سورۃ الفتح (48): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Fath کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفتح کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفتح کے بارے میں معلومات

Surah Al-Fath
سُورَةُ الفَتۡحِ
صفحہ 513 (آیات 16 سے 23 تک)

قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ ٱلْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُو۟لِى بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَٰتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا۟ يُؤْتِكُمُ ٱللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا۟ كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ يُدْخِلْهُ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا ۞ لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَعَدَكُمُ ٱللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِۦ وَكَفَّ أَيْدِىَ ٱلنَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ ءَايَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَٰطًا مُّسْتَقِيمًا وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا۟ عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ ٱللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرًا وَلَوْ قَٰتَلَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَوَلَّوُا۟ ٱلْأَدْبَٰرَ ثُمَّ لَا يَجِدُونَ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا سُنَّةَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبْدِيلًا
513

سورۃ الفتح کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفتح کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اِن پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ "عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہو جائیں گے اُس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر اُسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو دردناک سزا دے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul lilmukhallafeena mina alaAArabi satudAAawna ila qawmin olee basin shadeedin tuqatiloonahum aw yuslimoona fain tuteeAAoo yutikumu Allahu ajran hasanan wain tatawallaw kama tawallaytum min qablu yuAAaththibkum AAathaban aleeman

وہ سخت لڑاکا قوم جن سے لڑنے کی طرف یہ بلائے جائیں گے کونسی قوم ہے ؟ اس میں کئی اقوال ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ہوازن ہے دوسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ ثقیف ہے تیسرے یہ کہ اس سے مراد قبیلہ بنو حنیف ہے چوتھے یہ کہ اس سے مراد اہل فارس ہیں پانچویں یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں چھٹے یہ کہ اس سے مراد بت پرست ہیں بعض فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص قبیلہ یا گروہ نہیں بلکہ مطلق جنگجو قوم مراد ہے جو ابھی تک مقابلہ میں نہیں آئی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ تم ایک ایسی قوم سے نہ لڑو جن کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور ناک بیٹھی ہوئی ہوگی ان کے منہ مثل تہ بہ تہ ڈھالوں کے ہوں گے حضرت سفیان فرماتے ہیں اس سے مراد ترک ہیں ایک حدیث میں ہے کہ تمہیں ایک قوم سے جہاد کرنا پڑے گا جن کی جوتیاں بال دار ہوں گی حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سے مراد کرد لوگ ہیں پھر فرماتا ہے کہ ان سے جہاد قتال تم پر مشروع کردیا گیا ہے اور یہ حکم باقی ہی رہے گا اللہ تعالیٰ ان پر تمہاری مدد کرے گا یا یہ کہ وہ خود بخود بغیر لڑے بھڑے دین اسلام قبول کرلیں گے پھر ارشاد ہوتا ہے اگر تم مان لو گے اور جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہوجاؤ گے اور حکم کی بجا آوری کرو گے تو تمہیں بہت ساری نیکیاں ملیں گی اور اگر تم نے وہی کیا جو حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا یعنی بزدلی سے بیٹھے رہے جہاد میں شرکت نہ کی احکام کی تعمیل سے جی چرایا تو تمہیں المناک عذاب ہوگا۔ پھر جہاد کے ترک کرنے کے جو صحیح عذر ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے پس دو عذر تو وہ بیان فرمائے جو لازمی ہیں یعنی اندھا پن اور لنگڑا پن اور ایک عذر وہ بیان فرمایا جو عارضی ہے جیسے بیماری کہ چند دن رہی پھر چلی گئی۔ پس یہ بھی اپنی بیماری کے زمانہ میں معذور ہیں ہاں تندرست ہونے کے بعد یہ معذور نہیں پھر جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ رسول ﷺ کا فرمانبردار جنتی ہے اور جو جہاد سے بےرغبتی کرے اور دنیا کی طرف سراسر متوجہ ہوجائے، معاش کے پیچھے معاد کو بھول جائے اس کی سزا دنیا میں ذلت اور آخرت کی دکھ مار ہے۔

اردو ترجمہ

اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laysa AAala alaAAma harajun wala AAala alaAAraji harajun wala AAala almareedi harajun waman yutiAAi Allaha warasoolahu yudkhilhu jannatin tajree min tahtiha alanharu waman yatawalla yuAAaththibhu AAathaban aleeman

اردو ترجمہ

اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad radiya Allahu AAani almumineena ith yubayiAAoonaka tahta alshshajarati faAAalima ma fee quloobihim faanzala alsakeenata AAalayhim waathabahum fathan qareeban

چودہ سو صحابہ اور بیعت رضوان پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ بیعت کرنے والے چودہ سو کی تعداد میں تھے اور یہ درخت ببول کا تھا جو حدیبیہ کے میدان میں تھا، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن جب حج کو گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو جواب ملا کہ یہ وہی درخت ہے جہاں رسول اللہ ﷺ سے بیعت الرضوان ہوئی تھی۔ حضرت عبدالرحمن نے واپس آکر یہ قصہ حضرت سعید بن مسیب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا میرے والد صاحب بھی ان بیعت کرنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے کہ بیعت کے دوسرے سال ہم وہاں گئے لیکن ہم سب کو بھلا دیا گیا وہ درخت ہمیں نہ ملا پھر حضرت سعید فرمانے لگے تعجب ہے کہ اصحاب رسول ﷺ سے بھی زیادہ جاننے والے ہو۔ پھر فرمایا ہے ان کی دلی صداقت نیت وفا اور سننے اور ماننے والی عادت کو اللہ نے معلوم کرلیا پس ان کے دلوں میں اطمینان ڈال دیا اور قریب کی فتح انعام فرمائی۔ یہ فتح وہ صلح ہے جو حدیبیہ کے میدان میں ہوئی جس سے عام بھلائی حاصل ہوئی اور جس کے قریب ہی خیبر فتح ہوا پھر تھوڑے ہی زمانے کے بعد مکہ بھی فتح ہوگیا پھر اور قلعے اور علاقے بھی فتح ہوتے چلے گئے۔ اور وہ عزت و نصرت و فتح و ظفر و اقبال اور رفعت حاصل ہوئی کہ دنیا انگشت بدنداں حیران و پریشان رہ گئی۔ اسی لئے فرمایا کہ بہت سی غنیمتیں عطا فرمائے گا۔ سچے غلبہ والا اور کامل حکمت والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں دوپہر کے وقت آرام کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا کی کہ لوگو بیعت کے لئے آگے بڑھو روح القدس آچکے ہیں۔ ہم بھاگے دوڑے حاضر حضور ﷺ ہوئے آپ اس وقت ببول کے درخت تلے تھے ہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جس کا ذکر آیت (لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18؀ۙ) 48۔ الفتح :18) میں ہے۔ حضرت عثمان کی طرف سے آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی بیعت کرلی، تو ہم نے کہا عثمان بڑے خوش نصیب رہے کہ ہم تو یہاں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوں گے یہ سن کر جناب رسول مقبول ﷺ نے فرمایا بالکل ناممکن ہے کہ عثمان ہم سے پہلے طواف کرلے گو کئی سال تک وہاں رہے۔

اردو ترجمہ

اور بہت سا مال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ زبردست اور حکیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamaghanima katheeratan yakhuthoonaha wakana Allahu AAazeezan hakeeman

اردو ترجمہ

اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAadakumu Allahu maghanima katheeratan takhuthoonaha faAAajjala lakum hathihi wakaffa aydiya alnnasi AAankum walitakoona ayatan lilmumineena wayahdiyakum siratan mustaqeeman

کفار کے بد ارادے ناکام ہوئے ان بہت سی غنیمتوں سے مراد آپ کے زمانے اور بعد کی سب غنیمتیں ہیں جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے اور حدیبیہ کی صلح ہے اس اللہ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ کفار کے بد ارادوں کو اس نے پورا نہ ہونے دیا نہ مکہ کے کافروں کے نہ ان منافقوں کے جو تمہارے پیچھے مدینے میں رہے تھے۔ نہ یہ تم پر حملہ اور ہو سکے نہ وہ تمہارے بال بچوں کو ستا سکے یہ اس لئے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور جان لیں کہ اصل حافظ و ناصر اللہ ہی ہے پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہار دیں اور یہ بھی یقین کرلیں کہ ہر کام کے انجام کا علم اللہ ہی کو ہے بندوں کے حق میں بہتری یہی ہے کہ وہ اس کے فرمان پر عامل رہیں اور اسی میں اپنی خیریت سمجھیں گو وہ فرمان بہ ظاہر خلاف طبع ہو، بہت ممکن ہے کہ تم جسے ناپسند رکھتے ہو وہی تمہارے حق میں بہتر ہو وہ تمہیں تمہاری حکم بجا آوری اور اتباع رسول ﷺ اور سچی جانثاری کی عوض راہ مستقیم دکھائے گا اور دیگر غنیمتیں اور فتح مندیاں بھی عطا فرمائے گا جو تمہارے بس کی نہیں لیکن اللہ خود تمہاری مدد کرے گا اور ان مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا سب چیزیں اللہ کے بس میں ہیں وہ اپنا ڈر رکھنے والے بندوں کو ایسی جگہ سے روزیاں پہنچاتا ہے جو کسی کے خیال میں تو کیا ؟ خود ان کے اپنے خیال میں بھی نہ ہوں اس غنیمت سے مراد خیبر کی غنیمت ہے جس کا وعدہ صلح حدیبیہ میں پنہاں تھا یا مکہ کی فتح تھی یا فارس اور روم کے مال ہیں یا وہ تمام فتوحات ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ مسلمانوں کو خوشخبری سناتا ہے کہ وہ کفار سے مرعوب اور خائف نہ ہوں اگر کافر مقابلہ پر آئے تو اللہ اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کی مدد کرے گا۔ اور ان بےایمانوں کو شکست فاش دے گا یہ پیٹھ دکھائیں گے اور منہ پھیر لیں گے اور کوئی والی اور مددگار بھی انہیں نہ ملے گا اس لئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے آئے ہیں اور اس کے ایماندار بندوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کفر و ایمان کا مقابلہ ہو وہ ایمان کو کفر پر غالب کرتا ہے اور حق کو ظاہر کر کے باطل کو دبا دیتا ہے جیسے کہ بدر والے دن بہت سے کافروں کو جو باسامان تھے چند مسلمانوں کے مقابلہ میں جو بےسرو سامان تھے شکست فاش دی۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے میرے احسان کو بھی نہ بھولو کہ میں نے مشرکوں کے ہاتھ تم تک نہ پہنچنے دئیے اور تمہیں بھی مسجد حرام کے پاس لڑنے سے روک دیا اور تم میں اور ان میں صلے کرا دی جو دراصل تمہارے حق میں سراسر بہتری ہے کیا دنیا کے اعتبار سے اور کیا آخرت کے اعتبار سے وہ حدیث یاد ہوگی جو اسی سورت کی تفسیر میں بہ روایت حضرت سلمہ بن اکوع گذر چکی ہے کہ جب ستر کافروں کو باندھ کر صحابہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا تو آپ نے فرمایا انہیں جانے دو ان کی طرف سے ہی ابتدا ہو اور انہی کی طرف سے دوبارہ شروع ہو اسی بابت یہ آیت اتری، مسند احمد میں ہے کہ اسی کافر ہتھیاروں سے آراستہ جبل (تنعیم) کی طرف سے چپ چپاتے موقعہ پا کر اتر آئے لیکن حضور ﷺ غافل نہ تھے آپ نے فورًا لوگوں کو آگاہ کردیا سب گرفتار کر لئے گئے اور حضور ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے ازراہ مہربانی ان کی خطا معاف فرما دی اور سب کو چھوڑ دیا، اور نسائی میں بھی ہے حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں جس درخت کا ذکر قرآن میں ہے اس کے نیچے نبی ﷺ تھے ہم لوگ بھی آپ کے اردگرد تھے اس درخت کی شاخیں حضور ﷺ کی کمر سے لگ رہی تھیں حضرت علی بن ابو طالب اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے حضور ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو اس پر سہیل نے حضور ﷺ کا ہاتھ تھام لیا اور کہا ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے ہمارے اس صلح نامہ میں ہمارے دستور کے مطابق لکھوائیے، پس آپ نے فرمایا (باسمک اللھم) لکھ لو۔ پھر لکھا یہ وہ ہے جس پر اللہ کے رسول محمد ﷺ نے اہل مکہ سے صلح کی اس پر پھر سہیل نے آپ کا ہاتھ تھام کر کہا آپ رسول اللہ ﷺ ہی ہیں تو پھر ہم نے بڑا ظلم کیا اس صلح نامہ میں وہی لکھوائے جو ہم میں مشہور ہے تو آپ نے فرمایا لکھو یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ ﷺ نے اہل مکہ سے صلح کی اتنے میں تیس نوجوان کفار ہتھیار بند آن پڑے آپ نے ان کے حق میں بددعا کی اللہ نے انہیں بہرا بنادیا ہم اٹھے اور ان سب کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کردیا۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں کسی نے امن دیا ہے ـ؟ یا تم کسی کی ذمہ داری پر آئے ہو ؟ انہوں نے انکار کیا لیکن باوجود اس کے آپ نے ان سے درگذر فرمایا اور انہیں چھوڑ دیا اس پر یہ آیت (وھوالذی) الخ، نازل ہوئی (نسائی) ابن جریر میں ہے جب حضور ﷺ قربانی کے جانور لے کر چلے اور ذوالحلیفہ تک پہنچ گئے تو حضرت عمر نے عرض کی اے نبی اللہ ﷺ آپ ایک ایسی قوم کی بستی میں جا رہے ہیں جو برسرپیکار ہیں اور آپ کے پاس نہ تو ہتھیار ہیں نہ اسباب، حضور ﷺ نے یہ سن کر آدمی بھیج کر مدینہ سے سب ہتھیار اور کل سامان منگوا لیا جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو مشرکین نے آپ کو روکا آپ مکہ نہ آئیں آپ کو خبر دی کہ عکرمہ بن ابو جہل پانچ سو کا لشکر لے کر آپ پر چڑھائی کرنے کے لئے آرہا ہے آپ نے حضرت خالد بن ولید سے فرمایا اے خالد تیرا چچازاد بھائی لشکر لے کر آرہا ہے حضرت خالد نے فرمایا پھر کیا ہوا ؟ میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول ﷺ کی اسی دن سے آپ کا لقب سیف اللہ ہوا۔ مجھے آپ جہاں چاہیں اور جس کے مقابلہ میں چاہیں بھیجیں چناچہ عکرمہ کے مقابلہ کے لئے آپ روانہ ہوئے گھاٹی میں دونوں کی مڈبھیڑ ہوئی حضرت خالد نے ایسا سخت حملہ کیا کہ عکرمہ کے پاؤں نہ جمے اسے مکہ کی گلیوں تک پہنچا کر حضرت خالد واپس آگئے لیکن پھر دوبارہ وہ تازہ دم ہو کر مقابلہ پر آیا اب کی مرتبہ بھی شکست کھا کر مکہ کی گلیوں میں پہنچ گیا وہ پھر تیسری مرتبہ نکلا اس مرتبہ بھی یہی حشر ہوا اسی کا بیان آیت (وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀) 48۔ الفتح :24) ، میں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے باوجود حضور ﷺ کی ظفر مندی کے کفار کو بھی بچا لیا تاکہ جو مسلمان ضعفاء اور کمزور مکہ میں تھے انہیں اسلامی لشکر کے ہاتھوں کوئی گذند نہ پہنچے لیکن اس روایت میں بہت کچھ نظر ہے ناممکن ہے کہ یہ حدیبیہ والے واقعہ کا ذکر ہو اس لئے کہ اس وقت تک تو حضرت خالد مسلمان ہی نہ ہوئے تھے بلکہ مشرکین کے طلایہ کے یہ اس دن سردار تھے جیسے کہ صحیح حدیث میں موجود ہے اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ عمرۃ القضاء کا ہو۔ اس لئے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی شرائط کے مطابق یہ طے شدہ امر تھا کہ اگلے سال حضور ﷺ آئیں عمرہ ادا کریں اور تین دن تک مکہ میں ٹھہریں چناچہ اسی قرارداد کے مطابق جب حضور ﷺ تشریف فرما ہوئے تو کافروں نے آپ کو روکا نہیں نہ آپ سے جنگ وجدال کیا۔ اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہو اس لئے کہ فتح مکہ والے سال آپ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر نہیں گئے تھے اس وقت تو آپ جنگی حیثیت سے گئے تھے لڑنے اور جہاد کرنے کی نیت سے تشریف لے گئے تھے پس اس روایت میں بہت کچھ خلل ہے اور اس میں ضرور قباحت واقع ہوئی ہے خوب سوچ لینا چاہیے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ قریش نے اپنے چالیس یا پچاس آدمی بھیجے کہ وہ حضور ﷺ کے لشکر کے اردگرد گھومتے رہیں اور موقعہ پا کر کچھ نقصان پہنچائیں یا کسی کو گرفتار کر کے لے آئیں یہاں یہ سارے کے سارے پکڑے لئے گئے لیکن پھر حضور ﷺ نے انہیں معاف فرما دیا اور سب کو چھوڑ دیا انہوں نے آپ کے لشکر پر کچھ پتھر بھی پھینکے تھے اور کچھ تیربازی کر کے ان کو شہید کردیا حضور ﷺ نے کچھ سوار ان کے تعاقب میں روانہ کئے وہ ان سب کو جو تعداد میں بارہ سو تھے گرفتار کر کے لے آئے آپ نے ان سے پوچھا کہ کوئی عہدو پیمان ہے ؟ کہا نہیں لیکن پھر بھی حضور ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا اور اسی بارے میں آیت (وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24؀) 48۔ الفتح :24) نازل ہوئی۔

اردو ترجمہ

اِس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waokhra lam taqdiroo AAalayha qad ahata Allahu biha wakana Allahu AAala kulli shayin qadeeran

اردو ترجمہ

یہ کافر لوگ اگر اِس وقت تم سے لڑ گئے ہوتے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے اور کوئی حامی و مددگار نہ پاتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw qatalakumu allatheena kafaroo lawallawoo aladbara thumma la yajidoona waliyyan wala naseeran

اردو ترجمہ

یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sunnata Allahi allatee qad khalat min qablu walan tajida lisunnati Allahi tabdeelan
513