سورة آل عمران (3): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورة آل عمران کے بارے میں معلومات

Surah Aal-i-Imraan
سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ
صفحہ 51 (آیات 10 سے 15 تک)

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَن تُغْنِىَ عَنْهُمْ أَمْوَٰلُهُمْ وَلَآ أَوْلَٰدُهُم مِّنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا ۖ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمْ وَقُودُ ٱلنَّارِ كَدَأْبِ ءَالِ فِرْعَوْنَ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا فَأَخَذَهُمُ ٱللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ وَٱللَّهُ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ قَدْ كَانَ لَكُمْ ءَايَةٌ فِى فِئَتَيْنِ ٱلْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَٰتِلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْىَ ٱلْعَيْنِ ۚ وَٱللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِۦ مَن يَشَآءُ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُو۟لِى ٱلْأَبْصَٰرِ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ ٱلشَّهَوَٰتِ مِنَ ٱلنِّسَآءِ وَٱلْبَنِينَ وَٱلْقَنَٰطِيرِ ٱلْمُقَنطَرَةِ مِنَ ٱلذَّهَبِ وَٱلْفِضَّةِ وَٱلْخَيْلِ ٱلْمُسَوَّمَةِ وَٱلْأَنْعَٰمِ وَٱلْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَٰعُ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلْمَـَٔابِ ۞ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِينَ ٱتَّقَوْا۟ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَٰجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَٰنٌ مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ بَصِيرٌۢ بِٱلْعِبَادِ
51

سورة آل عمران کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورة آل عمران کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا، نہ اولاد وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo lan tughniya AAanhum amwaluhum wala awladuhum mina Allahi shayan waolaika hum waqoodu alnnari

یہ آیات بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے کہی گئی ہیں ۔ ان میں یہ دہمکی دی گئی ہے کہ وہ اہل کفر کے انجام پر غور کرلیں ۔ پہلے جو ہوچکا ہے اور آئندہ جو ہونے والا ہے ۔ اس میں ایک لطیف اور عمیق اشارہ ہے اس جانب کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا اور بنی اسرائیل کو نجات دی لیکن یہ ہلاکت اس لئے نہ تھی کہ فرعون فرعون تھا بلکہ اس لئے کہ وہ کافر تھا۔ اور نجات بنی اسرائیل بھی اس لئے نہ تھی کہ وہ قوم بنی اسرائیل سے نسبی رشتہ رکھتے تھے ۔ بلکہ اس لئے تھی کہ وہ اہل ایمان تھے ۔ اس لئے اب اگر وہ کفر اور گمراہی کا رویہ اختیار کریں گے تو وہ نجات کے مستحق نہ ہوں گے ۔ اگر وہ گمراہ ہوگئے تو وہ اہل کفر کہلانے سے نہ بچ سکیں گے ۔ اسی طرح وہ دنیا وآخرت میں اہل کفر کے انجام بد سے لازماً دوچار ہوں گے جیسا کہ بوجہ کفر آل فرعون کا یہ انجام ہوا۔

اسی طرح انہیں بدر کے میدان میں اہل قریش کے مقتل کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ اس صورت حال سے وہ محض اس لئے دوچار ہوئے کہ وہ کفار تھے ۔ اگر وہ بھی کفر پر قائم رہے تو پھر سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ لازماً اسی انجام سے دوچار ہوں گے جن سے اہل قریش دوچار ہوئے۔ اس لئے کہ اس انجام کا اصل سب کفر تھا۔ اللہ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے ‘ نہ وہاں سفارش چلتی ہے ‘ صرف ایمان صحیح ہی وہاں شفیع ہوسکتا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلا أَوْلادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ

” جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ‘ انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ ان کا مال کچھ کام دے گا اور نہ اولاد ‘ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ “

دنیا میں مال اور اولاد بچاؤ کا سہارا ہوتے ہیں لیکن یہ دونوں چیزیں ‘ اس دن کام نہ دیں گی جس کے آنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس دن کے آنے کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور اللہ کے وعدے میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ۔ اللہ کا وعدہ کبھی ٹلتا نہیں ‘ اہل کفر وہاں جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ یہاں انداز تعبیر ایسا اختیار کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اہل جہنم سے انسانی خصوصیات سلب ہوجائیں گی اور وہ جہنم میں خس و خاشاک کی طرح سوختی کی اشیاء ہوں گے ۔ اور اس وقت نہ مال اور دولت ‘ نہ جاہ اور نہ سلطنت ان کے کچھ کام آئے گی۔

اردو ترجمہ

اُن کا انجام ویسا ہی ہوگا، جیسا فرعون کے ساتھیوں اور اُن سے پہلے کے نافرمانوں کا ہو چکا ہے کہ اُنہوں نے آیات الٰہی کو جھٹلایا، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا اور حق یہ ہے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Kadabi ali firAAawna waallatheena min qablihim kaththaboo biayatina faakhathahumu Allahu bithunoobihim waAllahu shadeedu alAAiqabi

كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ

” ان کا انجام ایسا ہی ہوگا جیسا کہ فرعون کے ساتھیوں کا اور اس کے پہلے کے نافرمانوں کا ہوچکا ہے ۔ کہ انہوں نے آیات الٰہی کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑلیا ‘ اور حق یہ ہے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ “

یہ ایک ایسی مثال ہے جو تاریخ میں بارہا دہرائی گئی ہے ۔ اور اس کے کئی قصے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیلات کے ساتھ بیان کئے ہیں ۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے بارے میں اللہ کی سنت ان قصوں میں پائی جاتی ہے ۔ جہاں اللہ چاہے ‘ اپنی اس سنت کو کام میں لاتا ہے ۔ اس لئے اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کو اس جہاں میں کوئی گارنٹی حاصل نہیں ‘ نہ وہ محفوظ ہیں ۔ اس لئے اب جو لوگ رسالت محمدیہ کا انکار کررہے ہیں اور قرآن کریم کی تکذیب کررہے ہیں جو آپ پر نازل ہوا ہے ۔ ان کے لئے اس انجام ست دوچار ہونا یقینی ہے ۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ‘ اس لئے یہاں رسول اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ان کفار اہل کتاب کو اس انجام بد سے خبردار کریں۔ اگر وہ فرعون اور تاریخ اسلامی کے دوسرے نافرمانوں کے انجام بد کو بھول چکے ہیں تو خدارا اہل مکہ کے اس انجام بد پر غور کریں جس کا مظاہرہ ابھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہوچکا ہے ۔ یہ سب کچھ تکذیب آیات ہی کا شاخسانہ تو ہے ۔

اردو ترجمہ

پس اے محمدؐ! جن لوگوں نے تمہاری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اُن سے کہہ دو کہ قریب ہے وہ وقت، جب تم مغلوب ہو جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤ گے اور جہنم بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul lillatheena kafaroo satughlaboona watuhsharoona ila jahannama wabisa almihadu

اردو ترجمہ

تمہارے لیے اُن دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا، جو (بدر میں) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جس کو چاہتا ہے، مدد دیتا ہے دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qad kana lakum ayatun fee fiatayni iltaqata fiatun tuqatilu fee sabeeli Allahi waokhra kafiratun yarawnahum mithlayhim raya alAAayni waAllahu yuayyidu binasrihi man yashao inna fee thalika laAAibratan liolee alabsari

اس آیت

يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ …………… کے دومفہوم ہوسکتے ہیں ‘ یرون کی ضمیر اگر کفار کی طرف ہے اور ہم سے مراد اہل ایمان ہیں تو مفہوم ہوگا کہ اہل کفر کو اپنی ظاہری کثرت کے باجود نظر یوں آرہا تھا کہ اہل اسلام ان سے دوگنا ہیں ۔ اور یوں یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تائید غیبی تھی کہ کفار کو اہل اسلام زیادہ اور وہ خود تھوڑے نظر آرہے تھے ۔ یوں ان کے قدم اکھڑ گئے اور ان کے دل بیٹھ گئے۔

اور اگر اس کے برعکس لیا جائے یعنی یرون سے مراد ہو کہ مسلمان ھم ان کو دیکھ رہے تھے ۔ تو مفہوم یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو وہ اپنے دوگنا نظر آرہے تھے ‘ وہ تین گنا تھے ۔ اس کے باوجود اہل اسلام ثابت قدم رہے ‘ اور فتح یاب ہوئے ۔ اصل بات یہ ہے کہ تائید ونصرت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس لئے دکھانا یہ مطلوب ہے کہ اہل کفر اپنے انجام پر غور کریں ۔ اور اہل اسلام دلوں کو مضبوط کرلیں اور یقین کرلیں کہ ان کے اعداء کی تقدیر میں شکست لکھی جاچکی ہے ۔ اس لئے وہ ان اعداء سے خوف نہ کھائیں ۔ جیسا کہ ہم نے اس سورت پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس وقت جو صورتحال تھی ‘ اس میں اہل کتاب کو اس قسم کی تنبیہ اور تخویف کی ضرورت تھی ۔

قرآن کریم مسلسل اپنی عظیم حقیقت پر کاربند ہے اور اس عظیم سچائی میں سے ایک بات یہ ہے کہ اس دنیا میں جو لوگ کفر کرتے ہیں ‘ آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اسلامی نظام زندگی سے انحراف کرتے ہیں ان کی شکست کا وعدہ اب بھی اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ‘ اہل ایمان کے ساتھ یہ وعدہ بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ فتح یاب ہوں گے اگرچہ وہ قلیل تعداد میں ہوں ‘ اور نصرت اور فتح صرف تائید ایزدی پر موقوف ہے اور یہ صرف اس کا اختیا رہے ‘ جسے چاہے وہ فتح ونصرت سے نوازے ۔ حقیقت اپنی جگہ اب بھی قائم ہے ۔ منسوخ نہیں ہوئی۔

اہل ایمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت پر اچھی طرح مطمئن ہوجائیں ۔ اور اس پر پوری طرح اعتماد کریں ۔ اور میدان جہاد میں اپنی تیاریاں مکمل طور پر کریں جس قدر ممکن ہو ‘ اور اس تیاری کے بعد پھر تائید خداوندی کا انتظار کریں ۔ وہ نہ جلدبازی کریں ‘ نہ مایوس ہوں ‘ اگرچہ انہیں طویل انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ اللہ حکیم ہے وہ اپنی تدابیر خود اپنے وقت پر کرتا ہے ‘ اور اس حکمت کے مطابق ہی اس کا وعدہ اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لأولِي الأبْصَارِ ……………” دیدہ بینا رکھنے والوں کے لئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے ۔ اس لئے ضروری ہے دیکھنے والی آنکھ ہو ‘ تدبیر کرنے والی بصیرت ہو ‘ تب ہی ایک انسان عبرت حاصل کرسکتا ہے اور تب ہی قلب میں فہم پیدا ہوتا ہے ۔ اگر بصیرت نہ ہو تو سامان عبرت شب وروز آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے مگر آنکھ نہیں دیکھ پاتی۔ “

اگلی آیت میں ‘ جماعت مسلم کی تربیت کے سلسلے میں ‘ اسے ان فطری میلانات اور فطری اسباب کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے ‘ جن کی وجہ سے انسان کی زندگی میں گمراہی اور انحراف کا آگاز ہوتا ہے ‘ اس لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان فطری میلانات کو ہر وقت ضبط کنٹرول میں رکھا جائے ۔ اور ہر وقت زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو پیش نظر رکھاجائے اور اصل مطمح نظر وہ اکرام وانعام ہوجائے جو کسی انسان کو یوم آخرت میں مل سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خواہشات دنیاوی میں گم ہوجانے ‘ مرغوبات نفس کے درپے ہوجانے اور دوسرے فطری میلانات کا بندہ بن جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ‘ کہ انسان کے دل بصیرت اور اس کی عقل سے عبرت آموزی ختم ہوجاتی ہے۔ اور انسان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ حسی لذتوں اور دنیاوی مرغوبات کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے۔ اعلیٰ اور بلند مقاصد نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے احساسات مادی ہوجاتے ہیں وہ دنیائے قریب کی ان لذتوں کے دائرے سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اور وہ ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کی لذت سے محروم ہوجاتا ہے جس کا تعلق انسان کے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کے منصب سے ہے ۔ اور جو اس دنیا کی اس مخلوق کے شایان شان ہیں جسے اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اس وسیع مملکت دنیا میں۔

یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ فطری میلانات اور دنیاوی مرغوبات چونکہ اللہ کی جانب سے ‘ انسان کے تکوینی فرائض ہیں اور یہ رجحانات ومیلانات ‘ اس دنیا میں حیات انسانی کی نشوونما اور ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ ایک قسم کا فطری فریضہ ہیں ‘ اس لئے اسلام نے ان فطری میلانات کو ختم کرنے یا ان کی بیخ کنی کا کوئی اشارہ نہیں دیتا ۔ ہاں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ان میلانات کو ضابطے کا پابند بنایاجائے ۔ ان کو منظم کیا جائے ‘ ان کی تیزی کو کم کیا جائے ان کو اس طرح کنٹرول کیا جائے کہ ان پر انسان کو پورا پورا ضبط حاصل ہو ‘ انسان ان کا مالک اور متصرف ہو ‘ اور انسان ان سے آگے مقاصد عالیہ پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہو اور اپنے آپ کو ان کی غلامی سے بلند سمجھتا ہو۔

اس لئے قرآن کریم کی آنیونی آیات ان مرغوبات اور ان میلانات کے بارے میں بحث کرتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان اخروی لذائذ ‘ مرغوبات جن کا تعلق کام ودہن سے ہے اور ان کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق عقل وخرد سے ہوتا ۔ اور یہ اخروی لذات ان لوگوں کا نصیبہ ہوگا جنہوں نے اس جہاں میں اپنے نفوس کے اوپر کنٹرول کیا ۔ اور وہ اس جہاں میں عیش و عشرت اور لذات میں غرق نہ ہوئے اور انہوں نے یہاں اپنے آپ کو مقام انسانیت پر بلند رکھا۔

اس ایک ہی آیت میں قرآن کریم نے دوران کلام ‘ اس دنیا کی تمام اہم مرغوبات کو ایک ساتھ جمع کردیا ۔ مثلاً عورتیں ‘ اولاد ‘ مال دولت ‘ گھوڑے اور سواری ‘ سرسبز و شاداب اراضی اور اس میں قسم قسم کے مویشی ‘ اس دنیا میں جس قدر مرغوبات ممکن ہیں وہ سب اس آیت میں جمع کردی گئی ہیں ۔ یا تو بذات خود یہ اشیاء مرغوبات میں شامل ہیں ‘ یا وہ انسان کے لئے فراہمی مرغوبات کا ذریعہ ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں ان مرغوبات اور لذائذ کا ذکر ہے ‘ جو اللہ نے اہل ایمان کے لئے ‘ اس جہاں میں تیار کی ہیں ۔ ایسے باغات اور لذائذ کا ذکر ہے ‘ جو اللہ نے اہل ایمان کے لئے ‘ اس جہاں میں تیار کی ہیں ۔ ایسے باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ‘ پاکیزہ بیویاں ‘ اور ان سب انعامات سے بڑا انعام ذات باری کی رضامندی اور خوشنودی ۔ اور یہ انعام صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کی نظریں ان دنیاوی لذائذ سے اونچی ہیں ‘ جن کا تعلق اللہ سے قائم ہے ‘ ذرا ان آیات پر غور فرمائیں۔

اردو ترجمہ

لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Zuyyina lilnnasi hubbu alshshahawati mina alnnisai waalbaneena waalqanateeri almuqantarati mina alththahabi waalfiddati waalkhayli almusawwamati waalanAAami waalharthi thalika mataAAu alhayati alddunya waAllahu AAindahu husnu almaabi

زُيِّنَ لِلنَّاسِ……………” میں فعل مجہول کا صیغہ استعمال کرکے اس طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ ان چیزوں کی طرف لوگوں کا میلان بتقضائے فطرت ہے ۔ ان چیزوں کو محبوب بنادیا گیا ہے اور ان کی تزئین کرکے ان کی محبوبیت میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ گویا یہ حقیقت واقعہ کے ایک پہلو کی تصدیق ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی شخصیت میں ان چیزوں کی طرف میلان اور رغبت رکھی گئی ہے ۔ یہ اس کے اصل وجود اور اس کی ذات کا حصہ ہے ۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان خواہ مخواہ اس حقیقت کا انکار کرے ۔ نہ خود انسان اپنی ذات میں ان میلانات اور رجحانات کو قابل اعتراض سمجھے ۔ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ترقی اور نشوونما کے لئے ان میلانات کا موجود ہونا ازبس ضروری ہے جیسا کہ اس موضوع پر اس سے پہلے ہم مفصل بحث کر آئے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت واقعیہ ہے کہ انسان کی فطرت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ‘ جوان میلانات اور فطری رجحانات میں توازن پیدا کرتا ہے اور وہ ایک قسم کا چوکیدار ‘ جو انسان کو ان میلانات میں مستغرق ہونے سے بچاتا ہے ۔ اور یہ پہلو انسان کے عالم بالا کے ساتھ روحانی تعلق کو قائم رکھتا ہے ۔ چناچہ اس کی زندگی میں روحانی معنویت اور روحانی ہدایات پائی جاتی ہے ۔ اور یہ پہلو انسان کی روحانی زندگی کا پہلو ہے جو اس کے اندر بلندی کی استعداد پیدا کرتا ہے ۔ اس کے اندر ضبط نفس کی قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں انسان ان ‘ دنیاوی مرغوبات کے استعمال میں ایک حد اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔ ایسی حدود کے اندر جس میں نفس کی تعمیر ہو ۔ زندگی کا نشوونما ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جدوجہد بھی جاری رہے کہ انسانی زندگی کو حیوانیت کے نچلے مقام سے بلند کرکے عالم بالا کے روحانی افق تک پہنچایا جائے ۔ انسان کے دل کا تعلق عالم بالا سے قائم ہو اور اس کا ہدف دار آخرت اور اللہ کی رضامندی ہو ۔ نفس انسانی کی یہ دوسری جبلت ‘ اس کی پہلی فطری جبلت کو مہذب بناتی ہے ۔ اور اس کو تمام حیوانی ‘ آمیزشوں سے پاک کرتی ہے ۔ اور اسے ایسے حدود وقیود کے اندر بند کردیتی ہے جس کے نتیجے میں فطری میلانات سرکش نہیں ہوتے اور انسان صرف دنیاوی لذات کا گرویدہ نہیں ہوجاتا۔ اس طرح کہ انسانی ‘ روحانی قدریں دب جائیں ۔ تقویٰ اللہ خوفی اور زندگی کی اونچی اقدار کی راہیں بالکل مسدود ہوجائیں۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ …………… ” لوگوں کے لئے مرغوبات نفس کو مزین بنادیا گیا ہے۔ “ بس یہ مرغوبات مستحب ہیں اور لذیذ ہیں ……………یہ مکروہ اور غلیظ نہیں ہیں ۔ انداز تعبیر ایسا ہے کہ جس سے ان مرغوبات کی غلاظت اور کراہت کا اظہار نہیں ہوتا ۔ آیت صرف ان چیزوں کے مزاج اور ان کی حقیقت کو سمجھانا چاہتی ہے ۔ اور ان کے اثرات کا اظہار مقصود ہے ۔ نیز یہاں مطلوب یہ ہے کہ ان اشیاء کی قدرومنزلت اور ان کے مقام کا تعین کردیا جائے ‘ تاکہ وہ اس مقام سے آگے نہ بڑھ سکیں ۔ نہ وہ ان اقدار پر دست درازی کرسکیں جو ان کے مقابلے میں اعلیٰ وارفع ہیں ۔ انسان صرف ان دنیاوی شہوات میں غرق ہوکر نہ رہ جائے بلکہ اس کی نظریں دار آخرت پر مسلسل لگی ہوں ‘ اگرچہ وہ بقدر ضرورت ان لذات سے بھی لطف اندوز ہوتا رہے ۔

یہاں آکر معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام فطرت انسانی کو ایک حقیقت واقعیہ کے طور پر لیتا ہے اور فطری میلانات کا مناسب لحاظ رکھتا ہے ۔ اور وہ ان میلانات کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے۔ اور ان کو رفعت دیتا ہے ۔ وہ کسی صورت میں بھی ان میلانات کی بیخ کنی نہیں کرتا ‘ جو لوگ آج کل علم النفس کے مضمون میں میلانات کی بیخ کنی کے نقصانات بیان کرتے ہیں یا وہ نفسیاتی الجھنوں پر بحث کرتے ہیں جو جذبات کی بیخ کنی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں ۔ وہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ نفسیاتی الجھن جذبات کی بیخ کنی سے پیدا ہوتی ہے ‘ وہ جذبات کے ضبط اور تہذیب سے پیدا نہیں ہوتی اور بیخ کنی کا مفہوم یہ ہے تقاضائے فطرت کو گندگی سمجھاجائے اور اس کے ارتکاب کو برا سمجھاجائے ۔ ایسا کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایک فرد مختلف سمتوں سے مختلف قسم کے دومیلانات کے دباؤ میں آجاتا ہے ۔ ایک طرف اس کے شعور اور میلان اس کے نظریہ حیات ‘ اس کے مذہب یا اس کے رسم و رواج کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً یوں کہ اس کا نظریہ یہ ہو کہ فطری میلانات تمام کے تمام گندے ہیں ۔ ان کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے ‘ اور درحقیقت وہ شیطانی میلانات ہیں ۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کوئی نظریاتی یا کوئی مذہبی شعور کبھی بھی ان فطری رجحانات کے دبانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس لئے یہ میلانات فطری ہوتے ہیں اور فطرت کے اندر اس کی گہری جڑیں ہوتی ہیں ۔ نیز ان کا تعلق بسا اوقات وظیفہ بقائے انسانیت سے ہوتا ہے ۔ ان کے بغیر بقائے انسانیت کا فرض اداہی نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی فطرت میں ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ میلانات یونہی عبث طور پر نہیں ودیعت کئے ۔ اس کشمکش کے نتیجے میں نفسیاتی الجھن پیدا ہوتی ہے ۔ اگر ہم ان نفسیاتی مباحث کو تسلیم بھی کرلیں تب بھی یہ بات نظر آئے گی کہ اسلام نے بہت پہلے فطرت انسانی کے ان دونوں رجحانات ومیلانات کے اندر توازن پیدا کیا ہے۔ اس نے شہوات اور لذت اور اخلاقی بلندی اور پاکیزگی کے درمیان ایک حسین توازن پیدا کرکے دونوں کو اپنے اپنے مقام پر حدود کے اعتدال کے اندر کام کرنے کی اجازت دی ہے ۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِ

” لوگوں کے لئے مرغوبات نفس ‘ عورتیں ‘ اولاد ‘ سونے اور چاندی کے ڈھیر ‘ چیدہ گھوڑے ‘ مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوشنما بنادی گئی ہیں۔ “

عورتیں اور بچے انسانی خواہشات میں بہت ہی قوی اور شدید خواہشات ہیں ۔ اور ان کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کے ڈھیروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کو وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَة…………سے بیان کیا گیا ہے ۔ اور اگر صرف مال و دولت کی مذمت مطلوب ہوتی تومِنَ الاَموَالِ……………کا لفظ ہوتا ہے مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ …………… ہوتا لیکن قناطیر مقنطرۃ یعنی مال و دولت اور سونے چاندی کے ڈھیر کے الفاظ ایک خاص شیڈو دیتے ہیں۔ اور یہ سونے اور چاندی کے زیادہ سے زیادہ ذخار کا مطلب یہ ہے کہ ایک کہ دولت کا جمع کرنا بذات خود ایک مرغوب چیز ہے ۔ رہے اس کے فوائد تو وہ سب کو معلوم ہیں یعنی یہ ڈھیر ایک انسان کے لئے ہر قسم کے شہوات کی فراہمی کا سبب بنتے ہیں ۔ عورتوں ‘ اولاد اور ڈھیر سے سونے چاندی کے ساتھ ساتھ یہاں وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ……………کیا ذکر کیا گیا یعنی چیدہ گھوڑے ۔ گھوڑے ‘ جس طرح آج کے اس مادی اور صنعتی دور میں بھی محبوب سواری تصور ہوتے ہیں ۔ اس دور میں نہایت ہی محبوب اور مرغوب ہوتے تھے ۔ اور یہ اس لئے کہ ان میں حسن وجال بھی ہوتا ہے۔ وہ ہر شوکت اور سریع الحرکت ہوتے ہیں ۔ ان میں ذہانت اور اپنے مالک کے ساتھ بےحد محبت بھی ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے عملاً گھوڑے سواری نہیں کی ہوتی انہیں بھی اسے دیکھ کر خوب مزہ آتا ہے ۔ جب تک ان میں اس قدر زندگی موجود ہو کہ وہ ایک مضبوط اور جوان گھوڑے کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوں۔

ان کے بعد ان مرغوبات کے ساتھ ساتھ دوسرے مویشیوں اور زرعی اراضی کا ذکر کیا ‘ مویشی اور زرعی اراضی کے درمیان چولی دامن کا تعلق ہوتا ہے ۔ اس لئے ان کا ایک ساتھ ذکر ہوا ۔ ذہن میں بھی وہ ساتھ ہوتے ہیں اور حقیقت واقعہ میں بھی ۔ مویشی اور کھیت اور تروتازہ کھیت ‘ جہاں نشوونما کا کام جاری رہتا ہے ۔ انسان کے پسندیدہ مرغوبات ہیں ۔ اس لئے کہ ان کھیتوں میں سے زندگی پھوٹ کر نکلتی ہے۔ اور یہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے ۔ بہت ہی پسندیدہ اور جب اس منظر کے ساتھ یہ شعور بھی وابستہ ہوجاتے کہ اس کھیت اور اس میں چلتی جوڑی کا مالک میں بھی ہوں تو واقعی یہ ایک فطرتاً پسندیدہ منظر ہوتا ہے۔

یہاں جن مرغوبات کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ مرغوبات نفس کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے ۔ ان میں سے بعض ایسی مرغوبات ہیں جو اس سوسائٹی میں اعلیٰ ترین مرغوبات تھیں جن سے قرآن کریم اس دور میں خطاب کررہا تھا اور بعض مرغوبات ایسی ہیں جو ہر زمانے میں نفس انسانی کے لئے مرغوب ہیں ۔ اسلام ان مرغوبات کا ذکر کرتا ہے ‘ ہر ایک کی قدر و قیمت متعین کرتا ہے ۔ تاکہ یہ مرغوبات اپنی جگہ قائم رہیں اور زندگی کی دوسری قدروں پر دست درازی نہ کریں۔

ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ” یہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں ۔ “ یہ تمام مرغوبات جو پیش کی گئیں یا ان کے علاوہ جو دوسری فطرتاً پسندیدہ چیزیں ہیں یہ دنیا کی چند روزہ حیات کے لئے ساز و سامان ہیں جو اعلیٰ وارفع اور دائمی زندگی کا سامان نہیں ہیں نہ یہ ان آفاق عالیہ تک انسان کو بلند کرتے ہیں۔ یہ تو قریب ہی زمین کے اوپر زندہ رہنے کے اسباب ہیں ۔ لیکن جو شخص اس سے بہتر مرغوبات چاہتا ہے ان سب زیادہ قیمتی ‘ زیادہ بلند اور پاکیزہ مقاصد چاہتا ہے اور اس لئے چاہتا ہے کہ وہ ان مرغوبات ارضی اور شہوات نفسی میں مستغرق نہ ہوجائے اور بلندیوں تک اونچا ہونے کی بجائے زمین پر ہی پڑانہ رہے تو جو شخص فی الواقعہ اس دنیائے ادنیٰ سے کہیں بلند آشیانے کی تلاش میں ہے تو قرآن کریم اس مقام بلند تک بھی اس کی راہنمائی یوں کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

کہو: میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پا س باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul aonabbiokum bikhayrin min thalikum lillatheena ittaqaw AAinda rabbihim jannatun tajree min tahtiha alanharu khalideena feeha waazwajun mutahharatun waridwanun mina Allahi waAllahu baseerun bialAAibadi

یہ ہے آخرت کا سازوسامان ‘ جس کا تذکرہ قرآن مجید کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اہل تقویٰ مؤمنین کو اس بارے میں خوشخبری دے دیں ۔ نعیم اخروی بھی عموماً انسانی خواہش ہی سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس کے اور اس دنیاوی انعام واکرام کے درمیان ایک بہت ہی بڑا فرق بھی ہے۔ یہ ایک ایسا سازوسامان ہے جس تک صرف ان لوگوں کی رسائی ہوگی ‘ جو اس دنیا میں اہل تقویٰ تھے ‘ جس کے دل خوف اللہ سے بھرے تھے ۔ ان کے دل یاد الٰہی سے معمور تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا خوفی کا شعور بیک وقت روحانی دنیا اور حسی دنیا کی اصلاح کرتا ہے ۔ وہ نفس انسانی کو شہوات میں مستغرق ہونے سے بچاتا ہے ۔ اس کی حفاظت کرتا ہے کہ وہ ان مرغوبات میں جانوروں کی طرح گم نہ ہوجائے ۔ جن لوگوں کے دلوں میں خوف خدا ہوتا ہے وہ عالم آخرت کے ان حسی مرغوبات کو بھی غلیظ حسی لذتیت کے مقام سے ذرابلند دیکھتے ہیں ۔ اسے جانوروں کی طرح شہوت رانی سے ذرا اونچا مقام دیتے ہیں ۔ وہ اس زمین پر رہتے ہوئے اپنے دلوں میں اس مقام رفیع کی تمنا رکھتے ہیں ‘ اس سے قبل کہ وہ اس جہاں فانی سے کوچ کریں اور رخصت ہوں۔

عالم آخرت کے اس پاک وصاف اور کامل ساز و سامان میں ‘ اس دنیائے ونی کی ترک کردہ شہوات کا بہترین بدلہ ہے ۔ بلکہ وہ انعام ان شہوات سے بہت زیادہ ہے ۔ اس دنیا میں اگر وہ ان کھیتوں کے مالک تھے ‘ جو سرسبز و شاداب تھے اور اچھی پیداوار دیتے تھے تو آخرت میں انہیں ایسے باغات دئیے جائیں گے جو مکمل ہوں گے ‘ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔ اور اس شعور اور یقین کے ساتھ ہوں گے کہ وہ ان باغوں میں ہمیشہ کے لئے ہوں گے اور وہ باغ بھی دائمی طور پر سر سبز ہوں گے جو موسمی نہ ہوں گے ۔ اس دنیا کے موسمی کھیت کی طرح نہ ہوں گے ۔ اگر دنیا میں عورتیں اور بچے ہیں تو وہاں بہت ہی پاکیزہ بیویاں ہیں ۔ اور ان کی پاکیزگی گویا دنیاوی بیویوں کے مقابلے میں ایک امتیاز ہے اور بہتری ہے ۔ رہے چیدہ گھوڑے ‘ مویشی کھیت اور سونے چاندی کے ڈھیر ‘ تو اس دنیا میں یہ وسائل عیش تھے۔ فراہمی مرغوبات کا سبب تھے ۔ قیامت میں ان کی ضرورت ہی نہ ہوگی ۔ اس لئے وہاں وسائل رغبت کی فراوانی ہوگی ۔ اور وہ اپنی بڑی تعداد میں حاصل ہوں گے ‘ پس وسائل کی کیا ضرورت جب مراد حاصل ہو۔

اور وہاں پر سازوسامان سے بھی ایک عظیم نعمت ہوگی ۔ یعنی رب ذوالجلال کی رضامندی ۔ یہ رضامندی اس قدر عظیم نعمت ہے جو اس پوری دنیا کی شہوات اور پوری آخرت کی مرغوبات پر بھی بھاری ہے ۔ اور پھر ذرالفظ رضوان پر غور کریں ‘ بذات خود لفظ رضوان کس قدرخوش کن ہے ۔ تروتازہ ہے ۔ انس و محبت کی خوشبو لئے ہوئے ہے۔

وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ …………… ” اور اللہ اپنے بندوں پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ “…………وہ خوب جانتا ہے کہ ان کی فطرت کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ اس میں کیا کیا میلانات ہیں ‘ اس فطرت کو کن کن ہدایات کی ضرورت ہے ۔ وہ بھی اس کے علم میں ہیں ‘ وہ فطرت انسانی کے امور کے فیصلے کی اچھی بصیرت رکھتا ہے ‘ اس جہاں میں بھی اور آخرت میں بھی ‘ اس لئے کہ وہ صانع فطرت ہے۔

51