اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 106 وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا یعنی اس منافق کے حق میں آپ ﷺ کی طبیعت میں جو نرمی پیدا ہوگئی تھی اس پرا للہ سے استغفار کیجئے ‘ مغفرت طلب کیجیے۔
آیت 107 وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَہُمْ ط۔اس حکم کے حوالے سے ذرا مسئلہ شفاعت پر بھی غور کریں۔ ہم یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حضور ﷺ ہماری طرف سے شفاعت کریں گے ‘ چاہے ہم نے بےایمانیاں کی ہیں ‘ حرام خوریاں کی ہیں ‘ شریعت کی دھجیاں بکھیری ہیں۔ لیکن یہاں آپ ﷺ ‘ کو دو ٹوک انداز میں خائن لوگوں کی وکالت سے منع کیا جا رہا ہے۔
آیت 108 یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے۔وَہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لاَ یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ ط یہ منافقین کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب وہ مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف چوری چھپے سازشیں کر رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ اگر اللہ پر ان کا ایمان ہو تو انہیں معلوم ہو کہ اللہ ہماری باتیں سن رہا ہے۔ یہ مسلمانوں سے ڈرتے ہیں ‘ ان سے اپنی باتوں کو خفیہ رکھتے ہیں ‘ مگر ان بد بختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ تو ہر وقت ہمارے پاس موجود ہے ‘ اس سے تو کچھ نہیں چھپ سکتا۔وَکَان اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا یعنی اس کی پکڑ سے یہ کہیں باہر نہیں نکل سکتے۔
آیت 109 ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ جٰدَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاقف فَمَنْ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَمْ مَّنْ یَّکُوْنُ عَلَیْہِمْ وَکِیْلاً یہ خطاب ہے اس منافق چور کے قبیلے کے لوگوں سے کہ اے لوگو ! تم نے دنیا کی زندگی میں تو مجرموں کی طرف سے خوب وکالت کرلی ‘ یہاں تک کہ حضور ﷺ کو بھی قائل کرنے کی حد تک تم پہنچ گئے۔ مگر یہاں تم انہیں چھڑا بھی لیتے اور بالفرض حضور ﷺ کو بھی قائل کرلیتے تو قیامت کے دن انہیں اللہ کی پکڑ سے کون چھڑاتا ؟ اس ضمن میں حضور ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم اس طرح ہے کہ میرے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوتا ہے ‘ اس میں ایک فریق زیادہ چرب زبان ہوتا ہے ‘ وہ اپنی بات بہتر طور پر پیش کرتا ہے اور میرے ہاں سے اپنے حق میں غلط طور پر فیصلہ لے جاتا ہے۔ فرض کیجئے کسی زمین کے ٹکڑے کے بارے میں کوئی تنازعہ تھا اور ایک شخص غلط طور پر بات ثابت کر کے اپنے حق میں فیصلہ لے گیا۔ لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح وہ زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ جہنم کا ٹکڑا لے کر گیا ہے۔ یعنی خود رسول اللہ ﷺ جو بھی فیصلے کرتے تھے شہادتوں کے اعتبار سے کرتے تھے ‘ حضور ﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے ہر وقت اور ہر مرحلے پر تو وحی نازل نہیں ہوتی تھی ‘ جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا آپ ﷺ کو متنبہ فرما دیتا تھا۔ اس لیے آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے تنبیہہ فرما دی کہ اگر کچھ لوگ اس دنیا میں جھوٹ ‘ فریب اور غلط فیصلے کے ذریعے کوئی مفاد حاصل کر بھی لیتے ہیں تو انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک دن اس کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے جہاں جھوٹ اور غلط بیانی سے کام نہیں چلے گا ‘ وہاں ان کے حق میں اللہ سے کون جھگڑے گا ؟
آیت 110 وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا اس سلسلے میں سیدھی روش یہی ہے کہ غلطی یا خطا ہوگئی ہے تو اس کا اعتراف کرلو ‘ اس جرم کی جو دنیوی سزا ہے وہ بھگت لو اور اللہ سے استغفار کرو۔ اس طرح آخرت کی سزا سے چھٹکارا مل جائے گا۔
آیت 112 وَمَنْ یَّکْسِبْ خَطِیْٓءَۃً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہٖ بَرِیْٓءًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا کسی نے کوئی گناہ کمایا ‘ کوئی خطا کی ‘ کوئی غلطی کی ‘ کوئی جرم کیا ‘ پھر اس کی تہمت کسی بےقصور شخص پر لگا دی تو بہت بڑے بہتان اور کھلم کھلا گناہ کا بار سمیٹ لیا۔ مذکورہ معاملے میں یہودی تو بےقصور تھا ‘ جو لوگ اس کو سزا دلوانے کے لیے تل گئے تو ان کا یہ فعل یَرْمِ بِہٖ بَرِیْٓءًا کے زمرے میں آگیا۔ کسی بےگناہ پر اس طرح کا بہتان لگانا اللہ کے نزدیک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس کے بعد اب اس یہودی اور منافق کے مقدمے کے کچھ مزید پہلوؤں کے بارے میں حضور ﷺ سے خطاب ہو رہا ہے۔
آیت 113 وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّآءِفَۃٌ مِّنْہُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ط۔ وہ لوگ تو اس پر کمر بستہ تھے کہ آپ ﷺ کو غلط فہمی میں مبتلا کر کے آپ ﷺ سے غلط فیصلہ کروائیں ‘ عدالت محمدی ﷺ سے ظلم پر مبنی فیصلہ صادر ہوجائے ‘ گنا ہگار چھوٹ جائے اور جو اصل مجرم نہیں تھا ‘ بالکل بےگناہ تھا ‘ اس کو پکڑلیا جائے۔وَمَا یُضِلُّوْنَ الاّآ اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ ط۔ہم ایسے مواقع پر بر وقت آپ ﷺ کو مطلع کرتے رہیں گے۔