سورۃ الانعام (6): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-An'aam کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأنعام کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الانعام کے بارے میں معلومات

Surah Al-An'aam
سُورَةُ الأَنۡعَامِ
صفحہ 133 (آیات 45 سے 52 تک)

فَقُطِعَ دَابِرُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ۚ وَٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ قُلْ أَرَءَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ ٱللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَٰرَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ ٱللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ ٱنظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ ٱلْءَايَٰتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ قُلْ أَرَءَيْتَكُمْ إِنْ أَتَىٰكُمْ عَذَابُ ٱللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلظَّٰلِمُونَ وَمَا نُرْسِلُ ٱلْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ ۖ فَمَنْ ءَامَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَٰتِنَا يَمَسُّهُمُ ٱلْعَذَابُ بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمْ عِندِى خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمْ إِنِّى مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ وَأَنذِرْ بِهِ ٱلَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوٓا۟ إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِۦ وَلِىٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ وَلَا تَطْرُدِ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِٱلْغَدَوٰةِ وَٱلْعَشِىِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُۥ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَىْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَىْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ
133

سورۃ الانعام کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الانعام کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اس طرح ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور تعریف ہے اللہ رب العالمین کے لیے (کہ اس نے ان کی جڑ کاٹ دی)

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FaqutiAAa dabiru alqawmi allatheena thalamoo waalhamdu lillahi rabbi alAAalameena

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! ان سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون سا خدا ہے جو یہ قوتیں تمہیں واپس دلاسکتا ہو؟ دیکھو، کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چرا جاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul araaytum in akhatha Allahu samAAakum waabsarakum wakhatama AAala quloobikum man ilahun ghayru Allahi yateekum bihi onthur kayfa nusarrifu alayati thumma hum yasdifoona

(آیت) ” نمبر 46۔

یہ ایک ایسے منظر کی تصویر کشی ہے جس میں وہ خود اپنے عقائد کے مطابق اللہ کے اس مجوزہ عذاب سے بچنے کی کوئی سبیل نہیں پاتے جبکہ ضمنا یہ بات بھی آجاتی ہے کہ یہ لوگ اللہ کے سوا جن دوسرے لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ بھی نہایت ہی عاجز ہیں ۔ البتہ اس منظر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اس مجوزہ عذاب کی تجویز نے ان لوگوں کو خوب جھنجھوڑا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فطرت انسانی کا خالق ہے ۔ اسے خوب علم ہے کہ اس فطرت کے اندر ادراک حقیقت کی حقیقی قوت بھی موجود ہے اور فطرت انسانی سچائی سے دور نہیں ہے ۔ فطرت انسانی کو اس بات کا ادراک ہے اور علی وجہ البصیرت ہے کہ یہ کام صرف اللہ کرسکتا ہے اور کوئی نہیں ۔ وہ قوت باصرہ ‘ قوت سامعہ اور قوت مدرکہ کو سلب بھی کرسکتا ہے اور لوٹا بھی سکتا ہے اور اس کے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کرسکتا ۔

دل کو دہلا دینے اور اعضائے جسم پر کپکپی طاری کردینے والے اس منظر کے ذریعے اور عقیدہ شرک اور اللہ کے شرکاء کی زبوں حالی کا منظر پیش کرنے کے بعد اب سیاق کلام میں اس تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے سامنے یہ مناظر اور یہ دلائل رکھے جارہے ہیں وہ پھر بھی بیمار اونٹ کی طرف جھکتے ہیں اور سیدھی راہ پر بھی ٹیڑھے چلتے ہیں ۔

(آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ ثُمَّ ہُمْ یَصْدِفُونَ (46) دیکھو کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ “ یہ تعجب ان کی جانب سے جادہ حق سے ایک طرف چلنے کے منظر پر کیا جارہا ہے ۔ (یصدفون (6 : 46) کا مفہوم عربوں میں مشہور ہے ۔ فعل صدف کا صدور بیمار اونٹ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں کے بارے میں ایک قسم کا بہیمانہ اور قابل نفرت تصور دیا جاتا ہے جو ان کے لئے ایک لطیف توہین ہے ۔

ابھی اس متوقع مجوزہ تصوراتی منظر کے اثرات زائل نہ ہوئے تھے کہ ان کے سامنے اب ایک دوسرا متوقع منظر پیش کردیا جاتا ہے ۔ وہ خود بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس مجوزہ منظر کو عملی شکل دینا اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اس منظر میں انہیں یہ دکھایا جاتا ہے کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک آگیا تو تم سوچو کہ اس کی زد میں ظالموں کے سوا اور کون آئے گا ؟ مشرکین ہی تو سب سے پہلے تباہ ہوں گے ۔ ایک جھلکی دکھائی جاتی ہے کہ جب اچانک عذاب آتا ہے تو ظالم اور مشرک نابود کردیئے جاتے ہیں ‘ چاہے یہ عذاب اچانک آئے یا اطلاع کے بعد کھلے بندوں آئے ۔

اردو ترجمہ

کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ کی طرف سے اچانک یا علانیہ تم پر عذاب آ جائے تو کیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی اور ہلاک ہوگا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul araaytakum in atakum AAathabu Allahi baghtatan aw jahratan hal yuhlaku illa alqawmu alththalimoona

(آیت) ” نمبر 47۔

ظالموں کو عذاب الہی ہر صورت میں پکڑتا ہے ۔ یہ اچانک بھی آتا ہے جبکہ وہ غفلت میں ہوتے ہیں اور انہیں کوئی توقع نہیں ہوتی اور کبھی ان پر یہ عذاب اعلانیہ آتا ہے اور وہ اس کے لئے پوری طرح تیار بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن ظالم اقوام پر تباہی آکر رہتی ہے ۔ (یہ بات یاد رہے کہ قرآن کریم کی تعبیرات کے مطابق ظالمین سے مراد مشرکین ہیں) جب یہ عذاب آتا ہے چاہے اچانک آئے یا اعلانیہ تو پھر اس کے مقابلے میں وہ کوئی بچاؤ نہیں کرسکتے اس لئے کہ عذاب الہی کے مقابلے میں وہ اس قدر ضعیف ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ نہ ان کے بنائے ہوئے شریک اس عذاب کو روک سکتے ہیں اس لئے کہ جن لوگوں کو یہ لوگ شریک بناتے ہیں وہ تو اللہ کے ضعیف بندے ہیں ۔

یہ ایک متوقع صورت حالات ہے جو قرآن کریم ان کے سامنے اس موثر انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ یہ لوگ اس صورت حال سے ڈر جائیں اور اپنا بچاؤ کرلیں اور اس صورت حالات کے وقوع کے اسباب فراہم کرنے سے باز رہیں ۔ یہ متوقع صورت حال اللہ نے ان لوگوں کے سامنے اس لئے پیش فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ خود انسانی فطرت کے اندر تقوی موجود ہے اور ایسی صورت حالات کے تصور ہی سے انسان کانپ اٹھتا ہے ۔

اب جب یہ لہر ساحل کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اس کے اندر ایک دوسرے کے بعد اٹھنے والے مناظر دکھائے جاسکتے ہیں اور موثر ہدایات دی جا چکتی ہیں اور ان ہدایات کے تاثرات سامعین اور ناظرین کے قلوب کی تہہ تک اتر جاتے ہیں تو اب حضرت نبی اکرم ﷺ اور دوسرے رسولوں کے فرائض نبوت کا تعین کردیا جاتا ہے ۔ یہ تعین اس لئے کیا جاتا ہے کہ رسولوں سے انکی اقوام کے لوگ خارق عادت معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ رسول تو صرف مبلغ ہوتے ہیں ‘ خوشخبری دیتے ہیں اور انجام بد سے ڈراتے ہیں ۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد اب لوگ خود مختار ہوتے ہیں کہ وہ جو راہ چاہیں اختیار کریں ۔ ان کے اس اختیار تمیزی کے اوپر پھر سزا وجزاء مرتب ہوگی ۔

اردو ترجمہ

ہم جو رسول بھیجتے ہیں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ وہ نیک کردار لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والے اور بد کرداروں کے لیے ڈرانے والے ہوں پھر جو لوگ ان کی بات مان لیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama nursilu almursaleena illa mubashshireena wamunthireena faman amana waaslaha fala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

(آیت) ” نمبر 48۔ 49۔

دین اسلام کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ذہنی اور عقلی بلوغ تک پہنچائے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ اس عظیم قوت کو کام میں لا کر فائدہ اٹھائیں جو اللہ نے صرف انسان کو دی ہے اور اسے پوری طرح اس سچائی کے سمجھنے میں استعمال کریں جو اس کائنات کے صفحات میں موجود ہے ۔ خود زندگی کے طور طریقوں کے اندر موجود ہے اور انسان کی تخلیق کے رازوں میں پوشیدہ ہے ۔ یہ راز قرآن مجید نے سب سے پہلے انسانوں پر کھولے اور انسان کی قوت مدرکہ کو ان کی طرف متوجہ کیا ۔

یہ وجہ ہے کہ لوگوں کو حسی خارق عادت معجزات سے نکال کر عقلی میدان میں داخل کیا گیا ۔ حسی معجزات کے نتیجے میں انسان یقین کرنے پر مجبور تو ہوجاتا ہے لیکن اصل حقیقت اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ انسان کی گردن ظاہری خارق عادت واقعہ کے سامنے جھک جاتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دین اسلام نے عقل انسانی کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی کاریگریوں کا مطالعہ کرے اور انہیں سمجھنے کی سعی کرے ۔ اس لئے کہ اس کائنات کی راز بذات خود معجزات ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ معجزات ہر وقت ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ اور ان کے صدور پر یہ کائنات قائم ہے اور اس کے عناصر ترکیبی انہیں قدرتی بوقلمونیوں پر مشتمل ہیں ۔ اسلام نے انسان کو یہ قوت مدرکہ اور یہ ملکہ بذریعہ کتاب الہی عطا کیا ۔ اپنے انداز بیان اور طرز تعبیر کے اعتبار سے یہ کتاب معجز ہے ۔ اس کا اسلوب بھی معجزے اور اس کی اجتماعی ساخت اور متحرک انداز بیاں اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ اس کی ساخت بےمثال ہے اور قرآن کے نزول کے بعد آج تک اس کی کوئی مثال نہیں لائی جاسکی ۔

انسان کو عقلی بلوغ کے مقام تک پہنچانے کے لئے طویل تربیت اور مسلسل ہدایت کی ضرورت تھی تاکہ انسان کی قوت مدرکہ کہ اندر یہ مطلوب عظیم انقلاب رویہ عمل لایا جاسکے ‘ اور انسانیت ترقی کے مقام بلند تک پہنچ سکے اور انسان خود اپنی قوت مدرکہ کے ساتھ اس کائنات اور موجودات کے اس مسلسل سفر کو سمجھ سکے ۔ لیکن قرآنی ہدایات کی روشنی میں قرآنی ضابطوں کے اندر رہتے ہوئے اور نبی کریم ﷺ کی سنت کی روشنی میں انسان سفر کائنات کو مثبت واقعیت سے اور اچانک ایک مختصر عرصے میں سمجھ سکے اور اس کی یہ سمجھ اور اس کا یہ ادراک ان فلسفوں کے تصور اور ادراک سے بالکل مختلف ہو جو اس وقت رائج تھے ۔ مثلا یونانی اور مسیحی لاہوتی فلسفے یا محض حسی اور مادی تصور کائنات جو اس دور میں ہندی ‘ مصری ‘ مجوسی اور بودھ فلسفوں کی شکل میں رائج تھے اور انسانوں کو رنگ وبو کے اس محدود دائرے سے بھی نکال دے جو نزول قرآن کے وقت عربوں میں عام تھے ۔

یہ ہدایت وتربیت حضرت رسول اللہ ﷺ کے فرائض میں سے تھی اور جس طرح ان دو آیات کے اندر اس کی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ کا اصل کردار یہ تھا ۔ اس کی مزید تشریح اگلی لہر میں بھی آپ دیکھیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ رسول انسان ہوتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ دنیاوالوں کی طرف اس لئے بھیجتے ہیں کہ وہ انہیں اچھے انجام کی خوشخبری دے اور برے انجام سے ڈرائے ، ان امور پر اس کا فریضہ رسالت ختم ہوجاتا ہے ۔ اب آگے لوگوں کا فریضہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ رسول کی دعوت کو قبول کریں ۔ لوگوں کی جانب سے قبولیت اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر ہوتی ہے اور اس دعوت کے مقابلے میں جو شخص جو رویہ بھی اختیار کرے گا اس پر جزا ملے گی یا سزا ہوگی ۔ لہذا جو ایمان لے آئے اور ایسے نیک کام کرے جن سے اس کے ایمان کا اظہار ہو تو اس کا انجام اطمینان بخش ہوگا اور وہ کسی خوف سے دوچار نہ ہوگا نہ اسے بےاطمینانی ہوگی ۔ جن لوگوں نے ان آیات کو جھٹلایا جو رسول لے کر آتا ہے اور جن کے اشارات کتاب کائنات کے اندر موجود ہوتے ہیں تو وہ لوگ عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ اور یہ عذاب اور سزا ان کو ان کی اس تکذیب کیوجہ سے دی جائے گی اور اس کی تعبیریوں کی گئی بما کانوا یفسقون (اس وجہ سے کہ انہوں نے فسق اختیار کیا تھا جس سے مراد کفر ہے) ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر شرک پر ظلم کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور کفر پر فسق کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ۔

یہ ایک نہایت ہی واضح اور سیدھا سادا تصور ہے جس کے اندر کوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔ رسول کے مقام اور اس کے فرائض کے بارے میں یہ ایک واضح نشاندہی ہے کہ دین میں رسول کا کیا مقام وحیثیت ہے اور اس کے فرائض کیا ہیں ؟ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مطابق مقام الوہیت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے ‘ اپنے تمام خصائص کے ساتھ اور تمام کاموں کو اللہ کی تقدیر اور فیصلوں پر موقوف کردیا جاتا ہے ۔ اللہ کی تقدیر اور مشیت کے دائرے کے اندر انسان کو سوچ اور فیصلے کی آزادی بھی دی گئی ہے اس وجہ سے انسان مسئول ہوجاتا ہے اور جزاء وسزا کے نتائج اس کے اعمال پر مرتب ہوتے ہیں ۔ اس واضح تصور سے ان پیچیدہ تصورات کی مکمل نفی ہوجاتی ہے جو بعض لوگوں میں رسولوں کی شخصیت اور طبیعت کے بارے میں غلط فلسفوں کے نتیجے میں رائج ہیں یا دور جاہلیت میں رائج تھے جو یہ توقع کرتے تھے کہ اگر رسول برحق ہے تو معجزے کیوں نہیں لاتا ؟ اور لوگ اس کے مطیع فرمان کیوں نہیں ہوتے ؟ یوں اسلام نے انسان کو عقلی بلوغ کے دور میں داخل کیا اور نہایت ہی سادہ انداز میں ‘ بغیر اس کے کہ وہ پیچیدہ ذہنی اور فلسفیانہ تصورات میں گم ہو ‘ یا لاہوتی جدلیات و مباحث میں پڑ کر اپنی قوت مدرکہ کو ضائع کرے جس طرح قرون مظلمہ میں ہوتا رہا ہے ۔

درس نمبر 61 ایک نظر میں :

اس لہر میں حقیقت رسالت کے بیان کا باقی حصہ دیا گیا ہے ۔ مشرکین عرب کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ رسالت کی حقیقت کیا ہوتی ہے اور رسول کا مزاج کیا ہوتا ہے اور یہ حقیقت ان کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہ لوگ رسول اکرم ﷺ سے خارق عادت معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ سابقہ لہر میں ان کا تذکرہ ہوچکا ہے ۔ یہاں رسالت کے بارے میں ان کے جو جاہلانہ تصورات تھے ان کی مزید درستی کی جارہی ہے ۔ خصوصا یہ وضاحت کردی جاتی ہے کہ رسول بشر ہوتے ہیں اور تمام رسول بشر ہی گزرے ہیں اس لئے کہ عربوں اور انکے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیتوں کے اندر حقیقت رسالت کے بارے میں بہت کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں ۔ ان تصورات کی وجہ سے یہ لوگ حقیقت رسالت حقیقت وحی اور حقیقت نبوت اور ذات رسل کے بارے میں جادہ حق سے بہت دور نکل چکے تھے اور تمام لوگ خرافات اور قصے کہانیوں کی دنیا میں داخل ہو کر گمراہ ہوچکے تھے ۔ انہوں نے نبوت اور رسالت کو سحر اور جادوگری سے ملا دیا تھا ۔ وحی کو وہ جنون سے بھی تعبیر کرتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ رسول غیب کی خبریں دیا کرتا ہے ۔ رسول وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ سے خوارق اور معجزات صادر ہوتے ہیں اور اسے وہ کام کرنے چاہئیں جو جنات کے عامل اور جادوگر کیا کرتے ہیں ۔ جب اسلامی نظریہ حیات آیا تو اس نے باطل عقائد پر بمباری کرکے باطل کا سر پھوڑ کر رکھ دیا اور ایمان کو اس کی سادگی ‘ واقعیت ‘ سچائی اور اس کی وضاحت لوٹا کر دے دی ۔ یوں ایک نبی کی سچی تصویر سامنے آئی اور نبوت کا واضح تصور دنیا نے پایا اور تمام خرافات اور قصے کہانیوں اور وہمی دیومالائی تصورات سے انسان نے نجات پائی جو اس وقت دنیا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے ۔ مشرکین کے ہاں رائج تصورات وہ تھے جو ان کے قرب و جوار میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر بالعموم پائے جاتے تھے ۔ ان دونوں ملتوں کے اندر بھی بہت سی شاخیں اور فرقے تھے ۔ لیکن تمام فرقوں کے اندر حقیقت نبوت کو بگاڑنا قدر مشترک تھی ۔

اس لہر میں حقیقت رسالت اور حقیقت رسول ﷺ کو باطل ادہام و خرافات سے پاک وصاف کر کے پیش کرنے کے بعد اب اسلامی نظریہ حیات کو بھی نہایت ہی سادہ انداز میں پیش کردیا جاتا ہے ۔ اسے بغیر کسی مبالغہ اور بغیر کسی بناوٹ کے اپنے سادہ اور حقیقی خدوخال کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ جو اس نظریہ کے پیش کرنے والے ہیں وہ بھی تو انسان ہیں ۔ ان کے پاس دنیا کے خزانے نہیں ہیں ۔ وہ غیب کا علم نہیں رکھتے ‘ نہ ان کا یہ دعوی ہے کہ وہ فرشتے ہیں ۔ وہ تو صرف اپنے رب کی طرف سے ہدایات اخذ کرتے ہیں اور صرف اسی کے حکم کا منبع ہیں ۔ ان کے پاس سارا علم بذریعہ وحی رب کی طرف سے ان کے پاس آجاتا ہے ۔ جو لوگ آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں وہ لوگوں کے نزدیک نہایت ہی مکرم ہیں ۔ اس لئے رسول کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ جوڑے رکھے اور ان کا خیر مقدم کرے ۔ انہیں یہ خوشخبری دے کہ اللہ نے اپنے اوپر یہ فرض کرلیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہایت ہی رحیمانہ سلوک کرے گا ۔ نیز رسول کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کے دلوں کے اندر خوف خدا موجود ہے اور جو آخرت کی جوابدہی کے قائل ہیں تاکہ وہ خدا خوفی کے اعلی مقام تک پہنچ جائیں ۔ بس یہی ہے رسول اللہ کا فریضہ اور اس کی ڈیوٹی اور اس کی حقیقت دو لفظوں کے اندر منحصر ہے ۔ ” بشریت “ اور ” اخذوحی “ ان دو لفظوں کے اندر رسول کی حقیقت بھی بیان کردی گئی اور رسول کے فرائض منصبی کے حدود کا بھی تعین کردیا گیا ۔ فکر کی اس درستی اور انجام بد کی نشاندہی کے ساتھ ہی مجرمین کی راہ میں بھی متعین ہوجاتی ہے اور مومنین اور مجرمین کی راہیں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔ حق و باطل ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور حقیقت رسول اور منصب رسالت کے بارے میں تمام ادہام و خرافات کا رد ہوجاتا ہے ۔ نہایت ہی واضح طور پر مومنین اور غیر مومنین کے درمیان لکیر کھینچ جاتی ہے ‘ کھلے طور پر ۔

ان حقائق کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مقام الوہیت کے بعد پہلو بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ رسول خدا اور خدا کے درمیان تعلق کی نوعیت بھی بتا دی جاتی ہے ۔ نیز رسول اور اس کے متبعین اور اس کے مخالفین کے ساتھ اس کے تعلق کی حدود اور نوعیت کا بھی تعین کردیا جاتا ہے ۔ یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ متبعین کا رنگ ڈھنگ کیا ہوتا ہے اور گمراہوں کے طور طریقے کیا ہوتے ہیں ۔ جو لوگ ہدایت پانے والے ہیں وہ آنکھوں والے ہوتے ہیں اور جو گمراہ ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے اپنے اوپر اپنے مومن بندوں کے لئے رحمت فرض کردی ہے اور اگر ان میں سے کوئی تائب ہوجائے تو اللہ اسے ضرور معاف فرماتے ہیں ‘ اگرچہ انہوں نے معاصی کا ارتکاب کیا ہو ‘ بشرطیکہ یہ ارتکاب انہوں نے جہالت کی وجہ سے کیا ہو اور توبہ کے بعد وہ اصلاح کی راہ اپنائیں ۔ نیز اللہ مجرموں کی روش کو اچھی طرح واضح کرنا چاہتے ہیں ۔ لہذا جو بھی ایمان لاتا ہے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی علی وجہ البصیرت گمراہ ہو۔ ہر شخص جو موقف بھی اختیار کرے ، سوچ کر کرے ۔ کسی غلط فہمی اور کسی گمان وتخمین کی بنیاد نہ ہو۔

اردو ترجمہ

اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں سزا بھگت کر رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena kaththaboo biayatina yamassuhumu alAAathabu bima kanoo yafsuqoona

اردو ترجمہ

ا ے محمدؐ! ان سے کہو، "میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے" پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul la aqoolu lakum AAindee khazainu Allahi wala aAAlamu alghayba wala aqoolu lakum innee malakun in attabiAAu illa ma yooha ilayya qul hal yastawee alaAAma waalbaseeru afala tatafakkaroona

(آیت) ” نمبر 50۔

اہل مکہ میں سے معاندین اور مخالفین رسول اللہ ﷺ سے یہ مطالبہ کرتے تھے کہ آپ ﷺ ان کے سامنے کوئی خارق عادت معجزہ پیش کردیں تو وہ آپ کی دعوت کو قبول کرلیں گے ۔ لیکن جیسا کہ اس سے قبل بتایا جا چکا ہے کہ اہل مکہ کو آپ کی صداقت میں ذرہ برابر شک نہ تھا ۔ یہ محض بہانہ سازی تھی ۔ کبھی وہ اس مطالبے کا مخصوص طور پر ذکر کرتے تھے اور وہ یہ کہ آپ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو سونے میں تبدیل کردیں ۔ کبھی وہ یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ان پہاڑیوں کو مکہ سے غائب کردیا جائے ‘ ان کی جگہ سرسبز و شاداب زمین بن جائے اور اس میں فصل اور پھل اگ آئے ۔ کبھی وہ یہ مطالبہ کرتے تھے کہ آپ انہیں کچھ غیبی امور کی اطلاع کردیں ۔ کبھی وہ یہ مطالبہ کرتے کہ ان کے سامنے فرشتہ آجائے ۔ کبھی وہ یہ مطالبہ کرتے کہ قرآن کریم کتابی صورت میں لکھا ہوا ان کے سامنے آپ پر نازل ہوجائے ‘ وہ اسے پڑھ لیں اور نازل ہوتے ہوئے دیکھ بھی لیں ۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے مطالبات دراصل وہ اس لئے کرتے تھے کہ ان کے نیچے وہ اپنے بغض وعناد کو چھپالیں جس کی وجہ سے وہ مان کر نہ دیتے تھے ۔

یہ مطالبات ان کے ذہن میں ان تصورات کی وجہ سے پیدا ہوتے تھے ‘ جو عربوں کے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیتوں نے ‘ حقیقت رسالت اور شخصیت رسول کے ساتھ غلط طور پر وابستہ کر رکھے تھے ۔ ان تمام وہمی تصورات کو اہل کتاب نے اپنے ہاں تصور نبوت میں جگہ دے رکھی تھی ‘ اور انہوں نے ان ہدایات کو ترک کردیا تھا جو اہل کتاب کے پاس ان کے رسول لے کر آتے رہے تھے ۔

دنیا میں رائج مختلف جاہلیتوں میں بہت سے لوگوں نے اپنے آپ کو خود نبی بنا کر پیش کیا تھا اور بعض سادہ لوح اقوام نے ان کو نبی تسلیم بھی کرلیا تھا ۔ ان لوگوں پر جادوگروں ‘ کاہنوں ‘ اہل نجوم اور جنات والوں کے دعوے شامل تھے جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا۔ اس قسم کے تمام نبیوں نے ہمیشہ عالم الغیب ہونے کا دعوی کیا ‘ مزید یہ کہ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ روحیں ان کے قبضے میں ہیں اور جنات کے ساتھ ان کے رابطے ہیں اور یہ کہ وہ تعویذوں اور گنڈوں کے ذریعے نظام قدرت کو تبدیل کرسکتے ہیں یا یہ کہ وہ عبادات اور دعاؤں کے ذریعہ کار سازی کرسکتے ہیں یا دوسرے خفیہ ذرائع سے مقصد برآری کرسکتے ہیں ۔ یہ تمام مذاہب جس امر پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ یہ لوگ متبعین کو وہم میں مبتلا کرتے ہیں اور راہ حق سے انہیں گمراہ کرتے ہیں ۔ ہاں اس وہم پرستی اور ضلالت کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں ۔

جادوگروں کی نبوت کا تعلق ہمیشہ ارواح خبیثہ کے ساتھ ہوا کرتا تھا ۔ یہ جادوگر ان خبیث روحوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتے تاکہ نامعلوم امور کو معلوم کرسکیں یا یہ کہ وہ واقعات و حالات پر اثر انداز ہو سکیں ۔ کاہنوں کی نبوت کی شکل یہ ہوتی کہ اس کا تعلق بعض خداؤں سے ہوتا ۔ یہ خدا کاہن کے ماتحت نہیں ہوتے نہ اس کے قبضے میں ہوتے ہیں لیکن وہ اس کی درخواست اور عبادت کو قبول کرتے ہیں اور کاہن کو جو مسائل درپیش ہوتے ہیں انہیں وہ سوتے ہیں یا حالت بیداری میں حل کردیتے ہیں اور اسے بعض اشارات یا خوابوں کے ذریعہ ہدایات دیتے ہیں ۔ لیکن کاہن کی تمام درخواستیں اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔ یہ دونوں قسم کی نبوتیں جذب وجنون کی نبوت سے بالکل مختلف ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ ساحر اور کاہن دونوں جو طلب کرتے ہیں وہ اسے خود سمجھتے ہیں ۔ وہ بالا ارادہ دعا کرتے ہیں جو بھی کرتے ہیں یا وہ جو عزم و ارادہ کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں لیکن جذب وجنون کا نبی جذب وجنون کے ہاتھوں بےبس ہوتا ہے ۔ اس کی زبان سے مبہم قسم کی باتیں نکلتی ہیں ۔ وہ بالارادہ یہ باتیں نہیں کرتا ۔ بعض اوقات شاید وہ سمجھتا بھی نہیں کہ وہ کیا کہتا ہے ۔ اکثر اقوام میں یوں ہوتا ہے کہ جذب وجنون میں سرشار نبی کے ساتھ ایک مفسر ہوتا ہے جو اس مجذوب کے کلام کو سمجھنے کا دعوی کرتا ہے ۔ یونانی زبان میں ایسے نبی کو مانتی (Manti) اور اس کے شارح کو پر افٹ (Prophet) کہا جاتا ہے ۔ لغوی مفہوم یہ ہے ” وہ جو دوسرے کی جانب سے بطور نائب بات کرتا ہے ۔ “ اسی لفظ کو اہل یورپ نے نبوت کے مختلف معنوں میں اپنے ہاں رائج کیا۔ کاہن اور مجذوب کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ متفق نہیں ہوئے ۔ ہاں ایک صورت ایسی ہے کہ کاہن اور مجذوب باہم متفق ہوجاتے ہیں ۔ یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب مجذوب کا شارح کلام ‘ کاہن ہو اور اس کی ڈیوٹی یہ ہو کہ وہ مجذوب کے اشارات ومضامین کی تشریح کرے گا ۔ اکثر اوقات ان کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے اور ان کے درمیان تنازعات برپا ہوجاتے ہیں کیونکہ ان دونوں کی معاشرتی ذمہ داریاں جدا ہوتی ہیں اور ان کی تربیت مختلف حالات میں ہوئی ہوتی ہے ۔ مجذوب ایک انقلابی مزاج رکھتا ہے اور وہ عادات اور سوشل مراسم کا پابند نہیں ہوتا جبکہ کاہن سوشل مراسم کا پابند اور محافظ ہوتا ہے کیونکہ اکثر اوقات یہ کہانت اسے ورثے میں ملتی ہے ۔ اس کے آباؤاجداد بھی کاہن ہوتے ہیں۔ کہانت ایسے معاشرے میں چلتی ہے جو کسی علاقے میں قریب وبعید صومعے یا ہیکل سے متاثر ہو جبکہ جذب کسی معاشرے اور رسم کا پابند نہیں ہوتا کیونکہ صاحب جذب بعض اوقات پوری دنیا سے کٹ جاتا ہے اور اس کی موجودہ صورت حالات اسے اپنے اردگرد سوسائٹی سے کاٹ دیتی ہے ۔ “

” بنی اسرائیل کے قبائل میں انبیاء کی بڑی کثرت رہی ہے اور بنی اسرائیل کی طویل تاریخ میں ان کی مثال اسی طرح ہے جس طرح جدید دور میں اہل ذکر کے سلسلے ہیں یا صوفیاء کے طریقے ہیں ۔ کیونکہ بعض زمانوں میں ان کی تعداد سینکڑوں میں رہی ہے اور انہوں نے اپنے متبعین میں ریاضت اور تربیت کے وہی طریقے جاری کئے جو آج بھی صوفیاء کے ہاں جاری ہیں ‘ مثلا جسمانی ریاضت کے ذریعے سے جذب حاصل کرنا یا سماع اور طرب ونشاط کے آلات کے ذریعے جذب حاصل کرنا ۔ “

(اسلام کے حقائق اور اس کے دشمنوں کی گمراہیاں ۔ مصنفہ استاد عتاد صفحہ ‘ 226)

یہ بات یاد رہے کہ ہم نے عقائد کی کتاب سے محض غلط تصورات کا حوالہ دیا ہے ۔ البتہ انہوں نے تصور خدا اور تصور رسالت میں جو ارتقانی بحث کی ہے بلکہ ادیان سماوی کے اندر بھی ارتقاء ثابت کیا ہے اور اسے اسلام میں تصور خدا اور رسالت تک پہنچایا ہے ‘ اس منہاج سے ہمیں اتفاق نہیں ہے ۔ دراصل تمام ادیان سماوی میں خدا کا وہی تصور تھا جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔ ہاں ملل انبیائے سابقین اگر گمراہ ہو کر جاہلیت میں داخل ہوگئیں تو اس کی ذمہ داری ادیان پر نہیں ہے کیونکہ بعد کے ادوار میں ملتوں نے انبیاء کی صحیح تعلیمات کے اندر تحریفات کردیں اور اسلام کے صحیح تصور کو اپنے جاہلی تصورات کے تابع کردیا ۔ قرآن کریم ہماری اس بات کی تائید کرتا ہے ۔ اہل مغرب کے اہل علم جو ادیان کے بارے میں بحث کرتے ہیں خصوصا ارتقائی نظریے سے تو یہ محض مفروضے اور شبہات ہیں ۔ (سیدقطب)

” سموئیل اول کی کتاب میں ہے کہ :

” ساؤل نے داؤد کو گرفتار کرنے کے لئے کچھ ایلچی بھیجے۔۔۔۔۔۔ سو انہوں نے نبیوں کی جماعت کو نبوت کرتے دیکھا اور ساؤل نے ان کے درمیان بطور رئیس کھڑا تھا ۔ پھر اللہ کی روح ساؤل کے ایلچیوں پر اتری اور انہوں نے بھی نبوت کی ۔ پھر اس نے اوروں کو بھیجا تو انہوں نے نبوت کی ۔۔۔۔ پس اس نے اپنے کپڑے اتار دیئے ۔ اور اس نے بھی سموئیل کے آگے نبوت کی اور وہ دن بھر اور رات بھر ننگا رہا ۔

اسی طرح کتاب سموئیل میں یہ بھی آیا ہے کہ تو نبیوں کے ایک گروہ سے ملے گا جو ٹیلے سے اترتے ہوں گے ۔ ان کے آگے رباب ‘ دف ‘ بانسری اور عود بجتے ہوں گے ۔ اور وہ نبوت کرتے ہوں گے ۔ پس ان پر رب کی روح اترے گی اور ان کے ساتھ نبوت کرے گی اور ایک اور آدمی کی طرف منتقل ہوگی ۔

گزشتہ بیان سے ثابت ہوا کہ نبوت ایک فن تھا ۔ جس کا تعلق ماوراء کے ساتھ تھا ۔ بیٹے اسے آباؤاجداد سے سیکھتے تھے ۔ جس طرح کہ کتاب سلاطین دوم میں آیا ہے : جب نبیوں کے بیٹوں نے کہا اے الیسع یہ وہ جگہ ہے جہاں پر ہم تیرے آگے مقیم ہیں ۔ یہ جگہ ہم پر تنگ ہے سو اب ہم کو اردن جانا چاہئے

بعض مواضع ہیں ان کی خدمات لشکر کے سپرد ہوتی تھیں ۔ جیسے کہ ایام کے سفر اول میں ہے : داؤد اور لشکروں کے سرداروں نے بنی اساف وغیرہ کے نبی کہلانے والوں کو عود ‘ رباب اور سارنگیوں سے سرفراز کیا “۔ یہ تھا قدیم جاہلیتوں کا حال اور ان میں وہ جاہلیتیں بھی شامل ہیں جو آسمانی رسالتوں پر ایمان لانے والی امتوں میں فکری انحراف کی وجہ سے رائج ہوگئی تھیں اور اس فکری انحراف کی وجہ سے ان کے ہاں حقیقت نبوت اور مزاج نبی کے بارے میں غلط افکار نے راہ پالی تھی ۔ ان غلط افکار کی وجہ سے عوام الناس ہر مدعی نبوت سے یہ توقع رکھتے تھے کی اس سے مطلوبہ واقعات صادر ہوں ۔ کبھی تو وہ یہ توقع کرتے تھے کہ وہ انہیں غیب کی خبریں دے ۔ کبھی وہ یہ مطالبہ کرتے تھے کہ وہ سحر اور کہانت کے ذریعے کائنات کے طبیعی قوانین کو بدل دے ۔ یہی تصور تھا جس کی وجہ سے مشرکین رسول اللہ ﷺ سے اس قسم کے مطالبات کرتے تھے ۔ اور ان غلط افکار کی درستی کے لئے قرآن کریم نے حقیقت رسالت اور طبیعت رسول کے بارے میں بار بار وضاحت کی ہے ۔ اور ان وضاحتوں میں سے ایک یہ ہے :

(آیت) ” قُل لاَّ أَقُولُ لَکُمْ عِندِیْ خَزَآئِنُ اللّہِ وَلا أَعْلَمُ الْغَیْْبَ وَلا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَفَلاَ تَتَفَکَّرُونَ (50)

” اے نبی ﷺ ان سے کہو ‘ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں ‘ اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ “ پھر ان سے پوچھو ” کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ “۔

حضور اکرم ﷺ کو اپنے رب کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف بطور انسان پیش کریں اور اپنے ساتھ جاہلیت کے ادہام اور دیومالائی قصے وابستہ نہ کریں جو اہالیان جاہلیت نے نبوت اور نبی کی ذات میں داخل کردیئے تھے ۔ نیز حضور ﷺ ان کے سامنے اسلامی نظریہ حیات کو بغیر کسی لاگ ولپیٹ کے پیش کریں ‘ جس میں کوئی زیادتی نہ ہو اور نہ ادعاہو ۔ بس یہ ایک عقیدہ ہے جسے رسول لے کر آیا ہے اور اس سے فائدہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے اللہ ہدایت دے ‘ بذات خود رسول کسی کو ہدایت بھی نہیں دے سکتا ۔ راہ دکھانے والا صرف اللہ ہے ۔

رسول کی حقیقت اس نظریہ حیات کے مطابق صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے آمدہ وحی کی پیروی کرتا ہے ۔ اللہ اسے ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جنہیں وہ پہلے نہ جانتا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ کے خزانوں کا مختار نہیں بن جاتا کہ وہ ان خزانوں کے دروازے ان لوگوں پر کھول دے جو اس کے متبعین ہیں ۔ نہ اس کے پاس غیب کی کنجیاں آجاتی ہیں کہ وہ اپنے پیروکاروں کو آنے والے واقعات بتاتا جائے ۔ نہ وہ فرشتہ ہوتا ہے کہ اس کی پاس فرشتے آیا کریں اور ساتھ رہیں ۔

وہ بشر اور رسول ہوتا ہے ۔ یہ ہے اسلامی نظریہ حیات پاک وصاف اور بالکل واضح اور سیدھا سادا ۔

یہ عقیدہ فطرت کی آواز ہے ۔ یہ زندگی کا بنیادی عنصر ہے اور اللہ اور آخرت کے راستے کے لئے چراغ راہ ہے ۔ اسے اس کی اصل شکل کے سوا کسی اور سجاوٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص صرف اس عقیدے کو چاہتا ہے تو وہی اس کا مستحق ہے اور یہ عقیدہ اس کے لئے سب سے اونچی قدر ہوگی ۔ اگر کوئی شخص اس عقیدے کو بطور سامان دنیا اپنائے تو وہ اس کی حقیقت کا ادراک نہ کرسکے گا ۔ نہ اس کی قدروقیمت کو سمجھ سکے گا ‘ لہذا یہ عقیدہ بھی ایسے شخص کو کچھ نہ دے سکے گا ۔ ایسا شخص محتاج ہی رہے گا ۔

ان وجوہات کی بنا پر حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اسے اس انداز میں پیش کریں کہ اس میں کوئی بناوٹ اور تصنع نہ ہو ‘ کیونکہ اسے کسی بنا ؤ سنگھار کی ضرورت نہیں ہے تاکہ معلوم ہو کہ جو لوگ اس نظریے کے سایہ عاطفت میں آتے ہیں وہ کسی غرض اور دولت کے لئے نہیں آتے ‘ کسی جاہ و جلال کے لئے نہیں آتے اور ماسوائے تقوی کے کسی فضیلت کے طبگار نہیں ہیں ۔ وہ محض اللہ کی راہنمائی حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں جو اللہ کا بڑا کرم اور سب سے بڑی دولت ہے ۔ ذرا دوبارہ غور کیجئے :

(آیت) ” قُل لاَّ أَقُولُ لَکُمْ عِندِیْ خَزَآئِنُ اللّہِ وَلا أَعْلَمُ الْغَیْْبَ وَلا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ (50)

” اے نبی ﷺ ان سے کہو ‘ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں ‘ اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ “

نیز انہیں معلوم ہو کہ وہ ہدایت الہی میں آکر درحقیقت نور وبصیرت کے دائرے میں آجاتے ہیں اور جہالت اور ظلمت سے نکل آتے ہیں

(آیت) ” قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَفَلاَ تَتَفَکَّرُونَ (50)

پھر ان سے پوچھو ” کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ “۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ صرف وحی کی پیروی کرنا ہی ہدایت اور بصیرت ہے اور جو شخص وحی سے محروم ہوگیا وہ نابینا اور اندھا تصور ہوگا ۔ اس آیت نے نہایت ہی دو ٹوک الفاظ میں اس سوال کو حل کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ ہدایت وضلالت کے معاملے میں عقل انسانی کا کیا کردار ہے ؟

اسلامی نظام حیات نے اس سوال کا نہایت ہی واضح اور دو ٹوک جواب دیا ہے ۔ عقل جو خود اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے ‘ بذات خود دین الہی ہے ۔ اس کے اندر یہ قوت تو ہے کہ وہ وحی الہی کو اخذ کرسکے ‘ اور اس کے مفہومات کو سمجھ سکے ۔ یہ اس کا فریضہ بھی ہے اور یہ اس کا دائرہ اختیار بھی ہے کہ وہ نور ہدایت کو اپنائے اور اپنے آپ کو اس مضبوط ضابطے کا پابند کرلے جس کے اندر کسی جانب سے کوئی جھول یا غلطی نہیں ہے ۔

لیکن اگر عقل انسانی اپنے آپ کو ضابطہ وحی الہی سے آزاد کرلے تو وہ ہمیشہ گمراہی اور انحراف کا شکار ہوجاتی ہے ۔ اس کا مطالعہ غلط ہوتا ہے ‘ اس کے اندازے بہت ہی غلط ہوجاتے ہیں اور اس کی تمام تدابیر ناکارہ رہ جاتی ہیں ۔

عقل انسانی اس حادثے سے دو چار اس لئے ہوتی ہے کہ اپنی ساکت کی وجہ سے عقل انسانی اس کائنات کے اجزاء کا ادراک تو کرسکتی ہے لیکن اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کائنات کو بحیثیت کل واحد یا مجموعی طور پر مطالعہ کرسکے ۔ انفرادی اور جزئی ادراک کی وجہ سے عقل بار بار تجربہ کرتی ہے ‘ حادثے کے بعد حادثہ رونما ہوتا ہے ‘ ایک تصویر بنتی ہے اور دوسری بگڑتی ہے ۔ لیکن عقل چوبیں پا کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پوری کائنات کو مجموعی حیثیت سے دیکھ سکے اور مجموعی اور کلی مطالعے کے نتیجے میں احکام صادر کرسکے ۔ اس کلی ادراک کے نتیجے میں کوئی نظام تشکیل دے سکے ‘ جس کے اندر مکمل جامعیت اور توازن موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب عقل ہدایت الہیہ اور وحی الہی سے آزاد ہو کر فیصلے کرتی ہے تو اسے بار بار تجربے کرنے پڑتے ہیں اور بار بار احکام تبدیل کرنے پڑتے ہیں ۔ بار بار نظام بدلنا پڑتا ہے ‘ ایک اقدام کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی الٹا ردعمل سامنے آتا ہے ۔ کبھی تو عقل نہایت بائیں طرف جھک کر دور چلی جاتی ہے اور کبھی دائیں طرف جھک کر بہت دور نکل جاتی ہے ۔ یوں وہ اس عزیز ترین مخلوق خدا یعنی انسان کو ضائع کرتی رہتی ہے اور معزز انسانی ڈھانچے کو تباہ وبرباد کردیتی ہے ۔ اگر عقل اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے وحی کی مطیع فرمان ہوجاتی تو پوری انسانیت اس تباہی سے بچ جاتی ۔ تجربات اور رسم و رواج کے لئے ہم مادی میدان کا انتخاب کرلیتے ‘ نیز صنعتی اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں ہم عقل کو چھوڑ دیتے ‘ کیونکہ یہ وہ میدان ہے جس میں عقل مستقلا کام کرسکتی ہے ۔ اگر اس میں اس کا کوئی تجربہ غلط نکلے تو انسان کو مادی نقصان تو ہو سکتا ہے لیکن انسانی اور روحانی نقصان سے وہ دوچار نہ ہوگا ۔

لیکن اس کی کیا وجوہات ہیں کہ انسان عقل کی وجہ سے ان مشکلات سے دور چارہو جاتا ہے ؟ اس کی عقل کی فطری ساخت کے علاوہ اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں ۔ اس کے اندر کچھ فطری میلانات ‘ خواہشات ‘ اور جذبات بھی ہیں ۔ اور انسان کے ان فطری ‘ جذبات اور خواہشات کے لئے کسی ضابطے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ ان ضابطوں کے اندر رہتے ہوئے سلسلہ زندگی کو جاری رکھ سکے ۔ اسے ترقی دے سکے اور اپنے فطری فرائض کو ادا کرسکے اور فطری ضابطوں کے محفوظ حدود سے آگے نہ بڑھ جائے ‘ جس کی وجہ سے اس کی پوری زندگی تباہی اور بربادی کا شکار ہوجائے ۔ یہ ضابطہ بندی کون کرے گا ؟ کیا صرف عقل انسانی کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ بذات خود جذبات اور میلانات اور جسمانی خواہشات کے زیر اثر کام کرتی ہے جن کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے ‘ لہذا اس کے لئے کسی اور مصدر کی طرف سے ضابطہ بندی ضروری ہے ۔ یہ مصدر اس ضابطہ بندی کے بعد اس کا محافظ بھی ہو سکتا ہے اور عقل انسانی ہر وقت اس کی طرف رجوع کرسکے گی ۔ انسانی زندگی کے ہر حکم پر ‘ ہر تجربے کی ضابطہ بندی اس مصدر ومنبع کی سمت میں ہوگی اور انسان کی حرکت اور جدوجہد کا قبلہ درست رہے گا ۔

جو لوگ عقل انسانی کو وحی الہی کی طرح فیصلہ کن اور حقیقی سمجھتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ جس طرح وحی الہی خدا کی جانب سے ہوتی ہے ‘ اسی طرح عقل انسانی بھی خدا ہی کی دین ہے اور انسان کو خدا ہی نے عقل عطا کی ہے لہذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وحی الہی اور عقل انسانی کے اندر کوئی تضاد ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عقل انسانی کو وہ درجہ دیتے ہیں جو اسے انسانی فلاسفروں نے دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے عقل انسانی کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کی ہے ۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف کسی ایک انسان کی عقل انسانی کو وحی الہی سے بےنیاز کردیتی ہے ‘ اگر وہ بہت ہی بڑا انسان ہو ۔ وہ اس معاملے میں ایسی بات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے خلاف وحی اور رسالت کو حجت قرار دیا ہے ۔ محض انسانی عقل پر نظام مسئولیت نہیں موقوف کیا ۔ نہ صرف اس بات کا انسان کو مکلف بنایا ہے کہ وہ اپنی فطری قوتوں کے بل بوتے ہی پر راہ ہدایت حاصل کرے اور معرفت کردگار حاصل کرے ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ صرف عقل کے لیے منزل مقصود تک پہنچنا مشکل ہے ۔ صرف فطرت پر ہی اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ فطرت کے اندر انحراف ممکن ہے جب وحی راہنما نہ بنے کیونکہ یہی قابل اعتماد رہنما ہے اور صاحب بصیرت لیڈر ۔ (دیکھئے فی ضلال القرآن پارہ ششم آیت ۔۔۔۔۔ کی تفسیر)

جو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ عقل انسان کو دین سے مستغنی کردیتی ہے یا یہ کہ سائنس جو عقل کی پیداوار ہے ‘ انسان کو اللہ کی جانب سے راہنمائی کی ضرورت سے بےنیاز کردیتی ہے ‘ یہ لوگ ایسی بات کرتے ہیں جو نہ حقیقی ہے اور نہ امر واقعہ اس طرح ہے ۔ اس لئے کہ عملی صورت حال بتاتی ہے ‘ یہ لوگ ایسی بات کرتے ہیں جو نہ حقیقی ہے اور نہ امر واقعی اس طرح ہے ۔ اس لئے کہ عملی صورت حال بتاتی ہے کہ جن لوگوں کی زندگی کسی فلسفیانہ تصور پر استوار ہے یا سائنسی نظریات پر استوار ہے وہ نہایت ہی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں اور اس میں انسان سخت ترین مصائب کا شکار ہے ۔ اگرچہ ان کی زندگی پر ہر طرف سے سہولیات کی بارش ہو ‘ ان کی پیداوار اور آمدن بہت زیادہ ہو اور اس میں وسائل زندگی اور اسباب عیش وطرب حد سے زیادہ ہوں ۔ (دیکھئے اسلام اور مشکلات تہذیب کا باب خبط اور اضطراب) اس کے برعکس یہ بات بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی کہ حیات دنیا محض جہالت اور اتفاق پر مبنی ہے ۔ جو لوگ اس کائنات کی تعبیر اس انداز سے کرتے ہیں کہ یہ خود بخود وجود میں آگئی ہے وہ مطلب پرست اور خود غرض ہیں۔ اسلام ایک ایسا نظام زندگی ہے جس میں عقل انسانی کو ایسی ضمانتیں دی گئی ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنی ذاتی ساخت میں پائی جانے والی کمزوریوں سے بھی پاک ہوجاتا ہے ‘ نیز ان کمزوریوں سے بھی بچ جاتا ہے جن میں وہ ذاتی خواہشات اور میلانات کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اسلام عقل کے لئے اصول و ضوابط وضع کرتا ہے جن کیوجہ سے وہ سائنس اور تجربات اور علم ومعرفت کے میدان میں محفوط طریقے سے کام کرتی ہے ۔ ان قواعد کے نتیجے میں عقل کی سرگرمیاں عملی زندگی میں بھی خوب پھیلتی ہیں۔ یہ سب امور اسلامی شریعت کے مطابق طے پاتے ہیں اور عملی زندگی میں عقل پر کوئی پابندی بھی نہیں ہوتی تاکہ وہ برے راستوں پر پڑ کر سیدھے راستے سے منحرف نہ ہوجائے ۔

جب عقل کو وحی الہی کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے تو وہ صاحب بصارت ہوجاتی ہے ۔ اگر وہ وحی الہی کی راہنمائی سے آزاد ہو کر چلے تو وہ اندھی ہوجاتی ہے ۔ یہاں یہ ذکر کہ حضور صرف وحی سے ہدایت اخذ کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ کہنا کہ اندھے اور آنکھوں والے بربر نہیں ہوتے اور سوالیہ انداز میں یہ کہنا اور اس کے بعد بات پر زور دینا کہ غوروفکر سے کام لو ‘ معنی خیز ہے ۔

(آیت) ”إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ أَفَلاَ تَتَفَکَّرُونَ (50)

” میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ “ پھر ان سے پوچھو ” کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ “۔

یہاں آگے پیچھے ایسے اشارات کا ذکر اور یہ انداز ‘ قرآن کریم کا مخصوص انداز تعبیر ہے ۔ اسلام میں غوروفکر مطلوب ہے اور قرآن کریم اس پر بار بار زور دیتا ہے لیکن اسلامی غور وفکر کو وحی کے ضوابط کے اندر منضبط کردیا گیا ہے ۔ وحی عقل کے لئے بطور بصارت کام کرتی ہے ۔ اگر وحی نہ ہو تو عقل چوبیں پا اندھی بھی ہوجاتی ہے اور اس طرح وہ اندھیروں میں لڑکھڑاتی پھرتی ہے ۔ بغیر دلیل وبغیر ہدایت کے اور بغیر کسی کتاب منیر کے ۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر عقل کو ضابطہ ہی کے اندر منضبط کردیا جائے تو کیا اس کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ؟ نہیں وحی اسے ایک وسیع جو لانگاہ فرہام کرتی ہے ۔ عقل کے میدان کار میں یہ پوری کائنات بھی آتی ہے اور اس سے آگے عالم غیب بھی اس کی فکری جو لانگاہ میں آجاتا ہے جبکہ عالم غیب کا میدان عالم شہادت سے بہت وسیع ہے ۔ نفس انسانی کی گہرائی انسانی زندگی اور زندگی کے واقعات یہ سب انسانی غور وفکر کا موضوع ہیں ۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ وحی الہی کسی موڑ پر بھی عقل انسانی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔ اگر کسی جگہ وہ رکاوٹ بنتی ہے تو اس مقام پر جب عقل بےراہ روی اختیار کرتی ہے ۔ غلط منہاج سے سوچتی ہے اور خواہشات اور اغراض کے پیچھے بھاگتی ہے ۔ ورنہ وحی الہی تو عقل سے کام لینے کی ہدایت کرتی ہے اور اس کی سرگرمیوں کے لئے میدان کا تعین کرتی ہے ‘ اس لئے کہ عقل وہ عظیم قوت ہے جو خود اللہ نے انسان کو عطا کی ہے ۔ لیکن یہ قوت انسان کو اس لئے دی گئی ہے کہ انسان اس کے ذریعے ربانی ہدایت اور ربانی نظام کی حفاظت کرے نہ اس لئے کہ اس کے ذریعے وہ تخریف کاری کرکے گمراہ اور سرکش بن جائے ۔

اردو ترجمہ

اے محمدؐ! تم اس (علم وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مدد گار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waanthir bihi allatheena yakhafoona an yuhsharoo ila rabbihim laysa lahum min doonihi waliyyun wala shafeeAAun laAAallahum yattaqoona

(آیت) ” نمبر 51 تا 54۔

یہ اسلامی نظریہ حیات کی برتری اور عزت کی علامت ہے کہ اس میں اس دنیا کے عارضی کرو فر کو کوئی وقعت نہیں دی گئی ۔ اس میں پیش نظر اعلی اقدار ہوتی ہیں اور دنیا کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ اس دعوت کو صاف اور ستھرے انداز میں بغیر کسی بناوٹ کے اصل شکل میں پیش فرما دیں اور اس دعوت کے عوض میں لوگوں کو کسی دنیاوی غرض کا لالچ نہ دیں ۔ یہ حکم بھی دیا گیا کہ آپ صرف ان لوگوں ہی کو پیش نظر رکھیں جو اس دعوت سے کوئی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ہیں نہ آپ اس سے نفع لینا چاہتے ہیں ۔ اور اپنے اردگر دان لوگوں کو جمع کریں جو اس دعوت کو قبول کرتے ہیں اور مخلص ہیں ۔ جو لوگ دل وجان سے اللہ کی طرف متوجہ ہیں اور صرف رضائے الہی کے لئے کام کرنے والے ہیں ۔ آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ جاہلی معاشرے کے رسوم ورواجات اور جاہلی اقدار کو دعوت اسلامی کے نظام میں کوئی وزن نہ دیں اور دنیاوی اعتبارات اور علامات میں سے کسی علامت کو اہمیت دیں ۔

(آیت) ” وَأَنذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُونَ أَن یُحْشَرُواْ إِلَی رَبِّہِمْ لَیْْسَ لَہُم مِّن دُونِہِ وَلِیٌّ وَلاَ شَفِیْعٌ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ (51)

” اور اے نبی ﷺ تم اس (علم وحی) کے ذریعے سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے ‘ شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خدا ترسی کی روش اختیار کرلیں۔

یعنی دعوت اسلامی ان لوگوں کے سامنے سب سے پہلے پیش کی جائے جو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انہیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ وہاں ان کی حالت یہ ہوگی کہ نہ کوئی ولی ہوگا جو مدد کرسکے اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جو چھڑا سکے ۔ اس لئے کہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں ‘ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش نہیں کرسکتا ۔ اگر کسی کو سفارش کی اجازت بھی مل جائے تو بھی وہ ان لوگوں کے حق میں اللہ کی جناب میں سفارش نہ کرے گا ۔ کیونکہ سفارش کے منصف پر فائز ہونے والے لوگ تو خود اس دن خوف کا شدید شعور رکھتے ہوں گے کیونکہ اس دن کوئی اللہ کے سوا شفیع و مددگار نہ ہوگا ۔ اس لئے کہ ان خدا رسیدہ اور خدا سے ڈرنے والے لوگوں سے اس بات کی توقع زیادہ ہوگی ‘ وہ زیادہ خوف محسوس کریں گے اور زیادہ مطیع فرمان ہوں گے اور ہدایت الہی سے اور لوگوں کے مقابلے میں زیادہ نفع اندوز ہوں گے ۔ ایسے لوگوں سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی اس دنیاوی زندگی میں ایسے امور سے بچیں جن کی وجہ آخرت میں عذاب الہی میں مبتلا ہوں ۔ لہذا ڈراوا ایک ایسا بیان ہوتا ہے جو واضح ہوتا ہے اور اس کا بہت اثر ہوتا ہے ۔ یوں انذار کی وجہ سے ان پر وہ امور واضح ہوجائیں گے جن سے وہ پہلے ہی خائف ہیں ‘ لہذا ان امور کے بیان اور انذار کی وجہ سے وہ مزید متقی بنیں گے اور حدود باللہ پامال کرنے سے ڈریں گے اور ان امور میں مبتلا نہ ہوں گے جن سے منع کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ اس کے بعد ہوگا جبکہ ان کے سامنے ممنوع باتوں کا بیان ہوجائے ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ “ (6 : 52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔

جن لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ کے لئے خالص کردیا ہے انہیں اپنے آپ سے دور نہ پھینکو۔ ایسے لوگ جو صبح وشام اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسے پکارتے ہیں اور یہ کام وہ محض رضائے الہی کے لئے کرتے ہیں ۔ یہ خلوص اور محبت کا مقام ہے اور ادب اور احترام کی فضا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہایت خضوع اور خشوع کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور عبادت میں مشغول ہیں ۔ رضائے الہی کا حصول صرف اس وقت ہوتا ہے جب انسان نہایت ہی خلوص کے ساتھ رب کی طرف متوجہ ہو ‘ پوری طرح اللہ کے ساتھ محبت کرتا ہو اور دربار الہی میں نہایت ادب اور خشوع کے ساتھ کھڑا ہوتا ہو یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ربانی کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی للہ فی اللہ والے ۔

سوال یہ ہے کہ حضور ﷺ کو یہ حکم کیوں دیا گیا ؟ اصل بات کیا ہے ۔ واقعہ یوں ہوا کہ اشراف عرب میں سے بعض لوگ دعوت اسلامی کو اس لئے قبول نہ کرتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ کے اردگرد فقراء اور کمزور لوگ جمع تھے ۔ مثلا صہیب ‘ بلال ‘ عمار ‘ خباب ‘ سلمان ‘ اور ابن مسعود ؓ اجمعین وغیرہ اور ان لوگوں نے ایسے جبے پہنے ہوئے ہوتے تھے جن سے بدبو آتی تھی ‘ کیونکہ غربت کی وجہ سے وہ بار بار دھو نہیں سکتے تھے ۔ ان لوگوں کی معاشرتی حیثیت یہ تھی کہ وہ قریش کے بڑے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے کے اہل نہ سمجھے جاتے تھے ۔ ان وجوہات کی بنا پر قریش کے ان اکابرین نے حضور اکرم ﷺ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو اپنی مجلس سے دور کردیں ۔ حضور اکرم ﷺ نے اس بات سے انکار کردیا۔ اس پر ان لوگوں نے یہ مطالبہ کیا کہ حضور ﷺ ان کے لئے علیحدہ مجلس بنا دیں اور صاحب حیثیت لوگوں کے لئے ایک مجلس بنا دیں جس میں ان فقراء میں سے کوئی بھی نہ ہو ۔ یہ مطالبہ وہ اس لئے کرتے تھے کہ جاہلیت میں دور جاہلیت کی مجالس میں اکابرین قریش کو یہ امتیازات حاصل تھے جن کی وجہ سے وہ عوام پر اپنا رعب بٹھاتے تھے ۔ اس دوسری تجویز کے بارے میں حضور ﷺ نے غور کرنا شروع کردیا محض اس لئے کہ شاید اس طرح ان کے دل میں دعوت اسلامی اتر جائے ۔ اس پر حکم صادر ہوا۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ “ (6 : 52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔

امام مسلم نے سعد ابن ابی وقاص سے روایت نقل کی ہے ‘ وہ فرماتے ہیں ہم چھ افراد حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ مشرکین نے حضور اکرم ﷺ سے فرمائش کی ‘ ذرا آپ ان لوگوں کو اپنے ہاں سے ہٹا دیں تاکہ یہ لوگ بےتکلف ہو کر ہمارے خلاف حوصلے نہ پالیں ۔ وہ کہتے ہیں وہ کہتے ہیں ان چھ میں ‘ ایک میں تھا ‘ ابن مسعود ؓ تھے ایک شخص ہذیل کا تھا ‘ بلال تھے اور دو افراد اور تھے جن کے نام یاد نہیں ۔ قریش کی بات کا اثر رسول اللہ ﷺ کے دل پر ہوا جو اللہ نے چاہا ۔ آپ نے ان کی فرمائش پر سوچنا شروع کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔

(آیت) ” وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ “ (6 : 52)

” اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو ۔

یہ کبراء ان بیچاروں کے بارے میں بہت کچھ کہتے تھے ۔ ادھر حضور ﷺ کی جانب سے ان پر بےحد عنایات تھیں اور آپ کی مجلس میں ان کا خصوصی مقام تھا ۔ کبراء ان پر الزام لگاتے اور انہیں برا بھلا کہتے اور ان کی غربت اور ضعف پر تنقید کرتے ۔ ان لوگوں کو ان کا حضور ﷺ کی مجلس میں بیٹھنا گوارا نہ تھا اس لئے یہ کبراء اسلام سے نفرت کرتے تھے اور اسلام قبول کرنا نہ چاہتے تھے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کے بارے میں ایک فیصلہ کن حکم دے دیا ۔ ان کی اس تجویز کو بنیادی طور پر رد کردیا گیا اور اسے کالعدم قرار دیا گیا ۔

اردو ترجمہ

اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں او ر اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار اُن پر نہیں اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tatrudi allatheena yadAAoona rabbahum bialghadati waalAAashiyyi yureedoona wajhahu ma AAalayka min hisabihim min shayin wama min hisabika AAalayhim min shayin fatatrudahum fatakoona mina alththalimeena

(آیت) ” مَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْْہِم مِّن شَیْْء ٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُونَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (52)

” ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کی چیز کا بار ان پر نہیں ۔ اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے ۔

وہ خود اپنا بوجھ اٹھائیں گے اور حساب دیں گے اور تم اپنا بوجھ اٹھاؤ گے اور حساب دو گے ۔ یہ کہ وہ غریب ہیں تو ان کی قسمت میں یہ اللہ نے لکھا ہے ۔ اس میں تمہارا کوئی دخل نہیں ہے ۔ اسی طرح اے پیغمبر خود تمہاری امارت یا فقر کے بارے میں ان سے بھی نہ پوچھا جائے گا ۔ ایمان اور کفر کے معاملے میں امارت اور غربت کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ اگر آپ کسی کو اپنی مجلس میں جگہ دیں یا طرح آپ ظالموں میں سے ہوں گے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول ظالموں میں سے ہوجائے ۔

وہ لوگ جو دل کے تونگر تھے اور جیب کے لحاظ سے غریب تھے ۔ وہ مجلس رسول کے مستقل ممبر رہے ۔ جو لوگ دنیاوی لحاظ سے کمزور تھے مگر ایمانی اور نظریاتی اعتبار سے طاقتور تھے وہ اسی مقام پر برقرار رہے جو ان کے ایمان نے ان کے لئے مقرر کردیا تھا ۔ اس مقام کے وہ اس لئے مستحق ہوگئے تھے کہ وہ صرف اللہ کو پکارتے تھے اور صرف اللہ کی رضا مندی کے طالب تھے ۔ یوں اسلامی اقدار نے اس طرح روایات کی شکل اختیار کی جس طرح اللہ تعالیٰ پسند فرماتے تھے ۔

اہل کبر و غرور تحریک اسلامی سے متنفر ہوگئے ، ان کا تاثر یہ تھا کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ایسے لوگ اللہ کے فضل وکرم کے مالک بن جائیں ۔ یہ ٹٹ پونجئے ! اگر محمد کی برپا کی ہوئی تحریک اور آپ جو پیغام لے کر آئے ہیں اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ لوگ ہم سے آگے نہ ہوتے ۔ اللہ ہمیں ان سے پہلے اس کی جانب راہنمائی فرماتا ۔ یہ کوئی معقول بات نظر نہیں آتی کہ اہل عرب میں سے اللہ تعالیٰ ان ضعفاء اور ناداروں کو اپنے فضل وکرم کے لئے منتخب فرمائیں جبکہ ہم صاحب جاہ و مرتبہ ہیں۔

نسب اور مال پر غرور کرنے والے ان لوگوں کو اللہ نے دراصل فتنے میں ڈال دیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے دین اسلام کو سمجھا ہی نہ تھا نیز یہ دین انسانیت کو جس نئی دنیا میں لے جانا چاہتا تھا اسے بھی یہ لوگ نہ سمجھ سکے تھے جس کے آفاق نہایت ہی وسیع تھے ۔ یہ دین انسانوں کو اس جدید دنیا میں نہایت ہی بلندیوں تک لے جانا چاہتا تھا ۔ اس جدید اسلامی دنیا کا علم اس وقت نہ عربوں کو تھا اور نہ دوسرے لوگوں کو تھا ۔ آج جو لوگ جمہوریت اور دوسرے ناموں سے ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں وہ بھی اسلامی نظام کی دنیا سے بیخبر ہیں ۔

(آیت) ” وَکَذَلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لِّیَقُولواْ أَہَـؤُلاء مَنَّ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّن بَیْْنِنَا (6 : 53)

” دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے ۔ تاکہ وہ انہیں دیکھ کر کہیں ” کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر ہمارے درمیان اللہ کا فضل وکرم ہوا ہے ؟ “

اس سوال کا جواب قرآن کریم یوں دیتا ہے یعنی طبقہ کبراء کے استفہام انکاری کو یوں رد کیا جاتا ہے ۔

133