اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 83 وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِ ج یہ ایک واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ مکی دورّ میں جب صحابہ رض ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے تو ان کے ذریعے سے وہاں کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پھر جب مدینہ منورہ میں اسلام کا غلبہ ہوگیا اور عرب میں امن قائم ہوگیا تو ان کا ایک وفد مدینہ آیاجوستر 70 افراد پر مشتمل تھا اور اس میں کچھ نو مسلم بھی شامل تھے۔ آیت زیر نظر میں اس وفد کے ارکان کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے قرآن سناتو حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں۔
آیت 85 فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ط وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ جو خوش قسمت نفوس اسلام قبول کریں ‘ اور اسلام کے بعد ایمان اور پھر ایمان سے آگے بڑھ کر احسان کے درجے تک پہنچ جائیں ان کا بدلہ یہی ہے۔
کھانے پینے کی چیزوں میں حلتّ و حرمت اور تحلیل و تحریم الہامی شریعتوں کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار ان مسائل پر بحث کی گئی ہے اور یہ موضوع سورة البقرۃ سے مسلسل چل رہا ہے۔ عربوں کے ہاں نسل در نسل رائج مشرکانہ اوہام کی وجہ سے بہت سی چیزوں کے بارے میں حلّت و حرمت کے غلط تصورات ذہنوں میں پختہ ہوچکے تھے۔ اس قسم کے خیالات ذہنوں ‘ دلوں اور مزاجوں سے نکلنے میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے بار بار ان مسائل کی طرف توجہ دلائی جار ہی ہے۔آیت 87 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا ط بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تقویٰ کے جوش میں اور بہت زیادہ نیکی کمانے کے جذبے میں بھی کئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر بیٹھتے ہیں ‘ اس لیے فرمایا گیا کہ حد سے تجاوز نہ کرو۔
آیت 88 وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًاص یعنی وہ چیزیں جو قانونی طور پر حلال ہوں اور ظاہری طور پر بھی صاف ستھری ہوں۔
آیت 89 لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ قسموں کے سلسلے میں سورة البقرہ آیت 225 میں ہدایات گزر چکی ہیں ‘ اب یہاں اس ضمن میں آخری حکم آ رہا ہے۔ یعنی ایسی قسمیں جو بغیر کسی ارادے کے کھائی جاتی ہیں ‘ ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ جیسے واللہ ‘ باللہ وغیرہ کا تکیہ کلام کے طور پر استعمال عربوں کی خاص عادت تھی اور آج بھی ہے۔ ظاہر ہے اس کو سن کر کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ شخص باقاعدہ قسم کھارہا ہے۔ تو ایسی صورت میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج۔عَقَّدْتُّم عقد سے باب تفعیل ہے۔ یعنی پورے اہتمام کے ساتھ ایک بات طے کی گئی اور اس پر کسی نے قسم کھائی۔ اب اگر ایسی قسم ٹوٹ جائے یا اس کو توڑنا مقصودہو تو اس کا کفّارہ ادا کرنا ہوگا۔فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط یعنی اگر کسی کے پاس ان تینوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہ ہو ‘ کوئی شخص خود فقیر اور مفلس ہو ‘ اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھ لے۔ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ط یعنی جب کسی صحیح معاملے میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پورا کیا جائے ‘ اور اگر کسی وجہ سے قسم توڑنے کی نوبت آجائے تو اسے توڑنے کا باقاعدہ کفارہ دیا جائے۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ اب شراب اور جوئے کے بارے میں بھی آخری حکم آ رہا ہے۔