اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 68 اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ میں تو وہی بات ہو بہو تم تک پہنچا رہا ہوں جو اللہ کی طرف سے آرہی ہے ‘ اس لیے کہ مجھے تمہاری خیر خواہی مطلوب ہے۔ میں تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
آیت 69 اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَ کُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ ط وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْم بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّزَادَکُمْ فِی الْْخَلْقِ بَصْطَۃً ج قوم نوح کی سطوت ختم ہوئی اور قوم تباہ و برباد ہوگئی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو عروج عطا فرمایا۔ یہ بڑے قد آور اور جسیم لوگ تھے۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی طور پر بڑا عروج بخشا تھا۔ شداد اسی قوم کا بادشاہ تھا جس نے بہشت اراضی بنائی تھی۔ اب اس کی جنت اور اس شہر کے کھنڈرات کا سراغ بھی مل چکا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی صحرا میں ایک علاقہ ہے جہاں کی ریت بہت باریک ہے اور اس کے اوپر کوئی چیز ٹک نہیں سکتی۔ اس وجہ سے وہاں آمد و رفت مشکل ہے ‘ کیونکہ اس ریت پر چلنے والی ہرچیز اس کے اندر دھنس جاتی ہے۔ اس علاقے میں سیٹلائٹ کے ذریعے زیر زمین شداد کے اس شہر کا سراغ ملا ہے ‘ جس کی فصیل پر 35 برج تھے۔
آیت 70 قَالُوْٓا اَجِءْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ج فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کسی قوم پر زوال آتا تھا تو ان کے عقائد بگڑ جاتے تھے۔ اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو چھوڑ کر وہ قوم بت پرستی اور شرک میں مبتلا ہوجاتی تھی۔ اولیاء اللہ کی عقیدت کی وجہ سے ان کے ناموں کے بت بنائے جاتے تھے یا پھر ان کی قبروں کی پرستش شروع کردی جاتی۔ یہ سامنے کے معبود ان کو اس اللہ کے مقابلے میں زیادہ اچھے لگتے تھے جو ان کی نظروں سے اوجھل تھا۔ ان حالات میں جب بھی کوئی رسول آکر ایسی مشرک قوم کو بت پرستی سے منع کرتا اور انہیں ایک اللہ کی بندگی کی تلقین کرتا ‘ تو اپنے ماحول کے مطابق ان کا پہلا جواب یہی ہوتا کہ اپنے سارے خداؤں کو ٹھکرا کر صرف ایک اللہ کو کیسے اپنا معبود بنا لیں۔
آیت 71 قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّغَضَبٌ ط تمہاری اس ہٹ دھرمی کے باعث اللہ کا عذاب اور اس کا قہر و غضب تم پر مسلط ہوچکا ہے۔اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُکُمْ یہ جو تم نے مختلف ناموں کے بت بنا رکھے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہو ‘ ان کی حقیقت کچھ نہیں ‘ محض چند فرضی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے بغیر کسی سند کے رکھے ہوئے ہیں۔مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍط فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ ۔ یعنی دیکھیں کب تک اللہ تمہیں مہلت دیتا ہے اور کب اللہ کی طرف سے تم پر عذاب استیصال آتا ہے۔
آیت 72 فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَمَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ سات دن اور آٹھ راتوں تک ایک تیز آندھی مسلسل ان پر چلتی رہی اور انہیں پٹخ پٹخ کر گراتی رہی ‘ اسی آندھی کی وجہ سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔ جب بھی کسی قوم پر عذاب استیصال کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو اللہ کے رسول علیہ السلام اور اہل ایمان کو وہاں سے ہجرت کا حکم آجاتا ہے۔ چناچہ آندھی کے اس عذاب سے پہلے حضرت ہود علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کے ساتھی وہاں سے ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔
آیت 73 وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا 7 حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھی جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی علاقے سے ہجرت کر کے شمال مغربی کونے میں جا آباد ہوئے۔ یہ حجر کا علاقہ کہلاتا ہے۔ یہاں ان کی نسل آگے بڑھی اور پھر غالباً ’ ثمود ‘ نامی کسی بڑی شخصیت کی وجہ سے اس قوم کا یہ نام مشہور ہوا۔ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط۔ حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اس سے پہلے حضرت نوح اور حضرت ہود علیہ السلام اپنی اپنی قوموں کو دے چکے تھے۔ یہاں بَیِّنَۃ سے مراد وہ اونٹنی ہے جو ان کے مطالبے پر معجزانہ طور پر چٹان سے نکلی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں کسی معجزے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ معجزے کا ذکر سب سے پہلے حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے۔ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْہَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰہِ وَلاَ تَمَسُّوْہَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ یہ اونٹنی تمہارے مطالبے پر تمہاری نگاہوں کے سامنے ایک چٹان سے برآمد ہوئی ہے۔ اب اسے کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرنا ‘ ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں آلے گا۔