اس صفحہ میں سورہ An-Nisaa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النساء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 128 وَاِنِ امْرَاَۃٌ خَافَتْ مِنْم بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا ایک نشوز تو وہ تھا جس کا تذکرہ اسی سورة کی آیت 34 میں عورت کے لیے ہوا تھا : وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نَشُوْزَھُنَّ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو۔ یعنی وہ عورتیں ‘ وہ بیویاں جو خاوندوں سے سر کشی کرتی ہیں ‘ ان کے احکام نہیں مانتیں ‘ ان کی اطاعت نہیں کرتیں ‘ اپنی ضد پر اڑی رہتی ہیں ‘ ان کے بارے میں حکم تھا کہ ان کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے۔ اب یہاں ذکر ہے اس نشوزکا جس کا اظہار خاوند کی طرف سے ہوسکتا ہے۔ یعنی یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر ظلم کر رہا ہو ‘ اس کے حقوق ادا کرنے میں پہلو تہی کر رہا ہو ‘ اپنی قوّ امیت کے حق کو غلط طریقے سے استعمال کر رہا ہو ‘ بےجا رعب ڈالتا ہو ‘ دھونس دیتا ہو ‘ یا بلاوجہ ستاتا ہو ‘ تنگ کرتا ہو ‘ اور تنگ کر کے مہر معاف کروانا چاہتا ہو ‘ یا اگر بیوی کے والدین اچھے کھاتے پیتے ہوں تو ہوسکتا ہے اسے بلیک میل کر کے اس کے والدین سے دولت ہتھیانا چاہتا ہو۔ یہ ساری خباثتیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور عورتیں بیچاری ظلم و ستم کی اس چکی میں پستی رہتی ہیں۔ آیت زیر نظر میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے اندیشہ ہوجائے کہ وہ زیادتی کرے گا ‘ یا اگر شوہر زیادتی کر رہا ہو اور وہ بیوی کے حقوق ادا نہ کر رہا ہو ‘ یا اس کی طرف میلان ہی نہ رکھتا ہو ‘ کوئی نئی شادی رچا لی ہو اور اب ساری توجہ نئی دلہن کی طرف ہو۔فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا ط یہاں صلح سے مراد یہ ہے کہ سارے معاملات باہم طے کر کے عورت خلع لے لے۔ لیکن خلع لینے میں ‘ جیسا کہ ہم پڑھ چکے ہیں جبکہ عورت کو مہر چھوڑنا پڑے گا ‘ اور اگر لیا تھا تو کچھ واپس کرنا پڑے گا۔وَالصُّلْحُ خَیْرٌط وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط مردچا ہے گا کہ میرا پورا مہر واپس کیا جائے جبکہ عورت چاہے گی کہ مجھے کچھ بھی واپس نہ کرنا پڑے۔ یہ مضامین سورة البقرۃ میں بیان ہوچکے ہیں۔ وَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا تم مرد ہو ‘ مردانگی کا ثبوت دو ‘ اس معاملے میں اپنے اندر نرمی پیدا کرو ‘ بیوی کا حق فراخ دلی سے ادا کرو۔
آیت 129 وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ سورۃ کے آغاز آیت 3 میں فرمایا گیا تھا : فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً یعنی اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم اپنی بیویوں میں اگر ایک سے زائد ہیں عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک پر ہی اکتفا کرو ‘ دوسری شادی مت کرو۔ اگر تمہیں کلی طور پر اطمینان ہے ‘ اپنے اوپر اعتماد ہے کہ تم عدل کرسکتے ہو تب دوسری شادی کرو ‘ ورنہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو گنتی اور ناپ تول کی ہوتی ہیں ‘ ان میں تو عدل کرنا ممکن ہے ‘ لیکن جو قلبی میلان ہے یہ تو انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی تمام ازواج کے لیے ہرچیز گِن گِن کر طے کی ہوئی تھی۔ شب بسری کے لیے سب کی باریاں مقرر تھیں۔ دن میں بھی آپ ﷺ ہر گھر میں چکر لگاتے تھے۔ عصر اور مغرب کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر ہر زوجہ محترمہ کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اگر کہیں زیادہ دیر ہوجاتی تو گویا کھلبلی مچ جاتی تھی کہ آج وہاں زیادہ دیرکیوں ٹھہر گئے ؟ یہ چیزیں انسانی معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کا آپس کا معاملہ بہت اچھا تھا ‘ لیکن سوکناپے کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہیں ‘ یہ عورت کی فطرت ہے ‘ جو اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس لیے فرمایا کہ مکمل انصاف کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے مراد دراصل قلبی میلان ہے۔ ایک حدیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں نے ظاہری چیزوں میں پورا پورا عدل کیا ہے ‘ باقی جہاں تک میرے دل کے میلان کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے کہ اس بارے میں تو مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ تم چاہو بھی تو عدل نہیں کرسکتے۔فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ ط۔دوسری بیوی اس طرح معلّق ہو کر نہ رہ جائے کہ اب وہ نہ شوہر والی ہے اور نہ آزاد ہے۔ اس سے خاوند کا گویا کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا اب اگلی آیت میں طلاق کے معاملے میں ایک اہم نکتہ بیان ہو رہا ہے۔ طلاق یقیناً ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے ‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ 1 حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ‘ ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو بسا اوقات کفر تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ لڑائیاں ہو رہی ہیں ‘ مقدمات چل رہے ہیں ‘ مزاجوں میں موافقت نہیں ہے ‘ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں ‘ دن رات کا جھگڑا ہے ‘ لیکن طلاق نہیں دینی۔ یہ طرز عمل نہایت احمقانہ ہے اور شریعت کی منشاء کے بالکل خلاف بھی۔ اس آیت میں آپ دیکھیں گے کہ ایک طرح سے طلاق کی ترغیب دی گئی ہے۔
آیت 130 وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّنْ سَعَتِہٖ ط۔ہو سکتا ہے کہ اس عورت کو بھی کوئی بہتر رشتہ مل جائے جو اس کے ساتھ مزاجی موافقت رکھنے والاہو اور اس شوہر کو بھی اللہ تعالیٰ کوئی بہتر بیوی دے دے۔ میاں بیوی کا ہر وقت لڑتے رہنا ‘ دنگا فساد کرنا اور عدم موافقت کے باوجود طلاق کا اختیار option استعمال نہ کرنا ‘ یہ سوچ ہمارے ہاں ہندو معاشرت اور عیسائیت کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہندومت کی طرح عیسائیت میں بھی طلاق حرام ہے۔ در اصل انجیل میں تو شریعت اور قانون ہے ہی نہیں ‘ صرف اخلاقی تعلیمات ہیں۔ چناچہ جس طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ ایسی ہی کوئی بات حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی فرمائی تھی کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے کہ معاشرے میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ طلاق شدہ عورت کی دوسری شادی نہ ہونے کی صورت میں اس کے آوارہ ہوجانے کا امکان ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کا وبال اسے بلاوجہ طلاق دینے والے کے سر جائے گا۔ لیکن یہ محض اخلاقی تعلیم تھی ‘ کوئی قانونی شق نہیں تھی۔ عیسائیت کا قانون تو وہی ہے جو تورات کے اندر ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام فرما گئے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ میں قانون کو ختم کرنے آیا ہوں ‘ بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت تم پر بد ستور نافذ رہے گی۔ قانون بہر حال قانون ہے ‘ اخلاقی ہدایات کو قانون کا درجہ تو نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن عیسائیت میں اس طرح کی اخلاقی تعلیمات کو قانون بنا دیا گیا ‘ جس کی وجہ سے بلا جواز پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ چناچہ ان کے ہاں کوئی شخص اپنی بیوی کو اس وقت تک طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بدکاری کا جرم ثابت نہ کرے۔ لہٰذا وہ طلاق دینے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کر کے بیوی کو پہلے بدکردار بناتے ہیں ‘ پھر اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ‘ تب جا کر اس سے جان چھڑاتے ہیں۔ تو شریعت کے درست اور آسان راستے اگر چھوڑ دیے جائیں تو پھر اسی طرح غلط اور مشکل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں عدم موافقت کی صورت میں طلاق کے بارے میں ایک طرح کی ترغیب نظر آتی ہے۔وَکَان اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا اللہ کے خزانے بڑے وسیع ہیں اور اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔
آیت 131 وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَاِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ط احکام شریعت کی تعمیل کے سلسلے میں اصل جذبۂ محرکہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے بغیر شریعت بھی مذاق بن جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک خطبہ کے یہ الفاظ بہت مشہور ہیں اور خطبات جمعہ میں بھی اکثر انہیں شامل کیا جاتا ہے : اُوْصِیْکُمْ وَنَفْسِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ 1 مسلمانو ! میں تمہیں بھی اور اپنے نفس کو بھی اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیّت کرتا ہوں۔ قرآن حکیم میں جابجا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سورة التحریم میں ارشاد ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا آیت : 6 اے ایمان والو ‘ بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے۔ یہاں بھی تقویٰ کا حکم انتہائی تاکید کے ساتھ دیا جا رہا ہے۔
آیت 132 وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَکَفٰی باللّٰہِ وَکِیْلاً ۔اگر میاں بیوی میں واقعی نباہ نہیں ہورہا تو بیشک وہ علیحدگی اختیارکر لیں ‘ دونوں کا کارساز اللہ ہے۔ عورت بھی یہ سمجھے کہ میرا شوہر مجھ پر جو ظلم کر رہا ہے اور میرے ساتھ انصاف نہیں کر رہا ہے ‘ اس صورت میں اگر میں اس سے تعلق منقطع کرلوں گی تو اللہ کار ساز ہے ‘ وہ میرے لیے کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔ اور اسی طرح کی سوچ مرد کی بھی ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس یہ سوچ انتہائی احمقانہ اور خلاف شریعت ہے کہ ہر صورت میں عورت سے نباہ کرنا ہے ‘ چاہے اللہ سے بغاوت ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ہرچیز کو اس کے مقام پر رکھنا چاہیے۔
آیت 133 اِنْ یَّشَاْ یُذْہِبْکُمْ اَیُّہَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ ط۔اللہ کے مقابلے میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ اس کے سامنے تم سب نفس واحد کی طرح ہو ‘ جب چاہے اللہ تعالیٰ سب کو نسیاً منسیاً کر دے اور نئے لوگوں کو پیدا کر دے۔
آیت 134 مَنْ کَانَ یُرِیْدُ ثَوَاب الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ ثَوَاب الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط جو شخص اپنی ساری بھاگ دوڑ اور دن رات کی محنت دنیا کمانے ‘ دولت اور جائیداد بڑھانے ‘ عہدوں میں ترقی پانے اور مادی طور پر پھلنے پھولنے میں لگا رہا ہے ‘ دوسری طرف اللہ کے احکام اور حقوق کو نظر انداز کر رہا ہے ‘ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو دنیا کے خزانے بھی ہیں اور آخرت کے بھی۔ اور یہ کہ وہ صرف دنیاوی چیزوں کی خواہش کر کے گویا سمندر سے قطرہ حاصل کرنے پر اکتفا کر رہا ہے۔ بقول علامہ اقبالؔ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگئداماں بھی ہے !لہٰذا اللہ سے دنیا بھی مانگو اور آخرت بھی۔ اور اس طرح مانگو جس طرح اس نے مانگنے کا طریقہ بتایا ہے : رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ البقرۃ۔ تم لوگ اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرو ‘ اس کے ساتھ اپنا تعلق خلوص و اخلاص کی بنیادوں پر استوار کرو ‘ اس کی طرف سے جو ذمہ داریاں ہیں ان کو ادا کرو ‘ پھر اللہ تعالیٰ یقیناً دنیا میں بھی نوازے گا اور آخرت میں بھی۔