سورۃ الفتح (48): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Fath کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفتح کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفتح کے بارے میں معلومات

Surah Al-Fath
سُورَةُ الفَتۡحِ
صفحہ 512 (آیات 10 سے 15 تک)

إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا سَيَقُولُ لَكَ ٱلْمُخَلَّفُونَ مِنَ ٱلْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ أَمْوَٰلُنَا وَأَهْلُونَا فَٱسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِى قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًۢا ۚ بَلْ كَانَ ٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًۢا بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ ٱلرَّسُولُ وَٱلْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰٓ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِى قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًۢا بُورًا وَمَن لَّمْ يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ فَإِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلْكَٰفِرِينَ سَعِيرًا وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا سَيَقُولُ ٱلْمُخَلَّفُونَ إِذَا ٱنطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا۟ كَلَٰمَ ٱللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ ٱللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا۟ لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
512

سورۃ الفتح کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفتح کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena yubayiAAoonaka innama yubayiAAoona Allaha yadu Allahi fawqa aydeehim faman nakatha fainnama yankuthu AAala nafsihi waman awfa bima AAahada AAalayhu Allaha fasayuteehi ajran AAatheeman

ان الذین یبایعونک ۔۔۔۔ فوق ایدیھم (48 : 10) ” اے نبی ﷺ جو تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ، ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا “۔ یہ بات مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان ہونے والی بیعت کو بہت ہی نازل اور ذمہ دارانہ بناتی ہے کہ لوگوں کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے اس عقد میں اللہ کا بھی ہاتھ تھا۔ اللہ یہ بیعت لینے والا تھا اور بیعت کرنے والوں کے ہاتھ کے اوپر اللہ کا ہاتھ تھا اور اللہ کی ذات ! کس قدر عظیم ذات ہے اللہ ، اللہ جو صاحب جلال و اکرام ہے ! اس کا ہاتھ !

اس شعور اور تصور سے انسان کے دل سے اس عہد کو توڑنے کا خیال ہی نکل جاتا ہے۔ چاہے رسول اللہ اس دنیا سے اٹھ ہی کیوں نہ جائیں۔ اللہ تو بہرحال حاضر ہے۔ وہی تو اس عہد کا اصلی فریق ہے اور وہی نگران ہے۔

فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ (48 : 10) “ جو شخص اس عہد کو توڑے گا ، اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہوگا ”۔ اسی کو خسارہ ہوگا۔ اس کے درمیان اور اللہ کے درمیان جو سودا ہوا ہے۔ اس میں فائے میں رہنے والی پارٹی تو وہ خود ہے۔ اللہ تو دونوں جہانوں سے بےنیاز ہے۔ لہٰذا اگر یہ عہد توڑے گا تو نقصان اسی کو ہوگا۔ یہ اللہ کے غضب اور اللہ کی سزا کا مستحق ہوگا۔ کیونکہ اللہ نقص عہد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، اللہ تو وفا۔ عہد کرنے والوں اور وفاداروں کو پسند کرتا ہے۔

ومن اوفی ۔۔۔۔۔۔۔ اجرا عظیما (48 : 10) “ اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا ”۔ علی الاطلاق اجر عظیم ہوگا۔ تفصیلات کے سوا ہی۔ کیونکہ اللہ عظیم ہے جو یہ عہد کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کا اجر بھی عظیم ہے۔ یہ اللہ کے حساب سے عظیم ہے۔ انسان تو اس اجر اور اس اجر کے عطا کرنے والے کی عظمت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انسان نہ اللہ کی عظمت کا تصور کرسکتا ہے نہ اللہ کے عظیم پیمانوں کا تصور کرسکتا ہے کیونکہ انسان خود بھی چھوٹا ہے اور اس کا تصور بھی چھوٹا ہے۔

جب بات بیعت کی حقیقت پر ہو رہی تھی اور وفاداری اور بےوفائی تک پہنچی تو ان لوگوں کا ذکر شروع ہوا ، جنہوں نے اس موقعہ پر بےوفائی کی۔ یعنی مدینہ کے اردگرد دیہات میں رہنے والے لوگ ۔ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر حدیبیہ میں نکلنے سے اس لیے انکار کیا کہ ان کو اللہ کے ساتھ بدظنی تھی اور اس موقعہ پر جو مومنین جارہے تھے ان کے بارے میں ان کو توقع تھی کہ وہ مصیبت میں گرفتار ہوں گے اور نقصان اٹھائیں گے جو قریش کے پاس ان کے گھروں کو جا رہے تھے۔ اس سے قبل یہ قریش مسلسل دو سال مدینہ میں جا کر مسلمانوں کے ساتھ لڑتے رہے تھے۔ ان کے بارے میں اس سورت میں حضور ﷺ کو پیشگی اطلاع کردی گئی ہے کہ جب آپ اور آپ کے رفقاء صحیح سلامت مدینہ پہنچیں گے تو ان لوگوں کے عذرات کیا ہوں گے۔ ان کا خیال تو یہ تھا کہ مسلمان واپس ہی نہ ہوں گے حالانکہ قریش نے مسلمانوں کے ساتھ دس سالہ صلح کرلی۔ اگرچہ شرائط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں ۔ لیکن دراصل قریش نے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کی۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ اور مسلمانوں کو اپنے مساوی تسلیم کیا ، صلح کر کے دشمنی سے اپنے آپ کو چھڑایا۔ بہرحال یہاں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے عدم خروج کے اصل اسباب بھی بتا دیتا ہے اور ان لوگوں کو حضور اکرم ﷺ اور مسلمانوں کے سامنے عریاں کر کے رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس جنگ میں آپ کے ساتھ ، جو نکلے ہیں ، ان کے لئے اچھا مستقبل ہے۔ وہ یہ کہ مستقبل میں ان کو ہی نہایت ہی وافر مقدار میں اموال غنیمت ، فتوحات اور کامیابیاں ملیں گی اور یہ لوگ جو اس مہم سے پیچھے رہ گئے تھے یہ ان سے محروم ہوں گے۔ مستقبل کی آسان مہمات میں یہ اعراب چاہیں گے کہ آپ کے ساتھ جنگ کے لئے نکلیں تا کہ اموال غنیمت میں اپنا حصہ پائیں۔ آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ آسان مہمات میں اب ان کی پیشکش کو قبول نہ فرمائیں۔ اور ان آنے والی مہمات میں صرف ان لوگوں کو لے جائیں جو حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہاں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر تم سچے طور پر جہاد کرنے والے ہو تو تمہیں سخت طاقتور دشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے موقعہ دیا جائے گا ۔ اگر فی الواقع تم جنگ کرنا چاہتے ہو اس وقت پھر نکلنا۔ وہاں اللہ تمہارا جو حصہ ہوگا ، دے گا۔ اگر انہوں نے اس وقت اطاعت کی تو اجر عظیم کے مستحق ہوں گے

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے اب وہ آ کر ضرور تم سے کہیں گے کہ "ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں" یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ان سے کہنا "اچھا، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sayaqoolu laka almukhallafoona mina alaAArabi shaghalatna amwaluna waahloona faistaghfir lana yaqooloona bialsinatihim ma laysa fee quloobihim qul faman yamliku lakum mina Allahi shayan in arada bikum darran aw arada bikum nafAAan bal kana Allahu bima taAAmaloona khabeeran

سیقول لک المخلفون ۔۔۔۔۔ بما تعملون خبیرا (11) بل ظننتم ان لن ۔۔۔۔۔۔ قوما بورا (12) ومن لم یومن باللہ ۔۔۔۔۔ سعیرا (13) وللہ ملک السموت ۔۔۔۔۔ غفورا رحیما (14) سیقول المخلفون ۔۔۔۔۔۔ الا قلیلا (15) قل للمخلفین من الاعراب ۔۔۔۔۔ عذابا الیما (16) (48 : 11 تا 16) “ اے نبی ﷺ بدوی عربوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے اب وہ آکر ضرور تم سے کہیں گے کہ “ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا ، آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ”۔ یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں۔ ان سے کہنا “ اچھا ، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے۔ اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے ؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے۔ (مگر اصل بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو ) بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آسکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کئے اور تم سخت بدباطن لوگ ہو۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگی مہیا کر رکھی ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے ، جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے ، اور وہ غفور ورحیم ہے۔ جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے لگو تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ “ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے ”۔ یہ کہیں گے کہ “ نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو ”۔ (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں۔ ان پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ “ عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لئے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں۔ تم کو ان سے جنگ کرنی ہوگی یا وہ مطیع ہوجائیں گے ۔ اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا ، اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو دردناک سزا دے گا ”۔

قرآن کریم نے یہاں صرف ان لوگوں کے اقوال نقل کر کے ان کی تردید پر ہی اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ اس بہترین موقعہ پر ان کی گہری نفسیات کو لیا ہے۔ ان کے دلوں کے اندر اٹھنے والے وساوس اور خیالات کو لیا ہے ۔ اور پھر اس کے لئے علاج تجویز کیا ہے۔ ان کے اندر جو اخلاقی بیماریاں تھیں ، یہاں ان کی تشخیص کی گئی تا کہ ان کا مناسب علاج کیا جائے۔ جو حقائق ہیں وہ باقی رہیں اور اسلامی تصور حیات کے اصل الاصول واضح کر کے باقی رکھے جائیں۔

مدینہ کے اردگرد کے جو دیہاتی ، باوجود دعوت کے ، حدیبیہ کے موقعہ پر رہ گئے تھے وہ قبائل غفار ، مزینہ اشجع اور اسلم وغیرہ تھے۔ قرآن کہتا ہے ان کا عذر یہ ہوگا۔

شغلتنا اموالنا واھلونا (48 : 11) “ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول رکھا ”۔ اور یہ تو کوئی عذر نہیں ہے۔ ہمیشہ ہر کسی کا مال اور اولاد اور اہل و عیال تو ہوتے ہی ہیں ، اگر ایسے عذرات مقبول ہوں تو پھر کوئی شخص بھی نظریاتی کام اور اپنے عقیدے اور دعوت اسلامی کی ذمہ داریوں کے لئے کوئی وقت نہ پائے گا۔ اور دوسری بات وہ یہ کہیں گے۔

فاستغفرلنا (48 : 11) “ آپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ”۔ لیکن پھر اس میں بھی سچ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے۔

یقولون بالسنتھم ما لیس فی قلوبھم (48 : 11) “ یہ لوگ اپنی زبان سے وہ باتیں کہتے ہیں جو دلوں میں نہیں ہوتیں ”۔

اس موقعہ پر ان کو بتایا جاتا ہے کہ اللہ کا ایک نظام قضا و قدر ہے اور اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ جنگ سے پیچھے رہ جانا تقدیر کو نہیں روک سکتا۔ نہ کسی اقدام کو روکا جاسکتا ہے۔ اللہ کی قدرت کے اندر تم لوگ گھرے ہوئے ہو۔ وہ جس طرح چاہتا ہے ، تصرف کرتا ہے اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے۔ وہ علم کے مطابق تصرفات کرتا ہے۔

قل فمن یملک ۔۔۔۔۔ تعملون خبیرا (48 : 11) “ ان سے کہنا “ اچھا ، یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھنا ہے۔ اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے ؟ تمہارے اعمال سے تو اللہ ہی باخبر ہے ”۔

اس سوال ہی میں بتا دیا کہ ایک سچے مومن کا رویہ کیا ہونا چاہئے ، اسے چاہئے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ اللہ کے احکام کی فوراً تعمیل کرے اور اس میں لیت و لعل نہ کرے۔ کیونکہ توقف کرنے اور لیت و لعل کرنے سے نہ کوئی نقصان رفع ہو سکتا ہے اور نہ نفع موخر ہو سکتا ہے۔ اور عذرات گھڑنا اس سے مخفی نہیں ہے۔ اللہ جزاء و سزا اپنے علم کے مطابق دیتا ہے۔ اس لیے عذرات گھڑنے سے اس کے ہاں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ نہایت ہی بروقت ہدایت ہے۔ مناسب فضا میں ہے اور یہی قرآن کا طریقہ ہے کہ وہ نہایت ہی مناسب وقت پر ٹوک دیتا ہے۔

اردو ترجمہ

(مگر اصل بات وہ نہیں ہے جو تم کہہ رہے ہو) بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آ سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کیے اور تم سخت بد باطن لوگ ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal thanantum an lan yanqaliba alrrasoolu waalmuminoona ila ahleehim abadan wazuyyina thalika fee quloobikum wathanantum thanna alssawi wakuntum qawman booran

بل ظننتم ان لن ۔۔۔۔۔۔ قوما بورا (48 : 12) “ بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آسکیں گے اور یہ خیال تمہارے دل کو بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کئے اور تم سخت بدباطن لوگ ہو ”۔ یوں اللہ ان لوگوں کو عریاں کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ ان کی نیت اور دلوں کا حال ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے جو اندازے لگا رکھے تھے وہ بھی ان کو بتا دئیے گئے ۔ اللہ کے بارے میں ان کے دلوں میں جو سوئے ظن تھا وہ بھی بتا دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ اپنے ساتھیوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں ۔ لہٰذا مدینہ کو واپس آنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ان لوگوں کے منہ میں جا رہے ہیں جنہوں نے ان کے گھر میں آکر ان سے جنگ کی ہے اور انہوں نے مدینہ میں آکر رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو قتل کیا ہے۔ ان کا اشارہ احد اور احزاب کی طرف تھا۔ ان لوگوں نے اللہ کی قوتوں اور اللہ کی مہربانیوں کا حساب نہ لگایا تھا کہ اللہ اپنے مخلص بندوں پر کیا کیا کرم کرتا ہے۔ نیز انہوں نے معاملات کو سیکولر طریقے سے سوچا تھا اور ان کے دل اسلامی نظریہ حیات سے خالی تھے ، ان کے نزدیک فرض اور ڈیوٹی تو کوئی چیز ہی نہ تھی۔ حالانکہ اسلامی نظریہ کے کچھ تقاضے تھے اور ان کے لئے ہر قربانی ہیچ سمجھی جانی چاہئے تھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور آپ کی معیت کو نفع و ضرر ، نفع و نقصان کے حساب و کتاب سے برتر ہونا چاہئے تھا۔ یہ تو وہ فریضہ تھا جسے نتائج کی پرواہ کئے بغیر ان کو ادا کرنے چاہئے تھا۔

بہرحال انہوں نے بدگمانیاں کیں اور بدظنی اور بدگمانی ان کے لئے خوشنما بنا دی گئی۔ ان کو اس بدگمانی کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ انہوں نے اس بدظنی کے سوا کسی دوسرے واقعہ یا کسی دوسرے رخ کے بارے میں سوچا ہی نہیں ، اور یہی ان کی جانب سے سوء ظن تھا۔ یہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ ان کے دل برے تھے۔ ان کو یہاں “ قوم بور ” کہا گیا ہے۔ یہ عجیب انداز تعبیر ہے۔ “ بور ” اس زمین کو کہتے ہیں جو بنجر ہو اور اس میں کوئی روئیدگی نہ ہو۔ نہ کوئی درخت اور پھل ہوں ، نہ کوئی سنہری فصل ہو۔ جس دل میں حسن ظن کی سر سبزی نہ ہو ، پھر اللہ کے بارے میں پرامید نہ ہو اور اس کے اندر کوئی حسن ظن نہ ہو ، تو وہ بنجر ہے ، وہ مردہ ہے اور آخر کار اس نے برباد اور تباہ ہونا ہے۔

جماعت مومنہ کے بارے میں آج بھی بعض لوگ اس انداز سے سوچتے ہیں ، اس قسم کے لوگ جس طرح مدینہ کے اردگرد بستے تھے ، جن کے دل خشک تھے اور ان میں زندگی کی روح نہ تھی۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ باطل پرستوں کا پلڑا بھاری ہے اور دنیا کی زیادہ قوتیں اہل شر اور اہل باطن کے ساتھ ہیں۔ نیک لوگ تعداد میں بہت کم ہیں ، یا وسائل کے لحاظ سے غریب ہیں ، یا مرتبہ اور مال و دولت کے اعتبار سے کم ہیں۔ یہ دیہاتی ، بدوی اور اس قسم کے لوگ ہر زمان و مکان میں یہی کچھ سوچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ کچھ یوں ہوتی ہے کہ اہل ایمان یا اسلام کے چاہنے والوں کا مقابلہ چونکہ بڑی قوتوں سے ہے اور یہ قوتیں بظاہر بہت ہی پھولی ہوئی ہیں لہٰذا ان مٹھی بھر اسلام والوں کی خیر نہیں ہے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے۔ ایسے لوگ ہر وقت یہ توقع رکھتے ہیں کہ آج یا کل ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ اور یہ دعوت ہی ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ بطور احتیاط اس راہ سے جدا دوسرے راستے پر چلتے ہیں۔ لیکن اللہ اس قسم کے لوگوں کے سوء ظن کو ہمیشہ ناکام بنا دیتا ہے اور اللہ اپنے فضل و کرم کے حالات کو تبدیل فرماتا ہے اور اپنی تدابیر سے اپنے بندوں کے لئے راہ ہموار کردیتا ہے۔ اللہ اپنے پیمانوں سے ناپتا ہے ، جو حقیقی پیمانے ہیں۔ اور جو اللہ کے قوی ہاتھ میں ہیں۔ وہ بعض لوگوں کو گراتا ہے اور بعض کو اٹھاتا ہے اور کافرین ، منافقین اور اللہ کے بارے میں سوئے ظن رکھنے والوں کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اور اس قسم کے لوگ ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔

اصل ترازو ایمان کا ترازو ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بدوی مسلمانوں کو کہتا ہے کہ اس ترازو سے تولو ، اور اس ترازو کے مطابق ہی اعمال کی جزاء تجویز فرماتا ہے ، اللہ کی رحمت اس ترازو کے ساتھ ہے۔ فرصت کے لمحات قلیل ہیں ، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو حاصل کرو اور فائدہ اٹھاؤ !

اردو ترجمہ

اللہ اور اس کے رسول پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waman lam yumin biAllahi warasoolihi fainna aAAtadna lilkafireena saAAeeran

ومن لم یومن ۔۔۔۔ للکفرین سعیرا (48 : 13) وللہ ملک السموت ۔۔۔۔ غفورا رحیما (48 : 14) “ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے ، جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے ، اور وہ غفور و رحیم ہے ” ۔ یہ لوگ اپنے اموال اور اہل و اولاد کا عذر پیش کرتے تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ جہنم جو کافروں کے لئے تیار رکھی ہوئی ہے ، اس میں مال و اولاد کیا فائدہ دیں گے ، اگر وہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لائے۔ غرض ترازو کے دو پلڑے ہیں۔ ایک ایمان کا دوسرا کفر و نفاق اور سوء ظن کا ، ان میں ان کو ایک کو قبول کرلینا چاہئے۔ اللہ جو تمہیں ڈراتا ہے وہ آسمانوں اور زمین کی قوتوں کا مالک ہے۔ وہ عذاب بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کرسکتا ہے۔

اللہ لوگوں کو جزا یا سزا ان کے اعمال پر دیتا ہے۔ لیکن اس کی مشیت مطلق و آزاد ہے۔ اس پر کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بات یہاں اس لیے بتا دی گئی کہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اعمال پر جزاء بھی اسی نے طے کی ہے۔ اللہ کی رحمت اور مغفرت سب کے لئے قریب ہے۔ مناسب ہے کہ لوگ اسے طلب کریں۔ قبل اس کے کہ اللہ کے عذاب کا فیصلہ صادر ہوجائے ، اور یہ فیصلہ ظاہر ہے انہی لوگوں کے لئے ہوگا جو اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لائیں گے۔

اس کے بعد اللہ ان اموال غنیمت کی طرف اشارہ فرماتا ہے جو مومنین کے لئے مقدر ہوچکے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کی بدگمانیوں کے بالکل متضاد صورت حالات ہوگی اور انداز کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات بہت ہی قریب وقت میں رونما ہونے والے ہیں۔

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے، اور وہ غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walillahi mulku alssamawati waalardi yaghfiru liman yashao wayuAAaththibu man yashao wakana Allahu ghafooran raheeman

اردو ترجمہ

جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں اِن سے صاف کہہ دینا کہ "تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے" یہ کہیں گے کہ "نہیں، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو" (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sayaqoolu almukhallafoona itha intalaqtum ila maghanima litakhuthooha tharoona nattabiAAkum yureedoona an yubaddiloo kalama Allahi qul lan tattabiAAoona kathalikum qala Allahu min qablu fasayaqooloona bal tahsudoonana bal kanoo la yafqahoona illa qaleelan

سیقول المخلفون ۔۔۔۔۔۔ یفقھون الا قلیلا (48 : 15) “ جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں۔ ان سے صاف کہہ دینا کہ “ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے ، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے ”۔ یہ کہیں گے کہ “ نہیں ، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو ”۔ (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں ”۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد فتح خیبر ہے۔ ممکن ہے فتح خیبر ہی ہو۔ اگر مراد خیبر نہ بھی ہو لیکن مراد یہی ہے کہ عنقریب مسلمان کسی مہم پر جائیں گے اور یہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں بھی جانے دو ۔

مفسرین نے خیبر کا نام اس لئے لیا ہے کہ خیبر کا واقعہ صلح حدیبیہ کے متصلا بعد میں ہوا۔ کیونکہ فتح خیبر محرم 7 ہجری میں ہوا۔ یعنی صلح حدیبیہ کے دو ماہ بعد۔ اور اس میں اموال غنیمت بھی بہت ملے تھے اور خیبر کے قلعے جزیرۃ العرب میں سے خارج کردیا گیا تھا۔

مفسرین نے یہ بات تواتر سے کہی ہے کہ حدیبیہ کی مہم پر جانے والوں کے ساتھ اللہ کا عہد تھا کہ خیبر کے اموال غنیمت میں ان کے ساتھ کوئی شریک نہ ہوگا۔ لیکن اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہے۔ شاید وہ عملی واقعات سے یہ اصول اخذ کررہے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کو اہل حدیبیہ کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ اور اس مہم میں آپ نے کسی اور کو ساتھ نہ لیا تھا۔

بہرحال اللہ نے نبی ﷺ سے کہہ دیا کہ آپ ﷺ پیچھے رہنے والے اعراب کی اس پیشکش کو رد کردیں جب وہ آپ ﷺ کے ساتھ قریب کے آسان اموال غنیمت کے لئے جانا چاہیں۔ اور یہ فیصلہ دے دیا کہ ان کا نکلنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے اور پیشگی اطلاع دے دی کہ جب آپ ﷺ ان کی پیشکش کو رد کریں گے تو وہ الزام لگائیں گے کہ تم ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ بل تحسدوننا “ بلکہ تم حسد کرتے ہو ”۔ تم اس مہم میں اس لیے نہیں لے جاتے کہ تم ہمیں اموال غنیمت نہیں دینا چاہتے۔ ساتھ ہی پھر فوراً یہ کہہ دیا کہ یہ لوگ اللہ کی حکمت کو نہیں جانتے ، یہ کم فہم ہیں ۔ اللہ کی حکمت یہ ہے کہ پیچھے رہنے والوں کو ذرا محرومیت سے دوچار کیا جائے اور مطیع فرمان بندوں کو ذرا انعامات دئیے جائیں تا کہ ان کی اطاعت شعاری کا انعام انہیں ملے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے حالات میں اطاعت کی جب سامنے موت ہی موت نظر آرہی تھی۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہتا ہے کہ ان پیچھے رہ جانے والوں سے کہہ دیں کہ تمہارے لئے ایک اور امتحان کا مقام ابھی باقی ہے۔ عنقریب ایک مہم ایک زبردست قوم کے خلاف بھیجی جائے گی اور تمہیں اس میں بلایا جائے گا۔ اور یہ لوگ اسلام کی وجہ سے تمہارے ساتھ لڑیں گے۔ اگر اس امتحان میں کامیاب ہوگئے تو تمہارے لیے بھی اجر ہوگا۔ اگر اس آخری امتحان میں بھی تم معصیت پر جمے رہے تو پھر تم ہمیشہ کے لئے عذاب الیم کے مستحق ہوجاؤ گے۔

512