اس صفحہ میں سورہ Fussilat کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ فصلت کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیات گزشتہ میں قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اس میں اللہ کی جانب سے سب کے ساتھ انصاف کرنے کی طرف بھی اشارہ تھا کہ کوئی ظلم نہ ہوگا۔ اس لیے یہاں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا علم صرف اللہ وحدہ کو ہے۔ اس ضمن میں اللہ کے علم کی تصویر کشی بھی کردی جاتی ہے کہ وہ ہر معاملے میں کتنی گہرائیاں اور تفصیلات رکھتا ہے۔ بعض مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد قیامت کا ایک منظر بھی پیش کیا جاتا ہے جس میں مشرکوں سے سوال و جواب ہوتے ہیں :
قیام قیامت ایک ایسا غیب ہے جو مجہول اور مستقبل کے ضمیر میں گہرا پوشیدہ ہے۔ اسی طرح شگوفوں میں سے جو پھل مستقبل میں برآمد ہوتے ہیں ان کو بھی صرف اللہ جانتا ہے۔ اسی طرح رحم میں حمل بھی غیب ہے ، جو چھپا ہوا ہے۔ یہ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ انسانی سوچ ان پھلوں کے پیچھے دوڑ رہی ہے جو پھولوں اور کلیوں سے نکلتے ہیں ، ان بچوں کے پیچھے جو ماؤں کے رحم میں ہیں ، ہماری سوچ اس وسیع زمین کے نشیب و فراز میں دوڑ رہی ہے اور لاتعداد پھولوں اور شگوفوں کے بارے میں سوچتی ہے ۔ پھر ہر مادہ کے رحم میں موجود بچے جن کی تعداد متعین کرنا انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے ، تمام انسانوں ، حیوانوں کی عادیاں ، چرندوں پرندوں اور حشرات کی مادیاں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا را ہوار خیال تھک کر گر گر پڑتا ہے۔ اللہ کے علم کے حدود کا تصور بھی ممکن نہیں کہ وہ لامحدود ہے۔
انسانوں میں سے گمراہوں کا ایک چھوٹا سا ریوڑ ، ایک دن اس علم کا سامنا کرے گا اور اس علم کے دائرے سے تو کوئی چیز باہر نہ ہوگی۔
ویوم ینادیھم این شرکاءی (41 : 47) “ پھر جس روز وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے شریک ؟ ” اس وقت بھی کوئی جھگڑا ، مجادلہ اور مغالطہ کام نہ دے گا ، نہ زبان کی تحریف و تاویل چل سکے گی تو وہ پھر کیا کہہ سکیں گے اس کے سوا :
قالوا اذنک ما منا من شھید (41 : 47) “ یہ کہیں گے ہم عرج کرچکے ہیں ، آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے ”۔ اے اللہ ہم نے تو تجھے اطلاع کردی ہے کہ آج تو ہم میں سے کوئی بھی اس بات کا گواہ نہیں ہے۔
وضل عنھم ما ۔۔۔۔۔ من محیص (41 : 48) “ اس وقت وہ سارے معبودان سے گم ہوجائیں گے جنہیں یہ اس سے پہلے پکارتے تھے اور یہ لوگ سمجھ لیں گے کہ ان کے لئے اب کوئی جائے پناہ نہیں ہے ”۔
کیونکہ اب ان کو اپنے سابقہ دعویٰ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوگا کہ اس کی تصدیق کرسکیں۔ ان کے نفوس میں یہ بات گہرے طور پر بیٹھ گئی ہوگی کہ اب تو کوئی جائے فرار نہیں ہے۔ یہ ہوگی ان کی کربناک اور مدہوش کردینے والی حالت اس دن۔ جب ایسی حالت آتی ہے تو انسان اپنا تمام ماضی بھول جاتا ہے ، پھر اسے وہی حالات یاد ہوتے ہیں جو درپیش ہوتے ہیں۔
یہ کس قدر خوفناک دن ہے لیکن انسان اس کے بارے میں بالکل محتاط نہیں ہے۔ انسان ہر قسم کی بھلائی کے لئے بہت ہی حریص ہے۔ لیکن قیامت کی بھلائی کی وہ ذرا بھی فکر نہیں کرتا۔ انسان معمولی مصیبت پر جزع فزع کرنے لگتا ہے۔ لیکن قیامت کے ہولناک جزع فزع کا اسے خیال نہیں ہے۔ یہاں انسان کے نفس کی اندرونی تصویر کھینچی جاتی ہے۔ تمام لباس اور پردے اتار دئیے جاتے ہیں اور ہر قسم کی ملمع کاری کو ہٹا کر نقش انسانی کا اصل رنگ دکھایا جاتا ہے۔
نفس انسانی کی یہ نہایت ہی سچی تصویر ہے۔ نہایت ہی باریک خدو خال کو بھی اس میں نمایاں کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کی ہدایات پر ایمان نہیں رکھتے ، جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، وہ تو بالکل سیدھی راہ پر گامزن ہوتے ہیں ، ان کا ایک ہی رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔ لیکن گمراہ لوگوں کی نفسیات کیا ہیں ، یکدم بدلنے والے ، ضعیف الارادہ ، دکھاوے کے شیدائی ، مال کے لالچی ، ناشکرے ، خوشحالی میں مغرور اور بدحالی میں آہ وفغان کرنے والے ، غرض یہ نہایت ہی تفصیل تصویر ہے ان لوگوں کی اور عجیب تصویر ہے۔
انسان بھلائی کی دعا مانگتے نہی تھکتا۔ وہ بڑے اصرار اور گڑگڑا کر دعائے خیر کرتا ہے۔ اور دعا کرتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن شر اگر محض اس کو چھو کر بھی گزر جائے تو وہ تمام امیدیں کھو دیتا ہے ، مکمل طور پر مایوس ہوجاتا ہے۔ یہ خیال کرتا ہے کہ اس شر سے تو اب نکلنے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ یوں وہ سمجھ لیتا ہے کہ سب اسباب و وسائل ختم ہوگئے۔ اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے ، مغموم و متفکر ہوجاتا ہے۔ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں سے مایوس ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ اس کا اپنے رب پر بھروسہ نہیں ہوتا اور رب سے اس کا تعلق کمزور ہوتا ہے۔
لیکن یہی انسان ، جب اللہ اس پر اپنی رحمتیں اور مہربانیاں کرتا ہے ، یہ مصیبت جاتی رہتی ہے ، تو اللہ کی نعمتیں اسے ۔۔۔ اور متکبر کردیتی ہیں۔ یہ شکر نہیں بجا لاتا۔ اب خوشحال اسے آسمانوں پر چڑھا دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے یہ تو میرا فرض ہے۔ میں اپنی صلاحیت پر اس کا مستحق ہوا ہوں اور یہ حق داعی ہے۔ یہ شخص آخرت کو بھول جاتا ہے اور اسے بعید از امکان سمجھتا ہے۔ کہتا ہے۔
وما اظن الساعۃ قائمۃ (41 : 50) “ میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی ”۔ اب یہ اپنے آپ میں مست ہے۔ اللہ پر احسان جتلاتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں بھی میرا یہی مقام ہوگا حالانکہ اس کا کوئی مقام نہ ہوگا۔ یہ تو آخرت کا منکر اور کافر ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اگر اللہ کے ہاں چلا گیا تو وہاں بھی باعزت لوگوں میں شمار ہوگا۔
ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی (41 : 50) “ لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا ”۔ یہ ہے بےجا غرور ، اب نہایت ہی برمحل تنبیہہ آتی ہے۔
فلننبئن الذین ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (41 : 50) “ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازماً ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ”۔ یہ ہے انسان کہ جب اللہ اسے خوشحال بناتا ہے۔ تو یہ سرکشی اختیار کرتا ہے۔ منہ موڑتا ہے اور غرور کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو پھر گرجاتا ہے۔ اپنے آپ کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے۔ حقیر و لاچار ہوتا ہے۔ اور گڑ گڑانے اور بلبلانے لگتا ہے ، لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔
ذرا دیکھئے تو سہی ، قرآن کریم نے انسانی نفسیات کے چھوٹے بڑے عمل اور رد عمل کو کس باریکی سے ریکارڈ کیا ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے جو خالق انسان ہے اور خود خالق بتا رہا ہے کہ یہ ہے حضرت انسان۔ کیونکہ خالق اپنی مخلوق کے کل پرزوں کو اچھی طرح جانتا ہے ، اللہ جانتا ہے کہ یہ ان نشیب و فراز میں پھرتا رہتا ہے ، الا یہ کہ اسے صراط مستقیم کی طرف پکڑ کرلے جایا جائے۔ تب وہ راہ راست پر چلتا ہے۔
نفس انسانی کی اس نہایت ہی ننگی تصویر کے بعد اللہ ان سے پوچھتا ہے کہ تم اس وقت کیا کرو گے کہ جس کتاب کی تم تکذیب کرتے ہو۔ اگر یہ اللہ کی جانب ہی سے ہو اور تم اس عذاب کے مستحق ہوجاؤ جس سے تمہیں ڈرایا جارہا ہے اور اس وقت تم تکذیب اور دشمنی کے عواقب و نتائج کا اپنے آپ کو مستحق کرلو۔
قرآن ان کے سامنے ایک احتمال پیش کرتا ہے کہ اس قدر احتیاط تو کرو ، لیکن انہوں نے کوئی احتیاط بھی نہ کی۔
اس کے بعد اب قرآن کریم ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے کہ سوچیں۔ اور پھر اس وسیع کائنات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ دیکھو اللہ نے اس میں کچھ نشانات اور تقدیرات طے کر رکھی ہیں ، جن کا ظہور مستقبل میں ہوگا۔
یہ آخر ضرب ہے اور آخری تبصرہ ہے۔ ۔۔۔ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ وعدہ فرماتا ہے کہ عنقریب تمہیں اس کائنات کے کچھ رازوں سے آگاہ کیا جائے گا ، اسی طرح خود تمہارے نفس اور ذات کے اندر جو راز ہیں ان کے بارے میں تم پر انکشافات ہوں گے یعنی انفس و آفاق کے نشانات تمہیں دکھائے جائیں گے۔ اور یہ راز ہائے ۔۔۔ جب کھلیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ کتاب ، کتاب برحق ہے۔ یہ کتاب اور یہ منہاج اور نظام زندگی ، اور یہ قول جو تمہیں بتایا جارہا ہے ، یہ سب سچے ہیں۔
فی الواقع اللہ کا وعدہ سچا تھا۔ گزشتہ چودہ سو سال سے اللہ نے انفس و آفاق کے کئی نشانات انسانوں پر ظاہر فرمائے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ انسان کی ذات کے بارے میں بھی عجیب و غریب انکشافات ہوئے ہیں۔ اور کائنات کے بارے میں بھی۔
پھر انسان بھی لگا ہوا ہے ، اس نے نزول قرآن کے وقت سے آج تک بہت سارے انکشافات کئے ہیں۔ اس کائنات کی وسعتیں بھی دور تک انسان نے دیکھ لیں اور اس کے لئے کھل گئیں اور نفس انسانی کے وسائل بھی اس پر واضح ہوگئے اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔
انسان نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے ، اور دیکھ لیا ہے ، اگر انسان یہ بات معلوم کرے کہ کس طرح اس نے ان چیزوں کا ادراک کیا اور اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ اس کے لئے بہتر ہوگا۔
مثلاً انسان نے معلوم کرلیا کہ وہ جس زمین کو کائنات کو مرکز سمجھتا تھا۔ یہ تو ایک حقیر سا ذرہ ہے جو سورج کے تابع ہے۔ اور انہوں نے معلوم کرلیا کہ یہ سورج اس کائنات کا ایک چھوٹا سا کرہ ہے۔ اور اس جیسے کئی سو ملین سورج ہیں۔ انہوں نے شمس و قمر اور ارح و سما کی حقیقت معلوم کرلی اور انہوں نے اپنے وجود کی اور نفس کی حقیقت بھی معلوم کرلی ہے۔
پھر انسان نے اس کائنات کے مادے میں سے بھی اکثر چیزوں کو معلوم کرلیا ہے کہ اس مادے کے اندر کیا عناصر ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہو کہ کوئی مادہ ہے۔ پھر انسان نے یہ دیکھ لیا کہ اس کائنات کا اصل مادہ ذرہ ہے۔ اس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ یہ ذرہ شعاع کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ چناچہ اس نے یہ دیکھ لیا کہ دراصل تو یہ پوری کائنات روشنی ہے۔ مختلف انداز کی روشنی جس سے مختلف انداز کی روشنی جس سے مختلف شکل و صورت کی چیزیں بنتی ہیں۔
افسانوں نے اس چھوٹے سے کرے اور زمین کے بارے میں تو بہت کچھ جان لیا ہے کہ یہ گیند ہے اور گیند کی طرح ہے۔ یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ یہ اپنے گرد بھی گھومتا ہے اور سورج کے گرد بھی گھومتا ہے۔ انہوں نے اس کے براعظموں ، اس کے سمندروں اور اس کے دریاؤں کو معلوم کرلیا ۔ اس کے اندرون تک گھس گئے اور اس کے پیٹ میں جو کچھ چھپا تھا اس کو بھی انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ کیا کیا قوتیں اس کے اندر ودیعت کردہ ہیں۔ پھر اس قوتوں میں سے فضا میں کون کون سی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ ان کی اس زمین کو اس پوری کائنات کے ساتھ جس قانون قدرت نے مربوط کردیا ہے وہ ایک ہی قانون ہے۔ اس کائنات میں تصرفات ہوتے ہیں ، ان میں سے بیشتر کو انسان نے دریافت کرلیا ہے۔ اب انسانوں میں سے کچھ اہل علم ایسے ہیں کہ انہوں نے ان قوانین سے معلوم کرلیا ہے کہ کوئی ۔۔۔ اور خالق ہے اور بعض ایسے ہیں کہ ان کے لئے ان کا یہ عالم ہی وبال بن گیا۔ یہ ان ظاہری انکشافات کے اندر ہی گم ہوگئے۔ آگے نہ بڑھ سکے۔ لیکن آیات الٰہیہ کے اس عظیم انکشاف کے بعد انسانیت نے اب اللہ کی طرف رجوع کرنا شروع کردیا ہے اور تسلیم کرنا شروع کردیا ہے کہ یہ حق ہے۔
انسان کی ذات اور اس کے نفس کے اندر علم کی فتوحات اس کائنات سے کم نہیں ہیں انسانوں نے انسانی جسم ، اس کی ترکیب ، اس کے خصائص اور اس کے اسر اور موز کے بارے میں بہت کچھ معلوم کرلیا ہے۔ اس کی بناوٹ ، اس کے اعضاء ان کے فرائض ، اس کے امراض ، اس کی غذا کے بارے میں وافر علوم جمع کرلیے ہیں ، انسانی اعمال اور حرکات کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم کرلیا ہے۔ یہ تمام انکشافات دراصل آیات الٰہیہ کے بارے میں ہیں۔ ان چیزوں کا خالق اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔
انسانی نفسیات کے بارے میں بھی انسان نے بہت کچھ جان لیا ہے۔ یہ اگرچہ اس حد تک نہیں ہے جو نشانات جسم کے بارے میں انسان نے دریافت کرلیے ہیں۔ کیونکہ انسان کی جدو جہد زیادہ تر انسانی جسم اور اس کی آلاتی حیثیت پر مرکوز ہے۔ انسان کی عقل ، اس کی روح کی طرف ابھی زیادہ توجہ نہیں ہوئی۔ لیکن نفس انسانی کے میدان میں بعض چیزوں کا انکشاف ہوا ، وہ بتاتا ہے کہ اس میدان میں بھی مستقبل میں بڑی فتوحات ہوں گی اور انسان مزید نشانات دیکھیں گے۔ ابھی تو انسان راستے ہی میں ہے۔
اللہ کا وعدہ قائم ہے۔
سنریھم ایتینا فی الافاق ۔۔۔۔۔ انہ الحق (41 : 53) “ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے ، اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے ”۔ اور اس وعدے کا آخری حصہ کہ قرآن کتاب برھق ہے ، بیسویں صدی میں اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ایمان کے قافلے مختلف راستوں سے جمع ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خالص مادی علوم کے راستے سے بھی لوگ اسلام کی حقانیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہر طرف سے اسلامی افواج کا اجتماع ہو رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں اس کرۂ ارضی پر مادیت و الحاد کی جو لہریں اٹھیں وہ بڑی سرکش تھیں۔ لیکن یہ طوفان ختم ہو رہا ہے۔ اگرچہ باد مخالف بڑی تند تھی۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ صدی جس سے ہم گزر رہے ہیں ، ابھی ختم نہ ہوگی کہ مادیت و الحاد کے یہ طوفان ختم ہوں گے اور اللہ کا کلمہ حق ہو کر رہے گا۔ (سید قطب ! آپ کی روح کو اللہ اطلاع کرے کہ اشتراکی روس ختم ہوگیا ہے ، جس کے ایک کتے نے آپ کو شہادت کے منصب پر فائز کیا۔ اور یہ تو تھی مادیت اور امریکہ الحاد کے خلاف بھی خدائی فوجیں لڑ رہی ہیں ، امید ہے کہ بہت جلد وہ بھی ختم ہوگا۔ مترجم )
اولم یکف بربک انہ علی کل شییء شھید (41 : 53) “ کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے ”۔ اللہ نے یہ وعدہ علم و یقین کے ساتھ کیا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے اور شاید عادل ہے ، اس لیے یہ سچا ہے۔
الا انھم فی مریۃ من لقاء ربھم (41 : 54) “ آگاہ رہو یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں ”۔ یہی وجہ ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کو اللہ کی ملاقات پر پورا یقین نہیں ہے۔ یہ نہایت ہی تاکیدی امر ہے۔
الا انہ بکل شییء محیط (41 : 54) “ سن رکھو وہ ہر چیز پر محیط ہے ”۔ لہٰذا تم اس کی ملاقات سے کیسے بچ سکتے ہو۔ تم مکمل طور پر اس کے گھیرے میں ہو۔