اس صفحہ میں سورہ Al-Kahf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الكهف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
ہمیشہ اصحاب جاہ و مال اور اہل ثروت اور اہل ِ اقتدار کے دلوں میں یہی سودا سمایا ہوتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ان کی قدرو منزلت ہے ، اسی طرح آخرت میں بھی انہیں ییہ اعزاز ملے گا۔ عالم بالا میں بھی کرسی نسین ہوں گے۔ اگر اہل ِ دنیا کے ہاں ان کا یہ مرتبہ ہے تو اہل سماء میں کیوں نہ ہوگا۔
اب ذرا اس کے اس ساتھی کو دیکھئے جو فقیر ہے اور اس کے پاس کوئی دولت نہیں ہے۔ نہ کہ اس کے پاس باغ ہے اور نہ اس کے پھل ہیں۔ کیونکہ اس کے نزدیک ان باغات کے مقابلے میں ایک اور چیز ایسی ہے جو زیادہ قیمتی ہے۔ اسے اپنے عقیدت اور ایمان پر فخر ہے۔ اسے اپنے اس رب پر بھی فخر ہے جس کے سامنے بڑے بڑے سر جھک جاتے ہیں۔ یہ شخص اپنے اس مغرور سر پھرے اور منکر حق متکبر ساتھی کو بڑے اعتماد سے مخاطب کرتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز سمجھتے ہو ، لیکن ذرا اپنی پیدائش کو تو دیکھو کہ تمہیں ایک ناپاک پانی سے پیدا کیا ہے ، پھر کیچڑ ہے وہ اسے یاد دلاتا ہے کہ منعم حقیقی کا شکر ادا کرنا لازم ہے اور کبرو غرور کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ یہ رجل صالح ات کہتا ہے کہ تمہارے باغ و راغ کی بہ نسبت مجھے عند اللہ بہتر اجر ملے گا۔
ایک نفس مومن کے اندر ایمانی عزت نفس اس طرح جاگ اٹھتی ہے اس لئے اسے کسی کے مال اور دولت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی وہ کسی کی دولت اور اس کی گردن فرازی سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ سچائی کی بات صاف صاف کرتا ہے اور حق کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرتا۔ ایک سچے مومن کے دل میں یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ جاہ و مال کے مقابلے میں غالب اور بھاری ہے اور یہ کہ اس دنیا کے سازو سامان کے مقابلے میں اس کے لئے قیامت میں جو اجر ہے وہ زیادہ قیمتی ہے یہ کہ وہ اللہ کا فضل چاہتا ہے اور اس کا فضل عظیم ہے اور یہ کہ اللہ کا انتقام بڑا سخت ہے اور وہ کسی بھی وقت ایسے غافلوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
اچاک سرسبزی اور شادابی کے ان مناظر سے نکل کر ہم لوگ تباہی اور بربادی کے مناظر میں داخل ہوتے ہیں۔ تکبر اور اشکبار کے منظر کے بجائے اب ندامت اور اللہ سے مغفرت طلب کا منظر آجاتا ہے۔ وہ بات اب سامنے آجاتی ہے جس کی توقع یہ رجل مومن رکھتا تھا۔
یہ ایک مکمل نظر آنے والا ، مجسم منظر ہے۔ اس باغ کا تمام کا تمام پھل تباہ ہوگیا ہے۔ گویا اس پر ہر جانب سے حملہ ہوا اور اس میں سے ایک دانہ بھی نہ بچا اور اس کے تمام درخت اور بوٹے اپنے تنوں اور تینوں پر پڑے تھے اور اس کے درخت اور بیلیں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھس بن گئیں۔ مالک نے جو یہ منظر دیکھا کہ اس کا باغ تو مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے ، تو وہ اپنے اس عظیم مالی بربادی پر ہاتھ ملنے لگا۔ اس کی پوری کی پوری محنت آج چلی گئی۔ اب تو وہ اس پر بھی تادم ہے کہ اس نے اللہ کے ساتھ اوروں کو شریک کیا۔ اب وہ اللہ کی ربوبیت اور وحدانیت کو پوری طرح تسلیم کر رہا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل اس نے کسی شرکیہ عقیدے کا اظہار نہیں کیا لیکن اس نے اس زمین کی فانی اقدار کو عالم بالا کی لافانی اقدار پر ترجیح دی۔ یہ اس کی جانب سے ایک قسم کا شرک تھا اور اب وہ اس سے بھی تائب ہو رہا ہے ، لیکن اب وقت اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ وحدہ ہی والی ہے اور وہی قادر مطلق ہے۔ نہیں کوئی قوت مگر اس کی قدرت۔ نہیں کوئی نصرت مگر اس کی نصرت ، اس کا ثواب اچھا ثواب ہے اور اگر کسی انسان کی کوئی بچت اللہ کے ہاں باقی ہے تو وہ سب سے زیادہ اچھی بچت ہے۔
اب پردہ کرتا ہے اور یہ منظر بھی اوجھل ہوجاتا ہے جس میں باغ مکمل تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا وہ اپنی تنیوں پر پڑا تھا مالک ہاتھ مل رہا تھا اور شرمندگی سے سرنگوں تھا۔ اللہ کا جلال اس منظر پر سایہ لگن تھا۔ جس کے سامنے انسانی قوت اور انسانی طاقت نیست و نابود ہوی ہے۔
اس منظر کے بعد اب حیات دنیا کو ایک تمثیل سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو حیات دنیا اس باغ کی طرح ہی ہے ، یہ بہت ہی ناپختہ ، مختصر اور بےقرار ہے۔
یہ منظر درحقیقت ایک مختصر جھلکی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو بتایا جائے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ آسمانی سے پانی برستا ہے ، یہ پانی نہ بہتا ہے اور نہ سیلاب کی شکل اختیار کرتا ہے بلکہ یہ براہ راست نباتات کے ساتھ مختلط ہوجاتی ہے اور یہ نباتات ابھی پوری طرح نشو و نما نہیں پاتے اور پکتے ہی نہیں کہ یہ ایک بھوسے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور وہ دیکھو ہوا اس بھوسے کو اڑائے پھرتی ہے۔ غرض تین مختصر ترین جملوں میں زندگی کی کہانی کہہ دی جاتی ہے۔
یہاں تین فقروں کے اندر مختصر ترین جملوں میں زندگی کی کہانی کہہ دی جاتی ہے۔
یہاں تین فقروں کے اندر مختصر ترین انداز میں پوری زندگی کی کہانی کہہ دی اور پھر یہ کہا کہ زندگی بہت ہی مختصر ہے۔ کس قدر مختصر اور کس قدر آسان بس
کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض (81 : 53) ” اس پانی کی طرح جسے ہم نے آسمان سے برسا دیا تو زمین کی پود خوب گھنی ہوگئی ‘ دنیائے فانی کی زندگی کی یہ مختصر جھلکی دکھانے کے بعد ، اب قرآن مجید زندگی کی دائمی قدر بن بتاتا ہے ، جن کو لوگوں مسعبد سمجھتے ہیں لیکن وہ باقی رہنے والی قدریں ہیں اور جن کو اہمیت دی جانی چاہئے۔