سورہ توبہ (9): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ توبہ کے بارے میں معلومات

Surah At-Tawba
سُورَةُ التَّوۡبَةِ
صفحہ 191 (آیات 27 سے 31 تک)

ثُمَّ يَتُوبُ ٱللَّهُ مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا۟ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦٓ إِن شَآءَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ قَٰتِلُوا۟ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلْحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ حَتَّىٰ يُعْطُوا۟ ٱلْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَٰغِرُونَ وَقَالَتِ ٱلْيَهُودُ عُزَيْرٌ ٱبْنُ ٱللَّهِ وَقَالَتِ ٱلنَّصَٰرَى ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ ٱللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَٰهِهِمْ ۖ يُضَٰهِـُٔونَ قَوْلَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِن قَبْلُ ۚ قَٰتَلَهُمُ ٱللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوٓا۟ إِلَٰهًا وَٰحِدًا ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشْرِكُونَ
191

سورہ توبہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ توبہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma yatoobu Allahu min baAAdi thalika AAala man yashao waAllahu ghafoorun raheemun

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں ا پنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo innama almushrikoona najasun fala yaqraboo almasjida alharama baAAda AAamihim hatha wain khiftum AAaylatan fasawfa yughneekumu Allahu min fadlihi in shaa inna Allaha AAaleemun hakeemun

مشرکین نجس عین ہیں ، ان کی روح اس قدر ناپاک ہے کہ یہ ناپاکی ان کے خون اور گوشت میں بھی سرایت کرگئی ہے۔ لہذا وہ کلیۃً نجس ہیں۔ پاکیزہ احساس ان کا تصور کرتے ہی ابا کرتا ہے۔ کراہت محسوس کرتا ہے اور پاکیزہ مزاج لوگ ان سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ معنوی نجاست ہے جو حسی نجاست سے زیادہ تیز ہے۔ ان کے اجسام نجس نہ ہوگے یہ قرآن کریم کا نہایت ہی موثر انداز تعبیر ہے جو روحانیات کو بھی حسی بنا دیتا ہے۔ جب نجس ہیں تو پھر کیا حکم ہے ؟

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، مشرکین ناپاک ہیں ، لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔ چونکہ مسجد حرام پاک ہے اور یہ ناپاک ہیں اس لیے ان کو مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ حکم کو ان کی شخصیت سے متعلق کردیا گیا۔

لیکن اس اقدام کے معاشی نتائج بھی تو بھیانک تھے۔ موسم حج اور موسم تجارت آنے ہی والا تھا ، جس پر ان کا سالانہ بجٹ چلتا تھا۔ جزیرۃ العرب کے اکثر لوگ اس میں تجارت کرتے تھے اور ان کی گرمیوں اور سردیوں کے سفر بھی اسی نظام پر موقوف تھے۔ اور یہ ان کی معاشی زندگی کا خلاصہ تھا۔ اگر مشرکین کو یوں یکلخت منع کردیا جائے تو پوری زندگی کا متاثر ہونا لازمی ہے۔ پھر جب کفار اور مشرکین کے خلاف اعلان جنگ بھی کردیا جائے۔

یہ سب واقعات و حقائق درست ہیں لیکن اس مسئلے کا تعلق نظریات سے ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم اس نظرئیے کے لیے مخلص ہوجاؤ اور قربانی کے لیے تیار ہوجاؤ۔۔ رہا رزق اور تجارتی مفادات تو اس کا کفیل کوئی نظام نہیں ہے ، اللہ ہے اور اللہ ایسے اسباب کے ذریعے رزق پہنچاتا ہے جو عادی اور معروف نہیں ہوتے۔

و ان خفتم عیلۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء ان اللہ علیم حکیم۔ (9:28) اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے ، اللہ علیم و حکیم ہے۔ اللہ جب چاہتا ہے ، اسباب بدل دیتا ہے اور وہ ایک دروازہ بند کرکے دوسرے دروازے کھول دیتا ہے ، وہ علیم و حکیم ہے وہ اپنے علم اور اپنی حکمت کی وجہ سے اور اپنے اندازے اور حساب کی وجہ سے یہ انتظامات کرتا رہتا ہے۔

۔۔۔

غرض اب اسلامی نظام ایک ایسے معاشرے میں کام کر رہا تھا جو فاتح تھا اور اس کے اندر مختلف درجات ایمانیہ کے لوگ شامل ہوگئے تھے اور جیسا کہ اس پورے سبق میں ہم نے بتایا کہ اس معاشرے میں مختلف مقامات پر کمزور پہلو موجود تھے اور قرآن کریم ان کمزوریوں کو دور کرکے اس سوسائٹی کی ترتبیت کر رہا تھا۔ اس طرح قرآن کریم امت مسلمہ کی اصلاح میں اپنے منہاج کے مطابق مسلسل جدو جہد کر رہا تھا تاکہ یہ کمزور پہلو مضبوط ہوجائیں۔

قرآن کریم اس امت کو پاکیزگی اور اخلاص کے اعلی ترین مقام اور بلندی تک لے جانے کی جدوجہد کر رہا تھا تاکہ وہ اس دین اور اس نظام کے لیے مخلص ترین امت بن جائے۔ اس کی محبتیں ، اس کے روابط اور اس کی ترجیحات مکمل طور پر اس نظام کے لیے علیحدہ ہوجائیں اور یہ کام صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جائے جس میں لوگ اپنے جیسے انسانوں کی بندگی کے نظام سے نکل کر اسلامی نظام میں داخل ہوجائیں جس میں صرف رب ذوالجلا کی بندگی ہم اور لوگ مکمل طور پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوجائیں چونکہ ان ہی دو کیمپوں کے درمیان ملاپ ممکن ہی نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qatiloo allatheena la yuminoona biAllahi wala bialyawmi alakhiri wala yuharrimoona ma harrama Allahu warasooluhu wala yadeenoona deena alhaqqi mina allatheena ootoo alkitaba hatta yuAAtoo aljizyata AAan yadin wahum saghiroona

درس نمبر 88 ایک نظر میں

اس سورت کا یہ دوسرا سبق ہے۔ اس دوسرے حصے میں اسلامی مملکت اور اہل کتاب کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کی آخری شکل بتائی گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے حصے میں اسلامی مملکت اور جزیرۃ العرب کے مشرکین کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کی آخری نوعیت کی حد بندی کی گئی تھی۔

پہلے حصے کی آیت کا تعلق جزیرۃ العرب کے مشرکین کے ساتھ تھا اور ان آیات میں ان صفات کا ذکر تھا جو مشرکین میں پائی جاتی تھیں۔ وہ واقعات اور حادثات جو عملاً اس وقت جزیرۃ العرب میں واقع ہوئے تھے پہلے سبق کے موضوع بحث تھے اور یہ آیات ان پر براہ راست منطبق تھیں جبکہ اس حصے کی آیات کا تعلق عموماً اہل کتاب کے ساتھ ہے۔ اور اس حصے کی آیات لفظاً اور معنی عام ہیں خواہ اہل کتاب جزیرۃ العرب میں ہوں یا اس سے خارج کسی جگہ ہوں۔

ان نصوص کے ذریعے ان تعلقات میں بنیادی تبدیلی کردی گئی ہے جو اس سے قبل مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان قائم تھے ، خصوصاً نصاری کے ساتھ۔ یہودیوں کے ساتھ تو جنگی حالت اس سے پہلے بھی کوئی بار قائم ہوگئی تھی لیکن نصاری کے ساتھ اعلان جنگ کی حالت نہ تھی۔

کیا تبدیلی ہوئی ؟ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ حکم دیا گیا منحرل اہل کتاب کے ساتھ جنگ کی جائے جو دین الٰہی کے منکر ہیں اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک وہ چھوٹے ہو کر جزیہ ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب وہ وقت گزر گیا کہ کہ ان کے ساتھ معاہدے کیے جائیں یا دوستی اور امن کے تعلقات قائم ہوں ان کے ساتھ اب یا جنگ ہے اور یا ان کی جنگ ہے اور یا ان کی جانب سے قبول جزیہ ہے۔ اور ان کے لیے صرف یہ حق محفوظ ہے کہ وہ اسلامی مملکت کے تحت ذمی ہو کر رہیں اور ان کے اور مسلم رعایا کے درمیان امن قائم ہو۔ ہاں جب وہ اسلامی نظریہ کو قبول کرلیں اور پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیں تو پھر وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح مسلمان ہیں۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ اسلامی ریاست کے تحت وہ اپنا عقیدہ آزادانہ رکھ سکتے ہیں اور انہیں اسلام لانے پر مجبور نہ کیا جائے گا کیونکہ اسلام کا محکم اور طے شدہ اصول یہ ہے لا اکراہ فی الدین " دین قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں ہے " لیکن وہ اپنا دین صرف اس صورت میں عالم اسلام میں جاری رکھ سکتے ہیں جب تک وہ جزیہ ادا کرتے رہیں۔ اور اس سلسلے میں ان کے اور اسلامی ریاست کے درمیان معاہدہ طے ہوجائے۔

اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان تعلقات کی اس تبدیل شدہ نوعیت کو تب ہی سمجھا جاسکتا ہے جب اسلامی نظام حیات اور جاہلی نظاموں کے درمیان تعلقات کی اس حتمی شکل کو اسلام کے تحریکی مزاج کے مطابق سمجھنے کی سعی کی جائے۔ اچھی طرح سمجھ کر بصیرت کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ خصوصا اس زاویہ سے کہ ان بین الاقوامی تعلقات کے قوانین کو کئی مراحل سے گزر کر اس آخری شکل تک پہنچا پڑا ہے۔ اور اس میں عملی حالات کی وجہ سے اور نئے نئے مراحل کی وجہ سے ترمیم اور تبدیلی ہوتی رہی ہے۔

یہ آخری شکل کیا ہے ؟ وہ یہ کہ اسلامی نظام حیات اور جاہلی نظامہائے حیات چند مخصوص شرائط کے تحت باہم زندہ رہ سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ جاہلی نظام اسلام نظام کے اس ہدف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا نہ ہو کہ اس کرہ ارض پر کوئی شخص دوسرے اشخاص کا غلام اور بندہ نہ ہوگا۔ کوئی انسان اپنے جسے انسان کی غلامی نہ کرے گا۔ اور اس کرہ ارض پر کوئی نظام کوئی حکومت اور کوئی معاشرہ ایسا نہ ہوگا جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اس لیے کہ اسلام کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ غالب ہونا چاہتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کرے۔ اور یہ اسلام کا اعلان عام ہے جبکہ جاہلی نظامہائے حیات کا اولین ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا دفاعی کریں کیونکہ یہ اعلان ان کے لیے اعلان موت ہے اور اس لیے وہ اس قسم کی ہر تحریک کو ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ ہر جاہلی نظام اسلام کی راہ نہ روکیں۔

اسلامی نظام حیات اور اسلامی تحریک کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ جاہلیت کے مقابلے میں ایسے ہتھیار لے کر آئے جو جاہلیت کے ہتھیاروں کے ساتھ ہم پلہ ہوں یا اس ہتھیار سے زیادہ موثر ہتھیار ہوں اور اسلامی نظام جاہلیت کے مقابلہ میں مرحلہ وار پروگرام کے تحت مناسب رویہ اور طرز عمل اختیار کرے۔ اور جب آخری مرحلہ ہو تو اس مرحلے میں وہ حتمی ضوابط اور قوانین پر عمل کرے جو اسلام نے آخری مراحل کے لیے وضع کردیے ہیں۔

اس سورت کے اس حصے میں قرآن کریم نے مسلمانوں اور اسلامی ریاست اور اہل کتاب کے دمیان تعلقات کی آخری اور فائنل صورت متعین کی ہے۔ اہل کتاب کی بھی آخری پوزیشن بتائی گئی ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ وہ شرک ، کفر اور باطل پر عمل پیرا ہیں۔ اور ان واقعات اور اسباب کی نشاندہی کی ہے۔ جن کی وجہ یہ حکم دیا گیا ہے۔ چاہے وہ سبب یہ ہو کہ ان کے معتقدات کفریہ ہیں جس طرح کہ دوسرے کفار کے عقائد تھے اور دونوں کے درمیان مکمل مماثلت پائی جاتی ہے یا ان کا طرز عمل ، ان کے تصرفات اور ان کی حقیقی صورت حالات ایسی ہے۔ درج ذیل وجوہات یہاں گنوائی گئی ہیں۔

1 ۔ یہ کہ یہ لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔

2 ۔ یہ کہ وہ اللہ اور رسول اللہ کے حرام کردہ امور کو حرام نہیں سمجھتے۔

3 ۔ یہ کہ وہ دین حق (اسلامی نظام) کے مطیع نہیں ہیں۔

۔ ان اہل کتاب میں سے یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عزیر ابن اللہ ہیں۔ اور نصاریٰ کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ابن اللہ ہیں۔ اور ان دو اقوال میں یہ اہل کتاب دوسرے کفار اور مشرکین کے مشابہ تھے۔ چاہے وہ یونانی بت پرست ہوں یا رومی بت پرست ہوں ، یا ہندو بت پرست ہوں یا فرعونی بت پرست ہوں یا دوسرے اہل کفر ہوں۔ (بعد میں ہم یہ توضیح کریں گے کہ نصاریٰ کے نزدیک تثلیث اور ابنیت کا دعویٰ یا یہودیوں کی طرف سے ابنیت کا دعوی سابقہ بت پرستیوں سے ماخوذ ہے۔ اصل نصرانیت اور اصل یہودیت کے اندر یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا۔

5 ۔ یہ کہ ان لوگوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب قرار دے دیا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے مسیح کو رب قرار دے دیا تھا حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی توحید پر قائم رہیں اور دین صرف اللہ کے لیے خالص کریں ورنہ وہ مشرک ہوں گے۔

6 ۔ یہ کہ وہ اللہ کے دین کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ اس نئے چراغ کو اپنی منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں لہذا یہ کافر ہیں۔

7 ۔ اکثر احبارو رہبان لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور اللہ کے دین سے لوگوں کو روکتے ہیں ان اوصاف کی وجہ سے اور اہل کتاب جس موقف پر قائم تھے اس کی وجہ سے قرآن کریم نے اہہل کتاب کے حوالے سے درج بالا آخری موقف متعین کیا۔ اب اس آخری ضابطے کے مطابق اسلامی مملکت اور اسلامی معاشرہ اور اہل کتاب کے درمیان بین الاقوامی ضابطہ مرتب ہوا ہے۔

یہاں یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے سابقہ فیصلوں کے برعکس یہ فیصلہ بالکل مختلف نوعیت کا حامل ہے۔ اور مستشرقین اور عیسائی مشنریوں نے یہ کہا بھی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے محسوس کیا کہ ان کی تحریک زور پکڑ گئی ہے تو آپ نے " اپنے " سابقہ احکام کو بدل دیا۔ یعنی اہل کتاب کے بارے میں پہلے اور رویہ تھا اور حصول قوت کے بعد اب یہ احکام آگئے۔

ہم یہ کہیں گے کہ اہل کتاب کے بارے میں تمام مکی آیات اور مدنی آیات پر اچھی طرح غور کرلیجیے۔ اس سے اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اہل کتاب کے موقف اور نظریات کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اسلام ان کو اب آخری مرحلے میں اسی طرح گمراہانہ نظریات سمجھتا ہے جس طرح ابتدائی مراحل میں ان کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر تھا۔ یعنی یہ کہ مشرکانہ عقائد ہیں اور دین حق کے انکار کے مترادف ہیں۔ اور اس دین کے بھی خلاف جس کے متبع ہونے کے وہ خود مدی ہیں۔ جو تبدیلی ہوئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ بحیثیت بین الاقوامی کمیونٹی ان کے ساتھ اسلامی ریاست کا آئندہ سلوک کیا ہوگا ، اور بین الاقوامی تعلقات ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے احکام اور پالیسی کسی بھی وقت کے موجودہ حالات کے مطابق ہوتی اور حالات ظاہر ہے کہ بدلتے رہتے ہیں۔ رہے وہ عقائد جو اہل کتاب رکھتے ہیں تو ان کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر وہی تھا جو پہلے روز سے تھا۔

اب ہم یہاں مناسب سمجھتے ہیں کہ اہل کتاب کے عقائد و نظریات کے بارے میں قرآن کریم کے بعض تبصرے پیش کریں۔ پھر ہم اسلام کے بارے میں ان کے عملی طرز عمل کو پیش کریں گے جس کے نتیجے میں ان کے بارے میں یہ آخری اور فائنل پالیسی طے کی گئی۔

مکہ میں تو یہودی کمیونٹی موجود ہی نہ تھی نہ نصرانی بڑی تعداد میں موجود تھے نہ کوئی زر ہی رکھتے تھے۔ چند افراد نصرانی ضرور تھے۔ قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مکہ کے نصرانیوں نے بڑی خوشی سے اسلام کو قبول کرلیا تھا۔ وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اور انہوں نے اس کی صداقت کی شہادت دی کہ یہ دین اور یہ رسول برحق ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو نصاریٰ میں سے اہل توحید تھے۔ اور ان کے پاس انجیل کی اصل تعلیمات بھی موجود تھی۔ ان کے بارے میں قرآن مجید نے یہ تبصرے کیے ہیں :

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ (52) وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ (53): " جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی ، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں " ہم اس پر ایمان لائے ، یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہ تو پہلے ہی سے مسلم ہیں "

قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولا (108) وَيَخِرُّونَ لِلأذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (109): " اے نبی تم لوگوں سے کہہ دو کہ اسے مانو ، یا نہ مانو جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے۔ انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں " پاک ہے ہمارا راب ، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا ، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے :

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (10): " اے نبی ان سے کہو " کبھی تم نے سوچا بھی کہ یہ قرآن اگر اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اس کا انکار کردیا ؟ اور اس جیسے کلام پر بنی اسرائیل کا ایک واہ شہادت بھی دے چکا ہے۔ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے اور ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا "

وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمِنْ هَؤُلاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلا الْكَافِرُونَ (47): " ہم نے اسی طرح تمہاری طرف یہ کتاب نازل کی ہے ، اس لیے وہ لوگ جن کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور ان لوگوں میں سے بھی بہت سے اس پر ایمان لا رہے ہیں اور ہماری آیات کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں "

أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلا وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (114): " کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ، حالانکہ اس نے تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ؟ اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو "

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمِنَ الأحْزَابِ مَنْ يُنْكِرُ بَعْضَهُ قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ (36): " اے نبی جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی تھی ، وہ اس کتاب سے جو تم پر ہم نے نازل کی ہے ، خوش ہیں اور مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے۔ تم صاف کہہ دو کہ " مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراؤں اور اس کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے "

یہ تو تھے مکی نصاری مدینہ میں بھی بعض نصاری نے دعوت اسلامی کو قبول کیا اور مدنی سورتوں میں قرآن نے ان کے شواہد کو نقل کیا ہے۔ بعض آیات میں منصوص طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ نصاری تھے۔ اس لیے کہ مدینہ میں یہودیوں نے وہ موقف اختیار نہ کیا جو ان کے بعض افراد نے مکہ میں کیا تھا۔ اس لیے کہ مدینہ میں اسلام ان کے دنیاوی مفادات کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (199): " اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اور اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر فروخت نہیں کردیتے۔ ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا "

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لا يَسْتَكْبِرُونَ (82) وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ (83) وَمَا لَنَا لا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ (84) فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ (85): " تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔ وہ بول اٹھتے ہیں کہ " پروردگار ، ہم ایمان لائے ، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے " اور وہ کہتے ہیں کہ " آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے " ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ نے ان کو ایسی جنتیں عطا کیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے نیک رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے "

لیکن یہ چند افراد کا رویہ تھا اور یہ جزیرۃ العرب میں بسنے والے اہل کتاب کی اکثریت کے رویے کی عکاسی نہیں کرتا۔ خصوصاً یہودیوں کے رویے کی۔ ان لوگوں نے مدینہ طیبہ کے اندر جب محسوس کیا کہ ان کے مفادات اور ان کا دین خطرے میں ہے تو انہوں نے اسلام کے خلاف زبردست حملہ شروع کردیا۔ اور وہ اسلام کے خلاف وہ تمام اوچھے ہتھیار استعمال کرنے لگے جن کی تفصیل قرآن نے دی ہے۔ اسلام میں داخل ہونا تو بہت بڑی بات تھی۔ انہوں نے ان پیش گوئیوں کا بھی صاف صاف انکار کردیا جو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ان کی کتابوں میں موجود تھیں۔ حالانکہ قرآن کریم ان کے پاس موجود کتابوں کی تصدیق کر رہا تھا۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود کہ خود ان میں سے پاک فطرت لوگوں نے اسلام کی حقانیت کا اعتراف کیا تھا ، اور منکرین اور مخالفین کے سامنے علی الاعلان انہوں نے اسلام کی اقرار اور اعلان کیا تھا۔ چناچہ اسلام نے ان کے اس عام رویے اور طرز عمل کو بھی قلم بند کردیا اور متعدد سورتوں میں یہ تبصرہ کیا کہ اہل کتاب کس قدر فسادی ، کس قدر باطل پرست اور خود اپنے دین سے کس قدر منحرف ہوگئے ہیں بلکہ عام اہل کتاب کے رویے کو مکی قرآن مجید نے بھی لیا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَى بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلأبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (63)إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (64) فَاخْتَلَفَ الأحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ أَلِيمٍ (65): " اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تو اس نے کہا تھا کہ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو ، لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تماہرا رب بی ، اسی کی تم عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے " گر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک دردناک دن کے عذاب کی "

وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (161) فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ (162) وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ لا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (163): " یاد کرو وہ وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ " اس بستی میں جا کر بس جاؤ اور اس کی پیداوار سے اپنے حسب منشا روزی حاصل کرو اور حطہ حطہ کہتے جاؤ اور شہر کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو ، ہم تمہاری خطائیں معاف کریں گے اور نیک رویہ رکھنے والوں کو مزید فضل سے نوازیں گے " مگر جو لوگ ان میں سے ظالم تھے انہوں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی ، بدل ڈالا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ان کے ظلم کی پاداش میں ان پر آسمان سے عذاب بھیج دیا۔ اور ذرا اس بستی کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ انہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لو سبت (ہفتہ) کے دن احکام الہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے۔

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (167): " اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ " وہ قیامت تک ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بدترین عذاب دیں گے " یقینا تمہارا رب سزا دینے میں تیز دست ہے اور یقیناً وہ درگزر اور رحم کرنے والا ہے "

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَذَا الأدْنَى وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِنْ يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِثْلُهُ يَأْخُذُوهُ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ وَالدَّارُ الآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلا تَعْقِلُونَ (169): " پھر اگلی نسلوں کے بعد ناخلف ان کے جانشین ہوئے جو کتاب الہی کے وارث ہو کر اس دنیائے دنی کے فائدے سمیٹتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ توقع ہے ہمیں معاف کردیا جائے گا اور اگر وہی متاع دنیا سامنے آتی ہے تو پھر لبیک کہہ کر اسے لیتے ہیں کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا جا چکا کہ اللہ کے نام پر وہی بات کہیں گے جو حق ہوگا ؟ اور یہ خود پڑھ چکے ہیں جو کتاب میں لکھا ہے۔ آخرت کی قیام گاہ خدا ترس لوگوں کے لیے ہی بہتر ہے۔ کیا تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے ؟ "

مدنی دور کی آخری سورتوں میں پھر اہل کتاب کے بارے میں آخری اور فیصلہ کن پالیسی بتا دی گئی۔ اور تفصیلا بتایا گیا کہ اسلام کی جنگ میں یہ لوگ کس قدر برے اور اوچھے ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور ان سورتوں میں ان کے کردار پر مفصل تبصرے کیے گئے ہیں۔ مثلاً سورة بقرہ ، آل عمران ، سورت نساء ، مائدہ وغیرہ میں اور ان کے بارے میں آخری اور دائمی پالیسی ، پھر سورت توبہ میں بتائی گئی۔ ان کے بارے میں احکام اور تبصرے یہ ہیں :

أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلا تَعْقِلُونَ (76) أَوَلا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (77) وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلا يَظُنُّونَ (78) فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79): " اے مسلمانو ، اب کیا ان لوگوں سے تم توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بیوقوف ہوگئے ہو ؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں ؟ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ، اللہ سب باتوں سے باخبر ہے ؟ ان میں سے ایک دوسرا گروہ امیوں کا ہے جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں بس اپنی بےبنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں۔ یہی ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے۔ تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے "۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (87) وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ (88) وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (89) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (90) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (91): " ہم نے موسیٰ کو کتاب دی ، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے ، آخر کار عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی کی ، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ وہ کہتے ہیں ہمارے دل محفوظ ہیں۔ نہیں ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے ، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ خدا کی لعنت ان منکرین پر ، کیسا برا ذریعہ ہے جس پر وہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے ، اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل سے اپنے بندے کو خود چاہا نواز دیا۔ لہذا یہ اب غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو وہ کہتے ہیں " ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں ، جو ہمارے ہاں اتری ہے " اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے ، اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور اس کی تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا ان سے کہو : " اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے رہے ؟ "

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ (98) قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (99): " کہو اے اہل کتاب ، تم کیوں اللہ کی باتیں ماننے سے انکار کرتے ہو ؟ جو حرکتیں تم کر رہے ہو اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ کہو اے اہل کتاب یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کی راہ سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے حالانکہ تم خود گواہ ہو۔ تمہاری حرکتوں سے اللہ غافل نہیں "

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلا (51) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا (52): " کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کردے پھر تم اس کا مددگار نہیں پاؤگے "

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ (72) لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (73) أَفَلا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (74) مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلانِ الطَّعَامَ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (75): " یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ ' اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ' جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا اللہ تین میں کا ایک ہے حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے۔ اس کو دردناک سزا دی جائے گی۔ پھر کیا یہ اللہ سے توبہ نہ کریں گے اور اس سے معافی نہ مانگیں گے ؟ اللہ بہت درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔ اس کی ماں ایک راست عورت تھی۔ اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھرے جا رہے ہیں "

ان جیسی دوسری قرآنی آیات مکی اور مدنی قرآن کے اندر بیشمار ہیں ، جو واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ اہل کتاب نے اپنے حقیقی دین سے انحراف اختیار کرلیا ہے اور اہل کتاب کے بارے میں قرآن کا جو نقطہ نظر پہلے روز سے تھا اس میں آخر میں نازل ہونے والی سورتوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ اگرچہ ان پر انحراف ، فسوق ، شرک اور کفر کے جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں کوئی بات بھی جدید نہیں ہے۔ جہاں تک ان کے عقائد و نظریات کا تعلق ہے اس کے بارے میں پہلے دن سے قرآن کریم نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ بات اپنی جگہ ہے کہ ان میں سے جو لوگ اچھے اور صالح تھے اور صحیح عقائد پر قائم تھے اس کا بھی قرآن نے اعتراف کیا ہے۔ مثلاً درج ذیل آیات پر غور کریں :

ومن قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق و بہ یعدلون " موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا تھا اور حق کے مطابق ہی انصاف کرتا "

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75): " اہل کتاب میں سے کوئی ایسا ہے کہ اگر اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دے دو تو وہ یقیناً تمہارا مال ادا کردے گا اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا۔ الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں " امیوں کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں " اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے کوئی ایسی بات نہیں کہی "

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (112) لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ (113) يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ (114) وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (115): یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پری ، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ، ان پر محتاجی اور مغلوبی مسلط کردی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے۔ مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں۔ راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سر گرم رہتے ہیں۔ یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے ان کی ناقدری نہ کی جائے گی۔ اللہ پرہیز گار لوگوں کو خوب جانتا ہے "

جس بات میں تبدیلی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ اب اسلامی مملکت کا طرز عمل اور سلوک کیا ہوگا۔ یہ طرز عمل اور سلوک حالات کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ مختلف مراحل میں اس میں تبدیلی آتی رہی ہے اور یہ تبیدلی ان کی جانب سے پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے آتی رہی ہے۔ کیونکہ دین اسلام کا قیام ایک تحریک کی شکل میں تھا اور اس تحریک کے ساتھ اہل کتاب نے جو عملی رویہ اختیار کیا ، اسلامی ریاست نے بھی اسی کے مطابق ان کے ساتھ طرز عمل اختیار کیا۔

ایک وقت یہ تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ طرز عمل یہ تھا۔

وَلا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (46): " اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں اور ان سے کہو کہ " ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی۔ ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اس کے مسلم ہیں "

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (136) فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137): " مسلمانو ، کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ، اسماعیل ، یعقوب اولاد یعقوب کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی اور ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے۔ اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ پھر اگر وہ اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں اور اگر اس سے منہ پھیریں تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑگئے ہیں لہذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے "

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (64): " اے نبی کہو ، اے اہل کتاب آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائی۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے وہ منہ موڑیں تو صاف صاف کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں "

وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (109): " اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لی ان کی یہ خواہش ہے۔ اس کے مقابلے میں تم عفو و درگزر سے کام لو تو یہاں تک کہ اللہ خود اپنا فیصلہ نافذ کردے۔ مطمئن رہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے "

اور ان حالات اور پالیسیوں کے بعد وہ احکام آئے جن پر اللہ نے اہل ایمان کو مامور کیا۔ چناچہ کئی واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کی وجہ سے طرز عمل کے بارے میں احکام بدلتے رہے اور اسلام کا مثبت اور تحریکی عمل اپنی نہج پر جاری رہا اور وہ آخری احکام نازل ہوئے جن کے بارے میں اس سورت میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے۔

اہل کتاب کے جو عقائد و نظریات تھے ، ان کے بارے میں قرآن کا نظریہ اول روز سے ایک ہی تھا۔ کہ یہ کفریہ اور شرکیہ نظریات ہیں۔ جو تبدیلی آئی ہے وہ صرف یہ کہ اہل کتاب کے مشرکین اور کفار کے ساتھ ہمارا سلوک کیا اور اسلامی ریاست کا سلوک کیا ہو۔ اس سورت کے تعارف میں ہم نے اسی کے بارے میں جو محاکمہ پیش کیا تھا ، اس پر زرا دوبارہ نظر ڈالیں۔

" یہ آخری تبدیلی جو اسلامی معاشرے اور اہل کتاب کے درمیان محض سلوک اور طرز کے بارے میں آئی ہے۔ اسے صرف اس صورت میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اسے اسلامی ریاست اور اہل کتاب کے درمیان بین الاقوامی تعلقات کے زاویہ سے دیکھا جائے پھر یہ دیکھا جائے کہ اسلامی نظام کا قیام ایک عملی تحریکی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ اور اس میں جدید وسائل کے مقابلے میں جدید وسائل اکتیار کیے گئے اور سوسائٹی کی بدلتی ہوئی تحریکی صورت ھال کے مختلف مراحل میں مختلف طرز ہائے عمل اختیار کیے گئے۔۔ "

اب ہم تفصیل سے یہ بتائیں گے کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت اور اہل کتاب کے درمیان مستقل نظریاتی مواقف کیا ہیں اور تاریخی اعتبار سے مختلف مواقع پر کیا طرز عمل اختیار کیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اسلام نے آخری احکام کیا دئیے ہیں۔

اسلامی ریاست اور اہل کتاب کے درمیان حقیقی موقف کے بارے میں اگر کوئی تحقیقات کرنا چاہے تو اسے درج ذیل حدود کے اندر یہ تحقیق کرنا چاہئے۔ اولاً یہ کہ اس سلسلے میں اللہ نے جو تصریحات کی ہیں وہ فائنل ہیں اور محفوظ ہیں اور برحق ہیں۔ ان میں کسی باطل کی آمیزش نہیں ہے۔ اور یہ تصریحات چونکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے ہیں تو ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسانی تصریحات کی طرح ان میں کوئی غلطی ہوسکتی ہے۔ یا ان کے بارے میں انسانی مواقف کی طرح کوئی تاویل اور استنباط اور استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ اہل کتاب کے بارے میں اور ان کے ھوالے سے مسلمانوں کی جو تاریخ رہی ہے ، اس کی روشنی میں ان دونوں کے درمیان طرز عمل ، سلوک اور ضوابط کا تعین کیا جائے۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

اردو ترجمہ

یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھار ہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqalati alyahoodu AAuzayrun ibnu Allahi waqalati alnnasara almaseehu ibnu Allahi thalika qawluhum biafwahihim yudahioona qawla allatheena kafaroo min qablu qatalahumu Allahu anna yufakoona

(سابقہ آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ)

اسلام اس کرہ ارض پر ایک دین برحق ہے۔ اور اس یہ حق ہے کہ وہ اپنی راہ سے ناجائز مادی رکاوٹوں کو دور کرے۔ اور تمام انسانوں کو دین حق (اسلام) کے علاوہ تمام دینوں سے آزاد کرکے چھوڑے کہ وہ جبری حالت سے نکل کر آزادانہ ، جو دین چاہیں اختیار کریں۔ ہر انسان کو آزادانہ طور پر یہ اختیار ہو کہ وہ جو دین چاہے اختیار کرے۔ کوئی بھی دین اختیار کرنے کے سلسلے میں اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

یہ حق کہ کوئی انسان کسی مادی رکاوٹ کے ہاتھوں مجبور نہ ہو اور اسلام یا گیر اسلام کوئی بھی دین قبول کرنے کے لیے آزاد ہو ، تب ہی متحقق ہوسکتا ہے کہ جاہلیت کی قوت اور شوکت کو تور دیا جائے۔ تمام غیر اسلامی قوتیں اسلامی مملکت کے تابع ہوں اور اسلامی نظام کی باج گزار ہوں۔

باج گزاری کے عمل سے انسان کی آزادی اپنی تکمیل کو پہنچ جاتی ہے۔ ہر فرد جس دین کو چاہے اختیار کرتا ہے جو اسلام پر مطمئن ہو وہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور جو شخص مطمئن نہ ہو وہ اپنے دین پر باقی رہتا ہے۔ لیکن اس آزادی کی فیس اسے بطور جزیہ ادا کرنی ہوگی اور اس سے درج ذیل مقاصد حاصل ہوں گے۔

1 ۔ جزیہ دے کر وہ اعلان کر رہا ہوگا کہ اب وہ اسلام کی دشمنی میں کوئی مادی قوت بطور رکاوٹ کھڑی نہ کرے گا اور دعوت اسلامی کا سد راہ نہ ہوگا۔

2 ۔ وہ اپنے مال اور عزت کے دفاع اور آازی کے حق جس کی ضمانت اسے اسلام دیتا ہے ، کے عوض اخراجات میں مملکت میں اپنا حصہ ادا کرے گا۔ کیونکہ جو لوگ جزیہ دیتے ہیں اسلامی نظام مملکت ان کے مال اور جان اور آبرو کا محافظ ہوتا ہے۔ اور ان کی جانب سے دفاع کرتا ہے۔ خواہ خارجی حملہ ہو یا داخلی امن وامان ہو۔

3 ۔ پھر یہ کہ وہ بیت المال میں اپنا حصہ ادا کرے گا جس سے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی کفالت کا بندوبست ہوتا ہے ہے۔ تمام ایسے لوگوں کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا ہے جو کسب و عمل پر قادر نہ ہوں خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ہو جبکہ غیر مسلموں پر زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔

ہم اس سے آگے فقہی اختلافات میں نہیں پڑتے کہ کن کن غیر مسلموں سے جزیہ لیا جائے گا اور یہ کہ جزیہ کی مقدار کیا ہوگی اور یہ کہ اس کی وصلی کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟ کیونکہ آج ہمارے سامنے کوئی عملی مسائل اس قسم کا درپیش نہیں ہے۔ فقہاء کے دور میں یہ مسئلہ عملاً درپیش تھا اس لیے انہوں اپنے دور کے لیے احکام جاری کیے اور فتوے دیے اور ان مسائل پر اجتہادی کلام کیا۔

آج یہ مسئلہ ایک تاریخی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ واقعی سوال نہیں ہے اس لیے کہ آج مسلمان عمل جہاد میں سرگرم نہیں ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ حقیقی مسلمان ہمارے دور میں کمیاب ہیں۔ آج ہمارے سامنے حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ آج اسلام موجود ہے یا دنیا میں موجود ہیں یا نہیں۔

اسلامی نظام حیات کیا ہے ؟ جیسا کہ ہم نے بار بار اس سوال کا جواب دیا کہ وہ ایک سنجیدہ اور عملی نظام ہے۔ یہ نظام محض ہوائی باتوں پر بحث وجدال نہیں کرتا۔ نہ وہ ایسے فقہی مباحث میں دماغ سوزی کو ضروری سمجھتا ہے جو عملاً موجود نہ ہوں کیونکہ عالم واقعہ میں مسلمانوں کی کوئی سوسائٹی موجود نہیں ہے۔ جس میں اسلامی شریعت نافذ ہو۔ اور اسلامی فقہ اس کی عملی زندگی پر متصرف ہو۔ اسلام ایسے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے جو مفروضے گھڑتے ہیں اور پھر ان پر مباث کے سلسلے اٹھاتے ہیں۔ ان کو اسلامی اصطلاح میں " ارئیتی " کہا جاتا ہے جو اس طرح سوال کرتے ہیں " دیکھو ، اگر یوں صورت حالات واقعہ ہوجائے تو کیا حکم ہوگا ؟ "

آج ہمیں احیاء اسلام کے کام کا آغاز اسی مقام سے کرنا ہے جس سے حجور اکرم نے کیا تھا اور وہ یہ کہ دیا میں کوئی ایسی سوسائٹی وجود میں آئے جو حکومت الہیہ قائم کرکے اس میں دین اسلام نافذ کردے۔ وہ پہلے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی اور حاکم نہیں ہے اور محمد رسول اللہ ہیں ، شارع ہیں۔ لہذا ہماری سوسائٹی مٰ اللہ حاکم اور شارع ہے۔ اور ہم اللہ و رسول کے احکام کو اس سوسائٹی میں نافذ کرنے وال ہیں اور پھر وہ اس نظر کو لے کر پوری دنیا میں آزادی انسان کا بیڑا اٹھائیں اور پھر جب حکومت الہیہ قائم ہوگی اور کسی اسلامی سوائٹی میں نافذ و جاری ہوگی تو تب جا کر یہ سوال اٹھے گا کہ اس سوائٹی کے تعلقات دوسری ملل و نحل کے ساتھ کیا ہوں گے اور اسی وقت ان فقہی تحقیقات کی ضرورت ہوگی اور اس وقت پھر ماہرین اور اہل فکر و نظر اس وقت کے متعین حالات میں یہ فیصلہ کریں گے کہ اب دوسری ملتوں کے افراد اور حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات کیا ہوں گے "۔

ہم نے اصولی طور پر اس آیت کی تشریح یہاں کردی ہے جس اصول اعتقاد اور اسلامی نظام کے منہاج کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے۔ اور اسی پر ہم یہاں اپنی بات کو روک دیتے ہیں۔ آج ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ یہاں فروعی مباحث پر کلام شروع کردیں کیونکہ اسلامی نظام حیات ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِــــُٔـوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ ffاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار ان پر ، یہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں

جب اللہ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ جنگ شروع کردیں اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رکھیں جب وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دے کر اپنے آپ کو چھوٹا ثابت نہیں کرتے۔ تو اس وقت مدینہ طیبہ کی اسلامی حکومت کچھ عملی حالت در پیش تھے اور اس سورت کے آغاز میں ہم نے ان پر تفصیلی بحث کی ہے۔ پھر ان کے بارے میں سورت کے حصہ اول پر اجمالی تبصرے میں بھی ہم نے بحث کی ہے۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ان حالات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے نیز ان اسباب کو بھی اچھی طرح متعین کرنا چاہی جن کی وجہ سے وہ حالات پیدا ہوئے۔ تاکہ ان تمام شبہات و خلجانات کو رفع کردیا جائے جو بعض لوگوں کے اذہان میں پیدا ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حکم پر تعمیل کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان رومیوں کے مقابلے میں نکل آئیں جو اس وقت اطراف شام پر قابض تھے۔ اسلام سے پہلے بھی رومی عرب قبائل سے خوف کھاتے تھے کیونکہ یہ لوگ ایک طویل عرصے سے عرب کے شمالی علاقوں پر قابض تھے۔ عرب قبائل کے اندر بھی ان کی دوستیاں اور تعلقات تھے۔ شمال میں غسانیوں کی حکومت ان کی باجگزار تھی۔ لہذا مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان یہ پہلی مڈبھیڑ نہ تھی۔ یعنی جب عربوں کو اللہ نے اسلام کے ذریعہ سے عزت بخشی اور وہ ایک عظیم قوم کی شکل میں فارس اور روم جیسی عظیم قوتوں کے مقابلے میں اتر آئے اور اس سے پہلے تو وہ منتشر قبائل تھے اور ان کی بہادری اور جنگجوئی کے قصے صرف باہم قتل و قتال ، ڈاکوؤں اور لوٹ مار کی کہانیوں پر مشتمل تھے لیکن اس کے باوجود رومیوں کے دلوں میں عربوں کا خوف بہرحال بیٹھا ہوا تھا۔ خصوصاً ان لوگوں کا خوف جنہوں نے ابھی تک پوری طرح اسلامی رنگ اختیار نہ کیا تھا۔ رومیوں کے ساتھ آخری ٹکراؤ اور جھڑپ غزوہ موتہ کی شکل میں ہوا تھا جس میں روایات کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ رومی جمع ہوئے تھے اور اس غزوہ کا نتیجہ مسلمانوں کے مقاصد کے مطابق بر آمد بھی نہ ہوا تھا۔

ایک تو یہ حالات تھے کہ اسلامی معاشرے کے اندر بھی تک تطہیز افکار کا کام مکمل نہ ہوا تھا ، دوسرے یہ کہ رومیوں کی جانب سے ایک عام خوف بھی مسلمانوں کے دلوں میں تھا اور پھر یہ غزوہ تبوک جن حالات میں درپیش تھا ، معاشی لحاظ سے اور دوسرے حالات کے لحاظ سے بھی یہ بہت ہی تنگی کا وقت تھا۔ اسی لیے اسے غزوہ عسرت کہا گیا ہے۔ تفصیلی حالات بعد میں بیان ہوں گے۔ پھر مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بھی تھی کہ رومی اور ان کے ایجنٹ عرب بہرحال اہل کتاب میں سے تو ہیں۔ یہ تھے وہ وجوہات جن کی بنا پر یہاں اس بارے میں زیادہ سے زیادہ وضاحتیں کی گئیں اور فیصلہ کن اور دوٹوک انداز بیان اختیار کیا گیا ۔ اور تمام ذہنی خلجان اور نفسیاتی الجھنوں کو دور کردیا گیا۔ اور ان احکام کے حقیقی اسباب اور عوامل بھی بتائے گئے۔

چناچہ آیت زیر بحث میں قرآن کریم ان اہل کتاب کی فکری ضلالت کی وضاحت کرتا ہے کہ ان کا نظریہ اور عرب گمراہوں کا نظریہ اور بت پرستوں کا نظریہ باطل باہم مماثل اور ہم رنگ ہے۔ عرب بت پرستوں اور قدیم رومی بت پرستوں اور ان عیسائیوں کے درمیان کوئی نظریاتی فرق نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ نے ان کو جو صحیح عقیدے دیے تھے اس پر اس پر وہ ثابت قدم نہیں ہیں لہذا ان کی حیثیت اہل کتاب محض نام کی رہ گئی ہے۔ ان کی کتابوں کے اندر ان کو جو صحیح اور درست نظریات و اعتقادات دیے گئے تھے وہ انہوں نے ترک کردیے ہیں۔

یہاں یہودیوں کے اس قول کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں حالانکہ روئے سخن اور عملاً مقابلہ صرف رومیوں کے ساتھ تھا جو عیسائی اور نصاریٰ تھے۔ یہاں یہودیوں کو دو وجوہات سے بیچ میں لایا گیا ہے۔

1 ۔ یہ کہ پہلی آیت عام تھی۔ کیونکہ اہل کتاب کا اطلاق یہودی و عیسائی دونوں پر ہوتا تھا۔ اور آیت سابقہ میں لڑنے کے بارے میں اور جزیہ وصول کرنے اور ان کو چھوٹا بنا کر رکھنے کا جو حکم دیا گیا تھا وہ تمام اہل کتاب کے برخلاف تھا۔ لہذا یہاں اہل کتاب کی نظریاتی اور اعتقادی ضلالت کے ذکر میں بھی دونوں کو شامل کیا گیا کہ نظریاتی اعتبار سے دونوں برابر ہیں۔

2 ۔ دوسرے یہ کہ عرب کے تمام یہودی نے ہجرت کرکے اطراف شام میں آباد ہوگئے تھے۔ جب سے رسول اللہ اور مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی ، یہودیوں نے اسلام کے خلاف جنگ جاری رکھی تھی جس کے نتیجے میں بنی قینقاع اور بنی نضیر اطراف شام کی طرف جلاوطن ہوگئے تھے۔ بنی قریظہ کے بعض افراد بھی۔ لہذا شام کی طرف اسلامی انقلاب کی وسعت کی راہ میں یہودی رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ لہذا اس حکم میں یہودیوں کو شامل کرنا بھی ضروری تھا۔

نصاری کا قول کہ مسیح ابن اللہ ہیں ، مشہور و معروف ہے۔ اور جب سے پولوس نے ان کو گمراہ کیا ہے ، اس کے بعد آج تک وہ اسی عقیدے پر قائم ہیں۔ پھر پولوس کے بعد ان کی مذہبی کانفرنسوں نے پولوس کے عقائد کو سرکاری شکل دے کر ان کو مکمل گمراہ کردیا۔ لیکن یہودیوں کا یہ عقیدہ کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں ، بہت مشہور ہے۔ یہودیوں کی کتب مقدسہ میں ایک شخص عزرا کے نام سے مذکور ہے۔ اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کی تورات کا ماہر کاتب تھا۔ یہ کہ اس نے اپنے دل کو شریعت ربانی کی تلاش کی طرف متوجہ کیا لیکن قرآن نے ان کی جانب سے جو عقیدہ نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض یہودی اس کے قائل تھے خصوصاً وہ یہودی جو اطراف مدینہ میں بستے تھے۔ قرآن کریم مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ عملاً ہمکلام تھا۔ اس نے یہ عقیدہ نقل کیا ہے۔ اگر یہودیوں کے اندر یہ عیقدہ نہ ہوتا تو وہ فٹ کہہ دیتے کہ قرآن نے یہ غلط کہا ہے ، ہمارا تو یہ عقیدہ نہیں ہے۔ لیکن مدینہ کے یہودیوں کی جانب سے اس موضوع پر مکمل سکوت ہے۔ لہذا کم از کم اس وقت کے یہودیوں میں یہ عقیدہ مروج تھا۔

تفسیر منار کی ج 10 میں مرحوم رشید رضا نے ص 385 تا 387 عزرا کے بارے میں یہودیوں کے نظریات پر مفید بحث کی ہے۔ یہاں ہم اس سے چند فقرات نقل کرتے ہیں جو نہایت ہی مفید رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں۔

" جیوس انسائیکلو پیڈیا طبع 1903 ء میں ہے کہ عزرا کا زمانہ یہودیوں کی تاریخ کا موسم بہار تھا۔ جس میں ہر طرف پھول کھلے ہوئے تھے ، اسے بجا طور پر یہ کہا جاسکتا تھا کہ اس نے شریعت کی گاڑی چلائی۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) پر شریعت نازل نہ ہوئی ہوتی۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد شریعت کو بھلا دیا گیا تھا۔ عزرا نے شریعت کو دوبارہ پیش کیا اور زندہ کیا۔ اگر بنی اسرائیل غلطیاں نہ کرتے تو وہ اسی طرح کے معجزات دیکھتے جس طرح انہوں نے حضرت موسیٰ کے عہد میں دیکھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آشوری رسم الخط میں شریعت کو لکھا۔ جن الفاظ میں اسے شک گزرتا ان پر وہ علامت ڈال دیتا۔ یہودیوں کی تحریری تاریخ کے لیے ان کا عہد ماخذ ہے۔

جارج لوسٹ کتاب مقدس کی ڈکشنری میں لکھتے ہیں : عزرا یہودی کاہن ہے اور مشہور اہل قلم تھا جو طویل القامت ارتختشاہ کے دور میں بابل میں رہائش پذیر تھا۔ اس بادشاہ نے اپنی تخت نشینی کے ساتویں سال عزرا کو اجازت دی کہ اپنی قوم کی ایک بڑی تعداد کو لے کر یروشلم چلا جائے۔ یہ تقریباً 457 ق م کا واقعہ ہے۔ یہ لوگ چار ماہ میں وطن پہنچے۔

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں کے عقائد کے مطابق عزرا کا مقام موسیٰ اور ایلیا کے برابر ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نے ایک بہت بڑی اکیڈمی قائم کی اور کتاب المقدس کے مختلف اسفار کو جمع کیا اور قدیم عبرانی حروف کے بجائے اسے کلدانی حروف میں لکھا۔ انہوں نے الایام اور عزرا اور نحمیاہ کے اسفار تالیف کیے۔

مزدی کہتے ہیں کہ " عزرا " کی زبان ص 6-8:4 : 19 کلدانی ہے اسی طرح ص 7:1 ۔ 27 ۔ یہ لوگ غلامی سے واپس آنے کے بعد عبرانی مقابلے میں کلدانی زبان اچھی طرح سمجھتے تھے۔

" میں کہتا ہوں کہ تمام اقوام اور خصوصاً اہل کتاب کے درمیان مشہور یہ ہے کہ جس تورات کو حجرت موسیٰ نے لکھا تھا اور جسے تابوت میں یا اس کے پاس رکھا تھا۔ وہ عہد سلیمان سے گم ہوگئی تھی۔ کیونکہ ان کے زمانے میں جب تاتبوت کھولا گیا تو اس میں صرف وہ دو تختیاں تھیں جن میں دس وصیتیں تحریر تھیں۔ جیسا کہ سفر ملوک میں درج ہے۔ اور در اصل بعد میں تورات وغیرہ کو عزرا نے لکھا اور یہ بابل کی غلامی کے دور کے بعد کلدانی رسم الخط میں تحریر ہوئی۔ کلدانی زبان میں کچھ عبرانی الفاظ بھی شامل تھے جسے یہودیوں نے بھلا دیا تھا۔ اہل کتاب کہتے ہیں کہ عزرا نے اس طرح لکھا کہ گویا وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے یا الہام ہے لیکن غیر لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں بہت بڑے شکوک و شبہات اور اعتراضات کیے گئے ہیں جو تفصیل کے ساتھ ان کتابوں میں مذکور ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ خود اہل کتاب کی کتابوں میں بھی یہ مذکور ہیں مثلاً کیتھولک دین وغیرہ) جو فرانسیسی میں لکھ گئی جس کے فصل گیارہ اور بارہ میں خصوصا یہ اعتراضات میں تفصیل کے ساتھ مذکورہ ہیں کہ آیا موسیٰ کے اسفار خمسہ اس میں سے ہیں یا نہیں۔

سفر عزرا میں ہے (414 نمبر 21) کہ تمام مقدس اسفار آگ میں جل گئے تھے اور یہ بخت نصر کے دور میں۔ اس میں ہے " آگ نے تمہاری شریعت کو باطل کردیا ہے ، اس لیے کسی کے لیے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ تم نے کیا کیا (میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کلام صادق ہے ، اور اس نے یہ خبر دی ہے کہ تابوت میں بقیہ تھا) مزید یہ کہ عزرا نے روح القدس کی وحی کے ذریعہ ان اسفار مقدسہ کو دوبارہ جمع کیا جنہیں آگ نے جلا دیا تھا۔ اور ان کی تالیف میں ، ان کے معاصر پانچ لکھنے والوں نے ان کی امداد کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ پادری تر ترلیانوس ، پادری ایر بناؤس ، ایرونیموس اور پادری یوحنا ، پادر باسیلوس وغیرہ۔ کہتے ہیں کہ عزرا معروف اسفار مقدسہ کا ترمیم کنندہ ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں۔

" میں سمجھتا ہوں یہاں اس قدر کافی ہے لیکن یہاں ہم دو باتیں عرض کریں گے ، ایک کہ یہ تمام اہل کتاب اس عزرا کے مرہون منت ہیں جس نے ان کے دین کی اساس کو قائم کیا۔ اور ان کے دین کتب مقدسہ کو مرتب کیا۔ دوسرے کہ یہ ان کی یہ مستند کتب نسیاں اور غلطی سے محفوظ نہیں ہیں اور یہ بات آزاد یورپین محققین نے تسلیم کی ہے۔

(ہم فی ظلال القرآن میں محمد عبدہ کی مدرسہ فکر کے اس طرقہ اظہار طرف تنیہ کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ مغرب کی آزاد فکر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو اسلامی طرز فکر سے اجنبی ہے۔ یہ لوگ اپنی اس طرز فکر کی وجہ سے یورپ کے آزاد خیال مفکرین کو اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ مغرب کے جمہوری اداروں ، بنیادی حقوق اور طرز حیات کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ ہم نے بارہا اس طریقے اور طرز عمل کی خطرناکیوں کی طرف فی ظلال القرآن میں قارئین کو متنبہ کیا ہے۔ ہمیں مغربی افکار کا نہایت ہی عمیق نظر سے جائزہ لینا چاہیے۔

برٹش انسائکلو پیڈیا میں ان کی سوانح اور ان کے " سفر " اور لحمیاہ کے سفر میں لکھا ہے کہ انہوں نے تلف شدہ اسفار کو بھی لکھا اور اس کے علاوہ ستر جعلی اسفار بھی تحریر کیے۔ اس کے بعد مقالہ نگار نے ان کے بارے میں لکھا۔ " جب حال یہ ہو کہ عزرا کی کہانی کو بعض مورخین نے اپنی جانب سے لکھا ہو اور اسے کسی دوسری کتاب کی طرف منسوب بھی نہ کیا ہو تو جدید دور کے اہل قلم یہ سمجھیں گے کہ ان اسفار کو راوی نے ازخود گھڑ لیا ہے۔ (دیکھئے ج 9، ص 14)

" غرض یہودی پہلے بھی حضرت زیر کا احترام کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض نے اسے ابن اللہ بھی کہا۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے ان کے لیے ابن اللہ کا لقب بطور احتارم اس طرح استعمال کیا جس طرح انہوں نے سلیمان اور داود کے لیے استعمال کی اتھا یاس اس معنی میں استعمال کی اجو ان کے ایک فیلفوف (فیلو) سمجھتے ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ جو ہندوستانیوں کا اصل فلسفہ ہے اور جو عقائد نصاری کی بنیاد ہے۔ البتہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ تمام یہودی عزیر کو ابن اللہ نہ سمجھتے تھے بلکہ بعض لوگ ایسے تھے "

" ان کے بارے میں ابن اللہ ہونے کا عقیدہ کون لوگ رکھتے تھے۔ مدینہ کے بعض یہودیوں کا یہی عقیدہ تھا۔ جیسا کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کی۔ اور جس طرح وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے۔ ید اللہ مغلولۃ اور یہ عقیدہ لقد کفر الذین قالوا ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء۔ یہ بات وہ لوگ قرآن کی اس آیت کے جواب میں کہتے تھے۔ من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ کے یہودیوں کے علاوہ بھی کوئی فرقہ ان کو ابن اللہ سمجھتا ہو ، لیکن ان کا عقیدہ ہم تک نہ پہنچا ہو۔

" ابن اسحاق نے اور ابن جریر نے ابن ابو حاتم ، ابو الشیخ ، و ابن مردویہ نے ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کے پاس سلام ابن مشکم ، نعمان بن اوفی اور ابو انس ، مالک ابن الضیف اور شاس ابن قیس آئے اور کہا : ہم کس طرح تمہاری اطاعت میں آجائیں۔ تم نے ایک تو ہمارا قبلہ ترک کردیا دوسرے یہ کہ تم حضرت عزیر کو ابن اللہ نہیں سمجھتے "

یہ بات بھی معلوم ہے کہ بعض نصاری جو حضرت مسیح کو ابن اللہ سمجھتے تھے وہ یہودی الاصل تھے (فیلو) اسکندریہ کا معروف فلسفی جو میسح کے معاصر تھے ، یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کا ایک بیٹا ہے اور یہ بیٹا اس کا وہ کلمہ ہے جس کے ذریعے اس نے تمام اشیاء کی تخلیق کی۔ لہذا یہ بعید از امکان نہیں ہے کہ بعثت محمد کے وقت یہودیوں میں کچھ ایسے لوگ ہوں جنہوں نے عرب کے بارے میں ابنیت کا عقیدہ اپنایا ہوا ہو۔ اگرچہ اس مفہوم میں "

اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں جو یہ کہا ہے کہ وہ عزیر کو ابن اللہ سمجھتے ہیں ، ان کا پس منظر کیا ہے ، اس موقع پر سیاق کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے لہذا قرآن کریم نے جس حوالے سے بات کی ہے وہ یہ ہے کہ بعض یہودی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور ان میں سے بعض لوگوں کا عقیدہ اس قدر فاسد ہوگیا تھا کہ وہ اپنے اس عقیدہ ابنیت کے ساتھ ساتھ مومن نہ کہلا سکتے تھے اور نہ ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ دین حق پر تھے اور اہل کتاب کے ساتھ یہاں قتال کا جو حکم دیا گیا کہ اس کی بنیادی صف اور سبب بھی یہی فساد عقیدہ ہے۔ قتال کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انہیں اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور کیا جائے اور پھر اسلام میں داخلے پر مجبور کیا جائے۔ بہرحال مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی قوت اور شوکت کو توڑ کر ان کو ایک ایسے نظام مملکت کا تابع کردیا جاے جس میں ہر انسان کے لیے مکمل حریت اور آزادی ہو اور وہ مملکت اسلامی کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ نہ ہوسکے۔ اور ان کے سامنے حریت اختیار عقیدہ کے حوالے سے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور نہ ان پر کسی جانب سے کوئی دباؤ ہو کہ وہ کیا عقیدہ اختیار کریں۔

رہا نصاری کا یہ عقیدہ کہ مسیح ابن اللہ ہیں اور وہ تینوں میں سے ایک ہیں۔ تو یہ ان کا مشہور عقیدہ ہے۔ جب سے پولس نے عیسائیت کو رسولوں کے عام عقیدہ توحید سے نکال کر انہیں شرکیہ عقائد دیے اور اس کے بعد ان کی مختلف مجالس نے اس تحریف کو مکمل کرکے عیسائیت کے نظام تصور سے عقیدہ توحید کو مکمل طور پر نکال دیا ہے۔ تب سے وہ عقیدہ تثلیث پر قائم ہیں اور ان کے تمام مذاہب نے اس عقیدے کو اپنا رکھا ہے۔

میں یہاں پھر استاد محمد رشید رضا کی تفسیر کے اقتباسات پر اکتفا کروں گا۔ وہ تثلیث (Trinity) کے بارے میں لکھتے ہیں :۔

" یہ لفظ عیسائیوں کے ہاں اقانیم ثلاثہ پر بولا جاتا ہے۔ ان کے لاہوتی مباحث میں اب ، ابن اور روح القدس کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ مشرقی کیتھولک کنیسا کے عقائد ہیں اور عموماً تمام پروٹسٹنٹ بھی اسی کے قائل ہیں۔ شاذ و نادر افراد ہی اس کے خلاف ہوں گے جو لوگ اس عقیدے پر جمے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کتاب مقدس کے نصوص پر یہ عقیدہ قریب تر کرے۔ لاہوتی علماء نے اس عقیدے کے حوالے سے نہایت ہی پیچیدہ فلسفیانہ تشریحات کا اضافہ بھی کیا ہے جو ان کی قدیم مجالس اور بڑے علماء کی تحریروں پر بنی تھیں۔ اکثر مباحث کا تعلق اقنوم ثانی کی پیدائش کے طریقوں اور پھر اس سے اقنوم ثالث کے پھوٹنے کے طریق کار سے متعلق ہیں۔ پھر ان تین اقانیم کے درمیان جو نسبت ہے۔ اس پر مباحث ہیں۔ پھر ہر اقنوم کی صفات اور القاب کے بارے میں کلام ہے۔ لیکن لفظ " ثالث " انجیل میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح عہد قدیم میں کوئی آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں تثلیث کی تصریح کی گئی ہو۔ قدیم مسیحی مولفین نے ایسی آیات نقل کی ہیں جن میں اس عقیدے کی اجتماعی صورت نظر آتی ہے لیکن ان تمام آیات کی مختصر تفسیر اور تشریح بھی کی جاسکتی ہے لہذا ان آیات کو عقیدہ تثلیث پر قطعی دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ وہ واضح وحی کی طرف اشارہ ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق عہد جدید میں موجود ہے۔ عہد جدید آیات کے دو بڑے مجموعے اس عقیدے کے ثبوت کے لیے نقل کیے گئے ہیں۔ ایک مجموعہ ان آیات کا ہے جن میں اب ، ابن اور روح القدس کا یکجا ذکر ہے۔ اور دوسرا مجموعہ ان آیات کا ہے جن میں ہر ایک کا ذکر علیحدہ علیحدہ ہوا ہے اور جن میں ان کی اہم خصوصی صفات کا ذکر ہے اور ان کے باہم نسبت کا ذکر ہے "

" ذات باری میں اقانیم کا تنازعہ رسولوں کے زمانے میں پیدا ہوا۔ یہ ہیلانی اور غنوسطی فلسفوں کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ دوسری صدی میں تھیو فیلوس اسقف انطاکیہ نے یونانی کا لفظ تریاس استعمال کیا۔ اس کے بعد ترتلیانوس نے لفظ ترینیت اس استعمال کیا۔ یہ لفظ ثالوث کے مترادف تھا۔ اس عقیدے کے بارے میں نیقیا کی پہلی مجلس سے ما قبل سے زمانے میں زبرست جدل وجدال رہا۔ خصوصاً مشرقی کلیسا مٰں۔ اور مشرقی کلیسا نے ان تمام آراء کو بدعتی آرا قرار دیا۔ ان میں ابیونیوں کی آرا شامل ہیں۔ جن کا عقیدہ یہ تھا کہ مسیح انسان محض ہیں۔ اسی طرح سابلیوں کے عقائد بھی اسی میں شامل تھے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے اب ، ابن اور روح القدس تینوں مختلف اوصاف جن کا اطلاق اللہ نے اپنی ذات پر کیا ہے۔ اسی طرح اریوسی بھی تھے جن کے عقائد یہ تھے کہ بیٹا ازلی نہیں ہے بلکہ باپ کی مخلوق ہے۔ لیکن اس کی تخلیق ، تخلیق عالم سے پہلے ہوئی ہے۔ لہذا اس کا درجہ رب سے کم ہے۔ بلکہ یہ رب کے تابع اور مطیع ہے۔ ان میں مقدونی بھی تھے جن کا عقیدہ یہ تھا کہ روح القدس سرے سے اقنوم ہی نہیں ہے "

آج کل کلیسا کے جو عقائد ہیں 325 میں نیقیا کی مجلس نے وضع کیا ہے۔ اس کے بعد قسطنطنیہ کی کانفرنس نے 381 ء میں اس کی توثیق کی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ابن اور روح القدس دونوں خدائی اور الوہیت میں باپ کے برابر ہیں اور ابن ازل ہی میں باپ کے ساتھ ہی پیدا ہوا۔ جبکہ روح القدس رب سے نکلا۔ پھر طلیطہ کی مجلس نے 589 میں یہ فیصلہ کردیا کہ روح باپ کے ساتھ بیٹے سے بھی پھوٹا۔ چناچہ پورے لاطینی کلیسا نے اس ترمیم کو قبول کرلیا۔ رہا یونانی کلیسا تو وہ پہلے خاموش رہا۔ لیکن بعد میں اس نے یہ دلائل دیے کہ یہ ترمیم بدعتی ہے۔

عقائدگی کا فقرہ (اور بیٹے سے بھی) یونانی اور کیتھولک کلیسا کے درمیان ہمیشہ باعث اختلاف رہا۔ لوتھرین اور دوسرے اصلاح پسند کلیساؤں کیتھولک کلیسا کے اصل عقائد کو جاری رکھا لیکن تیرہویں صدی کے جمہور اہل کلیسا نے ان کی مخالفت کی اور بعض جدید علمائے الہیات اور اور بعض جدید فرقوں مثلاً سوسینین جرمانین ، محصدین ، عمومیوں وغیرہ نے یہ قرار دیا کہ یہ عقائد کتاب مقدس اور عقل دونوں کے ساتھ لگا نہیں کھاتے۔ مسٹر سویڈ تیرگ نے حضرت مسیح کے اوپر تثلیث کے لفظ کا اطلاق بطور نشان کیا۔ یعنی انہوں نے مختلف اقنونوں کی تثلیث کے بجائے ایک اقنوم کی تثلیث کا نظریہ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا مسیح کی ذات میں جو الوہیت تھی ، وہ رب تھا۔ اور مسیح کی طبیعی ذات کے ساتھ جس کا تعلق تھا وہ ابن تھا اور اس سے جو پھوٹا وہ روح القدس تھا۔ لوتھرین کلیسوں میں جو خیالات ایک عرصے تک پھیلے ان کی وجہ سے جرمانی علماء الہیات کے اعتقادات میں بڑا تزلزل پیدا ہوا اور ایک عرصے تک رہا "

" کنٹ کا نظریہ یہ تھا کہ الہیہ میں جو تین صفات تھیں نا کا نام رب ، ابن اور روح القدس ہے۔ ان سے مراد قدرت ، حکمت اور محبت ہے۔ یا ان سے مراد تین اعلی افعال ہیں یعنی تخلیق ، حفاظت اور کنٹرول ہیں۔ ہیبجین اور شلنگ نے ایک تخلیاتی اساس دی ہے اور نتاحر جرمانی علمائے الہیات نے اس کی تقلید کی ہے۔ انہوں نے نظریہ تثلیث کا دفاع تخیلاتی اساس پر کیا۔ بعض علماء لاہوت جو وحی پر اعتماد کرتے ہیں وہ تحقیق کی بنیادوں پر اہل کلیسا کی آراء کو درست نہیں سمجھتے۔ یعنی ان آراء کو جن کا فیصلہ مجالس نیقیا ، قسطنطنیہ ، ماضی قریب میں سابیلیوں کی حمایت بہت لوگوں نے کی ہے "

اس اجمالی بحث کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ اہل کنیسا کے تمام فرقے اور مذاہب دین حق پر نہیں ہیں۔ کسی کے ہاں عقیدہ توحید صحیح معنوں میں نہیں پایا جاتا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جیسا کوئی نہیں ہے اور یہ کہ اللہ لم یلد و لم یولد کا مصداق ہے۔

اریوسی بارہا یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ موحد ہیں ، ان لوگوں کا یہ دعوی گمراہ کن ہے کیونکہ وہ اس طرح موحد نہیں جس طرح مسلمان موحد ہیں بلکہ انہوں نے اپنے عقائد کے اندر اختلاط کردیا ہے۔ وہ ایک طرف یہ اقرار کرتے ہیں کہ حضرت مسیح اللہ کی طرح ازلی نہیں ہے اور ان کی یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ابنیت کے بھی قائل ہیں اور اس کے بھی قائل ہیں کہ حضرت مسیح عالم سے بھی پہلے کی مخلوق تھے۔ لہذا یہ عقیدہ عقیدہ توحید نہیں کہلایا جاسکتا۔

اللہ نے تو ان لوگوں کو صریحاً کافر کہہ دیا ہے کہ مسیح ابن اللہ ہے یا وہ تینوں میں سے ایک ہے۔ لہذا کفر کی صفت اور ایمان کی صفت ایک ہی عقیدے میں کس طرح جمع ہوسکتے ہیں جبکہ یہ متضاد صفات اور متضاد امور ہیں۔

قرآن کریم نے یہودیوں کے قول (عزیر ابن اللہ ہیں) اور عیسائیوں کے قول کہ (عیسی ابن اللہ ہیں) پر جو تبصرہ کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی بات دوسرے کفار کے تصورات اور معتقدات کے برابر ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ " یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بےحقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے "

اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات ان سے صادر ہوئی تھی ، محض ان کی طرف منسوب ہی نہیں ہے۔ اور یہاں (افواھھم) کے لفظ کو بےمقصد نہیں لایا گیا بلکہ جب وہ یہ قول کر رہے تھے تو اس وقت ان کے چہرے کی جو حسی کیفیت تھی اس کی طرف بھی اشارہ مقصود تھا لہذا یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ افواھھم کا لفظ زائد ہے اور بےمقصد ہے کیونکہ اللہ کے شایان شان یہ نہیں کہ وہ کوئی بےمقصد بات کرے۔ نہ یہ طوالت ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ تصویر کشی میں حقیقی صورت حال کو سامنے لاتا ہے۔ پھر اس لفظ سے یہ اشارہ دینا بھی مطلوب ہے کہ یہ ان کی جانب سے محض ہوائی بات ہے۔ اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ صرف قول ہی قول ہے۔ اس کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔

يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ " یہ باتیں ان لوگوں کے دیکھا دیکھی یہ کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے "۔ مفسرین یہ کہتے تھے کہ ان لوگوں کا عقیدہ ابنیت اسی طرح ہے جس طرح مشرکین کا عقیدہ ابنیت ملائکہ تھا۔ اور ملائکہ کی ابنیت کے عرب قائل تھے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے۔ لیکن آیت کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ اور اس کی وضاحت اچھی طرح تب ہوئی جب لوگوں تک ہندو بت پرستوں کے عقائد پہنچے۔ یہ عقائد قدیم مصری بت پرستوں اور یونانیوں کے عقائد سے ملتے جلتے ہیں۔ اور یہی عقائد اہل کتاب کے اندر سرایت کرگئے۔ خصوصاً نصاری کے عقائد کے اندر۔ سب سے پہلے " پولوس رسول " کے عقائد میں یہ تصورات داخل ہوئے اور اس کے بعد نصاریٰ کی نظریاتی مجالس میں غلبہ پا کر یہ پھیل گئے۔

مصری تثلیث کے اجراء اور زوریس (رب) ایزیس اور موریس (ابن) فرعون بت پرستی کا اصل الاصول ہے۔

حضرت مسیح کی پیدائش سے بھی پہلے جو فلسفہ الہیات اسکندریہ میں پڑھایا جاتا تھا اس میں " کلمہ " کو دوسرا الہہ کہا گیا تھا۔ اور اسے " اللہ کا کنوارا بیٹا " بھی کہا جاتا تھا۔

ہندو بھی تین اقانیم کے قائل تھے یا وہ ان کو الہہ کے تین حالات سے تعبیر کرتے تھے جن میں اللہ تجلی فرماتا ہے۔ تخلیق وتکوین کی حالت میں اسے برہما کہا جاتا ہے۔ حفاظت اور قیم کی حیثیت سے وہ " وشنو " ہے اور ہلاک کرنے اور برابد کرنے کی حالت میں " وسیقا " کہا جاتا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق وشنو (ابن) ہوتا ہے اور وہ برنیما کی الوہیت سے پھوٹتا ہے۔

اشوری بھی کلمہ کے قائل تھے۔ اسے وہ " مردوخ " کہتے تھے اور وہ مردوخ کو " اللہ کا کنوارا بیٹا " کہتے تھے۔

یونانی بھی مثلث الا قانیم الہہ کے قائل تھے۔ جب ان کے کہاں زبیح کرتے تو ان پر تین بار مقدس پانی چھڑکتے اور اسی طرح وہ خوشبو کے برتن سے تین انگلیوں میں خوشبو لیتے۔ اور اس ذبیحے کے ارد گرد جتنے لوگ ہوتے۔ ان پر اس خوشبو کو تین بار چھڑکتے اور یہ سب اشارات و تثلیث کی طرف کرتے تھے۔ کنیسہ نے یہی اشارات اخذ کرکے اپنے ہاں رسوم و عبادات کو اس طرح منطم کیا کہ وہ دوسرے کفار کے اقوال سے مشابہ ہوگئے۔

نزول قرآن کے وقت قدیم مشرکین کے یہ عقائد عام نہ تھے لیکن اس کے باوجود علیم وخبیر نے فرمایا یضاھئون قول الذین کفرو من قبل " یہ لوگ یہ باتیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی کرتے ہیں جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے "۔ نیز ان عقائد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل کتاب دین حق پر نہیں ہیں اور ان کا ایمان ، ایمان صحیح نہیں ہے اور اس کے علاوہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے قرآن مجید علیم وخبیر کی جانب سے ایک کلام معجز نما ہے اور اس کا سرچشمہ صرف ذات باری ہے۔

اس فیصلے اور وضاحت کے بعد آیت کے آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب شرک و کفر کے کس موقف پر قائم ہیں ؟ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ " خدا کی مار ہو ان پر کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں "۔ ان کو خدا تباہ کرے ، کس طرح وہ حق سے روگردانی کرتے ہیں حالانکہ وہ سیدھا سادھا اور واضح ہے اور بت پرستی کو اپنانے میں جو نہایت ہی پیچیدہ اور گنجلک ہے اور کوئی عقلمند اور ذی ہوش انسان بت پرستی کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔

اردو ترجمہ

انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ittakhathoo ahbarahum waruhbanahum arbaban min dooni Allahi waalmaseeha ibna maryama wama omiroo illa liyaAAbudoo ilahan wahidan la ilaha illa huwa subhanahu AAamma yushrikoona

اب قرآن کریم اہل کتاب کی گمراہیوں اور انحرافات کا ایک دوسرا ورق الٹتا ہے۔ یہاں اب ان کی گمراہی محض اعتقاد اور اقوال تک محدود نہیں ہے بلکہ اس فاسد اعتقادات و تصورات پر ان کی جو عملی صورت حال بنتی ہے اس کے اعتبار سے بھی وہ گمراہ اور منحرف ہیں۔

۔۔۔

اس آیت میں بھی یہی بات جاری ہے جو اس سبق کا اصلی موضوع یعنی یہ کہ یہ لوگ در اصل اہل کتاب ہی نہیں۔ لہذا اس حوالے سے ان کو دین حق پر نہیں سمجھا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دین اسلام پر نہیں ہیں۔ اس بات کی شہادت ان کی عملی زندگی دے رہی ہے۔ اس کی شہادت ان کے تصورات دے رہے ہیں ، ان کو حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کریں مگر انہوں نے اپنے احبارو رہبان کو اللہ کے سوا الہ بنا دیا جیسا کہ انہوں نے حضرت مسیح کو رب بنایا جو ان کی جانب سے صریح شرک ہے۔ ج کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے اعتقادات و تصورات کے اعتبار سے اور اپنے اعمال اور واقعی زندگی کے اعتبار سے دین حق پر نہیں ہیں۔

ان لوگوں نے اپنے احبارو رہبان کو کس طرح ، اللہ کے مقابلے میں رب قرار دیا تھا ؟ اس کی تشریح کرنے سے قبل ہم چاہتے ہیں کہ اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے منقول تفسیری روایات یہاں نقل کردیں۔ کیونکہ خود حضور کی تفسیر قول فیصل ہے۔

احبار لغت کے اعتبار سے حبر یا حبر کی جمع ہے۔ یعنی حاء کے کسرے یا فتح کے ساتھ۔ یہ اہل کتاب کے علماء کا لقب ہے۔ اور علمائے یہود پر اس کا اطلاق زیادہ ہے۔ رہبان راہب کی جمع ہے۔ یہ عیسائیوں کے نزدیک اس شخص کو کہا جاتا ہے جو عبادت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے اور تمام دوسری سرگرمیوں سے کٹ جائے۔ بالعموم ایسا شخص شادی نہیں کرتا ، نہ کوئی روزگار کرتا ہے۔ لہذا وہ معاشی تکلفات سے بےغم ہوتا ہے۔

در منثور میں امام ترمذی کی روایت ہے جسے انہوں نے حدیث حسن کہا ہے۔ نیز ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابو الشیخ اور ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ یہ روایت حضرت عدی ابن حاتم کی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں حضور کے پاس آیا تو آپ سورة توبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے یہ آیت پڑھی اتخذوا احبارھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ۔ تو حضور نے فرمایا " یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ وہ ارباب و رہبان کی عبادت نہ کرتے تھے لیکن یہ بات تھی کہ جب وہ ان کے لیے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال سمجھتے اور جس چیز کو وہ حرام قرار دیتے تو یہ اسے حرام سمجھتے "

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حضرت عدی ابن حاتم کی یہ روایت نقل کی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ان تک حضور اکرم ﷺ کی دعوت پہنچی تو وہ شام کی طرف بھاگ نکلے۔ یہ صاحب جاہلیت میں عیسائی بن گئے تھے۔ چناچہ ان کی بہن اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ گرفتار ہوئی ، تو حضور اکرم نے ان کے ساتھ بہت ہی کریمانہ برتاؤ کیا اور اسے عطیات دئیے۔ یہ اپنے بھائی کے پاس واپس گئی اور اسے اسلام کی طرف رغبت دلائی اور اس پر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ جائیں۔ چناچہ حضرت عدی مدینہ گئے۔ یہ اپنی قوم دلی کے رئیس تھے اور ان کے والد حاتم الطائی جود و کرم میں مشہور زمانہ تھے۔ لوگوں کے اندر مدینہ میں اس کی آمد کا چرچا ہوا۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ ان کے گلے میں سونے کی صلیب تھی حضور یہ آیت پڑھ رہے تھے اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۔ تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ حضور عیسائی تو احبارو رہبان کی عبادت نہیں کرتے۔ تو حضور نے فرمایا یہ درست ہے کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے۔ لیکن انہوں نے ان کے لیے حلال اور حرام کی حدود خود متعین کی ہیں اور لوگ اس معاملے میں ان کی اطاعت کرتے ہیں لہذا یہ ان عوام کی طرف سے ان کی بندگی ہے۔

امام سدی کہتے ہیں کہ انہوں نے انسانوں کو اپنا مقتدا بنا لیا تھا اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے : وما امروا الا لیعبدوا الھا واحدا " حالانکہ ان کو صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ کی بندگی کریں " یعنی اللہ جس چیز کو حلال قرار دے اسے حلال سمجھیں اور اللہ جسے حرام قرار دے اسے حرام سمجھیں۔ یعنی اللہ نے جو قانون بنایا اس کی اطاعت ہو اور جو حکم دیا وہ نافذ ہو۔

امام آلوسی اپنی مشہور تفسیر میں کہتے ہیں " مفسرین کی اکثریت نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ احبارو رہبان کو الہہ العالم سمجھتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ان کے اوامرو نواہی میں ان کی اطاعت کرتے تھے "۔

اس واضح ترین آیت اور پھر حضور اکرم کی توضیح و تشریح پر قدماء مفسرین اور متاخرین مفسرین کی تشریحات سے ہمارے سامنے دین اسلام کے اصلی تصورات و عقائد کے حوالے سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ اور یہ نتائج نہایت ہی اہم اور مختصر ہیں۔

نص قرآن اور تشریحات رسول کے مطابق عبادت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کا اتباع کیا جائے۔ کیونکہ یہود و نصاری اپنے احبار اور رہبان کو عقیدۃ الہ نہ سمجھتے تھے اور نہ ان کے سامنے مراسم عبودیت بجا لاتے تھے لیکن اس حقیقت کے باوجود اللہ نے ان پر کفر کا الزام لگایا۔ محض اس لیے کہ یہ لوگ شریعت کو اپنے مذہبی مقتداؤں سے اخذ کرتے تھے اور پھر اس کی اطاعت کرتے تھے۔ لہذا اگر کوئی کسی کو الہہ نہیں بھی سمجھتا اور اس کے سامنے مراسم عبودیت نہیں بھی بجا لاتا لیکن اگر اس سے قانون و شریعت اخذ کرتا ہے کہ تو یہ شخص مشرک و کافر ہے اور جس سے وہ قانون اخذ کرتا ہے وہ بمنزلہ رب ہے۔

یہود جو اپنے احبار سے قانون اخذ کرتے تھے اور نصاری جو مسیح کو الہ بھی سمجھتے تھے اور رہبان سے قانون لیتے تھے دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی درجے میں رکھا ہے اور دونوں کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں فرمایا کیونکہ دونوں ارتکاب شرک میں برابر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

جونہی ایک شخص اللہ کے سوا کسی اور کو حق قانون سازی دیتا ہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ اسے الہہ یا معبود نہ سمجھتا ہو اور اس کے سامنے مراسم عبودیت بجا نہ لاتا ہو۔ جیسا کہ درج بالا تشریحات سے واضح ہوگیا ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس نکتے کی مزید تشریح کریں۔

یہ حقائق جب مسلمانوں کے سامنے پیش کیے گئے تو اس وقت امت مسلمہ کو مخصوص حالات درپیش تھے۔ اس میں رومیوں کے ساتھ جنگ کا مسئلہ درپیش تھا۔ اور بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ تردد اور خلجان تھا کہ رومی بہرحال اہل کتاب تو ہیں ، اس لیے اس تردد اور شبہہ کو دور کرنے کے لیے یہ آیات اتریں اور یہ بتایا گیا کہ اگرچہ اہل کتاب مومن باللہ ہیں اور یہ کہ ان کے ایمان کی حالت یہ ہے لیکن مخصوص حالات میں نزول کے باوجود ان آیات میں دین اسلام کے عام اصول اور مطلق حقائق بتائے گئے ہیں۔

اللہ کے نزدیک دین حق صرف اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ دین اسلام کے سوا لوگوں کی جانب سے کوئی اور دین قبول نہیں کرتا۔ اور دین اسلام دنیا میں مکمل طور پر قائم تب ہوگا جب اس زمین پر اللہ کی شریعت نافذ ہوجائے اور اس شریعت کے نفاذ سے بھی پہلے یہ کہ لوگ اللہ وحدہ کو الہہ سمجھیں اور مراسم عبودیت بھی صرف اس کے سامنے بجا لائیں۔ تو اگر لوگ اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور قانون کے متبع ہوں تو ان میں وہ شرط موجود ہوگئی جو یہود و نصاری میں موجود تھی اور اس وجہ سے ان کو غیر مومن قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ وہ بار بار مومن ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ کے سوا کسی انسان کی شریعت کو قبول کرتے ہی وہ لوگ مشرک ٹھہرے۔ الا یہ کہ کوئی ایسی صورت حال ہو کہ وہ غیر اسلامی قانون نظام میں مجبوراً رو رہے ہوں اور مجبوراً اس کا اتباع کر رہے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اس نظام کو دور کرنے کی جدوجہد بھی کر رہے ہوں

لفظ دین کا مفہوم اس قدر سکڑ گیا ہے کہ لوگ اسے صرف دینی عقیدے کے مترادف سمجھنے لگے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ مراسم عبودیت اور پرستش تک وسیع کرتے ہیں۔ اس حد تک تو یہودی بھی اپنے دین کے متبع تھے اور اس محدود معنی میں اپنے آپ کو دین دار کہتے تھے لیکن حضور ﷺ کی تشریح تو یہ بتاتی ہے کہ حقیقی عنوں میں وہ نہ مومن تھے اور نہ دیندار تھے کیونکہ انہوں نے احبارو رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا تھا۔

دین کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے اور اس کا تحقق تب ہوسکتا ہے جب کوئی خدا کے قانونی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ لہذا یہ معاملہ بہت ہی سنجیدہ ہے اور یہ مفہوم ان لوگوں کے اہل دین ہونے کو تسلیم نہیں کرتا جو شریعت کے علاوہ دوسرے قانونی نظاموں کے متبع ہیں ، الا یہ وہ مجبور ہوں۔ نہ اسلام میں ایسے لوگ مسلم اور مومن ہیں صرف اس لیے کہ وہ اللہ کو الہ واحد سمجھتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں۔ ہمارے دور میں عوام کو جو ڈھیل دے دی گئی ہے یہ دین اسلام کے لیے بہت ہی خطرناک ڈھیل ہے۔ یہ در اصل ایک خطرناک ہتھیار ہے جو اسلام کے دشمن اسلام کی بیخ کنی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ ان حالات اور ان افراد پر اسلام کی تختی نصب کرتے ہیں جن کے بارے میں اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ یہ اہل دین نہیں ، یہ تو مومن نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے لوگوں کو رب بنایا ہوا ہے۔ جب دشمنان دین کو یہ اصرار ہے کہ ایسے لوگوں کو وہ دیندار ثابت کریں جو درحقیقت دیندار نہیں ہیں۔ تو اسلام کے حامیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ ایسے حالات کو غیر اسلامی حالات ثابت کریں۔ ایسے افراد اور ایسے معاشروں کو غیر اسلامی افراد اور معاشرے ثابت کریں۔ اور اس مسئلے کی حقیقت کو کھول کر بیان کریں کہ ایسے لوگوں نے دوسرے افراد کو رب بنا رکھا ہے۔ حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا :

تَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لا إِلَهَ إِلا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ " انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا ، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں "

191