سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 17 (آیات 106 سے 112 تک)

۞ مَا نَنسَخْ مِنْ ءَايَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ أَوْ مِثْلِهَآ ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلَا نَصِيرٍ أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْـَٔلُوا۟ رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ ٱلْكُفْرَ بِٱلْإِيمَٰنِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّنۢ بَعْدِ إِيمَٰنِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ ٱلْحَقُّ ۖ فَٱعْفُوا۟ وَٱصْفَحُوا۟ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا۟ لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَقَالُوا۟ لَن يَدْخُلَ ٱلْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَٰرَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا۟ بُرْهَٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُۥ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُۥٓ أَجْرُهُۥ عِندَ رَبِّهِۦ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
17

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بُھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma nansakh min ayatin aw nunsiha nati bikhayrin minha aw mithliha alam taAAlam anna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

اردو ترجمہ

کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمیں اور آسمان کی فرمانروائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam taAAlam anna Allaha lahu mulku alssamawati waalardi wama lakum min dooni Allahi min waliyyin wala naseerin

جن الفاظ میں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ” تمہاری خبر گیری کرنے والا اور تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ “ ان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سے بیک وقت تنبیہ اور تذکیر مطلوب ہے۔ غائبانہ تنبیہ کا انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ بعض لوگ یہودیوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے تھے ۔ اور ان کی جانب سے پیدا کردہ شر انگیزی سے مرعوب ہوکر وہ نبی ﷺ سے ایسے سوالات کرنے لگے تھے ، جو مکمل اعتماد اور پختہ یقین سے میل نہ کھاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے ایسے سوالات کو ناپسند کیا اور واضح طور پر انہیں تنبیہ کی ۔

اردو ترجمہ

پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبہ کرنا چاہتے ہو، جیسے اس سے پہلے موسیٰؑ سے کیے جا چکے ہیں؟ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Am tureedoona an tasaloo rasoolakum kama suila moosa min qablu waman yatabaddali alkufra bialeemani faqad dalla sawaa alssabeeli

اللہ مؤمنین کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح کج بحثی میں نہ پڑیں اور اپنے پیغمبر سے خوامخواہ دلائل نہ پوچھیں اور نہ ہی خارق عادت باتوں کا مطالبہ کریں ۔ جس طرح بنی اسرائیل نے یہ حرکت اپنے نبی کو تنگ کرنے کے لئے کی تھی ۔ ان کی یہ عادت تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انہیں کوئی حکم دیتے یا ان تک اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغام پہنچاتے تو کج بحثیوں میں پڑجاتے جیسا کہ اس سے قبل اسی سورت میں کئی واقعات گذر چکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس روش کے قدرتی انجام سے ڈراتے ہیں ۔ کیونکہ اس روش کا قدرتی انجام گمراہی اور ایمان کے بعد کفر کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اسی انجام تک اس سے پہلے بنی اسرائیل پہنچ چکے ہیں اور اب ان لوگوں کی دلی خواہش یہ ہے کہ مسلمان بھی اسی انجام تک پہنچ جائیں۔

اردو ترجمہ

اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے اس کے جواب میں تم عفو و در گزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wadda katheerun min ahli alkitabi law yaruddoonakum min baAAdi eemanikum kuffaran hasadan min AAindi anfusihim min baAAdi ma tabayyana lahumu alhaqqu faoAAfoo waisfahoo hatta yatiya Allahu biamrihi inna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

حسد ، جو ایک نہایت ہی بری خصلت اور اخلاقی بیماری ہے ۔ نفس انسانی کے اندر یہ خواہش پیدا کردیتی ہے کہ تمام دوسرے لوگ ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہوجائیں اور راہ ہدایت نہ پائیں ۔ اس لئے نہیں کہ ایسے حاسد شرپسند لوگ حقیقت حال سے واقف نہیں ہوتے ۔ وہ حقیقت حال سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر محض حسد کی بناپر یہ خواہش رکھتے ہیں ۔

حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ” اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے مگر نفس کے حسد کی بناپر وہ ایسا کرتے ہیں ۔ “

یہود کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد کے سیاہ اور گھٹیا جذبات موجزن تھے وہ جذبات آج بھی جوں کے توں موجد ہیں ۔ اسلام کے خلاف ان کی تمام سازشیں اور تمام تدابیر انہی جذبات پر مبنی تھیں ۔ اور آج تک ان کا طرز عمل جوں کا توں ہے ۔ اسی حقیقت کو قرآن کریم تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کررہا ہے تاکہ وہ معاملے کی حقیقت تک پہنچ جائیں ۔ اور یہ معلوم کرلیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی اس مسلسل جدوجہد کے پس منظر میں صرف وہ جذبہ کارفرما ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کردیں اور انہیں دوبارہ اسی حالت کفر کی طرف لوٹا کرلے جائیں جس میں وہ پہلے مبتلا تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی اور وہ ایمان لے آئے اور انہیں فضل عظیم اور نعمت جلیلہ سے نوازا گیا۔

جب یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور یہودیوں کا مکروہ بغض وحسد عیاں ہوجاتا ہے تو قرآن کریم مسلمانوں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ یہودیوں کی پست سطح سے بالا ہوکر سوچیں ۔ حسد کا جواب حسد اور شر سے نہ دیں بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ لے آئے ۔

اردو ترجمہ

نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waaqeemoo alssalata waatoo alzzakata wama tuqaddimoo lianfusikum min khayrin tajidoohu AAinda Allahi inna Allaha bima taAAmaloona baseerun

غرض اس پورے پیراگراف میں اسلامی جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور مسلمانوں کی فکر کو اس پر مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے خطرے کی اصل جگہ کون سی ہے ۔ کہاں ان کے خلاف سازشیں تیارہوتی ہیں ۔ یوں اسلامی شعور کو یہودیوں کے برے ارادوں ، گھٹیا سازشوں اور مذموم حاسدانہ جذبات کے مقابلے میں تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیاری کے بعد اس اسلامی شعور کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اس کے احکام کے منتظر ہوں اور اپنی ہر حرکت اور اپنے ہر فعل کو اللہ کے تصرف میں دے دیں ۔ یہاں تک کہ فیصلے کی گھڑی آجائے ۔ اس وقت مسلمانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ عفو و درگذر سے کام لیں اور اپنے دلوں کو بغض وحسد اور کینہ ودشمنی سے پاک رکھیں اور صاحب امر اور صاحب مشیئت کے احکامات اور فیصلے کا انتظار کریں۔

اس کے بعد قرآن کریم ان دعوؤں کا جائزہ لیتا ہے جو یہود ونصاریٰ بالعموم کیا کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ وہ کہتے تھے کہ صرف وہی ہدایت پر ہیں ۔ یہ کہ جنت صرف ان کے لئے ہے اور ان کے علاوہ اس میں کوئی بھی داخل نہ ہوگا ۔ اور یہ دعویٰ بیک وقت یہودی اور عیسائی کرتے تھے ۔ ان میں سے ہر ایک شخص کہتا تھا کہ دوسرے کے پاس سچائی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ۔ ان کے ان دعوؤں کے تذکرے کے ضمن میں قرآن کریم عمل اور مکافات کے بارے میں اپنے حقیقی تصور کی وضاحت بھی کردیتا ہے۔

اردو ترجمہ

ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو (یا عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو یہ ان کی تمنائیں ہیں ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo lan yadkhula aljannata illa man kana hoodan aw nasara tilka amaniyyuhum qul hatoo burhanakum in kuntum sadiqeena

مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں اترے ہوئے تھے وہ یہودی تھے کیونکہ وہاں نصرانیوں کا کوئی ایسا منظم گروہ موجود نہ تھا جو یہودیوں کی طرح اسلام دشمنی میں مبتلا ہوتا لیکن آیت میں انداز بیان کو عام رکھا گیا ہے ۔ یہاں آیات الٰہی دونوں گروہوں کے اقوال کی تردید کرتی ہے ۔ اور ایک دوسرے کے بارے میں یہو و ونصاریٰ دونوں کے اقوال نقل کرکے آخرت میں ان دونوں کے بارے میں مشرکین عرب کے خیالات نقل کردیئے جاتے ہیں وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى” ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا عیسائی نہ ہو۔ “ یہاں ان دونوں فرقوں کے دعوؤں کو یکجا کرکے بیان کیا گیا ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ مدعی تھا ۔ یہودی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو یہودی ہو اور نصرانی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو نصرانی ہو ۔ ان دونوں کے یہ لمبے چوڑے دعوے محض ادعائی تھے ۔ ان کی پشت پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دعوؤں کی دلیل پیش کرنے کا چیلنج کریں۔

قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ” ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ “

یہاں اللہ تعالیٰ موقع کی مناسبت سے مکافات عمل کے بارے میں اسلامی نظریہ حیات کا ایک اہم اصول بیان کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معاملے میں کسی امت کسی گروہ یا کسی فرد کی کوئی رورعایت نہ کی جائے گی ۔ اللہ کے ہاں جس چیز کی قدر ہے وہ نیکی اور مکمل بندگی اور تسلیم ورضا ہے ۔ یہاں محض نام اور عنوان کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے ۔

اردو ترجمہ

دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bala man aslama wajhahu lillahi wahuwa muhsinun falahu ajruhu AAinda rabbihi wala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاًنیک روش پر چلے ، اس کے لئے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا موقع نہیں ہے۔ “

اس سے قبل ایک جگہ یہودیوں کے اس دعوے پر کہ ” انہیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند دن “ کی تردید کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سزا کا یہ عام اصول بیان کیا تھا۔” ہاں جو بھی برائی کمائے گا اور اس کی برائیاں اسے گھیر لیں گی وہ لوگ جہنمی ہوں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ “ یعنی خطیئات کے مرتکب لوگوں کو سزا محض اس لئے ہوگی کہ انہوں نے خطیئات کا ارتکاب کیا ۔ اس کے علاوہ کوئی نقطہ نظر یا کوئی پہلو اس کا باعث نہ ہوگا کہ انہیں سزا دی جائے ۔ غرض نیکی اور بدی میں اللہ کے ہاں جزاوسزا کا یہی ایک اصول ہے ۔ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ جو اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے ” یعنی اپنی پوری ذات کو اللہ کے مختص کردے ۔ اپنے پورے شعور کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے اور جس طرح پہلا شخص خالصتاً برائی میں گرفتار ہوگیا تھا ۔۔ یہ ہمہ تن اللہ کے لئے ہوجائے ۔ “ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ” جو اپنی ذات کو پوری طرح اللہ کی اطاعت میں سونپ دے۔ “ اس فقرے میں اسلام کی اہم ترین خصوصیت اور واضح علامت کو بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ایک انسان پوری طرح اللہ کی طرف منہ کرلے ۔ یعنی ہمہ تن متوجہ ہوجائے اور مکمل انقیاد اور اطاعت اختیار کرلے یعنی معنوی طور پر اللہ کے آگے جھک جائے اور عملاً بھی اس کا مطیع فرمان ہوجائے اور چونکہ معنوی رضاوتسلیم کے لئے ظاہری دلیل عملاً اطاعت حکم ہوا کرتی ہے ، اس لئے کہا گیا اور عملاً نیک روش اختیار کرے ۔ اسلام کی اہم ترین خصوصیات اور نشانیوں میں سے ایک یہ امر ہے کہ انسان کا شعور اور روش اس کا عقیدہ اور عمل ، اس کا قلبی ایمان اور عملی روش کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور تب ایک بندہ مومن اس عطاء الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔

فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ “ ان کا اجر محفوظ اور ان کے رب کے پاس ہے ۔ امن و طمانیت کی ایک عظیم دنیا جس میں رنج والم کا شائبہ تک نہیں ، ان کے لئے منتظر ہے ۔ فرحت و سرور کا ایک عالم ہے جس میں حزن وملال کا کوئی لمحہ نہیں ۔ ان کے لئے تیار ہے ۔ جزا کا یہ اصول عامہ ہے اور تمام لوگ اس میں برابر ہیں ۔ اللہ کے ہاں کسی کی رو رعایت یا کسی کی کوئی شان محبوبیت نہیں ہے ۔

17