اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 148 لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ الاَّ مَنْ ظُلِمَ ط جس کا دل دکھا ہے ‘ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ‘ نہ صرف یہ کہ اس کے جواب میں اس کی زبان سے نکلنے والے کلمات پر گرفت نہیں ‘ بلکہ مظلوم کی دعا کو بھی قبولیت کی سند عطا ہوتی ہے۔ کسی فارسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے : بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کر دن اِجابت از درِ حق بہر استقبال می آید کہ مظلوم کی آہوں سے ڈرو کہ اس کی زبان سے نکلنے والی فریاد ایسی دعا بن جاتی ہے جس کی قبولیت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا استقبال کرنے کے لیے عرش سے آتی ہے۔ وَکَان اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا اسے سب معلوم ہے کہ جس کے دل سے یہ آواز نکلی ہے وہ کتنا دکھی ہے۔ اس کے احساسات کتنے مجروح ہوئے ہیں۔
آیت 149 اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ جہاں تک تو خیر کا معاملہ ہے تم اسے بلند آواز سے کہو ‘ ظاہر کرو یا چھپاؤ برابر کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خیر تو ہر حال میں خیر ہی ہے ‘ عیاں ہو یا خفیہ۔اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کردینا یقیناً نیکی کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس لیے یہاں ترغیب کے انداز میں مظلوم سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ تمہیں چھوٹ ہے ‘ تمہاری بدگوئی کی بھی تم پر کوئی گرفت نہیں ‘ لیکن زیادتی کی تلافی کا اس سے اعلیٰ اور بلند تر درجہ بھی ہے ‘ تم اس بلند درجے کو حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ وہ یہ کہ تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دو۔ اس کے ساتھ اللہ کی قدرت کا ذکر بھی ہوا ہے کہ انسان تو بسا اوقات بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کے باعث معاف کرنے پر مجبور بھی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ قدیر ہے ‘ وہ تو جب چاہے ‘ جیسے چاہے there then خطاکار کو فوراً سزا دے کر حساب چکاسکتا ہے۔ لیکن اتنی قدرت کے باوجود بھی وہ معاف فرما دیتا ہے۔ آئندہ آیات میں پھر وحدت الادیان جیسے اہم مضمون کا تذکرہ ہونے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں یہاں تمام غلط نظریات کی جڑ کاٹی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ بات زیر بحث آچکی ہے کہ فلسفۂ وحدت ادیان کا ایک حصہ صحیح ہے۔ وہ یہ کہ اصل origin سب ادیان کی ایک ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف ادیان کی موجودہ شکلوں میں بھی یک رنگی اور ہم آہنگی ہے تو اس سے بڑی حماقت ‘ جہالت ‘ ضلالت اور گمراہی کوئی نہیں۔ یہاں پر اب کانٹے کی بات بتائی جا رہی ہے کہ دین میں جس چیز کی وجہ سے بنیادی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ وہ غلطی یا خرابی ہے اللہ اور رسولوں میں تفریق ! ایک تفریق تو وہ ہے جو رسولوں کے درمیان کی جاتی ہے ‘ اور دوسری تفریق اللہ اور رسول ﷺ کو علیحدہ علیحدہ کردینے کی شکل میں سامنے آتی ہے ‘ اور یہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ فتنۂ انکار حدیث اور انکار سنت اسی جہالت و گمراہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اہل قرآن سمجھتے ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ رسول ﷺ کا کام قرآن پہنچا دینا تھا ‘ سو انہوں نے پہنچا دیا ‘ اب اصل معاملہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اللہ کی کتاب عر بی زبان میں ہے ‘ ہم اس کو خود سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ رسول ﷺ نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو جو اس کی تشریح سمجھائی تھی اور اس زمانے کے لوگوں نے اسے قبول کیا تھا ‘ وہ اس زمانے کے لیے تھی۔ گویا رسول ﷺ کی تشریح کوئی دائمی چیز نہیں ‘ دائمی شے صرف قرآن ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ کو جدا کردیا۔ یہاں اسی گمراہی کا ذکر آ رہا ہے۔
آیت 150 اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ اکبر کے دین الٰہیکا بنیادی فلسفہ بھی یہی تھا کہ بس دین تو اللہ ہی کا ہے ‘ رسول ﷺ کی نسبت ضروری نہیں ‘ کیونکہ جب دین کی نسبت رسول کے ساتھ ہوجاتی ہے تو پھر دین رسول کے ساتھ منسوب ہوجاتا ہے کہ یہ دین موسیٰ علیہ السلام ہے ‘ یہ دین عیسیٰ علیہ السلام ہے ‘ یہ دین محمد ﷺ ہے۔ اگر رسولوں کا یہ تفرقی عنصر differentiating factor درمیان سے نکال دیا جائے تو مذاہب کے اختلافات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اللہ تو سب کا مشترک common ہے ‘ چناچہ جو دین اسی کے ساتھ منسوب ہوگا وہ دین الٰہی ہوگا۔وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ لا یعنی اللہ کو مانیں گے ‘ رسولوں کا ماننا ضروری نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب کو مانیں گے ‘ رسول ﷺ کی سنت کا ماننا کوئی ضروری نہیں ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً اللہ کو ایک طرف کردیں اور رسول کو ایک طرف۔
آیت 152 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ نہ اللہ کو رسول سے جدا کیا اور نہ رسول کو رسول سے جدا کیا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سب کو مانتے ہیں : لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ البقرہ : 285۔ ہم ان رسولوں کو بھی مانتے ہیں جن کے نام قرآن مجید میں آگئے ہیں ‘ اور یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کے علاوہ بھی اللہ کی طرف سے بیشمار نبی اور رسول آئے ہیں۔
آیت 153 یَسْءَلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ یعنی جیسے تورات اتری تھی ‘ ویسے ہی تحریری شکل میں ایک کتاب آسمان سے اترنی چاہیے۔ آپ ﷺ تو کہتے ہیں مجھ پر وحی آتی ہے ‘ لیکن کہاں لکھی ہوئی ہے وہ وحی ؟ کون لایا ہے ؟ ہمیں تو پتا نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کو تو ان کی کتاب لکھی ہوئی ملی تھی اور وہ پتھر کی تختیوں کی صورت میں اسے لے کر آئے تھے۔ آپ پر بھی اسی طرح کی کتاب نازل ہو تو ہم مانیں۔فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ یہ تعجب کی بات نہیں انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑھ کر مطالبے کیے تھے اے نبی ﷺ آپ فکر نہ کریں ‘ ان کی پروا نہ کریں۔ انہوں نے ‘ ان کے آباء و اَجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑے بڑے مطالبات کیے تھے۔فَقَالُوْْٓا اَرِنَا اللّٰہَ جَہْرَۃً کہ ہم خود اپنی آنکھوں سے اسے دیکھنا چاہتے ہیں ‘ جب دیکھیں گے تب مانیں گے۔فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ ج۔ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ ان لوگوں کی نا ہنجاری کا اندازہ کریں کہ نو نو معجزے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِکَ ج وَاٰتَیْنَا مُوْسٰی سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا ۔فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو ان کی آنکھوں کے سامنے غرق کردیا۔
آیت 154 وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِہِمْ وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا یعنی جب اریحا Jericho شہر تمہارے ہاتھوں فتح ہوجائے اور اس میں داخل ہونے کا مرحلہ آئے تو اپنے سروں کو جھکا کر عاجزی کے ساتھ داخل ہونا۔