اپنی حد تک قرآن مجید کی کیا قدر کی ہے اور کس حد تک اس کے حقوق پورے کیے ہیں ؟ بہرحال جہاں تک ان حقوق کی ادائیگی کا تعلق ہے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی انسان کو ہزاروں زندگیاں مل جائیں اور وہ انہیں ”قرآن“ کے لیے وقف کر دے ‘ تب بھی قرآن کا حق ادا نہیں ہو سکے گا۔

اردو ترجمہ

ایک محفوظ کتاب میں ثبت

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee kitabin maknoonin

آیت 78{ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ } ”ایک چھپی ہوئی کتاب میں۔“ یہ قرآن کریم ایک پوشیدہ کتاب میں محفوظ ہے۔ سورة الزخرف کی آیت 4 میں اس کتابٍ مَّکْنُوْنٍ کو اُمِّ الْـکِتَاب کا نام دیا گیا ہے : { وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔ } ”اور یہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند وبالا ‘ بہت حکمت والی !“ جبکہ سورة البروج میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : { بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ - فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ } ”بلکہ یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے۔ لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا۔“

اردو ترجمہ

جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yamassuhu illa almutahharoona

آیت 79{ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ } ”اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں۔“ یعنی اسے فرشتے ہی چھو سکتے ہیں جو بالکل پاک مخلوق ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کی عظمت کے ضمن میں سورة عبس میں فرمایا گیا ہے : { کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ - فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ - فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ - مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍم - بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ - کِرَامٍم بَرَرَۃٍ۔ } ”ہرگز نہیں ‘ یہ تو ایک نصیحت ہے۔ پس جو کوئی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو باعزت ہیں ‘ بلند مرتبہ ہیں ‘ پاکیزہ ہیں۔ ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں جو معزز اور نیک ہیں۔“ آیت زیر مطالعہ میں الْمُطَہَّرُوْنَسے مراد فرشتے ہیں اور یَمَسُّہٗ میں ہٗ کی ضمیر کا تعلق ”کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ“ سے ہے۔ مَوٰقِعِ النُّجُوم کی قسم کا مقسم علیہ یہ ہے کہ یہ ایک نہایت باعزت اور برتر کلام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک محفوظ کتاب میں ہے ‘ جس تک اس کے پاک فرشتوں کے سوا کسی کی بھی رسائی نہیں۔ یعنی اس کو صرف ملائکہ مقربین ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں ‘ جنات اور شیاطین وہاں پھٹک بھی نہیں سکتے۔ فقہاء نے اس آیت سے یہ حکم بھی استنباط کیا ہے کہ قرآن مجید کو ناپاکی کی حالت میں چھونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو چھونے اور چھوکر پڑھنے کے لیے وضو ضروری ہے ‘ جبکہ زبانی تلاوت بغیر وضو بھی کی جاسکتی ہے ‘ البتہ جنابت کی حالت میں قرآن مجید کے الفاظ کو زبانی پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قرآن کے اصل لب لباب تک پہنچنے اور اس کی ہدایت سے مستفیض ہونے کے لیے باطنی صفائی ضروری ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے قرآن کے ظاہر اور باطن کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں پڑھتے ہیں : { ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُج } الحدید : 3 ”کہ وہ اول بھی ہے ‘ آخر بھی ہے ‘ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے“۔ اسی طرح قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ قرآن کا ظاہر اس کی عبارت اور اس کے الفاظ ہیں۔ جہاں تک قرآن کے اس ظاہر کا تعلق ہے ہر عربی دان شخص اس کے معانی و مطالب کو سمجھ سکتا ہے اور اس کی صرف و نحو پر بحث کرسکتا ہے۔ اس اعتبار سے کئی ایسے غیر مسلموں کی مثالیں بھی موجود ہیں جنہوں نے عربی میں مہارت حاصل کر کے قرآن کے تراجم کیے اور تفسیریں لکھیں۔ لیکن ایسے لوگ قرآن کے باطن تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اقبال نے اسی مفہوم میں ایسی ہی بات بندئہ مومن کے بارے میں کہی ہے :فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے !اقبال نے اس شعر میں بندئہ مومن کے وجود کے مرکز کا ذکر کیا ہے۔ بالکل اسی مفہوم میں قرآن مجید کا بھی ”مرکز“ ہے۔ قرآن کے مرکز سے مراد اس کی روح باطنی ‘ اس کی ہدایت ‘ اس کا اصل علم اور اس کا لب لباب ہے۔ اس لحاظ سے آیت زیر مطالعہ اس حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی کرتی ہے کہ قرآن مجید کے مرکز nucleus تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تزکیہ باطنی ضروری ہے۔ اس تزکیہ باطنی کا ذکر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی اس دعا میں بھی ہے : { رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ } البقرۃ : 129 ”پروردگار ! ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول خود انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے۔“ یہاں پر یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس دعا میں تعلیم کتاب و حکمت کا ذکر پہلے کیا اور تزکیہ کو آخر پر رکھا ‘ لیکن جب حضور ﷺ کے حوالے سے ان ہی چار امور کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ترتیب بدل دی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تین مقامات البقرۃ : 151 ‘ آل عمران : 164 ‘ الجمعہ : 2 پر حضور ﷺ کی ان ذمہ داریوں کا ذکر کیا اور تینوں مقامات پر تزکیہ کا ذکرتعلیم کتاب و حکمت سے پہلے کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن مجید کی روح باطنی تک رسائی کا طالب ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل کو تکبر ‘ حسد ‘ حب ِدُنیا سمیت تمام خباثتوں سے پاک کرے ‘ ورنہ قرآن مجید کا نور اس کے باطن میں کبھی سرایت نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کا اصل فہم اس پر کبھی منکشف ہوگا ‘ اگرچہ بظاہر وہ قرآن کا بہت بڑا مفسر ہی کیوں نہ بن جائے۔ تزکیہ باطن کے حوالے سے یہاں سورة یونس کی آیت 57 کا پیغام بھی ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کو انسانی دل کی تمام باطنی امراض کے لیے شفا قرار دیا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۔ } ”اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں کے اَمراض کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور بہت بڑی رحمت۔“

اردو ترجمہ

یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tanzeelun min rabbi alAAalameena

آیت 80{ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ”اس کا اتارا جانا ہے ربّ العالمین کی جانب سے۔“ اور اس کے بعد اب یہ چبھتا ہوا سوال piercing question پوچھا جا رہا ہے :

اردو ترجمہ

پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afabihatha alhadeethi antum mudhinoona

آیت 81{ اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ۔ } ”تو کیا تم لوگ اس کتاب کے بارے میں مداہنت کر رہے ہو ؟“ اس آیت کا مفہوم ہمیں تب سمجھ آئے گا جب ہم میں سے ہر ایک خود کو اس کا مخاطب سمجھے کہ یہ آیت براہ راست اس سے پوچھ رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! کیا تم اپنے دنیوی معاملات و مفادات کو اللہ کی اس نعمت کے مقابلے میں ترجیح دے رہے ہو ؟ کیا تم اس عظیم کتاب کو سیکھنے سکھانے اور سمجھنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کر رہے ہو ؟ ذرا سوچوتو ! تم نے کیسے کیسے مشکل علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ ان علوم کو سیکھنے کے لیے تم نے کیسی کیسی محنت کی ہے اور کتنا وقت کھپایا ہے ! اس کے مقابلے میں قرآنی زبان سیکھنے کے لیے تم نے کتنی کوشش کی ہے ؟ تو کیا تم نے اپنی دنیا کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظیم نعمت کو پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے ؟

اردو ترجمہ

اور اِس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اِسے جھٹلاتے ہو؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WatajAAaloona rizqakum annakum tukaththiboona

آیت 82{ وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ۔ } ”اور تم نے اپنا نصیب یہ ٹھہرا لیا ہے کہ تم اس کو جھٹلا رہے ہو !“ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کا جھٹلانا ایک تو زبانی ہے اور دوسرا عملی۔ زبانی اور نظریاتی طور پر تو قرآن مجید کو مشرکین عرب جھٹلاتے تھے یا ہر زمانے کے بہت سے غیر مسلم جھٹلاتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ خود محمد ﷺ کی تصنیف ہے۔ جبکہ عملی طور پر اسے ہم مسلمان جھٹلاتے ہیں۔ ہم نظریاتی طور پر تو اسے اللہ کا کلام مانتے ہیں اور زبان سے اس کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر اس کے احکام ماننے سے کھلم کھلا اعراض کرتے ہیں۔ ہماری اس کیفیت کی مثال اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے : { مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰٹۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا } الجمعۃ : 5 کہ جو لوگ حامل تورات بنائے گئے اور پھر انہوں نے اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا ‘ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہو۔ اگر آپ ایک گدھے پر مکالماتِ افلاطون اور انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی تمام جلدیں لاد دیں تو ان کتابوں کو اٹھا لینے سے وہ ان کا عالم تو نہیں بن جائے گا۔ اس آیت کی روشنی میں یہودیوں کے طرزعمل کا جائزہ لیں تو انہوں نے زبان سے کبھی تورات کی تکذیب نہیں کی ‘ بلکہ وہ ابھی تک اسے اپنے سینوں سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس لیے قرآن مجید نے مذکورہ آیت میں ان کی جس تکذیب کا ذکر کیا ہے وہ عملی تکذیب ہے۔ بالکل اسی طرح ہم بھی آج قرآن مجید کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ‘ لیکن عملی طور پر اس کے احکام کی تعمیل سے روگردانی کرکے مذکورہ بالا مثال کے مصداق بنے ہوئے ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق تو ہمارے اس طرزعمل سے قرآن مجید پر ہمارے زبانی ایمان کی بھی تکذیب ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِِمَہٗ 1 1 سنن الترمذی ‘ ابواب فضائل القرآن ‘ باب ما جاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن مالہ من الاجر ‘ ح : 2918۔ والمعجم الاوسط للطبرانی : 4/337۔”جس نے قرآن کی حرام کردہ اشیاء کو اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں۔“ قرآن مجید کی اس عملی تکذیب کے علاوہ آج ہم مسلمان اس کی ”تکذیب حالی“ کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔ تکذیب حالی یہ ہے کہ کسی شخص کا حال اس حقیقت کی گواہی دے رہا ہو کہ اس کے نزدیک فلاں چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قرآن مجید کے حوالے سے اپنی تکذیب حالی کو سمجھنے کے لیے آپ اپنے ہاں کے ایک عام ڈاکٹر کی مثال لے لیں۔ اس نے رات دن ایک کر کے پچیس سال کی عمر میں ایم بی بی ایس کیا۔ پھر FRCS کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ امریکہ گیا ‘ وہاں جا کر امتحان دیا۔ وہاں کے بورڈز سے یہ ڈپلومہ ‘ وہ ڈپلومہ…! اس پڑھائی میں اس نے اپنی زندگی کے پینتیس چالیس سال کھپا دیے۔ اس کے بعد وہیں ملازمت اختیار کرلی … یا واپس آکر اپنی ملازمت اور پریکٹس میں کو ہلو کے بیل کی طرح جت گیا۔ مشن کیا ہے ؟ معاش اچھی ہوجائے اور معیارِ زندگی بلند ہوجائے ! یہ مشن تو اس نے حاصل کرلیا ‘ لیکن اپنی زندگی کے ماہ و سال میں سے اس نے قرآن مجید سیکھنے کے لیے کوئی وقت نکالا اور اس کے لیے کوئی محنت کی ؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو اس کا حال گویا چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ اس شخص کی زندگی میں قرآن مجید کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے دل کی گہرائیوں میں قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کے بارے میں یقین نہیں۔ یاد رہے کہ سورة الرحمن کی ابتدائی آیات میں قرآن کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب مثبت انداز میں دلائی گئی تھی ‘ جبکہ یہاں سورة الواقعہ کے اختتام پر اسی ترغیب کے لیے منفی انداز اپنایا گیا ہے۔ یعنی سورة الرحمن کی چار ابتدائی آیات کے بین السطور میں یہ پیغام مضمر تھا کہ اگر رحمن نے اپنا کلام ”قرآن“ تمہارے پاس بھیجا ہے اور تمہیں ”بیان“ کی صلاحیت سے بھی نوازا ہے تو تمہاری اس طلاقت لسانی کا بہترین اور لازمی مصرف یہی ہے کہ تم اس صلاحیت کو قرآن کے لیے وقف کر دو۔ جبکہ یہاں سورة الواقعہ کی ان آیات میں یہ تنبیہہ مضمر ہے کہ جو لوگ قرآن کے حقوق کماحقہ ادا نہیں کرتے آخرت میں انہیں اس کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا اور کوتاہی ثابت ہونے پر ان کی سخت گرفت ہوگی۔

اردو ترجمہ

تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falawla itha balaghati alhulqooma

جیسا کہ قبل ازیں بھی بار بار ذکر ہوا ہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ باہم جوڑا ہیں اور ان کے مضامین بھی باہم مشابہ و مربوط ہیں۔ البتہ زیر مطالعہ آیات کا مضمون صرف اسی سورت میں آیا ہے۔ اس کے مقابل سورة الرحمن میں ایسا کوئی مضمون نہیں ہے۔ گویا یہ مضمون اس سورة کی اضافی شان ہے۔آیت 83{ فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۔ } ”تو کیوں نہیں ‘ جب جان حلق میں آ کر پھنس جاتی ہے۔“

اردو ترجمہ

اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے،

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waantum heenaithin tanthuroona

آیت 84{ وَاَنْتُـمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ۔ } ”اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔“ ان آیات میں ایک انسان کے وقت ِنزع کی کیفیت کا عبرت انگیز نقشہ پیش کر کے دعوت فکر دی گئی ہے کہ ذرا سوچو ! جب تم میں سے کسی کی جان حلق میں پھنسی ہوتی ہے۔ تم اس وقت کا تصور کرو جب تم میں سے کسی کے بیٹے ‘ کسی کے بھائی ‘ کسی کے والد ‘ کسی کی والدہ یا کسی کی بیوی پر نزع کا عالم طاری ہوتا ہے اور وہ بےبسی کی تصویر بنے اپنے اس عزیز کی اس کیفیت کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اُس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اُس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanahnu aqrabu ilayhi minkum walakin la tubsiroona

آیت 85{ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۔ } ”اور ہم تمہارے مقابلے میں اس سے قریب تر ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں پاتے۔“ یہ تو تخصیص کے ساتھ عالم نزع کی کیفیت کا ذکر ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر بندے کے ساتھ ہوتا ہے ‘ جیسا کہ سورة قٓ میں فرمایا گیا ہے : { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ۔ } ”اور ہم تو انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں۔“

اردو ترجمہ

اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اِس خیال میں سچے ہو،

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Falawla in kuntum ghayra madeeneena

آیت 86 ‘ 87{ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ رض تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو اگر تم کسی کے اختیار میں نہیں ہو تو اس جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو ؟“ یہاں الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان دونوں آیات کو ملانے سے ایک فقرہ مکمل ہوتا ہے۔ قرآن کے خصوصی اسلوب کی وجہ سے لَوْلَا پہلی آیت کے شروع میں آگیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم دوسری آیت کے ساتھ ملنے سے واضح ہوتا ہے۔ چناچہ مفہوم کی وضاحت کے لیے یوں سمجھیں کہ ان دونوں آیات میں الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : فَاِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ‘ لَوْلَا تَرْجِعُوْنَہَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ؟ کہ تم لوگ آئے دن اپنے عزیز و اقارب کی اموات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو تم سب مل کر بھی اور اپنے تمام وسائل استعمال میں لا کر بھی اس کو بچا نہیں پاتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارے بڑے بڑے صاحب اختیار و اقتدار لوگ بھی بالکل بےبس ہوجاتے ہیں۔ شاہی اطباء اور ماہر ڈاکٹرز کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت ان کی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ تم خود ہی پیدا ہوتے ہو اور خود ہی مرتے ہو اور تمہاری زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر بےبسی کی تصویر بن کر کیوں رہ جاتے ہو ؟ اپنے وسائل کو استعمال میں لا کر انہیں بچا کیوں نہیں لیتے ہو ؟ اس کے بعد اگلی آیات میں ان تین گروہوں کی جزا و سزا کا تذکرہ ہے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوا تھا۔

اردو ترجمہ

اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

TarjiAAoonaha in kuntum sadiqeena

اردو ترجمہ

پھر وہ مرنے والا اگر مقربین میں سے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faamma in kana mina almuqarrabeena

آیت 88{ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ } ”پھر اگر وہ مقربین میں سے تھا۔“ یعنی اگر مرنے والا شخصسابقون میں سے تھا۔ اپنی زندگی میں { فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِط } المائدۃ : 48 کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مسابقت کرتے ہوئے دوسروں کے لیے مثال بنتا رہا تھا :

اردو ترجمہ

تو اس کے لیے راحت اور عمدہ رزق اور نعمت بھری جنت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Farawhun warayhanun wajannatu naAAeemin

آیت 89{ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ لا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۔ } ”تو اس کے لیے راحت اور سرور اور نعمتوں والی جنت ہے۔“

اردو ترجمہ

اور اگر وہ اصحاب یمین میں سے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma in kana min ashabi alyameeni

آیت 90{ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ۔ } ”اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے تھا۔“ اگرچہ وہ ”سابقون“ میں سے تو نہیں تھا لیکن نیک تھا اور دین کی خدمت میں حسب ِاستطاعت کوشاں رہتا تھا :

اردو ترجمہ

تو اس کا استقبال یوں ہوتا ہے کہ سلام ہے تجھے، تو اصحاب الیمین میں سے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasalamun laka min ashabi alyameeni

آیت 91{ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ۔ } ”تو سلامتی پہنچے آپ کو اصحاب الیمین کی طرف سے۔“ اے نبی ﷺ ! آپ اطمینان رکھیں کہ آپ کی امت کے اصحاب الیمین بھی عیش میں ہوں گے اور جنت کی ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوچکا ہے۔ 1 1 اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اصحاب یمین کی طرف سے اس کا استقبال کیا جائے گا اور اسے سلام کہا جائے گا۔ جب کہ بعض مفسرین نے اس جملے میں اَنْتَ محذوف مانا ہے۔ یعنی تقدیر عبارت یوں ہے : فسلام لک انت من اصحٰب الیمین کہ تیرے لیے اب سلامتی ہی سلامتی ہے ‘ تو اصحاب یمین میں شامل ہے ! حاشیہ از مرتب

اردو ترجمہ

اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma in kana mina almukaththibeena alddalleena

آیت 92{ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ۔ } ”اور اگر وہ تھا جھٹلانے والوں اور گمراہوں میں سے۔“ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قبل ازیں دوسرے رکوع میں جب اس گروہ کا ذکر ہوا تو وہاں ان لوگوں کو ”اَیُّھَا الضَّآلُّـــوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ“ کہہ کر مخاطب فرمایا گیا تھا ‘ لیکن یہاں پر انہیں ”الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ“ کہا گیا ہے۔ یعنی یہاں پر الفاظ کی ترتیب بدل گئی ہے۔ بظاہر اس کی توجیہہ یہ سمجھ آتی ہے کہ سزا کے حوالے سے ان کے بڑے اور اصل جرم کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ حق کو جھٹلا دینے کے مقابلے میں گمراہی نسبتاً چھوٹا جرم ہے ‘ کیونکہ کسی گمراہ اور بھٹکے ہوئے شخص کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھا دے تو ممکن ہے وہ اسے قبول کرلے۔ لیکن جو حق کو جھٹلا دے اس کا سیدھے راستے پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔

اردو ترجمہ

تو اس کی تواضع کے لیے کھولتا ہوا پانی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fanuzulun min hameemin

آیت 93{ فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ۔ } ”تو اس کے لیے مہمانی ہے کھولتے پانی سے۔“

اردو ترجمہ

اور جہنم میں جھونکا جانا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Watasliyatu jaheemin

آیت 94{ وَّتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ۔ } ”اور جہنم میں جلنا۔“ یعنی ان لوگوں کی ابتدائی تواضع تو کھولتے ہوئے پانی سے ہوگی۔ اس کے بعد ان کو جہنم کے اصل عذاب میں جھونک دیا جائے گا۔

اردو ترجمہ

یہ سب کچھ قطعی حق ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna hatha lahuwa haqqu alyaqeeni

آیت 95{ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ۔ } ”یقینا یہ سب کچھ قطعی حق ہے۔“ بیشک یہ ساری باتیں سچی اور یقینی ہیں۔ یہ سب تفصیلات جو اس سورت میں بیان ہوئی ہیں ان کے بارے میں تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ ہو کر رہنا ہے۔ قیامت کے دن تمام نوع انسانی کو مذکورہ بالا تین گروہوں میں تقسیم کر کے ہر گروہ کے افراد کو ان کے اعمال و اعتقادات کے مطابق بدلہ دیا جانا ہے۔

اردو ترجمہ

پس اے نبیؐ، اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasabbih biismi rabbika alAAatheemi

آیت 96{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ۔ } ”پس آپ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔“ اس کے جواب میں امتثالِ امر کے طور پر کہا جائے گا : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ! یہ آیت اس سورت میں دو مرتبہ آئی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا : اِجْعَلُوْھَا فِیْ رُکُوْعِکُمْ 1 1 سنن ابی داوٗد ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ ‘ ح : 869 و صحیح ابن حبان ‘ ح : 1898۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جب آیت { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی۔ } الاعلیٰ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : اِجْعَلُوْھَا فِیْ سُجُُوْدِکُمْ کہ اس کو تم لوگ اپنے سجدوں میں رکھ دو۔کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھ دو۔ چناچہ حضور ﷺ کے اس فرمان کے مطابق رکوع کی تسبیح سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اس آیت سے اخذ کی گئی ہے۔

537