سورۃ الانعام (6): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانعام کے بارے میں معلومات

Surah Al-An'aam
سُورَةُ الأَنۡعَامِ
صفحہ 135 (آیات 60 سے 68 تک)

وَهُوَ ٱلَّذِى يَتَوَفَّىٰكُم بِٱلَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِٱلنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰٓ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِۦ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ثُمَّ رُدُّوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ مَوْلَىٰهُمُ ٱلْحَقِّ ۚ أَلَا لَهُ ٱلْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ ٱلْحَٰسِبِينَ قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَٰتِ ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ تَدْعُونَهُۥ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَىٰنَا مِنْ هَٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّٰكِرِينَ قُلِ ٱللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ قُلْ هُوَ ٱلْقَادِرُ عَلَىٰٓ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ ٱنظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ وَكَذَّبَ بِهِۦ قَوْمُكَ وَهُوَ ٱلْحَقُّ ۚ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ لِّكُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ وَإِذَا رَأَيْتَ ٱلَّذِينَ يَخُوضُونَ فِىٓ ءَايَٰتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا۟ فِى حَدِيثٍ غَيْرِهِۦ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ ٱلشَّيْطَٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ ٱلذِّكْرَىٰ مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ
135

سورۃ الانعام کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانعام کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے، پھر دوسرے روز وہ تمہیں اِسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے، پھر و ہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa allathee yatawaffakum biallayli wayaAAlamu ma jarahtum bialnnahari thumma yabAAathukum feehi liyuqda ajalun musamman thumma ilayhi marjiAAukum thumma yunabbiokum bima kuntum taAAmaloona

(آیت) ” نمبر 60۔

یہ چند مزید الفاظ ہیں ‘ اس سے پہلے چند کلمات میں عالم غیب کے طویل و عریض آفاق کے خطوط کھینچ دیئے گئے تھے اور سابق آیت کے محدود کلمات نے یہ واضح کردیا تھا کہ باری تعالیٰ کا علم کس قدر کامل اور شامل ہے ۔ اب ان زیر بحث چند کلمات اور محدود فقروں سے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ انسان کی پوری زندگی مکمل طور پر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ تمام امور اللہ کے علم ‘ اللہ کی تقدیر اور اللہ کی تدبیر کے مطابق طے پا رہے ہیں ۔ انسان کا جاگنا اور سونا ‘ اس کا مرنا اور پیدا ہونا ‘ اس کا دوبارہ اٹھنا اور حساب و کتاب سب کے سب امر الہی کے مطابق طے ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی اس کے مطابق ہی طے ہوں گے ۔ یہ حقیقت قرآن کے مخصوص طرز ادا اور نہایت ہی ایجداز اور نہایت ہی موثر پیرائے میں بیان کی جاتی ہے ۔ طرز ادا نہایت ہی محسوس ‘ متحرک اور ایسے انداز میں ہے کہ پورا منظر اسکرین پر چلتا پھرتا نظر آتا ہے اور انسانی شعور اور جذبات کو ساتھ لئے ہوئے ہے ‘ نہایت ہی تعجب خیز طرز تعبیر میں ۔

(آیت) ” وھو الذی یتوفکم بالیل “۔ (6 : 60) وہی ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے ۔ جب انسان نیند کی آغوش میں ڈوب جاتا ہے تو گویا وہ مر جاتا ہے ۔ حالت نوم بھی دراصل موت کی ایک قسم ہے ۔ جس طرح حالت موت میں انسان کے حواس معطل ہوجاتے ہیں اسی طرح خواب میں بھی حواس معطل ہوجاتے ہیں اور انسان غافل ہوتا ہے ۔ حواس مردہ ہوجاتے ہیں ‘ عقل رک جاتی ہے اور انسان کا فہم وادراک بھی ختم جاتا ہے ۔ یہ ایک راز ہے جو ابھی تک انسانی فہم سے باہر ہے کہ انسانی قوتیں حالت خواب میں کس طرح رک جاتی ہیں ۔ اگرچہ ہم حالت خواب کے آثار کو جانتے ہیں لیکن اس کی حقیقت تک انسان نہیں پہنچ سکا کہ یہ حالت کس طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ بھی ایک حالت غیبی ہے جس طرح دوسری غیبی حالات انسان کے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں ۔ لیکن جب انسان اس حالت میں پہنچتا ہے تو اس کی تمام قوتیں اس سے سلب ہوجاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ فہم وادراک کی قوت سے بھی انسان محروم ہوجاتا ہے ۔ ایک مخصوص وقت تک کے لئے انسان آثار حیات سے محروم ہوجاتا ہے اور اللہ کے قبضہ قدرت میں جا پہنچتا ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب انسان خواب میں چلا جائے تو صرف اور صرف ارادہ الہی اسے حالت بیداری میں لاتا ہے ۔ ذرا غور کیجئے ! کہ انسان جب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہو تو وہ کس قدر کمزور وناتواں ہے ۔

(آیت) ” ویعلم ما جرحتم بالنھار “۔ (6 : 60) ” اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو ‘ اسے جانتا ہے ۔ “ انسانوں کے اعضاء حالت بیداری میں پورا دن جو حرکات کرتے ہیں جو پکڑتے ہیں اور جو چھوڑتے ہیں ‘ جو اچھے کام کرتے ہیں اور جو برے کام کرتے ہیں ‘ سب کے سب اللہ کے علم میں ہیں ۔ تمام کے تمام انسانوں کی حرکات و سکنات اللہ کی نگرانی میں ہوتی ہیں اور ان کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اللہ کے علم سے باہر نہیں جاتی ۔

(آیت) ” ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمی “۔ (6 : 60) ” پھر دوسرے روز وہ تمہیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ “ یعنی جب تم رات سوتے میں گزارتے ہو تو وہ اس ٹھہراؤ اور انقطاع کی حالت سے تمہیں جگاتا ہے تاکہ تم حقیقی موت تک اپنی مقررہ مدت حیات پوری کرسکو۔ تو گویا یہ سب انسان ان تمام حالات میں اللہ کی قدرت اور تقدیر میں داخل ہوتے ہیں ۔ وہ تقدیر الہی سے باہر نکل نہیں سکتے ۔ نہ یہ تقدیر کہیں جا کر رکتی ہے ۔

(آیت) ” ثم الیہ مرجعکم “۔ (6 : 60) ” پھر دوسرے روز وہ تمہیں اسی کاروبار کے عالم میں واپس بھیج دیتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری ہو۔ “ یعنی جب تم رات سوتے میں گزارتے ہو تو وہ اس ٹھہراؤ اور انقطاع کی حالت سے تمہیں جگاتا ہے تاکہ تم حقیقی موت تک اپنی مقررہ مدت حیات پوری کرسکو۔ تو گویا یہ سب انسان ان تمام حالات میں اللہ کی قدرت اور تقدیر میں داخل ہوتے ہیں ۔ وہ تقدیر الہی سے باہر نکل نہیں سکتے ۔ نہ یہ تقدیر کہیں جا کر رکتی ہے ۔

(آیت) ” ثم الیہ مرجعکم “۔ (6 : 60) ” آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے ۔ “ جس طرح ایک ریوڑ چرنے چگنے کے بعد واپس اپنی جائے قیام اور اپنے مالک کی طرف لوٹتا ہے اسی طرح انسان واپس اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹتا ہے ۔

(آیت) ” ثم ینبکم بما کنتم تعملون “۔ (6 : 60) ” پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ؟ “ اس وقت ان کا وہ اعمال نامہ پیش ہوگا جس کے اندر ان کا ہر فعل درج ہوگا ۔ اور اس پر اس قدر حقیقی انصاف ہوگا جس میں ظلم کا شائبہ تک نہ ہوگا۔

غرض یہ آیت چند کلمات پر مشتمل ہے لیکن ان کلمات کے اندر ایک طویل ریل لپٹی ہوئی ہے ۔ اس کے اندر مختلف تصاویر اور مناظر پنہاں ہیں ۔ مختلف فیصلے ‘ مختلف اشارات اور ہدایت ثبت ہیں ۔ مختلف شیڈ اور رنگ ہیں ‘ کون ہے جو اس قدرت مختلف کلمات میں یہ رنگ بھر سکتا ہے ۔ اگر یہ آیات معجز نہیں ہیں تو پھر کون سا کلام معجز ہو سکتا ہے ۔ لیکن تعجب ہے کہ تکذیب کرنے والے اور کفر کا رویہ اپنانے والے ان سے غافل ہیں اور مادی معجزات اور خوارق کے طلبگار ہیں اور اللہ کے عذاب الیم کو دعوت دے رہے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wahuwa alqahiru fawqa AAibadihi wayursilu AAalaykum hafathatan hatta itha jaa ahadakumu almawtu tawaffathu rusuluna wahum la yufarritoona

(آیت) ” نمبر 61 تا 62۔

(آیت) ” وھو القاھر فوق عبادہ “۔ (6 : 61) ” اپنے بندوں پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے ۔ “ یعنی وہ صاحب قوت بادشاہ ہے اور تمام انسان اس کی ایسی رعایا ہیں جو اس کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔ اس بادشاہ کی حقیقی قوت اور لوگوں کی قوت کی درمیان کوئی نسبت نہیں ہے ۔ اس کے بالمقابل نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی قوت نہیں ہے بلکہ ان کے لئے کوئی معاون و مددگار بھی نہیں ہے سب پوری طرح اس کے غلام ہیں اور پوری طرح اس کے تابع اور زیر قبضہ ہیں ۔

یہ ہے انسان کی جانب سے ایک قاہر اور مکمل طور پر حاوی خدا کی مکمل غلامی اور یہی وہ حقیقی تصور ہے جو لوگوں کی عملی زندگی میں حقیقی تبدیلی پیدا کرتا ہے چاہے اللہ لوگوں کو مکمل آزادی اور اختیارات عطا کر دے ‘ ان کو وافر مقدار میں علم ومعرفت دے دے اور ان کو وافر مقدار میں قوت دے دے تاکہ وہ اس کرہ ارض پر فریضہ خلافت ارضی کے تقاضے پورے کرسکیں ۔ لیکن ان باتوں کے باوجود انسانی زندگی کے تمام سانس اللہ کے ہاں مقرر ہیں اور انسان کی تمام حرکات و سکنات اللہ کے اس قانون قدرت کے مطابق ہیں جو اس نے خود انسانوں کے وجود میں جاری اور ساری کردیئے ہیں اور انسان خود اپنے وجود کے ان قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ۔ اور یہ قوانین بھی نفس انسانی اور حرکات انسانی کے اندر متعین اور مقرر ہیں ۔

(آیت) ” ویرسل علیکم حفظۃ “۔ (6 : 61) ” اور تم پر نگرانی کرنے والے مقرر کرکے بھیجتا ہے ۔ “ یہاں آیت میں ان نگرانوں کی نوعیت کو متعین نہیں کیا گیا ۔ دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ یہ نگرانی کرنے والے فرشتے ہیں جو انسانوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور وہ تمام اعمال ریکارڈ کر رہے ہیں جو انسانوں سے صادر ہوتے ہیں ۔ یہاں صرف اس امر پر روشنی ڈالنا مقصود ہے کہ ہر انسان براہ راست اللہ کی نگرانی میں ہے اور انسانی سوچ میں یہ شعور ڈالنا ہے کہ نفس انسانی کو ایک لحظہ کے لئے بھی آزاد نہیں چھوڑا جاتا اور نہ ہی وہ کسی وقت تنہا ہوتا ہے ۔ ہر وقت اس کے ساتھ ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو اس کی تمام حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے رہتے ہیں اور اس قدر مکمل اور جامع ریکارڈ تیار کرتے ہیں کہ ان کی نظروں سے کوئی بات بچ کر نہیں رہتی ۔ یہ ایک ایسا تصور اور ایسی سوچ ہے جس کے نتیجے میں مکمل انسانی شخصیت بیدار ہوجاتی ہے اور وہ ہر بات کو محسوس کرتی ہے ۔

(آیت) ” حتی اذا جآء احدکم الموت توفتہ رسلنا وھم لا یفرطون “۔ (6 : 61) ” یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔ “ یہ اسی ربانی نگرانی کا رنگ ہے ‘ لیکن مختلف شیڈز میں ‘ یعنی ہر انسان کے لئے اس دنیا میں سانس لینے کی تعداد مقرر ہے ۔ اس کے ان سانسوں کے رک جانے کا بھی ایک وقت مقرر ہے لیکن اس کو وہ جانتا نہیں ہے ۔ انسانی زاوے سے اجل مقرر ہے ۔ لیکن اس کو وہ جانتا نہیں ہے ۔ انسانی زوایے سے اجل مقرر ہے جو اس کے لئے غیب ہے اور اس کا علم اسے کسی ذریعے سے بھی نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اللہ کے علم میں وہ پہلے سے تحریری طور پر ثبت ہے اور ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی ۔ ہر شخص زندگی کے سانس پورے کر رہا ہے ۔ اس دنیا سے اس کے جانے کا وقت دور نہیں ہے بلکہ بالکل قریب ہے ‘ اس کے اندر کوئی تغیر ممکن نہیں ہے ۔ نہ اس میں بھول چوک ممکن ہے ۔ اللہ کے نمائندے تیار کھڑے ہوتے ہیں ‘ یہ فرشتے ہوتے ہیں اور ان کا نظام نہایت ہی محفوظ ہوتا ہے ۔ ہر شخص کی موت کا وقت تحریری طور ثبت ہے لیکن انسان سخت غفلت میں ہوتا ہے ۔ یہ نمائندے اپنا فرض نہایت ہی باریک بینی سے ادا کرتے ہیں ۔ وہ اپنا پیغام وقت پر پہنچاتے ہیں ۔ یہ سوچ اور یہ عقیدہ ہی ایک غافل انسان کو جھنجوڑنے کے لئے کافی اور شافی ہے ۔ اس عقیدے کا حامل انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ کے فیصلے اسے پوری طرح گھیرے ہوئے ہیں ۔ ہر وقت وہ یہ یقین کے ساتھ جانتا ہے کہ اگلے ہی لمحے میں اس کی روح قبض ہو سکتی ہے اور اگلے ہی سانس میں اس کی حرکت قلب رک سکتی ہے ۔

(آیت) ” ثم ردوا الی اللہ مولھم الحق “۔ (6 : 62) ” پھر سب کے سب اللہ ‘ اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں ۔ “ حقیقی آقا وہی ہے جس نے انہیں یہاں اس کرہ ارض پر زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کئے اور ان پر یہاں ان کی پوری زندگی کا ریکارڈ تیار کرنے کے لئے اپنے نگران مقرر کئے جو بالکل کوئی کمی بیشی نہیں کرتے ۔ اس کے بعد وہی آقا ہے کہ جب چاہتا ہے ان انسانوں کو اپنے پاس بلا لیتا ہے تاکہ وہ ان کے بارے میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرے اور اس کے فیصلے پر کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ۔

(آیت) ” الالہ الحکم وھو اسرع الحسبین “۔ (6 : 62) ” خبردار ہوجاؤ ‘ فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔ “ صرف وہی فیصلہ کرتا ہے ‘ وہ خود ہی حساب لیتا ہے ۔ وہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتا ۔ اور نہ جزاوسزا میں تاخیر کرتا ہے ۔ جلدی فیصلہ کرنے کے اثرات بھی انسانی زندگی پر نہایت ہی گہرے ہوتے ہیں ۔ انسان سوچتا ہے کہ اللہ کے ہاں نہ حساب میں دیر لیتا ہے اور نہ فیصلہ کرنے میں ۔

ایک مسلمان کی یہ سوچ کہ اللہ اس کا خالق ہے اور ایک دن اسے مرنے ہے اور اللہ کے سامنے اپنی پوری زندگی کا حساب و کتاب پیش کرنا ہے اسے ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں ہونے دیتی ۔ اس سوچ کے مطابق اس کے عقائد کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کو حقیقی حاکم سمجھنے لگتا ہے اور اس کا یہ منطقی عقیدہ ہوجاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر بندوں کے تمام امور اللہ کے حکم کے مطابق طے ہونے چاہئیں ۔

آخرت کا حساب و کتاب اور آخرت میں سزا وجزاء کے فیصلے بہرحال اس دنیا میں کیے گئے اعمال پر مرتب ہوتے ہیں اور لوگ اس دنیا میں اس وقت تک صحیح طرز عمل اختیار نہیں کرسکتے جب تک ان کے لئے کسی شریعت کی شکل میں مربوط ضابطہ عمل موجود نہ ہو جس میں ان کے لئے حلال و حرام کی حد بندی کردی گئی ہو اور جس کے اوپر ان کا اخروی حساب و کتاب ہو۔ اس طرح اس تصور حیات کے مطابق یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس دنیا میں بھی حاکم اللہ ہے اور آخرت میں بھی حاکم اللہ ہے ۔

اگر طے یہ کردیا جائے کہ دنیا میں اللہ کی شریعت کے سوا کوئی اور قانون رائج ہوگا تو پھر آخرت میں ان سے مؤاخذہ اور حساب و کتاب کس ضابطہ عمل پر ہوگا ؟ کیا ان کے اعمال کا موازنہ قیامت کے روز ان قوانین کے مطابق ہوگا جو دنیا میں عملا نافذ نہ تھی اور نہ یہ لوگ اپنے فیصلے اس شریعت کے مطابق کراتے تھے ؟ یہ صورت حال ہر گز ممکن نہیں ہے ۔

لوگوں کو چاہئے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ اللہ ان سے حساب و کتاب خود اپنی شریعت کے مطابق لے گا ۔ اگر انہوں نے اپنی پوری زندگی کو اور اپنے معاملات کو اللہ کی شریعت کے مطابق نہ ڈھالا ‘ جس طرح وہ اپنے مراسم عبودیت شریعت کے مطابق بجا لاتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے حساب لیتے وقت سب سے پہلے اس بات کا حساب لیا جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا اور یہ کہ کیوں انہوں نے اللہ کے سوا کئی دوسرے الہوں کو حاکم اور شارع مقرر کیا اور تسلیم کیا ۔ صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کو حاکم اور رب قرار کیوں نہ دیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان سے پہلا حساب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے اللہ کے حق حاکمیت کا انکار کیوں کیا یا انہوں نے اللہ کی شریعت کے ساتھ ساتھ دوسرے شرائع کا اتباع کرکے اور اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگی کر کے شرک کا ارتکاب کیوں کیا ؟ انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی میں اپنے اقتصادی اور سیاسی نظام میں ‘ اپنے معاملات اور سوشل روابط میں اللہ کے سوا دوسروں کی پیروی کرکے شرک کا ارتکاب کیوں کیا جو ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ شرک کو معاف نہیں کرتا اور شرک کے سوا سب کوتاہیوں سے درگزر کرتا ہے ‘ اگر چاہے ۔

اب اللہ تعالیٰ انہیں عدالت فطرت میں پیش فرماتے ہیں ‘ کیونکہ خود فطرت انسانی کو حقیقت الہیہ کا شعور ہوتا ہے ۔ فطرت انسانی کا یہ خاصہ ہے کہ وہ مشکل لمحات میں بارگاہ الہیہ میں پناہ لیتی ہے ۔ قرآن ایسے بعض شدید لمحات کی تصویر کشی بڑی سرعت سے ہوتی ہے اور یہ منظر اسکرین پر آکر چلا جاتا ہے ۔ لیکن یہ منظر نہایت ہی دو ٹوک ‘ فیصلہ کن ‘ موثر اور حیران کن ہوتا ہے ۔

یہ ہولناک اور کربناک صورت حال ہمیشہ قیامت کے لئے مؤخر نہیں کردی جاتی ، کبھی کبھار اس دنیا میں بھی انسان ایسے حالات سے دوچار ہوتا ہے ۔ مثلا بحری سفر میں انسان کو جو مشکلات پیش آتی ہیں تو ان میں مشرکین بھی ہمیشہ اللہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی پھر لوگوں کو نجات دیتے ہیں ۔ لیکن جب وہ اس مشکل اور خوفناک صورت حالات سے بخیریت نکل آتے ہیں اور نارمل زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو پھر شرک کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

پھر سب کے سب اللہ، اپنے حقیقی آقا کی طرف واپس لائے جاتے ہیں خبردار ہو جاؤ، فیصلہ کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں اور وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma ruddoo ila Allahi mawlahumu alhaqqi ala lahu alhukmu wahuwa asraAAu alhasibeena

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! ا ن سے پوچھو، صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کو ن ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا، گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے تو نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul man yunajjeekum min thulumati albarri waalbahri tadAAoonahu tadarruAAan wakhufyatan lain anjana min hathihi lanakoonanna mina alshshakireena

(آیت) ” نمبر 63 تا 64۔

خطرات کا تصور اور ہولناک لمحات کی یاد بعض اوقات خود انسانوں کو بھی راہ راست پر لے آتی ہے ۔ اس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ہیں ۔ اس سے انسان کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ انسان بہت ہی ضعیف ہے اور اسے ہر وقت اللہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں اس کی مشکلات دور ہوجاتی ہیں اور اسے نعمت الہیہ بشکل نجات دستیاب ہوتی ہے ۔

(آیت) ” قُلْ مَن یُنَجِّیْکُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَہُ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ ہَـذِہِ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ (63)

(اے نبی ﷺ ان سے پوچھو ‘ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے ‘ کون ہے جس سے تم (مصیبت کے وقت) گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ کس سے کہتے ہو کہ اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ۔

یہ وہ نفسیاتی تجربہ ہے جو ہر اس شخص کو درپیش ہوا ہے جو کبھی مشکلات میں گھرا ہے یا جس نے مشکلات کے اندر گھرے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے ‘ کیونکہ خشکی اور سمندر دونوں میں انسان اس قسم کی مشکلات سے دو چار ہوتا رہتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ اندھیروں کا تحقق رات ہی میں ہو ‘ اس لئے کہ لاچاری بھی ایک اندھیرا ہے ۔ خطرہ بھی اندھیرا ہے ۔ خشکی اور سمندر کے غیبی واقعات جن کے انتظار میں پوری دنیا کی نظریں لگی ہوتی ہیں یہ بھی ظلمات ہوتے ہیں ۔ جب بھی انسان خشکی اور سمندر کی ان ظلمتوں میں گھرتا ہے تو اس کائنات میں انہیں صرف اللہ ہی حقیقی متصرف نظر آتا ہے ۔ ایسے حالات میں انسان بڑی عاجزی ‘ یکسوئی اور نہایت ہی راز دارانہ طور پر صرف اللہ ہی کے سامنے دست بدعاء ہوتا ہے ۔ ایسے حالات میں فطرت انسانی اپنی اصل شکل میں تمام پردوں سے باہر آکر عیاں ہوتی ہے ۔ اس وقت فطرت کی گہرائیوں میں جو حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے وہ سامنے آتی ہے اور وہ حقیقت ہوتی ہے اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت ۔ انسان حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اب اس کے ساتھ کسی کو شریک بھی نہیں ٹھہراتا ۔ اس وقت انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ شرکیہ تصورات کس قدر بودے ہوتے ہیں ۔ اب شرک کا نام ونشان نہیں ہوتا اور جو لوگ اس کرب والم میں مبتلا ہوتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے : ” اگر اس بلا سے اس نے ہم کو بچا لیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے ؟ “ اللہ تعالیٰ اس موقع پر حضور ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کریں :

(آیت) ” قُلِ اللّہُ یُنَجِّیْکُم مِّنْہَا وَمِن کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِکُونَ (64)

” کہو ‘ اللہ تمہیں اس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے ۔ پھر تم دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو ۔ اس کے اندر ہی انہیں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ وہ پھر بھی شرک جیسے منکر کا ارتکاب کرتے ہیں اور تعجب خیز انداز میں الٹے پھرتے ہیں ۔

یہاں انسانوں کو یہ صورت حال یاد دلائی جاتی ہے کہ اس نجات کے بعد بھی دوبارہ وہ ایسے ہی مشکل حالات میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ یہ بات نہیں ہے کہ یہ مشکلات صرف ایک بار ہی آنے والی تھیں ۔ یہ باری ان پر سے گزر گئی اور اب گویا وہ اللہ کے قبضہ قدرت سے نکل گئے ہیں ۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ انکی بھول ہے ۔ اس سلسلے میں ذیل کی آیت ملاحظہ ہو :

اردو ترجمہ

کہو، اللہ تمہیں اُس سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے پھر تم دوسروں کو اُس کا شریک ٹھیراتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Quli Allahu yunajjeekum minha wamin kulli karbin thumma antum tushrikoona

اردو ترجمہ

کہو، وہ اِس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے دیکھو، ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul huwa alqadiru AAala an yabAAatha AAalaykum AAathaban min fawqikum aw min tahti arjulikum aw yalbisakum shiyaAAan wayutheeqa baAAdakum basa baAAdin onthur kayfa nusarrifu alayati laAAallahum yafqahoona

(آیت) ” نمبر 65۔

اگر کوئی مصیبت سر کے اوپر آکر پڑتی ہے یا پاؤں کے نیچے سے کوئی مصیبت پھوٹتی ہے تو اس کا تصور دائیں بائیں سے آنے والی مصیبتوں سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے اس لئے کہ انسان کی قوت واہمہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ دائیں بائیں سے آنے والی مصیبت کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن جو عذاب سرکے اوپر سے نازل ہو یا جو عذاب پاؤں کے نیچے سے ابل پڑے وہ انسان کو ڈھانپ لیتا ہے ‘ اسے متزلزل کردیتا ہے ‘ اور انسان کی محدود قوت پر غالب آجاتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں ٹھہرنا اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ انداز بیان ایسا ہے جو انسان کے شعور واحساس میں اس قوی فیکٹر کو اجاگر کرتا ہے اور انسان یہ یقین کرلیتا ہے کہ اللہ کا عذاب جب چاہے اور جس طرح چاہے انسان کو اپنے گھیرے میں لے سکتا ہے ۔ اللہ کسی بھی وقت بندوں کو پکڑنے کی قدرت رکھتا ہے ۔

اس آیت میں عذاب کی ان قسموں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ‘ عذاب کی ان اقسام کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے جو نہایت ہی دھیمی رفتار سے اور طویل زمانے کے بعد انسان پر آتی ہیں ۔ ان اقسام کا عمل لمحہ بھر یا مختصر عرصے میں پورا نہیں ہوجاتا ۔ یہ اقسام انسان کی ساتھی بن جاتی ہیں ‘ انسان کی آبادی اور اس کی پوری زندگی میں رچ بس جاتی ہیں اور رات دن انسان کی رفیق سفر رہتی ہیں ۔

(آیت) ” اویلبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض “۔ (6 : 65) ” یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے ۔ “ اللہ کے دائمی اور طویل المدت عذاب کی یہ ایک اور شکل ہے ۔ یہ عذاب انسانوں پر خود اپنے ہاتھوں آتا ہے اور وہ خود اسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں ‘ وہ یوں کہ اللہ انہیں گروہوں اور پارٹیوں میں تقیسم کردیتا ہے ‘ یہ گروہ اور احزاب ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہوجاتے ہیں ‘ وہ ایک قسم کی پارٹیاں ہوتی ہیں ‘ عوام ان فرقوں کے اندر فرق و امتیاز بھی نہیں کرسکتے ۔ ان فرقوں کے درمیان جدل وجدال قائم رہتا ہے ۔ ایک طویل دشمنی قائم ہوجاتی ہے اور ان میں سے ایک فرقہ دوسرے کے لئے بلائے جان ہوتا ہے ۔

انسانیت نے اپنی تاریخ کے مختلف وقفوں میں اس قسم کے عذاب کو محسوس کیا ہے ۔ جب بھی انسان نے اپنی اجتماعی زندگی سے اسلامی نظام حیات کو بدر کیا ہے ‘ انسان اس عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ جب بھی اسلام کو ترک کر کے انسانوں نے اپنی خواہشات اور میلانات کی پیروی شروع کی ہے اور اپنی کوتاہیوں ‘ کمزوریوں اور جہالتوں کو اپنا اصول بنایا ہے وہ اس قسم کے عذاب سے دو چار ہوئے ہیں ۔ جب بھی لوگ راہ گم کردیتے ہیں اور اپنے لئے خود نظام زندگی بنانے لگتے ہیں ‘ اپنے لئے رسم و رواج اور اجتماعی قوانین خود بنانے لگتے ہیں اور حسن قبح کے پیمانے خود تجویز کرنے لگتے ہیں تو اس کے نتیجے میں انسانوں میں سے بعض لوگ بعض دوسرے انسانوں کے غلام بن جاتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کے تجویز کردہ نظام زندگی کی اطاعت کریں ۔ اور یوں وہ دوسروں کے غلام بن جائیں اور اس کے مقابلے میں بعض دوسرے لوگ اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ یوں فریق اول ان مخالفین پر حتی المقدور مظالم ڈھانے لگتا ہے ۔ اب دو فریق میدان میں ہوتے ہیں ۔ ان دونوں کی خواہشات ‘ میلانات اور مقاصد ومفادات کے درمیان ٹکراؤ ہوجاتا ہے ۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں وہ ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھتے ہیں ۔ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ‘ ایک دوسرے پر غصہ ہوتے اور ان سب تضادات کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں فریق کسی ایک پیمانے پر متفق نہیں ہوتے ۔ وہ پیمانہ معبود نے سب کے لئے تجویز کیا ہے جس کے مطابق تمام لوگ رب ذوالجلال کے بندے ہوتے ہیں ۔ اس رب کے سامنے کوئی بھی جھکنے سے نہیں کتراتا نہ وہ اس عبادت اور جھکنے میں اپنے لئے کوئی سبکی محسوس کرتا ہے ۔

اس کرہ ارض پر سب سے بڑا فتنہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ یہ مطالبہ لے کر اٹھیں کہ دوسرے لوگ انہیں الہ سمجھتے ہوئے انکی بندگی کریں اور ان کے حق حاکمیت کو تسلیم کریں ۔ یہ وہ فتنہ ہے جس کی وجہ سے انسان گروہوں میں بٹ کر باہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں اس لئے کہ بظاہر تو وہ ایک ہی قوم اور ایک امت نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ایک دوسرے کے غلام اور بندے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے بعض لوگوں کی ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے اور وہ اس اقتدار کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ اس لئے کہ اس اقتدار میں وہ اللہ کی شریعت کے پابند نہیں ہوتے ۔ بعض دوسرے جن کے ہاتھ میں اقتدار نہیں ہوتا ان کے دل میں اہل اقتدار کے لئے نفرت اور بغض ہوتا ہے یہ صاحبان اقتدار اور ان سے اقتدار چھیننے کی فکر کرنے والے متربصین (گھات میں بیٹھنے والے) ایک دوسرے کی طاقت اور دشمنی کا مزہ چکھتے ہیں ۔ یہ سب لوگ پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے نہ علیحدہ ہوتے اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی فاصلہ ہوتا ہے ۔ وہ ایک ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔ آج اس کرہ ارض پر تمام انسانیت اللہ کے اس عذاب میں مبتلا ہے اور یہ اللہ کا وہ عذاب ہے جو نہایت ہی دھیمی رفتار سے اپنا کام کرتا ہے ۔

اس وقت اس کرہ ارض پر اسلامی تحریک کا جو موقف ہے وہ قابل التفات ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اسلامی تحریک کے موقف کو دنیا پر چھائی ہوئی جاہلیت سے بالکل علیحدہ اور ممتاز کردیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ جاہلیت ہے کیا ؟ ہر صورت حال ‘ ہر حکومت اور ہر معاشرہ جس پر اسلامی شریعت کی حکمرانی نہ ہو ‘ وہ جاہلیت ہے ۔ ہر وہ صورت حال جس میں اللہ وحدہ کی حاکمیت کو تسلیم نہ کیا جاتا ہو جاہلیت ہے ۔ اس جاہلیت اور اسلامی تحریک کے موقف کے درمیان مکمل جدائی ضروری ہے ۔ تحریک اسلامی کو ہر قوم اور ہر معاشرے کے اندر جو جاہلیت میں رہتی ہو اور جاہلی قوانین اور اقدار نافذ کرنا چاہتی ہو خود اپنا ایک مستقل اور جدا وجود اور تشخص قائم کرنا چاہئے اور اسے جدا نظر آنا چاہئے ۔

اسلامی تحریک عذاب الہی کی اس دھمکی کی زد سے صرف اس صورت میں نجات پاسکتی ہے کہ وہ شعوری نظریاتی اور اپنے نظام زندگی کے اعتبار سے اہل جاہلیت سے مکمل طور پر علیحدہ ہوجائے ، آیت کے یہ الفاظ ” یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں ۔ “ اور یہ مکمل جدائی اور علیحدہ تشخص اس وقت تک قائم رہے جب تک اللہ ہمیں دارالاسلام قائم کرنے کی توفیق نہیں دے دیتا ۔ اسلامی تحریک کے اندر یہ شعور زندہ رہنے چاہئے کہ وہی حقیقی امت مسلمہ ہے اور اس کے اردگرد جو معاشرہ عملا موجود ہے وہ ابھی تک اسلامی امت کا حصہ نہیں بنا ہے ۔ یہ لوگ حاملین جاہلیت ہیں ۔ اس نظریے اور اس منہاج پر تحریک اسلامی کو دوسرے لوگوں سے جدا ہونا چاہئے ۔ اس کے بعد اسے بارگاہ الہی میں دست بدعا ہونا چاہئے کہ اے اللہ ہمارے اور ہماری اس قوم اور اس معاشرے کے اندر حق کے اوپر فیصلہ کر دے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔

اگر تحریک اسلامی یہ امتیاز اور جدائی اختیار نہیں کرتی تو مذکورہ بالا وعید اور دھمکی کی مستوجب ہوگی ۔ وہ کسی مخصوص معاشرے میں ایک گروہ اور فرقہ بن جائے گی ‘ اور یہ فرقہ بھی دوسرے فرقوں کے ساتھ خلط ملط ہوگا ۔ اس کا کوئی علیحدہ تشخص نہ ہوگا اور نہ اپنے ماحول کے اندر ان کی کوئی امتیازی شان ہوگی ۔ اس پر بھی وہ عذاب نازل ہوگا جو دوسرے لوگوں پر ہوگا اور یہ ایک دائم اور طویل عذاب ہوگا ۔ اور یہ امید تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی فتح اور نصرت نصیب ہوگی جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے ۔

اپنے معاشرے سے مکمل جدائی اور امتیاز کی وجہ سے بعض اوقات بہت بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں اور مصائب کے پہاڑ بھی ٹوٹے ہیں ۔ لیکن یہ مصائب اور نـقصانات ان مصائب اور نقصانات سے کہیں کم ہوتے ہیں جو اس صورت میں کسی اسلامی تحریک پر آتے جب وہ جاہلی معاشرے میں خلط ملط ہو اور اس کا موقف واضح اور ممتاز نہ ہو اور وہ جاہلی معاشرے میں مدغم اور پیوستہ رہے اور آخر کار ہر کہ درکان نمک رفت ۔ نمک شد ہوجائے ۔

اس نکتے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم انبیاء ورسل کی تاریخ کا مطالعہ کریں رسولوں کی تاریخ سے یہ بات نظر آتی ہے کہ جب تک رسولوں کے متبعین نے اس وقت کے موجود جاہلی معاشرے سے اپنے آپ کو مکمل طور پر علیحدہ نہیں کرلیا ‘ اس وقت تک انہیں وہ فتح اور نصرت حاصل نہیں ہوئی جس کا اللہ نے تمام رسولوں کے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور رسول آخر کار غالب ہوں گے ۔ کسی امت کو بھی غلبہ اور کامیابی اس وقت تک نصیب نہیں ہوئی جب تک وہ اس وقت کے جاہلی معاشرے سے کٹ کر علیحدہ نہیں ہوگئی ۔ اور انہوں نے دوسرے لوگوں سے نظریہ اور نظم زندگی علیحدہ اور ممتاز نہیں کرلیا ۔ اس علیحدگی اور امتیاز سے مراد یہ نہیں ہے کہ اسلامی تحریک لوگوں سے معاشرتی بائیکاٹ کر دے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نظریہ حیات اور اپنے دین اور نظام کے اعتبار سے ممتاز ہو ۔ یہ وہ یونٹ ہے جس سے اسلامی تحریکوں اور دوسرے لوگوں کی راہ جدا ہوجاتی ہے ۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دعوت اسلامی کا منہاج وہی ہوگا جس کے مطابق رسولوں نے دعوت دی ۔ اس راہ میں وہی مقامات ہیں جو رسولوں کو پیش آئے ۔

(آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ (65)

” دیکھو ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں ۔ “

درس نمبر 63 ایک نظر میں :

سابق لہر میں اہل حق و باطل کے درمیان مکمل جدائی کے مضمون پر خاتمہ ہوا تھا ۔ اس لہر میں اس کی مزید تفصیل دی گئی ہے ۔ یہ حضور ﷺ کی قوم ہی تھی ۔ جس نے اس کتاب کو جھٹلایا جو آپ پر نازل ہوئی تھی اور وہ کتاب بڑحق تھی ۔ اسی نکتے پر حضور ﷺ اور آپ کی قوم کی راہیں جدا ہوگئیں اور آپ ﷺ نے ان سے علیحدہ ہو کر اپنی راہ لی ۔ آپ ﷺ کو اللہ نے حکم دیا کہ آپ ان سے علیحدہ ہوجائیں اور اعلانیہ کہہ دیں کہ میں تمہارا حوالہ دار نہیں ہوں اور یہ کہ اب میں تمہیں تمہاری تقدیر کے حوالے کرتا ہوں اور تم برے انجام تک پہنچنے والے ہو ‘ وہ عنقریب آنے والا ہے ۔

رسول ﷺ کو یہ بھی حکم دیا جاتا ہے کہ جب وہ اسلام پر نکتہ چینیاں کررہے ہوں تو آپ ان کی مجلس میں نہ بیٹھیں اس وقت جبکہ وہ دین اسلام کے ساتھ مذاق کررہے ہوں اور دین اسلام کا شایان شان احترام نہ کر رہے ہوں ۔ لیکن اس جدائی اور امتیاز کے ساتھ ساتھ حکم یہ ہے کہ انہیں انجام بد سے ڈرایا جاتا رہے اور وعظ وتبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہے ۔ یہ صورتحال بہرحال موجود رہنی چاہئے کہ اہل دعوت اور اہل جاہلیت ایک قوم ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ فرقے ہوں ‘ دو علیحدہ امتیں ہوں ۔ اس لئے کہ اسلام میں رنگ ونسل اور خاندان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہاں تو اتحاد وافتراق کا مدار نظریے ‘ اور عقیدے کی اساس پر ہے ۔ یہ نظریہ اور عقیدہ ہی ہوتا ہے جو نکتہ اتفاق یا مقام افتراق ہوتا ہے ۔ جب دینی اساس پائی جائے تو لوگ متحد ہوجاتے ہیں اور جب دینی عنصر مفقود ہو تو تمام دوسرے روابط کٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس یہی اس لہر کا مختصر مضمون ہے ۔

اردو ترجمہ

تمہاری قوم اُس کا انکار کر رہی ہے حالانکہ وہ حقیقت ہے اِن سے کہہ دو کہ میں تم پر حوالہ دار نہیں بنایا گیا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaba bihi qawmuka wahuwa alhaqqu qul lastu AAalaykum biwakeelin

(آیت) ” نمبر 66 تا 67۔

یہاں روئے سخن حضور اکرم ﷺ کی طرف ہے ۔ اس خطاب کے ذریعے نبی کریم ﷺ اور آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے کاسہ دل کو ایمان ویقین سے بھر دیا جاتا ہے ۔ اگرچہ ایک داعی کی پوری قوم اور پورا معاشرہ حق کو جھٹلا دے تب بھی اسے یقین ہوتا ہے کہ حق غالب رہے گا اس لئے کہ سچائی کے بارے میں فیصلہ کرنا اہل جاہلیت کا کام نہیں ہے ‘ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ حق اور باطل کا فیصلہ کرے ۔ اللہ ہی ہے جو یہ اعلان کرسکتا ہے کہ فلاں چیز حق ہے اور فلاں چیز باطل ۔ لہذا جھٹلانے والوں کے کسی فیصلے کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے ۔

اس کے بعد حضرت نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے دامن جھاڑ دیں اور اعلان کردیں کہ وہ ان سے بری الذمہ ہیں اور یہ کہ اب ان کی اور ان کی قوم کی راہیں جدا ہوگئی ہیں اور یہ بھی اعلان کردیں کہ وہ ان کے معاملے میں کسی چیز کے مختار وحوالہ دار نہیں ہیں اور نہ ان کی نگہبانی کے ذمہ دار ہیں ۔ ان کا فریضہ اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب وہ پیغام پہنچا دیں اور سمجھا دیں کیونکہ ذمہ داری اور نگہبانی رسولوں کی ڈیوٹی میں شامل نہیں ہے ۔ جب کوئی رسول پیغام پہنچا دے اور سمجھا دے تو اس کا فریضہ ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد رسول اقوام کو چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنے فطری انجام تک پہنچ جائیں ‘ کیونکہ ہر بات اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوجاتی ہے اور جب بات سامنے آجاتی ہے تو سب اسے جان لیتے ہیں ۔

(آیت) ” لِّکُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (67)

” ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے ‘ عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہوجائے گا “۔

یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کیا بات ہے جو ظاہر ہونے والی ہے ۔ ایسے مقامات پر بات کو مجمل رکھنا زیادہ خوفناک ہوتا ہے ۔ مارے ڈر کے دل کانپ اٹھتے ہیں ۔

آیات میں حق پر ثابت قدمی کی تلقین ہے یقین دلایا گیا ہے کہ باطل کا ظاہری غلغلہ جس قدر بھی ہوں اس کا انجام بہرحال برا ہوگا اور ایک مقررہ وقت پر اللہ کی جانب سے اہل باطل کو پکڑا جاتا ہے اور یہ کہ ہر بات کے ظہور کا وقت مقرر ہے اور ہر حاضر صورت حال کا ایک انجام سامنے آنے والا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ داعیان حق کو اپنی قوم کی جانب سے جس تکذیب اور سرد مہری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘ ان پر اپنے خاندان کی جانب سے جو مظالم ہوتے ہیں ‘ جس طرح وہ اپنے اہل و عیال میں بیگانے بن جاتے ہیں ‘ انہیں جن اعصاب شکن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ‘ ایسے حالات میں فی الواقعہ وہ ایسی ہی تسلی کے محتاج ہوتے ہیں ‘ انہیں جن اعصاب شکن حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ‘ ایسے حالات میں فی الواقعہ وہ ایسی ہی تسلی کے محتاج ہوتے ہیں ‘ اس طرح ان کا کاسہ دل اطمینان اور یقین سے بھر جاتا ہے اور یہ اطمینان اور سکینت قرآن ہی ان کے دلوں میں پیدا کرسکتا ہے ۔

جب پیغمبر ﷺ نے ان تک یہ پیغام دیا اور ان کی جانب سے ناروا تکذیب و انکار کا جواب ان کے ساتھ قطع تعلق کے ذریعے دے دیا گیا تو اب حضور ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ ان کی ہمنشینی اختیار نہ کریں ‘ یہاں تک کہ تبلیغی مقاصد کے لئے بھی ان کے پاس نہ جائیں اگر حالات ایسے ہوں کہ وہ اسلام پر تنقید اور نکتہ چینیاں کر رہے ہو اور عزت واحترام اور سنجیدگی سے اسلامی موضوعات پر بحث نہ کر رہے ہوں ۔ اسلام جس سنجیدہ عزت ووقار اور رعب وداب کا تقاضا کرتا ہے وہ اس کا لحاظ نہ کررہے ہوں بلکہ الٹا دین کے ساتھ مذاق کر رہے ہوں اور ہنسی مزاح کے ساتھ ریمارکس پاس کر رہے ہوں چاہے اپنی زبان سے وہ ایسا کر رہے ہوں یا عمل کے ساتھ ۔ ایسے حالات میں حکم دیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ ہم نشینی اختیار نہ کی جائے کیونکہ اس طرح معنوی اعتبار سے ہم نشینی کرنے والا ان باتوں کا تائید کنندہ تصور ہوگا یا کم از کم یہ تصور ہوگا کہ ایسے شخص کے اندر کوئی دینی غیرت نہیں ہے ۔ اگر شیطان کسی مسلمان کو بہلاوے میں ڈال دے اور وہ ایسی محفل میں بیٹھ جائے تو یاد آتے ہیں اس کا فرض ہے کہ وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہو۔

اردو ترجمہ

ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے، عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہو جائے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Likulli nabain mustaqarrun wasawfa taAAlamoona

اردو ترجمہ

اور اے محمدؐ! جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری آیات پر نکتہ چینیاں کر رہے ہیں تو ان کے پاس سے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ وہ اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسری باتوں میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھلاوے میں ڈال دے تو جس وقت تمہیں اس غلطی کا احساس ہو جائے اس کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس نہ بیٹھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha raayta allatheena yakhoodoona fee ayatina faaAArid AAanhum hatta yakhoodoo fee hadeethin ghayrihi waimma yunsiyannaka alshshaytanu fala taqAAud baAAda alththikra maAAa alqawmi alththalimeena

(آیت) ” نمبر 68۔

یہ حکم رسول اللہ ﷺ کے لئے تھا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے بعد آنے والے مسلمان بھی اس میں شامل ہوں ۔ یہ حکم کی دور کے لئے تھا ۔ اس وقت آپ کا کام صرف دعوت وتبلیغ تک محدود تھا اور اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ جہاد و قتال سے باز رہیں ۔ آپ کو یہ ہدایت تھی کہ آپ مشرکین کے ساتھ تصادم سے باز رہیں ۔ چناچہ اس دور میں آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ جب دیکھیں کہ مشرکین کی کسی مجلس میں دین اسلام کے خلاف بدتمیزی ہورہی ہے تو آپ ایسی مجالس میں بیٹھنے سے اجتناب فرمائیں اور اگر کبھی ایسا ہو کہ شیطان آپ کو بہلاوے میں ڈال دے اور آپ کسی ایسی مجلس میں پہنچ جائیں اور وہاں اسلام کے بارے میں گستاخانہ باتیں ہو رہی ہوں تو آپ یاد آتے ہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوں ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اہل اسلام سب کو یہی حکم تھا ۔ یہاں ظالمون سے مراد مشرکون ہے جیسا کہ اس سے پہلے ہم کہہ چکے ہیں ۔ قرآن کریم کا یہ عام انداز گفتگو ہے ۔

لیکن جب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو اس وقت مشرکین کے مقابلے میں حضور ﷺ کی پوزیشن مختلف تھی ۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ حضور ﷺ ان کے مقابلے میں اس وقت تک جہاد و قتال جاری رکھے ہوئے تھے جب تک تمام فتنوں کا استیصال نہیں کردیا جاتا اور کسی کو یہ جرات ہی نہی رہتی کہ وہ آیات الہیہ کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کرے ۔

اس کے بعد سیاق کلام مومنین اور مشرکین کے درمیان مکمل فرق و امتیاز کی بات کو پھر دہراتا ہے جس طرح اس سے قبل رسول اللہ ﷺ اللہ اور مشرکین کے درمیان جدائی کا فیصلہ ہوا تھا ۔ یہاں فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ دونوں کے انجام اور ذمہ داریوں میں بھی فرق ہے ۔

135