اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 89 وَلَمَّا جَآءَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ لا جو اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے یہ وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے کہ قرآن کریم ایک طرف تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف وہ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آیا ہے۔وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ج ان کا حال یہ تھا کہ وہ اس کی آمد سے پہلے اللہ کی آخری کتاب اور آخری نبی ﷺ کے حوالے اور واسطے سے اللہ تعالیٰ سے کافروں کے خلاف فتح و نصرت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع ‘ بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ وہاں اوس اور خزرج کے قبائل بھی آباد تھے جو یمن سے آئے تھے اور اصل عرب قبائل تھے۔ پھر آس پاس کے قبائل بھی تھے۔ وہ سب امیینّ میں سے تھے ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب تھی ‘ نہ کوئی شریعت اور نہ وہ کسی نبوت سے آگاہ تھے۔ ان کی جب آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں تو یہودی چونکہ سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے بزدل تھے لہٰذا ہمیشہ مار کھاتے تھے۔ اس پر وہ کہا کرتے تھے کہ ابھی تو تم ہمیں مار لیتے ہو ‘ دبا لیتے ہو ‘ نبی آخر الزمان ﷺ کے آنے کا وقت آچکا ہے جو نئی کتاب لے کر آئیں گے۔ جب وہ آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ ہو کر جب تم سے جنگ کریں گے تو تم ہمیں شکست نہیں دے سکو گے ‘ ہمیں فتح پر فتح حاصل ہوگی۔ وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اس نبی آخر الزمان کا ظہور جلدی ہو تاکہ اس کے واسطے سے اور اس کے صدقے ہمیں فتح مل سکے۔ خزرج اور اوس کے قبائل نے یہود کی یہ دعائیں اور ان کی زبان سے نبی آخر الزمان ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں سن رکھی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 11 نبوی کے حج کے موقع پر جب مدینہ سے جانے والے خزرج کے چھ افراد کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت پیش کی تو انہوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی ﷺ ہیں جن کا یہودی ذکر کرتے ہیں ‘ تو اس سے پہلے کہ یہود ان پر ایمان لائیں ‘ تم ایمان لے آؤ ! اس طرح وہ علم جو بالواسطہ طور پر ان تک پہنچا تھا ان کے لیے ایک عظیم سرمایہ اور ذریعۂ ‘ نجات بن گیا۔ مگر وہی یہودی جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے ‘ آپ ﷺ کی آمد پر اپنے تعصبّ اور تکبرّ کی وجہ سے آپ ﷺ کے سب سے بڑھ کر مخالف بن گئے۔فَلَمَّا جَآءَ ‘ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖز فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ
آیت 90 بِءْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ یعنی دنیا کا حقیر سا فائدہ ‘ یہاں کی حقیر سی منفعتیں ‘ یہاں کی مسندیں اور چودھراہٹیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں اور وہ اپنی فلاح وسعادت اور نجات کی خاطر ان حقیر سی چیزوں کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ج یہود اس امید میں تھے کہ آخری نبی بھی اسرائیلی ہی ہوگا ‘ اس لیے کہ چودہ سو برس تک نبوت ہمارے پاس رہی ہے ‘ یہ فترۃ کا زمانہ ہے ‘ جسے چھ سو برس گزر گئے ‘ اب آخری نبی آنے والے ہیں۔ ان کو یہ گمان تھا کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے ہوں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور یہ فضل بنی اسماعیل پر ہوگیا۔ اس ضدم ضدا کی وجہ سے یہود عناد اور سرکشی پر اتر آئے۔ اس بَغْیًا کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ دین میں جو اختلاف ہوتا ہے اس کا اصل سبب یہی ضدم ضدا والا رویہ ہوتا ہے ‘ جسے قرآن مجید میں بَغْیًا کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں کئی بار آیا ہے۔ ّ عہد حاضر میں علم نفسیات Psychology میں ایڈلر کے مکتبۂ فکر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا نقطۂ فظر یہ ہے کہ انسان کے جبلی افعال instincts اور محرکاتّ motives میں ایک نہایت طاقتور محرک غالب ہونے کی طلب Urge to dominate ہے۔ چناچہ کسی دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے ‘ وہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے ! بَغْیًا کے معنی بھی حد سے بڑھنے اور تجاوز کرنے کے ہیں۔ دوسروں پر غالب ہونے کی خواہش میں انسان اپنی حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ یہی معاملہ یہود کا تھا کہ انہوں نے دوسروں پر رعب گانٹھنے کے لیے ضدام ضدا کی روش اختیار کی ‘ محض اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک شخص محمد عربی ﷺ کو اپنے فضل سے نواز دیا۔ ّ َ فَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍط۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے۔وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ۔ مُھِیْنٌ اہانت سے بنا ہے۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ان کے لیے اہانت آمیز عذاب مقرر ہے۔ّ
آیت 91 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَ ہٗ ق۔ چنانچہ انہوں نے پہلے انجیل کا کفر کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کو نہیں مانا ‘ اور اب انہوں نے محمد ﷺ کا کفر کیا ہے اور قرآن کو نہیں مانا۔وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ ط قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآء اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ ؟ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ اگر تم ایسے ہی حق پرست ہو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان رکھنے والے ہو تو تم ان پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ؟ تم نے زکریا علیہ السلام کو کیوں قتل کیا ؟ یحییٰ علیہ السلام کو کیوں قتل کیا ؟ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی پلاننگ کیوں کی ؟ تمہارے تو ہاتھ نبیوں کے خون سے آلودہ ہیں اور تم دعوے دار ہو ایمان کے !
آیت 93 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ط خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا ط ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کرسنو۔قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَاق۔ یعنی ہم نے سن تو لیا ہے ‘ مگر مانیں گے نہیں ! قوم یہود کی یہ بھی ایک دیرینہ بیماری تھی کہ زبان کو ذرا سا مروڑ کر الفاظ کو اس طرح بدل دیتے تھے کہ بات کا مفہوم ہی یکسر بدل جائے۔ چناچہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کے بجائے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو منافقین تھے ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ ان کی جب سرزنش کی جاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا آپ کی اپنی سماعت میں کوئی خلل ہوگا۔وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ ط قُلْ بِءْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ! یہ عجیب ایمان ہے جو تمہیں ایسی بری حرکات کا حکم دیتا ہے۔ کیا ایمان کے ساتھ ایسی حرکتیں ممکن ہوتی ہیں ؟آگے پھر ایک بہت اہم آفاقی سچائی universal truth کا بیان ہو رہا ہے ‘ جس کو پڑھتے ہوئے خود ‘ دروں بینی introspection کی ضرورت ہے۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں ‘ لاڈلے ہیں ‘ اس کے بیٹوں کی مانند ہیں ‘ ہم اولیاء اللہ ہیں ‘ ہم اس کے پسندیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں ‘ لہٰذا آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے ہے۔ چناچہ ان کے سامنے ایک لٹمس ٹیسٹ litmus test رکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ میرے اور آپ کے لیے بھی ہے۔