اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
جن الفاظ میں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ ” تمہاری خبر گیری کرنے والا اور تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ “ ان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سے بیک وقت تنبیہ اور تذکیر مطلوب ہے۔ غائبانہ تنبیہ کا انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ بعض لوگ یہودیوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے تھے ۔ اور ان کی جانب سے پیدا کردہ شر انگیزی سے مرعوب ہوکر وہ نبی ﷺ سے ایسے سوالات کرنے لگے تھے ، جو مکمل اعتماد اور پختہ یقین سے میل نہ کھاتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے ایسے سوالات کو ناپسند کیا اور واضح طور پر انہیں تنبیہ کی ۔
اللہ مؤمنین کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح کج بحثی میں نہ پڑیں اور اپنے پیغمبر سے خوامخواہ دلائل نہ پوچھیں اور نہ ہی خارق عادت باتوں کا مطالبہ کریں ۔ جس طرح بنی اسرائیل نے یہ حرکت اپنے نبی کو تنگ کرنے کے لئے کی تھی ۔ ان کی یہ عادت تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انہیں کوئی حکم دیتے یا ان تک اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغام پہنچاتے تو کج بحثیوں میں پڑجاتے جیسا کہ اس سے قبل اسی سورت میں کئی واقعات گذر چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس روش کے قدرتی انجام سے ڈراتے ہیں ۔ کیونکہ اس روش کا قدرتی انجام گمراہی اور ایمان کے بعد کفر کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اسی انجام تک اس سے پہلے بنی اسرائیل پہنچ چکے ہیں اور اب ان لوگوں کی دلی خواہش یہ ہے کہ مسلمان بھی اسی انجام تک پہنچ جائیں۔
حسد ، جو ایک نہایت ہی بری خصلت اور اخلاقی بیماری ہے ۔ نفس انسانی کے اندر یہ خواہش پیدا کردیتی ہے کہ تمام دوسرے لوگ ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہوجائیں اور راہ ہدایت نہ پائیں ۔ اس لئے نہیں کہ ایسے حاسد شرپسند لوگ حقیقت حال سے واقف نہیں ہوتے ۔ وہ حقیقت حال سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر محض حسد کی بناپر یہ خواہش رکھتے ہیں ۔
حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ” اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے مگر نفس کے حسد کی بناپر وہ ایسا کرتے ہیں ۔ “
یہود کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد کے سیاہ اور گھٹیا جذبات موجزن تھے وہ جذبات آج بھی جوں کے توں موجد ہیں ۔ اسلام کے خلاف ان کی تمام سازشیں اور تمام تدابیر انہی جذبات پر مبنی تھیں ۔ اور آج تک ان کا طرز عمل جوں کا توں ہے ۔ اسی حقیقت کو قرآن کریم تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کررہا ہے تاکہ وہ معاملے کی حقیقت تک پہنچ جائیں ۔ اور یہ معلوم کرلیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی اس مسلسل جدوجہد کے پس منظر میں صرف وہ جذبہ کارفرما ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کردیں اور انہیں دوبارہ اسی حالت کفر کی طرف لوٹا کرلے جائیں جس میں وہ پہلے مبتلا تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی اور وہ ایمان لے آئے اور انہیں فضل عظیم اور نعمت جلیلہ سے نوازا گیا۔
جب یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور یہودیوں کا مکروہ بغض وحسد عیاں ہوجاتا ہے تو قرآن کریم مسلمانوں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ یہودیوں کی پست سطح سے بالا ہوکر سوچیں ۔ حسد کا جواب حسد اور شر سے نہ دیں بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ لے آئے ۔
غرض اس پورے پیراگراف میں اسلامی جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور مسلمانوں کی فکر کو اس پر مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے خطرے کی اصل جگہ کون سی ہے ۔ کہاں ان کے خلاف سازشیں تیارہوتی ہیں ۔ یوں اسلامی شعور کو یہودیوں کے برے ارادوں ، گھٹیا سازشوں اور مذموم حاسدانہ جذبات کے مقابلے میں تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیاری کے بعد اس اسلامی شعور کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اس کے احکام کے منتظر ہوں اور اپنی ہر حرکت اور اپنے ہر فعل کو اللہ کے تصرف میں دے دیں ۔ یہاں تک کہ فیصلے کی گھڑی آجائے ۔ اس وقت مسلمانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ عفو و درگذر سے کام لیں اور اپنے دلوں کو بغض وحسد اور کینہ ودشمنی سے پاک رکھیں اور صاحب امر اور صاحب مشیئت کے احکامات اور فیصلے کا انتظار کریں۔
اس کے بعد قرآن کریم ان دعوؤں کا جائزہ لیتا ہے جو یہود ونصاریٰ بالعموم کیا کرتے تھے ۔ مثلاً یہ کہ وہ کہتے تھے کہ صرف وہی ہدایت پر ہیں ۔ یہ کہ جنت صرف ان کے لئے ہے اور ان کے علاوہ اس میں کوئی بھی داخل نہ ہوگا ۔ اور یہ دعویٰ بیک وقت یہودی اور عیسائی کرتے تھے ۔ ان میں سے ہر ایک شخص کہتا تھا کہ دوسرے کے پاس سچائی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ۔ ان کے ان دعوؤں کے تذکرے کے ضمن میں قرآن کریم عمل اور مکافات کے بارے میں اپنے حقیقی تصور کی وضاحت بھی کردیتا ہے۔
مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں اترے ہوئے تھے وہ یہودی تھے کیونکہ وہاں نصرانیوں کا کوئی ایسا منظم گروہ موجود نہ تھا جو یہودیوں کی طرح اسلام دشمنی میں مبتلا ہوتا لیکن آیت میں انداز بیان کو عام رکھا گیا ہے ۔ یہاں آیات الٰہی دونوں گروہوں کے اقوال کی تردید کرتی ہے ۔ اور ایک دوسرے کے بارے میں یہو و ونصاریٰ دونوں کے اقوال نقل کرکے آخرت میں ان دونوں کے بارے میں مشرکین عرب کے خیالات نقل کردیئے جاتے ہیں وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى” ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا عیسائی نہ ہو۔ “ یہاں ان دونوں فرقوں کے دعوؤں کو یکجا کرکے بیان کیا گیا ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ مدعی تھا ۔ یہودی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو یہودی ہو اور نصرانی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو نصرانی ہو ۔ ان دونوں کے یہ لمبے چوڑے دعوے محض ادعائی تھے ۔ ان کی پشت پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دعوؤں کی دلیل پیش کرنے کا چیلنج کریں۔
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ” ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ “
یہاں اللہ تعالیٰ موقع کی مناسبت سے مکافات عمل کے بارے میں اسلامی نظریہ حیات کا ایک اہم اصول بیان کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معاملے میں کسی امت کسی گروہ یا کسی فرد کی کوئی رورعایت نہ کی جائے گی ۔ اللہ کے ہاں جس چیز کی قدر ہے وہ نیکی اور مکمل بندگی اور تسلیم ورضا ہے ۔ یہاں محض نام اور عنوان کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے ۔
بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاًنیک روش پر چلے ، اس کے لئے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا موقع نہیں ہے۔ “
اس سے قبل ایک جگہ یہودیوں کے اس دعوے پر کہ ” انہیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند دن “ کی تردید کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سزا کا یہ عام اصول بیان کیا تھا۔” ہاں جو بھی برائی کمائے گا اور اس کی برائیاں اسے گھیر لیں گی وہ لوگ جہنمی ہوں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ “ یعنی خطیئات کے مرتکب لوگوں کو سزا محض اس لئے ہوگی کہ انہوں نے خطیئات کا ارتکاب کیا ۔ اس کے علاوہ کوئی نقطہ نظر یا کوئی پہلو اس کا باعث نہ ہوگا کہ انہیں سزا دی جائے ۔ غرض نیکی اور بدی میں اللہ کے ہاں جزاوسزا کا یہی ایک اصول ہے ۔ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ جو اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے ” یعنی اپنی پوری ذات کو اللہ کے مختص کردے ۔ اپنے پورے شعور کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے اور جس طرح پہلا شخص خالصتاً برائی میں گرفتار ہوگیا تھا ۔۔ یہ ہمہ تن اللہ کے لئے ہوجائے ۔ “ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ” جو اپنی ذات کو پوری طرح اللہ کی اطاعت میں سونپ دے۔ “ اس فقرے میں اسلام کی اہم ترین خصوصیت اور واضح علامت کو بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ایک انسان پوری طرح اللہ کی طرف منہ کرلے ۔ یعنی ہمہ تن متوجہ ہوجائے اور مکمل انقیاد اور اطاعت اختیار کرلے یعنی معنوی طور پر اللہ کے آگے جھک جائے اور عملاً بھی اس کا مطیع فرمان ہوجائے اور چونکہ معنوی رضاوتسلیم کے لئے ظاہری دلیل عملاً اطاعت حکم ہوا کرتی ہے ، اس لئے کہا گیا اور عملاً نیک روش اختیار کرے ۔ اسلام کی اہم ترین خصوصیات اور نشانیوں میں سے ایک یہ امر ہے کہ انسان کا شعور اور روش اس کا عقیدہ اور عمل ، اس کا قلبی ایمان اور عملی روش کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور تب ایک بندہ مومن اس عطاء الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔
فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ “ ان کا اجر محفوظ اور ان کے رب کے پاس ہے ۔ امن و طمانیت کی ایک عظیم دنیا جس میں رنج والم کا شائبہ تک نہیں ، ان کے لئے منتظر ہے ۔ فرحت و سرور کا ایک عالم ہے جس میں حزن وملال کا کوئی لمحہ نہیں ۔ ان کے لئے تیار ہے ۔ جزا کا یہ اصول عامہ ہے اور تمام لوگ اس میں برابر ہیں ۔ اللہ کے ہاں کسی کی رو رعایت یا کسی کی کوئی شان محبوبیت نہیں ہے ۔