اس صفحہ میں سورہ Al-Qasas کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ القصص کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
سنی ان سنی نہ کرو اللہ کا احسان دیکھو کہ بغیر تمہاری کوشش اور تدبیر کے دن اور رات برابر آگے پیچھے آرہے ہیں اگر رات ہی رات رہے تو تم عاجز آجاؤ تمہارے کام رک جائیں تم پر زندگی وبال ہوجائے تم تھک جاؤ اکتاجاؤ کسی کو نہ پاؤ جو تمہارے لئے دن نکال سکے کہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو، دیکھو بھالو اپنے کام کاج کرلو۔ افسوس تم سنا کر بھی بےسناکر دیتے ہو۔ اسی طرح اگر وہ تم پر دن ہی دن کو روک دے رات آئے ہی نہیں تو بھی تمہاری زندگی تلخ ہوجائے۔ بدن کا نظام الٹ پلٹ ہوجائے تھک جاؤ تنگ ہوجاؤ کوئی نہیں جسے قدرت ہو کہ وہ رات لاسکے جس میں تم راحت وآرام حاصل کرسکو لیکن تم آنکھیں رکھتے ہوئے اللہ کی ان نشانیوں اور مہربانیوں کو دیکھتے ہی نہیں ہو۔ یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے دن رات دونوں پیدا کردئیے ہیں کہ رات کو تمہیں سکون وآرام حاصل ہو اور دن کو تم کام کاج تجارت ذراعت سفر شغل کرسکو۔ تمہیں چاہئے کہ تم اس مالک حقیقی اس قادر مطلق کا شکر ادا کرو رات کو اس کی عبادتیں کرو رات کے قصور کی تلافی دن میں اور دن کے قصور کی تلافی رات میں کرلیا کرو۔ یہ مختلف چیزیں قدرت کے نمونے ہیں اور اس لئے ہیں کہ تم نصیحت وعبرت سیکھو اور رب کا شکر کرو۔
افترا بندی چھوڑ دو مشرکوں کو دوسری دفعہ ڈانٹ دکھائی جائے گی اور فرمایا جائے گا کہ دنیا میں جنہیں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ ہر امت میں سے ایک گواہ یعنی اس امت کا پیغمبر ممتاز کرلیا جائے گا۔ مشرکوں سے کہا جائے گا اپنے شرک کی کوئی دلیل پیش کرو۔ اس وقت یہ یقین کرلیں گے کہ فی الواقع عبادتوں کے لائق اللہ کے سوا اور کوئی نہیں۔ کوئی جواب نہ دے سکیں گے حیران رہ جائیں گے اور تمام افترا بھول جائیں گے۔
قارون مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ ؑ کے چچا کا لڑکا تھا۔ اس کا نسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ ؑ کا نسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث۔ ابن اسحاق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ کا چچا تھا۔ لیکن اکثر علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں۔ یہ بہت خوش آواز تھا، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہوگیا تھا۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔ اس کے بہت خزانے تھے۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے، واللہ اعلم۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہوجاؤ گے۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہوجائے۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش و عشرت کر ہی نہیں۔ نہیں اچھا کھا، پی، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا۔