سورہ توبہ (9): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ At-Tawba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ التوبة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ توبہ کے بارے میں معلومات

Surah At-Tawba
سُورَةُ التَّوۡبَةِ
صفحہ 190 (آیات 21 سے 26 تک)

يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَٰنٍ وَجَنَّٰتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوٓا۟ ءَابَآءَكُمْ وَإِخْوَٰنَكُمْ أَوْلِيَآءَ إِنِ ٱسْتَحَبُّوا۟ ٱلْكُفْرَ عَلَى ٱلْإِيمَٰنِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُوا۟ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ ٱللَّهُ فِى مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْـًٔا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ ثُمَّ أَنزَلَ ٱللَّهُ سَكِينَتَهُۥ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ وَعَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلْكَٰفِرِينَ
190

سورہ توبہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ توبہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yubashshiruhum rabbuhum birahmatin minhu waridwanin wajannatin lahum feeha naAAeemun muqeemun

اردو ترجمہ

ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یقیناً اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khalideena feeha abadan inna Allaha AAindahu ajrun AAatheemun

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tattakhithoo abaakum waikhwanakum awliyaa ini istahabboo alkufra AAala aleemani waman yatawallahum minkum faolaika humu alththalimoona

اب اگلی آیات میں مسلمانوں کی سوچوں ، شعور اور باہمی روابط کو پاک وصاف کردیا جاتا ہے اس طرح کہ وہ دین رب العالمین کے لیے یکسو ہوجائیں چناچہ تمام رشتہ داریوں کی محبت ، ہر قسم کے مفادات اور تمام انسانی لذات اور خوشیوں کو ترازوں کے ایک پلڑے میں رکھا جاتا ہے اور اللہ ، رسول اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کو دوسرے پلڑے میں رکھا جاتا ہے اور مسلمانوں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ آپ اب جو چاہیں ، پسند کرلیں۔

اسلامی نظریہ حیات بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ قلب مومن میں کوئی شریک ہو ، یا تو ہم اپنے دل میں صرف اسلامی نظریہ حیات کو جگہ دیں گے اور یا پھر ہم اسے ترک کرکے دوسری محبتوں کو دل میں جگہ دیں۔ لیکن یہاں مطلوب یہ نہیں ہے کہ ایک مسلمان اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، اپنی بیوی خاندان ، اپنی بیوی خاوند ، اپنے مال و اولاد ، اپنے مال و اولاد ، اپنے کاروبار و سامان اور دنیاوی لذتوں سے قطع تعلق کرلے اور وہ رہبان اور تارک الدنیا بن جائے ، یہ ہر گز نہیں ہے ، لیکن اسلامی نظریہ حیات کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اسلام کو عزیز و محبوب رکھے ، اس کے دل اور اس کی سوچ پر فکر جائے تو پھر ایسا مومن دنیا کی تمام سرگرمیوں میں شریک ہوسکتا ہے لیکن معیار یہ ہے کہ جب اسلامی انقلاب کا تقاضا ہو تو وہ اپنی تمام سرگرمیاں چھوڑ کر اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔

ان دو پوزیشنوں میں کیا لائن ہے ، جو فرق و امتیاز کرتی ہے ؟ یہ کہ آپ کے دل و دماغ اور زندگی پر نظریہ چھایا ہوا ہے یاد دنیا کا ساز و سامان۔ آپ کا پہلا نعرہ اور پہلی گفتگو اسلام کے لیے ہے یا اس دنیا کے اغراض و مطالبات میں سے کسی غرض کے لیے ہے۔ جب ایک مومن مطمئن ہوجائے کہ اس کا دل اور اس کی سوچ پر اسلامی نظریہ حیات چھا گیا ہے تو اس کے بعد اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔ اگر وہ بچوں ، بھائیوں ، بیوی خاوند ، خاندان اور مال و دولت اور سازوسامان لطف اندوز ہو اور زندگی کے تمام کاروبار میں شریک ہو ، وہ زیب وزینت بھی اختیار کرسکتا ہے اور اچھا کھا پی سکتا ہے ، بغیر اسراف کے اور بغیر تکبر کے۔ بلکہ ایسے حالات اور ایسے تصورات کے درمیان اس کے لیے یہ تلذذ اور متاع کا استعمال مستحب ہے۔ اس طرح کہ یہ بھی شکر الہی کا ایک رنگ ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو یوں بھی نوازتا ہے جبکہ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ رزق منعم اور وہاب ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ : " اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں "

یوں خالص خون اور نسب کے رابطوں کو توڑ دیا جاتا ہے۔ اگر ایسے افراد کے درمیان نظریاتی روابط ٹوٹ جاتے ہیں ، اگر اللہ کی قرابت داری ختم ہوجائے تو خاندانی رشتے بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اصل دوستی اللہ کی ہے اور اللہ ہی کے نام پر پوری انسانیت جمع ہوسکتی ہے اور اگر نظریاتی اتحاد نہ ہو تو تمام اتحاد اور رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔ رسی ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہے۔

وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ : " تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے " یہاں ظالمون سے مراد ہے مشرکون۔ اگر قوم اور خاندان ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کرتا ہو تو اس قوم اور خاندان کی دوستی کرنا کفر اور شرک ہے۔ یہ صورت حال ایمان کی کیفیات کے ساتھ لگا نہیں کھاتی۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul in kana abaokum waabnaokum waikhwanukum waazwajukum waAAasheeratukum waamwalun iqtaraftumooha watijaratun takhshawna kasadaha wamasakinu tardawnaha ahabba ilaykum mina Allahi warasoolihi wajihadin fee sabeelihi fatarabbasoo hatta yatiya Allahu biamrihi waAllahu la yahdee alqawma alfasiqeena

یہاں سیاق کلام میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس اصول کو بیان کردیا جائے بلکہ محبتوں کی مثالیں اور رنگ بھی بتا دیے جاتے ہیں۔ کون سے تعلقات ، کون سے روابط اور کون سے لذائذ ایمان کے خلاف ہوں گے تاکہ انہیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ایمان اور اسلام کے تقاضون کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر مشخص اور ممثل انداز میں بتایا جائے۔ مثلاً اباء ، ابناء ، اخوان ، میاں بیوی اور خاندان یعنی عام خون اور نسب کے رشتے اور قرابت داریاں اور اموال تجارت جن کے ساتھ فطری رغبت ہوتی ہے اور مکانات اور کوٹھیاں جہاں آرام کیا جاتا ہے اور زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے ہے ان سب کو ایک پلڑے میں رکھ کر اور حب خدا ، حب رسول اور جہاد کی دلچسپیوں کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر دعوت انتخاب دی جاتی ہے یہاں جہاد کے معنی اس قدر سادہ نہیں ہیں۔ جہاد میں مشقتیں ہوتی ہیں اور اس کے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ اس میں مشکلات اور واماندگیاں ہوتی ہیں ، اس میں تنگی اور ترشی ہوتی ہے اس میں قربانیاں اور محرومیاں بھی ہوتی ہیں اور اس میں زخم بھی کھائے جاتے ہیں اور جان بھی دینی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ جہاد کے لفظ میں آتا ہے اور یہ سب کچھ اس کیفیت کے ساتھ ہو کہ اس میں شہرت اور نود و نمائش کا شائبہ تک نہ ہو ، جس میں فخر و غرور اور تکبر کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس میں ملک گیری اور منصب گیری کا بھی کوئی شائبہ اور اشارہ نہ ہو۔ اگر ان بیماریوں میں سے کوئی بیمار بھی ہو تو مجاہد اجر اخروی سے محروم ہوگا۔ ذرا دوبارہ غور سے پڑھیے :۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ : " اے نبی ﷺ ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ ، اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے ، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے "

خبردار ! یہ نہایت ہی مشقت آمیز راہ ہے ، یہ نہایت ہی عظیم ذمہ داری ہے ! لیکن بات یہی ہے ، اگر یہ ذمہ داری پوری نہ کرو گے تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے " اور واللہ لا یہدی القوم الفسقین اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ صرف ایک فرد ہی سے مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اس قدر خلوص کا مظاہرہ کرے۔ پوری جامعت مسلمہ سے اس قسم کے خلوص کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ اسلامی مملکت کو بھی اس طرح مخلص ہونا چاہیے۔ اس لیے اسلامی معاشرے میں کوئی ترجیح اور کوئی نصب العین اسلامی نظریہ حیات اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقتضیات سے اہم نہیں ہونا چاہیے۔

کیا فطرت انسانی اس معیار پر جاسکتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ اللہ نے جب اہل ایمان سے اس معیار کا تقاضا کیا تو ایسا معیار پیش کرنا ممکن ہے ، تبھی تو کیا ہے۔ کیونکہ اللہ کسی بھی نفس سے وہ مطالبہ نہیں فرماتے جو اس کے دائرہ طاقت میں نہ ہو۔ یہ اللہ کی نہایت کریمی ہے کہ اس نے اس ضعیف انسان کے اندر اس قدر صلاحیت اور طاقت رکھی ہے کہ وہ اس قدر مخلصانہ معیار پیش کرے اور اس قدر مشکلات برداشت کرے اور اس کو اس شعور اور خلوص کے اندر اس قدر لذت دی ہے کہ وہ اس کے لیے تمام لذات ارضی کو خیر آباد کہہ سکتا ہے۔ خدا کے ساتھ اتصال اور خدا رسیدگی کا شعور۔ اللہ کی رضا کے حصول کا شعور۔ انسان کو انسانی ضعف ، گراوٹ اور خون اور گوشت و پوست کی لذتوں سے بلند کردیتا ہے اور اس کی نظر دور افق پر کسی بلند مقام پر مرکوز ہوتی ہے۔ جب بھی اس دنیا کی سفلی لذات اس کا دامن کھینچتی ہیں تو وہ نظریں بلند افق پر ایک روشن نصب العین پر مرکوز کردیتا ہے اور اس طرح وہ دامن چھڑا لیتا ہے۔

۔۔۔

اردو ترجمہ

اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے ابھی غزوہ حنین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Laqad nasarakumu Allahu fee mawatina katheeratin wayawma hunaynin ith aAAjabatkum kathratukum falam tughni AAankum shayan wadaqat AAalaykumu alardu bima rahubat thumma wallaytum mudbireena

25 ۔ تا۔ 27: اب ذرا ماضی قریب کی یادوں کی ایک جھلکی ملاحظہ فرمائیں۔ مسلمان قریب ہی کے زمانے میں ان حالات ہو کر گزرے تھے۔ ان حالات میں اللہ کی خاص نصرت نے کرشمہ دکھایا تھا۔ یہ کرشمہ ان کی قوت اور تعداد کا نہ تھا۔ حنین کے دن تو وہ بڑی تعداد میں تھے اور بڑی قوت رکھتے تھے مگر شکست کھا گئے۔ بعد میں اللہ کی نصرت جب آئی تو حالات کا نقشہ بدل گیا۔ اس دن فتح مکہ کے دو ہزار طلقاء اسلامی لشکر میں گھل مل گئے تھے۔ چند لمحے مسلمانوں پر ایسے آگئے تھے جب وہ قوت اور کثرت کے نشے غافل ہوگئے تھے۔ محض تعداد اور سازوسامان کی وجہ سے۔ یہ سبق تھا اہل ایمان کے لیے کہ خلوص اور للہ فی اللہ جہاد کے کیا معنی ہوتے ہیں کہ جب اللہ سے رابطے ہوں تو قلت تعداد میں بھی فتح ہے لیکن اگر اعتماد سازوسامان اور غیر مخلص بڑی تعداد پر کرلیا جائے تو میدان مارنا مشکل ہوگا۔

۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے بیشمار مقامات و ایام میں مسلمانوں کی نصرت کی تھی اور ان ایام کی یادیں ان کے ذہن میں تازہ تھیں۔ حنین کی جنگ شوال آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے بعد پیش آئی جب حضور فتح مکہ کے معاملات سے فارغ ہوئے اور فتح مکہ کے امور درست ہوگئے اور عام اہل مکہ مسلمان ہوگئے۔ اور حضور نے ان کو معاف کردیا اور اس طرح وہ " طلقاء " کے نام سے مشہور ہوگئے۔ اس موقعہ پر اپ کو یہ اطلاع ملی کہ قبائل ہوازن آپ کے خلاف جنگی کاروائی کرنے والے ہیں اور ان کے امیر مالک ابن عوف نضری قبائل ثقیف بن جثم و بنو سعد ابن بکر اور کچھ لوگ بنی بلالا اور کچھ ہبنی عمر ابن عامر اور عوف ابن عامر کے ، اس کی تائید میں ہیں۔ یہ لوگ عورتوں اور بچوں اور مال مویشی کو بھی ساتھ لائے ہیں اور سب کے سب اس لشکر میں نکل آئے۔ حضور اکرم ﷺ فتح مکہ کے لشکر کو لے کر ان کے مقابلے میں نکلے۔ یہ لشکر دس ہزار انصار و مہاجرین پر مشتمل تھا۔ اور کئی عرب قبائل اس میں شریک تھے۔ اور ان لوگوں میں وہ لوگ بھی تھے جو کل ہی مکہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ جنہیں طلقاء کہا جاتا تھا اور ان کی تعداد دو ہزار تھی۔ اس لشکر کو لے کر حضور دشمن کی طرف نکلے۔ مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی میں ان دونوں لشکوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اس وادی کو وادی حنین کہا جاتا تھا۔ یہ مڈ بھیڑ دن کے آغاز ہی میں صبح کی ساہی میں ہوگئی۔ مسلمان جب سے وادی میں اترے تو آگے ہوازن کمین گاہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ جب مسلمان وادی میں اترے تو انہیں پتہ چلا کہ ہوازن حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے تیروں کی بارش کردی اور تلواریں سونت لیں اور اس طرح حملہ کیا جس طرح ایک انسان حملہ کرتا ہے۔ یہ یکبارگی حملہ تھا اور اس کی پلاننگ ان کے بادشاہ نے کی تھی۔ پہلے حملے میں مسلمان بھاگ گئے جیسا کہ اللہ نے نص میں فرمایا۔ حضور ﷺ شہبا خچر پر سوار تھے۔ آپ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ حضور ﷺ کے خچر کا دایاں لگام حضرت عباس نے پکڑا ہوا تھا اور بائیں جانب سے ابو سفیان لگام کو تھامے ہوئے تھے۔ یہ لوگ اس خچر کو روک رہے تھے کہ وہ جلدی دشمن کے درمیان تک نہ پہنچ جائے۔ حضور ﷺ اپنا نام لے کر لوگوں کو کو پکارا اور دعوت دی کہ لوٹ آؤ۔ " اے لوگو میری طرف آؤ میں رسول اللہ ہوں " اور ایسے ہی حالات میں آپ نے رجز پڑھا انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب۔ تقریباً سو افراد آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اسی افراد تھے۔ ان میں سے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، عباس ، علی ، فضل ابن عباس ، ابو سفیان ابن الحارث ، ایمن ابن ام ایمن ، اسامہ بن زید وغیرہ ؓ اس کے بعد حضور ﷺ نے حضرت عباس سے کہا ، یہ بہت بلند آواز تھے کہ بلند آواز سے پکاریں۔ اے درخت کے نیچے بیعت رضوان کرنے والو ! اس درخت کے نیچے مسلمانوں نے بیعت کی تھی کہ وہ جنگ میں فرار اختیار نہ کریں گے۔ اس طرح اس نام سے بھی ان کو پکارا گیا ، اے اصحاب سمرہ ، اے اصحاب سورت بقرہ ، اس طرح لوگ سنتے اور یا لبیک یا لبیک کہتے ہوئے لوٹتے۔ چناچہ سب لوگ واپس ہوئے اور رسولا للہ کے پاس جمع ہوگئے۔ لوگ اس طرح لوٹے کہ اگر کسی کا اونٹ واپس نہ ہوتا تو وہ اپنی زرہ پہن کر کود پڑتا اور اونٹ کو چھوڑ دیتا۔ اور اپنی ذات کو رسول اللہ تک پہنچاتا۔ جن لوگوں کی ایک تعداد حضور ﷺ کے پاس جمع ہوگئی تو آپ نے ان کو سچائی کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا۔ چناچہ کفار کو شکست ہوئی اور وہ بھاگنے لگے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور ان کو قتل کیا اور گرفتار کیا اور لوگ تب واپس ہوئے کہ رسول اللہ کے سامنے قیدیوں کی ایک فوج جم گئی۔

یہ تھی وہ جنگ جس میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے پاس 12 ہزار کی ایک عظیم تعداد جمع ہوگئی تھی۔ یہ تعداد انہیں ناقابل شکست نظر آئی۔ وہ پہلی فتح یابیوں کی وجہ سے غافل ہوگئے۔ اللہ نے اس معرکے کے آغاز میں ان کو شکست سے دوچار کردیا۔ اس طرح ان کی غفلت دور ہوئی اور اس کے بعد جب حضور ﷺ کے پاس ایک نسبتاً قلیل تعداد جمع ہوئی تو اللہ نے کامیابی عطا کی کیونکہ یہ تعداد حضور کے ساتھ جم گئی تھی۔

آیت میں اس معرکے کے بعض مناظر کو دہرایا گیا ہے اور اس کے شعوری تاثرات یہاں نقل کیے ہیں۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ : " اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز (اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) سا روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے "

پہلا تاثر یہ کہ ہم بہت زیادہ ہیں۔ پھر روحانی شکست کہ جب انسان پر عرصہ زمین تنگ محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھر وہ مشکل وقت کہ جس میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس پر ہمہ جہت دباؤ ہے۔ پھر حسی شکست کہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان تمام تاثرات کے بعد یہ تاثر

ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ : "" پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی "۔ گویا سکینہ ایک چادر ہے جو آسمان سے اتری۔ اس نے دلوں کو مضبوط کردیا اور اس نے ان عارضی تاثرات کو ٹھنڈا کردیا۔

وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا : " اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے " یہ کیسے لشکر تھے ، ان کی ماہیت اور طبیعت سے ہم واقف نہیں اور اللہ کی قوتوں اور افواج کو اللہ ہی جانتا ہے۔

وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا " اور منکرین حق کو سزا دی " ان کو قتل ہونے ، لٹنے اور شکست کے ذریعے سزا دی گئی۔ و ذلک جزاء الکفرین کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں "

ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے ، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

کیونکہ مغفرت کا دروازہ اللہ کے ہاں ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور خطا کار جس وقت چاہیں توبہ کرکے واپس آسکتے ہیں۔

یہاں غزوہ حنین کی اس جھلکی کو اس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ جو لوگ اللہ سے غافل ہوجاتے ہیں ، اور اللہ کے بجائے دوسری قوتوں پر اعتماد کرنے لگتے ہیں اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ لیکن اس واقعہ سے ہمارے سامنے ایک دوسری ضمنی حقیقت بھی آجاتی ہے۔ اور یہ دوسری حقیقت ہی ہے کہ وہ کون سی قوت ہے جس جس پر کوئی نظریہ اعتماد کرسکتا ہے۔ نظریاتی تحریکات میں تعدادی کثرت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ ثابت قدم اور نظریات کے جاننے والے مخلص لوگوں کی ایک چھوٹی تعداد ہی اہمیت رکھتی ہے۔ بعض اوقات بڑی تعداد ہزیمت کا سبب بنتی ہے کیونکہ بعض وقتی قسم کے لوگ اس میں داخل ہوجاتے ہیں اور انہوں نے نظریہ حیات کو اچھی طرح سمجھا ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ حالات کے دھارے میں بہہ نکلے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر جب مشکل حالات آتے ہیں تو ان کے قدم متزلزل ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ نظریاتی صفوں میں اضطراب پیدا کردیتے ہیں اور ہزیمت اور شکست کا باعث بنتے ہیں پھر ایک بھیڑ قیادت کے لیے بھی دھوکے کا سبب بمنتی ہے۔ اور بھیڑ میں لوگوں کا باہم مضبط روابط اور تعلقات نہیں ہوتے نہ وہ اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتے ہیں اور یوں قیادت کو دھوکہ ہوتا ہے کہ نصرت اور کامیابی تعداد کی وجہ سے ہے ، حالانکہ راز یہ ہے کہ فتح و نصرت ، اخلاص اور تربیت کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ہمیشہ یوں ہوا ہے کہ مخلصین کی ایک چھوٹی سی پاکیزہ تعداد کسی نظریہ کو لے کر اٹھتی ہے۔ عوام کی بھیڑ جو پانی پر جھاگ کی طرح ہوتی ہے کسی نظریہ کی حامل نہیں ہوسکتی اور گھاس اور کوڑا کرکٹ مشکلات کی مشکلات کی آندھیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

جب بات یہاں تک آپہنچتی ہے اور مسلمانوں کے شعور میں تاریخی واقعات بٹھا دیے جاتے ہیں تو اب مشرکین کے بارے میں فائنل پالیسی کو آخری الفاظ دیے جاتے ہیں جو پالیسی قیامت تک رہے گی۔ (دیکھیے آیت 28)

اردو ترجمہ

پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma anzala Allahu sakeenatahu AAala rasoolihi waAAala almumineena waanzala junoodan lam tarawha waAAaththaba allatheena kafaroo wathalika jazao alkafireena
190