اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 122 اِذْ ہَمَّتْ طَّآءِفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلاَلا انہوں نے کچھ کمزوری دکھائی ‘ حوصلہ چھوڑنے لگے اور ان کے پاؤں لڑکھڑائے۔وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ rَجنگ کے آغاز سے پہلے انصار کے دو گھرانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم وقتی طور پر ڈگمگا گئے تھے ‘ بربنائے طبع بشری ان کے حوصلے پست ہونے لگے تھے اور انہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا تھا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ثبات عطا فرمایا اور ان کے قدموں کو جما دیا۔ پھر ان کا ذکر قرآن میں کردیا گیا۔ اور وہ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مِنْکُمْ اور وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط کے الفاظ میں کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تین سو منافقین جو میدان جنگ سے چلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر تک نہیں کیا۔ گویا وہ اس لائق بھی نہیں ہیں کہ ان کا براہ راست ذکر کیا جائے۔ البتہ آخر میں ان کا ذکر بالواسطہ طور پر indirectly آئے گا۔
آیت 123 وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج غزوۂ بدر میں ایک ہزار مشرکین کے مقابلے میں اہل ایمان صرف تین سو تیرہ تھے ‘ جبکہ سب کے پاس تلواریں بھی نہیں تھیں۔ کل آٹھ تلواریں تھیں۔ کفار مکہ ایک سو گھوڑوں کا رسالہ لے کر آئے تھے اور ادھر صرف دو گھوڑے تھے۔ ادھر سات سو اونٹ تھے اور ادھر ستر اونٹ تھے۔ اس سب کے باوجود اللہ نے تمہاری مدد کی تھی اور تمہیں اپنے سے طاقتور دشمن پر غلبہ عطا فرمایا تھا۔
آیت 124 اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ یعنی اے مسلمانو ! اگر مقابلے میں تین ہزار کا لشکر آگیا ہے تو کیا غم ہے۔ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے بھیجے گا جو آسمان سے اتریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی اس خوشخبری کو ‘ جو ایک طرح سے استدعا بھی ہوسکتی تھی ‘ فوری طور پر شرف قبولیت عطا فرمایا اور اس کی منظوری کا اعلان فرما دیا۔
آیت 126 وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَءِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ ط وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِ یْزِ الْحَکِیْمِ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے طور پر تمہارے دلوں کے اطمینان کے لیے تمہیں بتادیا گیا ہے ‘ ورنہ اللہ فرشتوں کو بھیجے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا ہے ‘ وہ کُن فیکون کی شان رکھتا ہے۔ تمہیں یہ بشارت تمہاری طبع بشری کے حوالے سے دی گئی ہے کہ اگر تین ہزار کی تعداد میں دشمن سامنے ہوا تو تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے اتر آئیں گے ‘ اور اگر وہ فوری طور پر حملہ آور ہوگئے تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیج دیں گے۔
آیت 127 لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآءِبِیْنَ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرہ زمانی ترتیب سے نہیں ہے۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کا اپنے گھر سے نکل کر میدان جنگ میں مورچہ بندی کا ذکر ہوا۔ پھر اس سے پہلے کا ذکر ہو رہا ہے جب خبریں پہنچی ہوں گی کہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آ رہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کی خوشخبری دی ہوگی۔ اب اس جنگ کے دوران مسلمانوں سے جو کچھ خطائیں اور غلطیاں ہوئیں ان کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ خود آنحضور ﷺ سے بھی خطا کا ایک معاملہ ہوا ‘ اس پر بھی گرفت ہے ‘ بلکہ سب سے پہلے اسی معاملے کو لیا جا رہا ہے۔ جب آپ ﷺ شدید زخمی ہوگئے اور آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ پھر جب ہوش آیا تو آپ ﷺ کی زبان پر یہ الفاظ آگئے : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ 1یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا !تلوار کا وار آنحضور ﷺ کے رخسار کی ہڈی پر پڑا تھا اور اس سے آپ ﷺ کے دو دانت بھی شہید ہوگئے تھے۔ زخم سے خون کا فوارہ چھوٹا تھا جس سے آپ ﷺ کا پورا چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا تھا۔ خون اتنی مقدار میں بہہ گیا تھا کہ آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ آپ ﷺ ہوش میں آئے تو زبان مبارک سے یہ الفاظ اداہو گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ۔۔ اے نبی ﷺ اس معاملے میں آپ ﷺ ‘ کا کوئی اختیار نہیں ہے ‘ آپ ﷺ ‘ کا کام دعوت دینا اور تبلیغ کرنا ہے۔ لوگوں کی ہدایت اور ضلالت کے فیصلے ہم کرتے ہیں۔ اور دیکھئے اللہ نے کیا شان دکھائی ؟ جس شخص کی وجہ سے مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ‘ یعنی خالد بن ولید ‘ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ ہی کی زبان مبارک سے اسے سیفٌ مِن سُیوف اللّٰہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کا خطاب دلوا دیا۔
آیت 128 لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْ یُعَذِّبَہُمْ یہ اللہ کے اختیار میں ہے ‘ وہ چاہے گا تو ان کو توبہ کی توفیق دے دے گا ‘ وہ ایمان لے آئیں گے ‘ یا اللہ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا۔فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ ان کے ظالم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ‘ لہٰذا وہ سزا کے حق دار تو ہوچکے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے اللہ انہیں ہدایت دے دے۔ دیکھئے ‘ یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ چند سال پہلے طائف میں رسول اللہ ﷺ سے جس طرح بدسلوکی کا مظاہرہ کیا گیا وہ آپ ﷺ کی زندگی کا شدید ترین دن تھا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ یہ ملک الجبال حاضر ہے۔ یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے ‘ آپ ﷺ فرمائیں تو ان دونوں پہاڑوں کو ٹکرا دوں جن کے مابین وادی کے اندر یہ شہر طائف آباد ہے ‘ تاکہ یہ سب پس جائیں ‘ ان کا سرمہ بن جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ لیکن یہ وقت کچھ ایسا تھا کہ بربنائے طبع بشری زبان مبارک سے وہ جملہ نکل گیا۔ اس لیے کہ : وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلْ بندہ بندہ ہی رہتا ہے چاہے کتنا ہی بلند ہوجائے ‘ اور ربّ ‘ رب ہی ہے چاہے کتنا ہی نزول فرما لے !
آیت 130 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص یہاں پر سود مرکب compound interest کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرۃ آیت 219 میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود usury سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم 9 ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرۃ میں ہے۔ وہ پورا رکوع نمبر 38 ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔