سورہ اعراف (7): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-A'raaf کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأعراف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ اعراف کے بارے میں معلومات

Surah Al-A'raaf
سُورَةُ الأَعۡرَافِ
صفحہ 163 (آیات 96 سے 104 تک)

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ ٱلْقُرَىٰٓ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّقَوْا۟ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَٰتٍ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا۟ فَأَخَذْنَٰهُم بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ أَفَأَمِنَ أَهْلُ ٱلْقُرَىٰٓ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَٰتًا وَهُمْ نَآئِمُونَ أَوَأَمِنَ أَهْلُ ٱلْقُرَىٰٓ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ أَفَأَمِنُوا۟ مَكْرَ ٱللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْخَٰسِرُونَ أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ ٱلْأَرْضَ مِنۢ بَعْدِ أَهْلِهَآ أَن لَّوْ نَشَآءُ أَصَبْنَٰهُم بِذُنُوبِهِمْ ۚ وَنَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ تِلْكَ ٱلْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنۢبَآئِهَا ۚ وَلَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ فَمَا كَانُوا۟ لِيُؤْمِنُوا۟ بِمَا كَذَّبُوا۟ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ ٱلْكَٰفِرِينَ وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ ۖ وَإِن وَجَدْنَآ أَكْثَرَهُمْ لَفَٰسِقِينَ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنۢ بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِـَٔايَٰتِنَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِۦ فَظَلَمُوا۟ بِهَا ۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُفْسِدِينَ وَقَالَ مُوسَىٰ يَٰفِرْعَوْنُ إِنِّى رَسُولٌ مِّن رَّبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ
163

سورہ اعراف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ اعراف کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھو ل دیتے، مگر اُنہوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaw anna ahla alqura amanoo waittaqaw lafatahna AAalayhim barakatin mina alssamai waalardi walakin kaththaboo faakhathnahum bima kanoo yaksiboona

یہ اللہ کی سنت جاریہ کا ایک دوسرا پہلو ہے ، اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے اور بدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو اللہ ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۔ اور بلا حساب ان کو دیتا رہتا ، آسمانوں سے اور زمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔ قرآن نے جو انداز تعبیر اختیار کیا ہے ، اس کے پیش نظر ہم اسے ہر طرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہو جو کسی ایک جنس ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر قسم اور ہر نوع کی فراوانی۔

اس آیت اور اس سے قبل کی آیت میں ہم ایک عظیم حقیقت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا تعلق بیک وقت انسانی نظریات اور انسانی زندگی کے حقائق سے بھی ہے اور اس پوری کائنات کے حقائق سے بھی ہے۔ اور ان کے اندر انسانی تاریخ کا اہم عنصر اور عامل بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس اہم فیکٹر کو دنیا کے انسانوں کے وضع کردہ نظامہائے حیات نے پوری طرح نظر انداز کیا ہے بلکہ اس کا انکار کیا ہے۔

وہ فیکٹر ہے ایمان و عقیدہ اور خدا خوفی کا۔ ایمان و عقیدے اور خدا خوفی کا مسئلہ انسانی زندگی کے حقائق سے جدا چیز نہیں ہے اور نہ وہ انسانی تاریخ سے کوئی الگ چیز ہے بلکہ ایمان باللہ اور خدا خوفی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی برکات نازل فرماتے ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہم لوگ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں ، ہماری شیوہ تو یہ ہے کہ اللہ کے اس عہد کو مومنانہ دل سے لیتے ہیں۔ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے علل و اسباب کو سمجھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ، اور اس آیت کے مدلول و مفہوم کی تصدیق میں لمحہ بھر تردد بھی نہیں کرتے۔ اس لئے کہ ہمارا ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب اور اس ایمان کے تقاضے کے طور پر ہم اللہ کے اس عہد کی تصدیق کرتے ہیں۔

اس کے بعد ہم پھر اللہ کے اس عہد پر غور و فکر کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ تم قرآن میں غور و فکر کرو اور غور و فکر کے بعد ہمیں اس بات کی ماہیت و حقیقت کا علم بھی ہوجاتا ہے۔

اللہ پر ایمان لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی فطرت زندہ ہے اور فطری حقائق کے ادراک اور قبول کرنے کی اہلیت اس میں موجود ہے۔ ایسے شخص کا ادراک سچا ہے اور اس کی انسانی بنیاد صحیح وسالم ہے۔ اور اس شخص کے دماغ میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ اس کائنات کے حقائق کا ادراک کرسکے۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جو عملی زندگی میں انسان کی کامیابی کے ضامن ہیں۔

اللہ پر ایمان ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو آگے بڑھاتی ہے ، یہ انسانی شخصیت کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے انہیں ایک جہت اور رخ پر ڈال دیتی ہے اور اس جہت میں انسانی شخصیت اللہ کی قوت کی مدد سے آگے بڑھتی ہے اور اس زمین پر اللہ کے اقتدار اعلی کے قیام کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اس کرہ ارض کی تعمیر میں لگ جاتی ہے۔ نتیجۃ اس کرۂ ارض سے فتنہ و فساد کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور انسان اس زمین کی ترقی اور تعمیر میں لگ جاتا ہے اور اس طرح انسان عملی زندگی میں کامیاب رہتا ہے۔

اللہ پر پختہ ایمان انسان کو خود اپنی خواہشات کی غلامی اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے کہ اور اس میں شک نہیں کہ صرف اللہ کا غلام اور دوسری تمام غلامیوں سے آزاد انسان ہی اس کرۂ ارضپر خلافت راشدہ کا صحیح نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔

خدا کا خوف ایک دانشمندانہ بیداری ہے۔ اس سے انسام سرکشی ، غرور ، بےراہ روی جیسے اخلاقی عیوب سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں اعتدال اختیار کرلیتی ہیں اور اس کی زندگی کا اسلوب سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری جدوجہد محتاط ہوجاتی ہے۔ اور وہ سرکشی کا ارتکاب کرکے اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھتا اور اپنی زندگی کو صالحانہ حدود میں رکھتا ہے۔

ایک صالح انسان کی زندگی کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی متوازن اور اعتدال پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ آگے بڑھنے اور رکاوٹوں کے درمیان توازن پیدا کرلیتا ہے۔ وہ زمین پر محنت کرتا ہے اور آسمان کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ہوائے نفس ، سرکشی اور تجاوز سے آزاد ہوتا ہے اور اس کے دل میں ہر وقت خوف خدا ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک صالح ، نتیجہ خیز اور مفید کردار کا مالک ہوتا ہے اور ایسا ہی شخص اللہ کی امداد کا مستحق ہوتا ہے اور اس کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اوپر برکات الٰہی کے سائے نزول کرتے ہیں۔ ان کے کام میں خیر و برکت عام ہوتی ہے اور اس کی زندگی پر فلاح سایہ فگن ہوتی ہے۔ اس کی زندگی بظاہر اسباب کے مطابق چل رہی ہوتی ہے لیکن درحقیقت ایک غیبی قوت اس کی مددگار ہوتی ہے۔

وہ برکات جو مومنین اور اہل تقوی پر سایہ فگن ہوتی ہیں وہ مختلف النوع ہوتی ہیں اور اس آیت میں ان کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں لیکن وہ یقیناً موجود ہوتی ہیں۔ اس آیت میں جو اشارات ہیں ان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پر ہر جانب سے برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے۔ ہر طرف سے برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں جن کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ لہذا اس سے مراد ہر قسم و نوع کی برکات ہیں ، ہر شکل و صورت میں ان کا نزول ہوتا ہے ، بعض ایسی ہیں جو لوگوں کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو وہ سمجھتے ہیں۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے خوف کھانا محض پرائیویٹ عبادت کا مسئلہ ہے اور اس کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں نے در اصل حقیقت ایمان کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ ان کا گرض ہے کہ وہ دیکھیں کہ اللہ کے نزدیک تو ایمان کا عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق موجود ہے۔ اور اس پر اللہ گواہی دے رہا ہے اور اللہ کی شہادت کافی شہادت ہے۔ اور اللہ اسے ان باتوں سے متعلق کرتا ہے جن کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عملی اور اجتماعی زندگی کے معاملات ہیں۔

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ۔ " اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا ، لہذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔

بعض لوگ دیکھتے ہیں کہ بعض اقوام کا نقطہ نظر اس معاملے میں یوں ہے : " ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اوپر رزق کے دروازے بند ہیں اور ہمارے حصے میں خشک سالی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اقوام ایسی ہیں جو نہ مومن باللہ ہیں اور نہ اہل تقویٰ میں سے ہیں لیکن ان پر ہر طرف سے رزق کی بارش ہو رہی ہے۔ ان کے پاس بےپناہ قوت ہے اور وہ دنیا میں با اثر ہیں۔ لہذ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں جس سنت الٰہیہ کا ذکر ہوا ہے وہ ہم پر صادق کیوں نہیں آتی ؟ "

در اصل ایسے لوگوں نے اس مسئلے کے صرف ظاہری اور سطحی پہلو کو لیا ہے۔ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ، وہ مومن اور متقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ نہ ان لوگوں نے خالصتاً اللہ کی بندگی اور غلامی کا رویہ اپنایا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں لا الہ الا اللہ کی شہادت موجود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے میں سے بعض غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں۔ " یہ " غلام ان کے الٰہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے لئے قانون بناتے ہیں۔ نہ صرف قوانین بلکہ ان کے لئے حسن و قبح کی اقدار بھی تجویز کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ کہاں مومن ہیں۔ مومن کا تو فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ختم کردے جو ان پر مقتدر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ مومون کا تو پہلا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو بھی الٰہ و رب نہ بنائے جو ان پر اپنے قوانین اور اپنا نظام نافذ کرے۔ جب ایسے مدعیان کے اسلاف حقیقی مومن اور مسلم تھے تو ان کے سامنے پوری دنیا سرنگوں تھی اور ان پر آسمان اور زمین کی برکات کی بارش ہوتی تھی اور ان کے ساتھ ان کے رب کا وعدہ سچا تھا ، کیونکہ وہ خود سچے تھے۔

رہے وہ لوگ جن پر رزق کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں تو یہ بھی سنت الٰہیہ کا ایک حصہ ہے۔ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ " پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ " ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں "۔ ان لوگوں پر جو انعامات ہوتے ہیں وہ در اصل ان کے لئے ابتلاء و آزمائش ہے اور یہ ابتلاء مصیبت کی ابتلاء سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کفار پر جو انعامات ہوتے ہیں اور اہل ایمان پر جو انعامات ہوتے ہیں ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ برکت الٰہی بعض اوقات ایک قلیل چیز میں بھی اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ جب انسان ایک تھوڑی چیز سے اچھی طرح فائدہ اٹھاتا ہے اور امن و سکون کے ساتھ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے ، دوسری جانب بڑی بڑی ترقی یافتہ اور مالدار اقوام ایسی ہیں جو پریشانی اور عدم اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہیں حالانکہ بظاہر وہ نہایت ہی امن وامان سے زندگی بسر کرتی ہیں اور ان کے افراد کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ افراد معاشرہ کے درمیان بےچینی کا دور دورہ ہے۔ اور قریب ہے کہ یہ اقوام مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سازوسمان بسیار مگر اطمینان مفقود ہے۔ ہر چیز کی فراوانی ہے ، لیکن لوگ بدکردار ہیں ، ان کی خوشحالی ہی ان کے لئے برے مستقبل کا پتہ دے رہی ہے اور یہ خوشحالی ان کے لئے انتقام الٰہی کا سبب ہے۔

اہل ایمان کو جو برکات ملتی ہیں ، ان کے کئی رنگ ہیں ، ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے ، ذات انسانی میں برکت ہوتی ہے ، انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے ، پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے اور ان برکات کے نتیجے میں زندگی بڑھتی ہے اور اس کے اندر سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے ، یہ نہیں کہ ہر طرف سہولیات تو وافر ہوں اور انسان جہنم میں ہو جسمانی اور نفسیاتی اضمحلال میں مبتلا ہو۔

سنت جاریہ جس پر تاریخ انسانی بھی ایک گواہ ہے اور جس کے بیان کے متصل بعد اب روئے سخن اہل غفلت کی طرف مڑتا ہے۔ ان حالات کے جاننے اور دیکھنے کے بعد جن میں مکذبین کو تباہ و برباد کیا گیا اور ان پر عذاب نازل ہوا جن کی وجہ سے پڑھنے والے کے شعور اور وجدان کے اندر ایک ہمہ گیر ارتعاش پیدا ہوگیا کیونکہ ان لوگوں نے اپنی نرمی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش انعامات اور زندگی کے سازو سامان میں غفلت کا مظاہرہ کیا اور حکمت الٰہیہ کو نہ سمجھ سکے کہ یہ تو در اصل ان کی آزمائش ہے۔ ایسے حالات میں اب سیاق کلام ان اہل غفلت کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اپنے حال میں مست ہیں۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ رات اور دن کے کسی بھی وقت میں ان کو عذاب الٰہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ، ایسے حالات میں کہ لہو و لعب اور خواب غفلت میں ڈرے ہوئے ہوں۔

اردو ترجمہ

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آ جائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaamina ahlu alqura an yatiyahum basuna bayatan wahum naimoona

یعنی کیا لوگ سنت الٰہیہ کو دیکھتے ہوئے بھی اس قدر بےخوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوشحالی اور فراوانی دے کر اور شدائد و مصائب میں مبتلا کرکے آزماتا ہے۔ اس کے بعد ناشکروں اور نافرمانوں اور جھٹلانے والون کو تباہ و برباد کرتا ہے اور ان کی تباہی اور ہلاکت کے میدان تمہاری نظروں کے سامنے ہیں جو تباہ ہوئے اور جنہوں نے ان بستیوں کو خوب آباد کیا اور تباہی کے بعد پیچھے آنے والوں کے لئے چھوڑ دیا ، کیا وہ اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان پر بھی اچانک عذاب الٰہی آجائے اور وہ غفلت اور بیخبر ی میں مبتلا ہوں اور تباہ و برباد ہوجائیں۔ عذاب دن کے کسی وقت میں آئے یا رات کو کسی ایسے وقت میں آئے کہ وہ غافل ہوں یاد رہے کہ نیند میں انسان اس طرح غرق ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی شعور اور ارادہ نہیں رہتا اور نہ کوئی کام کرنے کی قوت ہوتی ہے۔ نہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتا ہے۔ نہ کسی معمولی کیڑے مکوڑے کے خلاف مدافعت کرسکتا ہے۔ اللہ جیسی عظیم قوت کے مقابلے میں تو وہ کیا کرے گا ؟ جس کے مقابلے میں کوئی انسان نہایت بیداری اور قوت و حکمت کے ساتھ بھی کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

غرض ان پر یہ عذاب دن کو بھی آسکتا ہے جب یہ کھیل رہے ہوں ، کھیل کے وقت انسان کو کوئی ہوش نہیں ہوتا۔ وہ کھیل میں غرق ہوتا ہے اور اس کی توجہ صرف مد مقابل کی طر فہوتی ہے۔ رہا وہ حملہ جو اللہ کی جانب سے ہو تو اس کا مقابلہ تو وہ پوری تیاری اور پوری بیداری کے ساتھ بھی نہیں کرسکتا اور جب وہ غافل ہو تو کیا کرے گا۔

اللہ کا عذاب اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ جاگ رہے ہوں یا سو رہے ہوں کسی حالت میں وہ اس کے آگے ٹک نہیں سکتے۔ وہ کھیل میں ہوں یا سنجیدہ حالت میں ہوں ، اس کا مقابلہ تو وہ نہیں کرسکتے ، لیکن قرآنی سیاق انسان کے سامنے اس کی زندگی کے وہ لمحات پشی کرتا ہے تاکہ انسانی شعور میں پوری طرح انسان کے ضعف اور کمزوری کا احساس پیدا کردیا جائے اور وہ محتاط ہوجائے اور اپنے بچاؤ کی فکر کرے جب تباہ کن حملہ ہو اور ایسے حالات میں ہو کہ انسان پوری طرح غفلت اور لاپرواہی میں ہو اور مکمل بیخبر ی میں اسے آ لیا جائے تو ایسے حالات میں اس کا دفاع نہایت ہی کمزور ہوتا ہے۔ رہا عذاب الٰہی تو انسان باخبر ہو یا بیخبر ہو ، اس کے مقابلے میں اس کی بےبسی بیکراں ہوگی۔

اردو ترجمہ

یا انہیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awa amina ahlu alqura an yatiyahum basuna duhan wahum yalAAaboona

اردو ترجمہ

کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Afaaminoo makra Allahi fala yamanu makra Allahi illa alqawmu alkhasiroona

اللہ کے مکر سے مراد وہ خفیہ تدبیر ہے جس سے وہ بیخبر ہوں تاکہ انسان اللہ سے ڈرتے رہیں اور اللہ کے احکام میں محتاط رہیں۔ اور جو لوگ نہ ڈریں گے وہ خسارے میں رہیں کیونکہ عافیت کوشی ، غفلت اور حد سے گزرجانے اور لاپرواہی کا نتیجہ خسران مبین ہی ہوسکتا ہے۔ کیا یہ لوگ اللہ کی چال اور تدبیر سے بےخوف ہوگئے ہیں حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے آباؤ اجداد کو ہلاک کردیا گیا اور ان کے بعد یہ اس دنیا کے وارث بنائے گئے اور جنہیں ان کی غفلت ہی کی وجہ سے برباد کیا گیا کہ ان کی بربادی میں ان کے لئے کوئی ہدایت اور عبرت نہیں ہے ؟

اردو ترجمہ

اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہل زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر واقعی نے کچھ سبق نہیں دیا کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انہیں پکڑ سکتے ہیں؟ (مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے ہیں) اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yahdi lillatheena yarithoona alarda min baAAdi ahliha an law nashao asabnahum bithunoobihim wanatbaAAu AAala quloobihim fahum la yasmaAAoona

یعنی ، بیشک اللہ کی سنت اٹل ہوتی ہے اور اللہ کی مشیت جاری رہتی ہے۔ اگر اللہ ان لوگوں کے گناہوں کے سبب انہیں اسی طرح پکڑے جس طرح ان کے آباؤ اجداد پکڑے گئے تھے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ یا اگر اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے اور ان سے ہدایت کی توفیق ہی سلب کرلے اور وہ ہدایت سے ہمیشہ ہی کے لئے محروم ہوجائیں اور دلائل ہدایت کی طرف سے ان کا رخ ہی پھرجائے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجائیں تو کون ان کی مدد کو پہنچ سکے گا۔ سباقہ لوگوں کی ہلاکت اور ان کے بعد ان موجودہ لوگوں کی جانشینی اور اس بارے میں اللہ کی سنت کی کارفرمائیاں یہ سب امور ان کے لئے غور و فکر و ہدایت وتقویٰ کا وافر ساماں مہیا کرتے تھے اور ان سے یہ توقع تھی کہ وہ اللہ سے ڈرتے اور اس عارضی مصنوعی عافیت کو چھوڑ دیتے ہیں جس میں وہ اپنے آپ کو سمجھتے تھے۔ اس لاپرواہی کو ایک طرف چھوڑ دیتے تو وہ اصلاح پذیر ہوجاتے اور ان واقعات سے عبرت لیتے۔ کاش ! کہ وہ ایسا کرتے۔

اس آیت میں جو تنبیہ کی گئی ہے ، اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ ہر وقت نامعلوم عذاب اور مستقبل کی اچانک تباہی اور بربادی کے خوف سے کانپتے ہی رہیں اور وہ ہر وقت غیر یقینی صورت حالات سے دوچار رہیں کہ کسی بھی وقت ان پر کوئی عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہر وقت کا جزع و فزع ، کسی بھی وقت آجانے والے عذاب کا ڈر ، اور ہر وقت یہ خطرہ کہ کسی بھی وقت کوئی آفت نازل ہوسکتی ہے ، ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے انسانی قوتیں شل ہوجاتی ہیں اور انسان علم و عمل کی خوبی سے محروم ہوسکتا ہے۔ اور اس طرح مایوس ہوکر انسان اس کرۂ ارض کی تعمیر اور ترقی کے مسلسل عمل سے دستکش ہوسکتا ہے۔ اس تنبیہ کی غرض وغایت انسان کو شل کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ انسان بیدار ہو ، اس کے اندر ہر وقت خدا خوفی کا احساس ہو ، وہ ہر وقت اپنے نفس کے اوپر نگراں رہے ، اور دنیا میں گزرے ہوئے واقعات سے سبق لے وہ انسانی تاریخ کے محرکات کو معلوم کرلے۔ اور اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہر وقت قائم رہے اور عیش و عشرت کی زندگی اسے غافل اور مغرور نہ کردے۔

اللہ تعالیٰ کی جانب سے لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ وہ انہیں آخرت میں امن ، اطمینان ، اپنی رضا مدنی ، دنیا و آخرت کی رضامندی عطا کرے گا لیکن یہ اس وقت ہوگا جب انہوں نے اللہ کے بارے میں اپنے احساس کو تیز رکھا۔ اور انہوں نے تقویٰ اور خدا خوفی کی وجہ سے اپنے آپ کو آلودگیوں میں ملوث نہ کیا۔ انہوں نے اپنی مادی قوت کے مقابلے میں اللہ پر اعتماد کیا۔ انہوں نے اپنے محدود و مادی وسائل کے مقابلے میں ان وسائل پر بھروسہ کیا جو اللہ کے ہاں موجود ہیں۔ اور جو اللہ کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرتے ، ان کے دل دولت ایمان سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ اللہ کے ذکر پر مطمئن تھے ، وہ اپنی خواہشات اور شیطانی حرکات پر کنٹرول کیے ہوئے تھے۔ وہ اس کرہ ارض پر مصلح کے طور پر اللہ کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ لوگوں سے نہ ڈرتے تھے اور صرف اللہ سے ڈرتے تھے اور اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

اس انداز میں ہم اللہ کے عذاب سے اس دائمی ڈراوے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ، ایسا عذاب جو اٹل ہوتا ہے اور وہ اللہ کی ان تدابیر کے مطابق ہوتا ہے جس کا ادراک انسان کو نہیں ہوتا۔ اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کی ان آیات کا مطلب محض خوف و ہراس پھیلانا نہیں ہے بلکہ لوگوں کے اندر بیداری پیدا کرنا ہے ، لوگوں کے اندر بےچینی پیدا کرنا نہیں بلکہ ان کے اندر احساس زیاں پیدا کرنا مطلوب ہے۔ زندگی کو معطل کرنا مطلوب نہیں ہے ، بلکہ اسے لاپرواہی اور سرکشی سے بچانا مطلوب ہے۔

اسلامی اور قرآنی منہاج تربیت کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ انسانی نفسیات کے بدلتے ہوئے طور طریقوں کی اصلاح بھی کرتا ہے ، اقوام اور سوسائٹیوں کے مسائل واطوار کو بھی درست کرتا ہے۔ اور ہر ایک کا علاج اس کے حالات کے مطابق کرتا ہے۔ کسی کو امن ، اطمینان اور اللہ پر بھروسے کی امید کی دولت دیتا ہے۔ اور کسی کے لئے خوف بیداری اور سٹینڈ ٹو کا نسخہ تجویز کرتا ہے کہ وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائے اور اللہ کے عذاب سے ڈرے جو کسی بھی وقت انہیں گھیر سکتا ہے۔ خصوصاً اس وقت جب وہ مادی زندگی پر بھروسہ کرکے غرے میں مبتلا ہوجائے۔ اللہ بہرحال اپنی مخلوق سے اچھی طرح باخبر ہے اللہ لطیف وخبیر ہے۔

یہاں سنت جاریہ کا بیان ختم ہوجاتا ہے۔ انسانی وجدان کو اس سنت کے شعور کا ٹچ دیا گیا اور نہایت ہی اچھے اشارات دئیے گئے۔ اب روئے سخن حضرت نبی ﷺ کی طرف پلٹ جاتا ہے اور آپ کو بتایا جاتا ہے کہ ان بستیوں کے باشندوں کا مجموعی طور پر کیا انجام ہوا اور اس انجام سے کفر کا کیا مزاج سامنے آتا ہے اور ایمان کا مزاج کس رنگ میں سامنے آتا ہے اور اقوام عالم کی تاریخ سے ان دو قسم کے انسانوں کی عمومی روش کیا معلوم ہوتی ہے ؟

اردو ترجمہ

یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں (تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں) ان کے رسول ان کے پا س کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اُسے وہ ماننے والے نہ تھے دیکھو اس طرح ہم منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka alqura naqussu AAalayka min anbaiha walaqad jaathum rusuluhum bialbayyinati fama kanoo liyuminoo bima kaththaboo min qablu kathalika yatbaAAu Allahu AAala quloobi alkafireena

یہ قصے اللہ کی جانب سے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو ان کا کوئی علم نہ تھا۔ آپ کو یہ قصے بذریعہ وحی تعلیم کئے گئے تھے۔

وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ " ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے " لیکن ان نشانیوں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور رسولوں کو جھٹلاتے رہے جس طرح وہ ان نشانیوں سے پہلے بھی جھٹلاتے تھے۔ یہ نشانیاں اور معجزات بھی ان کو ایمان تک نہ پہنچا سکے۔ یہ نہ تھا کہ ان کے سامنے دلائل کی کمی تھی بلکہ حقیقی صورت حالات یہ تھی کہ ان کے دلوں کو تالے لگے ہوئے تھے ، ان کا احساس مردہ ہوگیا تھا ، اور ہدایت کی طرف وہ متوجہ ہی نہ تھے۔ جس چیز کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ ان کی فطرت مر چکی تھی ، وہ متاثر ہی نہ ہوتے تھے ، لہذا وہ دعوت کو قبول ہی نہ کرتے تھے۔ جب ان کے دل دلائل ایمان کی طرف متوجہ ہی نہ تھے اور ہدایت کے اشارات ان تک پہنچ ہی نہ پا رہے تھے تو اللہ نے بھی انہیں اس حال پر چھوڑ کر ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کے لئے قبولیت حق کے تمام راستے بند ہوگئے۔

كَذٰلِكَ يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِ الْكٰفِرِيْنَ " دیکھو اس طرح اللہ تعالیٰ منکرین حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں "۔ یہ مزاج ان میں سے اکثریت کا تھا۔

اردو ترجمہ

ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama wajadna liaktharihim min AAahdin wain wajadna aktharahum lafasiqeena

یہاں جس عہد کا ذکر ہے وہ فطرت انسانی کا عہد بھی ہوسکتا ہے جس کا ذکر اس سورة کے آخر میں ہوا ہے (واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورہم ذریتہم واشہدہم علی انفسہم الست بربکم قالوا بلی شہدنا) " اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی ادم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا : " کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ " انہوں نے کہا : " ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ " ہم اس پر گواہی دیتے ہیں "۔

اس عہد سے وہ عہد بھی مراد ہوسکتا ہے جو ان لوگوں کے اسلاف نے اپنے رسولوں سے کیا تھا کہ وہ ایمان لائیں گے مگر بعد میں آنے والے لوگ اس سے منحرف ہوگئے جیسا کہ ہر جاہلیت میں یہی ہوتا رہا ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اہل ایمان جاہلیت کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اور آخر کار پوری طرح جاہلیت میں داخل ہوجاتے ہیں۔

بہرحال عہد سے مراد جو بھی ہو ، لیکن ہلاک ہونے والوں کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کسی عہد و پیمان کے پابند نہ تھے ، نہ وہ کسی بات پر قائم رہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے ساتھ بدلتے رہتے تھے۔ ان کا مزاج بھی ایسا ہوگیا تھا کہ وہ اپنی بات پر جمتے نہ تھے اور نہ سچا طرز عمل اختیار کرتے تھے۔ بلکہ اکثر کو فاسق پایا گیا یعنی اپنے دین سے منحرف پایا گیا۔ اور یہ اس لئے کہ وہ ہر وقت بدلتے رہتے تھے اور کسی عہد کا پاس نہ رکھتے تھے بلکہ وہ اغراض کے بندے ہوگئے تھے جو قوم اللہ کے ساتھ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی اور اپنے دین اور راہ ہدایت پر قائم نہیں رہتی اور اللہ سے ہدایت اخذ نہیں کرتی تو ظاہر ہے کہ ایسی قوم تتر بتر ہوجاتی ہے۔ راہ حق سے منحرف ہوجاتی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ فاسق بن جاتی ہے چناچہ ان بستیوں والوں کی یہی حالت ہوگئی تھی اس لئے ان کا یہ انجام ہوا۔

اردو ترجمہ

پھر اُن قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma baAAathna min baAAdihim moosa biayatina ila firAAawna wamalaihi fathalamoo biha faonuthur kayfa kana AAaqibatu almufsideena

درس نمبر 79 ایک نظر میں

اس سبق میں فرعون اور اس کے درباریوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں ، ان واقعات کی وہ کڑیاں جو اس کے دعوائے ربوبیت اور اس کے لشکر سمیت اس کی غرق یابی کے واقعات پر مشتمل ہیں۔ ان کڑیوں کی درمیانی کڑیاں مثلاً جادوگروں کے ساتھ مقابلہ اور حق کا باطل پر غالب آنا ، جادوگروں کا ایمان لانا ، اور ان کے الفاظ کے ساتھ کہ ہم رب موسیٰ اور رب ہارون پر ایمان لاتے ہیں ، پھر فرعون کی جانب سے انہیں سخت عذاب کی دھمکی ، اور ان کے دل و دماغ میں ایمان و اسلام کی سر بلندی کا مظاہرہ اور ان کی جانب سے اپنی زندگی کے مقابلے میں ایمان و اسلام کو ترجیح دینا ، اس کے بعد بنی اسرائیل پر فرعون کی جانب سے مظالم کا ذکر ، پھر اللہ کی جانب سے آل فرعون اور اہل مصر پر خشک سالی وغیرہ کے عذاب کا نزول اور ہر قسم کی پیداوار کی تباہی ، پھر طوفان ، پسوؤں اور مینڈکوں کے حملے اور خون کی بارش اور ہر باران کی کی جانب سے حضرت موسیٰ کی روحانی قوت کے سامنے جھکنا کہ وہ رب العالمین سے سوال کریں تاکہ انہیں اس عذاب سے نجات ملے۔ لیکن جب ان پر سے یہ مصیبت دور کی جاتی تو جلد ہی وہ لوگ دوبارہ اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ جاتے اور اعلان کردیتے کہ جس قدر آیات و معجزات بھی وہ دکھائیں ہم اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چناچہ ان بار بار کی بدعملیوں کی وجہ سے ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے اور وہ غرق کردئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ معجزات کو جھٹلاتے ہیں اور اس آزمائش میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ تمام امور سنت جاریہ کے مطابق انجام پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان پر سختی کرکے اور مصائب میں مبتلا کرکے بھی آزماتے ہیں اور ان کو خوشحالی اور فراوانی عطا کرکے بھی آزماتے ہیں۔ اس کے بعد وہ واقعات آتے ہیں کہ جب قوم موسیٰ ان آزمائشوں میں پوری اترتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو خلافت فی الارض عطا فرماتے ہیں اور غلامی کی اس شدت اور مصیبت کے بعد خلافت فی الارض عطا کرکے پھر ان کو آزمایا جاتا ہے اور فراوانی عطا کی جاتی ہے۔

ہم نے مذکورہ بالا واقعات پر مشتمل ایک سبق تجویز کیا ہے اور اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی جانب سے جو واقعات درپیش ہوئے اسے دوسرا درس بنایا ہے کیونکہ دونوں کا موضوع مختلف ہے۔

یہ قصہ یہاں جس انداز سے شروع کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس قصے کو لانے کے مقاصد کیا ہیں ؟ اس کا آغاز ان الفاظ سے کیا جاتا ہے۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ۔ " پھر ان قوموں کے بعد (جن کا ذکر اوپر کیا گیا) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا۔ مگر انہوں نے ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا ، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ؟ "

یہ تصریح کی جاتی ہے کہ یہاں اس قصے کو لانے کی غرض وغایت کیا ہے۔ یعنی یہ کہ اس دنیا میں ہمیشہ مفسدین کا انجام ایک ہی جیسا ہوتا رہا ہے۔ چناچہ قصے کی غرض وغایت کے اظہار کے بعد اس کے ضروری مضمون و موضوع کے ساتھ مناسب حلقے پے در پے لائے جاتے ہیں۔

اس قصے میں زندہ اور متحرک مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ ان میں حرکت بھی ہے اور مکالمات بھی ہیں۔ تاثرات بھی ہیں اور مختلف لوگوں اور کرداروں کے خدوخال اور ان کی شناخت بھی ہے۔ اس کے درمیان جگہ جگہ ہدایات و اشارات بھی ہیں اور عبرت آموزی بھی ہے اور اس بات کی صفائی بھی ہے کہ دعوت الی اللہ کے خدوخال کیا ہوتے ہیں اور دعوت الی الطاغوت کا مزاج کیا ہوتا ہے اور یہ کہ تمام طاغوتی قوتیں در اصل ربوبیت اور حاکمیت کی مدعی ہوتی ہیں اور دعوت الی رب العالمین کی تڑپ جس نفس میں گہرائی تک بیٹھ جاتی ہے ، اس نفس سے طاغوتی قوتوں کا خوف یکسر غائب ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اس راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اور کسی وعدہ و وعید کو خاطر میں نہیں لاتے۔

درس نمبر 79 ۔ تشریح آیات 103 ۔ تا ۔ 137

۔۔۔

اس سے پہلے اس سورت میں جن بستیوں کا ذکر ہوا تھا ، ان کے اہالیان نے دعوت حق کی تکذیب کی تھی اور ان کو ہلاک کیا گیا تھا ، ان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ قصے کا آغاز اس مقام سے ہوتا ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون ایک دوسرے کے آمنے سامنے آتے ہیں اور خلاصہ یہاں دے دیا جاتا ہے کہ فرعون اور اس کا ٹولہ دعوت حق کا استقبال کس طرح کرتا ہے اور اس انجام کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے جس تک وہ پہنچے۔ انہوں نے ان آیات و معجزات کے ساتھ ظلم اس طرح کیا کہ ان کا انکار کردیا۔ یعنی انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کیا۔ قرآن کریم میں بارہا کفر کے لئے فسق کا لفظ اور شرک کے لئے ظلم کا لفظ استعمال ہوتا ہے کیونکہ کفر و شرک سے بڑا ظلم اور بڑا فسق اور نہیں ہے جو لوگ کفر کرتے ہیں یا شرک کرتے ہیں وہ در اصل ایک عظیم سچائی کے ساتھ ظلم کرتے ہیں یعنی اللہ کی حاکمیت اور عقیدہ توحید کے ساتھ۔ اور یہ لوگ در اصل خود اپنے آپ پر بھی ظلم کرتے ہیں کیونکہ اپنے آپ کو یہ لوگ ہلاکت و بربادی کا مستحق ٹھہراتے ہیں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ پھر ایسے لوگ عوام الناس پر یہ ظلم کرتے ہیں کہ انہیں ایک اللہ وحدہ کی غلام اور بندگی سے نکال کر مختلف طاغوتی طاقتوں کے بندے بناتے ہیں اور ان کو رب اور مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں اور اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے ؟ چناچہ کفر ظلم ہے اور کافرون ظالمون ہیں جیسا کہ قرآن کریم ایسا انداز بیان اختیار کرتا ہے نیز جو شخص کفر اور ظلم اختیار کرتا ہے وہ راہ مستقیم کو چھوڑ کر غلط راستوں پر چلتا ہے اور مختلف بےراہ رویوں میں پڑ کر فاسق اور بدکار بن جاتا ہے اور آخر کار جنت کے بجائے جہنم کا مستحق قرار پاتا ہے۔

فرعون اور اس کے ٹولے نے آیات الٰہی کے ساتھ ظلم کیا یعنی ان کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس لئے وہ برے انجام تک پہنچے۔

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ " پس دیکو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ؟ " ہر وہ طاغوتی نظام جس میں اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی دوسرے قانون کی اطاعت کی جاتی ہو وہ فسادی نظام ہے اور اسی کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ایسی طاغوتی قوتیں مصلحین میں نہیں ہوسکتیں بلکہ یہ فسادی قوتیں ہوتی ہیں۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے کہا "اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala moosa ya firAAawnu innee rasoolun min rabbi alAAalameena

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان پہلی ملاقات میں جو مکالمات ہوئے اور واقعات پیش آئے تھے وہ اس طرح تھے۔

" موسیٰ نے کہا " اے فرعون ، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں۔ میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں ، میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں ، لہذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے۔ فرعون نے کہا " اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر "۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھا تھا۔ اور اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ اس پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ " یقینا یہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے "۔ تمہیں تمہاری زمین سے بےدخل کرنا چاہتا ہے۔ اب کہو کیا کہتے ہو ؟ "۔ پھر ان سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہر کارے بھیج دیجئے۔ کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں "۔

حق و باطل اور ایمان و کفر کے مابین یہ پہلا معرکہ ہے ، اس منظر میں ایک جانب رب العالمین کی طرف سے دعوت دی جار رہی ہے مد بالمقابل وہ طاغوتی طاقت ہے جس نے ربوبیت کے تمام حقوق اپنے لیے خاص کیے ہوئے ہیں اور زندگی کے ان معاملات میں رب العالمین کی اطاعت نہیں کی جاتی۔

وَقَالَ مُوْسٰي يٰفِرْعَوْنُ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ

موسیٰ نے کہا " اے فرعون ، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہوں

ذرا انداز خطاب ملاحظہ ہو۔ " اے فرعون !" آپ نے اسے مائی لارڈ سے خطاب نہیں فرمایا۔ جس طرح عموماً لوگ اس لفظ کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت لارڈ اور مولیٰ کون ہے ؟ ہاں آپ نے بادشاہ کو بڑی عزت سے اس کے لقب سے پکارا ، اس لفظ کے استعمال کے ذریعہ آپ نے فرعون کو بتا دیا کہ آپ صرف فرعون ہیں اور دوسری یہ حقیقت بھی اس کے سامنے کھول دی کہ اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، " میں اس کائنات کے مالک کا نمائندہ ہوں " حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو حقیقت پیش کی یہی حقیقت آپ سے پہلے آنے والے تمام رسولوں نے بھی پیش کی تھی اور وہ یہ تھی کہ تمام جہانوں کا اب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ ایک ہی حاکم ہے اور پوری زندگی میں اس کی اطاعت ضروری ہے۔ آج کل کے ماہرین ادیان جو کچھ کہتے ہیں عقائد میں بھی تغیر اور ارتقاء کا عمل ہوتا رہا ہے اور وہ سماوی ادیان کو بھی اس اصول سے مستثنی نہیں کرتے تو ان حضرات کا یہ نظریہ باطل ہے ، کیونکہ ادم (علیہ السلام) سے نبی آخر الزماں تک تمام رسولوں کا عقیدہ ایک ہی رہا ہے ، اس میں صرف اللہ حاکم اور مطاع رہا ہے ، اور یہ نہیں رہا کہ پہلے متعدد الٰہوں کے نظریات تھے پھر تین خداؤں اور پھر ایک خدا کا عقیدہ جاری ہوگیا۔ یہ تو تھی صورت اسلام کی۔ رہی جاہلیت تو اس کے اندر جو اختلاف و اضطراب رہا ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ روح پرستی ، متعدد الہوں کی پرستش ، سورج کی پرستش ، دو خداؤں کی پرستش ، ایک خدا کی مشرکانہ پرستش اور بے خدا جاہلیت وغیرہ۔ لہذا سماوی ادیان رسولوں کی تعلیمات اور جاہلی ادیان کے افکار کو ایک ہی اصول پر نہیں پرکھا جاسکتا۔

غرض حضرت موسیٰ اور فرعون اور اس کے ٹولے کے درمیان جو آمنا سامنا ہوا ، یہی صورت ہر نبی کو اپنے اپنے دور میں پیش آئی۔ حضرت موسیٰ سے پہلے آنے والوں کو بھی اور ان کے بعد آنے والوں کو بھی۔ ہر دور میں حکمرانوں نے یہ سمجھا کہ یہ دعوت ان کے اقتدار کے خلاف سازش ہے جس طرح فرعون نے یہ سمجھا کہ یہ درحقیقت ان کے اقتدار اعلی کے خلاف ایک تحریک ہے۔ جب کوئی یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ اللہ وحدہ رب العالمین ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت کے سوا تمام دوسری حاکمیتیں باطل نہیں اور اللہ کے سوا وہ تمام لوگ جو عوام سے اپنا قانون منواتے ہیں وہ وہ در اصل طاغوت ہیں۔ اور اس اعلان کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دعوے کے ساتھ پیش فرمایا کہ وہ اللہ رب العالمین کی جانب سے رسول ہیں اور وہ جو بات کرتے ہیں وہ اللہ کی جانب سے کرتے ہیں اور ان کا اللہ کی جانب سے یہ فریضہ ہے کہ وہ لوگوں تک یہ دعوت پہنچائیں

163