سورہ نحل (16): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ An-Nahl کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النحل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ نحل کے بارے میں معلومات

Surah An-Nahl
سُورَةُ النَّحۡلِ
صفحہ 274 (آیات 65 سے 72 تک)

وَٱللَّهُ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآ ۚ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَٰمِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهِۦ مِنۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّٰرِبِينَ وَمِن ثَمَرَٰتِ ٱلنَّخِيلِ وَٱلْأَعْنَٰبِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى ٱلنَّحْلِ أَنِ ٱتَّخِذِى مِنَ ٱلْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ ٱلشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلِى مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ فَٱسْلُكِى سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِنۢ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَٰنُهُۥ فِيهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِى ذَٰلِكَ لَءَايَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ وَٱللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّىٰكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَىْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ وَٱللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِى ٱلرِّزْقِ ۚ فَمَا ٱلَّذِينَ فُضِّلُوا۟ بِرَآدِّى رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَآءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٰجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَٰجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ ۚ أَفَبِٱلْبَٰطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ ٱللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
274

سورہ نحل کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ نحل کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

(تم ہر برسات میں دیکھتے ہو کہ) اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور یکا یک مردہ پڑی ہوئی زمین میں اُس کی بدولت جان ڈال دی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu anzala mina alssamai maan faahya bihi alarda baAAda mawtiha inna fee thalika laayatan liqawmin yasmaAAoona

آیت نمبر 65

پانی تو ہر چیز کی زندگی کا سامان ہے۔ قرآن مجید اسے پورے کرۂ ارض کے لئے علی العموم سامان حیات قرار دیتا ہے ، جو چیز بھی اس کرۂ ارض کی پشت پر ہو اور اللہ جو ہر چیز کو حالت مرونی سے زندگی کی حالت میں لاتا ہے وہی ہے جو الٰہ ہونے کے لائق و سزاوار ہے۔

ذلک لایۃ لقوم یسمعون (16 : 65) “ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے سننے والوں کے لئے ” تا کہ وہ جس چیز کو سنیں اس پر غور کریں اور سمجھیں۔ یہی اصل مسئلہ ہے یہ کہ دلائل الوہیت اور دلائل حیات بعد الموت جس کا قرآن کریم با ربار تذکرہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہے اس کائنات میں جابجا بکھرے پڑے ہیں ، لیکن یہ آیات و معجزات ان لوگوں کے لئے ہیں جو سنتے ہیں اور سمجھتے ہیں اور پھر مزید غوروفکر کرتے ہیں۔ مویشیوں اور جانوروں کے اندر بھی ایک نصیحت آموز چیز موجود ہے۔ یہ خالق کائنات کی عجیب تخلیق ہے اور یہی ایک دلیل الٰہ العالمین کی کبریائی کے لئے بس ہے۔

اردو ترجمہ

اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خو ش گوار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wainna lakum fee alanAAami laAAibratan nusqeekum mimma fee butoonihi min bayni farthin wadamin labanan khalisan saighan lilshsharibeena

آیت نمبر 66

یہ دودھ ، جسے ہم حیوانات کے پستانوں سے نچوڑتے ہیں ، یہ کس چیز سے پیدا ہوتا ہے ؟ یہ گوبر اور خون کے بیچ میں سے نکلتا ہے ۔ فرث اس محصول کو کہتے ہیں جو ہضم کے بعد جگالی کرنے والے جانور کے اوجھ میں رہ جاتا ہے۔ نیز ہضم کے بعد جو محلول رہ جاتا ہے اور اسے آنتیں خون کی شکل میں تبدیلی کردیتی ہیں اسے بھی فرث کہا جاتا ہے۔ یہ خون جسم کے ہر خلیے میں گردش کرتا ہے۔ یہ خون جب جانور کی کھیری میں دودھ کے غدود میں جاتا ہے تو یہ دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ قدرت کا عجوبہ ہے کہ یہ خون دودھ بن جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ محلول اور یہ خون کس طرح دودھ کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

پھر ہر قسم کی خوراک کا خلاصہ خون کی شکل کس طرح اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اس خون کی قوت میں سے جسم کے ہر خلیے کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا کا فراہم ہونا ایک ایسا عمل ہے جو نہایت ہی پیچیدہ اور تعجب انگیز ہے۔ یہ عمل جسم میں ہر سیکنڈ کے حساب سے تکمیل پاتا ہے۔ اس طرح جسم میں جلنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ ہر سیکنڈ میں ، انسانی جسم کی اس پیچیدہ مشینری میں تخریب و تعمیر کا یہ عمل جاری ہے اور اس وقت جاری رہتا ہے جب تک جسم سے روح پرواز نہیں کر جاتی۔ کوئی انسان جس کا شعور زندہ ہو ، وہ ان عجیب عملیات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ، جن میں جسم انسانی کی اس عجیب مشینری کا ہر ذرہ خالق کا ثناخواں نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسی عجیب مشینری ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی پیچیدہ سے پیچیدہ مشینری اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ انسان کے لئے جسم انسانی کے لاتعداد خلیوں میں سے ایک خلیہ بھی بنانا ممکن نہیں ہے۔

ہم نے جسم انسانی میں خوراک کے ہضم ، اس کے خون کی شکل اختیار کرنے اور پھر چلنے اور ختم ہونے کے عمل کا ایک عام جائزہ لیا ہے۔ اس جسم کے اندر ایسے ایسے کام ہو رہے ہیں کہ اگر ان کا سائنسی مطالعہ اور ملاحظہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جائے۔ خود جسم انسانی کے خلیوں میں سے ایک خلیے کا مطالعہ اور اس پر غوروفکر بھی نہ ختم ہونے والی سوچ عطا کرتا ہے۔

ماضی قریب تک یہ تمام عجائبات راز ہی رہے ، اور یہ حقیقت جس کا ذکر یہاں قرآن مجید کر رہا ہے کہ دودھ گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے ، انسان اس سے ماضی قریب تک واقف نہ تھا۔ ادوار سابقہ میں انسان نہ اس کا تصور کرسکتا تھا اور نہ ہمارے دور کی طرح اس کا دقیق سائنسی مطالعہ کرنے کے قابل تھا۔ اس بارے میں کوئی انسان نہ شک کرسکتا ہے اور نہ بحث کرسکتا ہے۔ اس قسم کے پیچیدہ سائنسی حقائق میں سے کسی ایک حقیقت کی طرف قرآن کریم کا واضح طور پر اشارہ کرنا ہی اس بات کے لئے کافی ثبوت ہے کہ قرآن کریم وحی الٰہی پر مشتمل ہے کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے جس کا سائنٹیفک علم کسی انسان کو بھی اس دور میں نہ تھا۔

لیکن ان خالص سائنسی حقائق کو اگر ایک طرف بھی چھوڑ دیں تو بھی قرآن کریم میں ایسے دلائل و خصائص موجود ہیں جو اس کے وحی الٰہی ہونے کا اثبات کرتے ہیں۔ ہاں اس قسم کی سائنسی حقیقتوں میں سے ایک واضح حقیقت سامنے آجانا مخالفین اور معاندین کے منہ کو بند کرنے کے لئے کافی ہے۔

اردو ترجمہ

(اسی طرح) کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنا لیتے ہو اور پاک رزق بھی یقیناً اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لیے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamin thamarati alnnakheeli waalaAAnabi tattakhithoona minhu sakaran warizqan hasanan inna fee thalika laayatan liqawmin yaAAqiloona

آیت نمبر 67

یہ پھل جو اس تروتازگی اور نباتاتی حیات سے پیدا ہوتے ہیں جو آسمانوں سے پانی برسنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، ان سے تم شراب بناتے ہو (اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی ) اور رزق حسن بناتے ہو۔ اس آیت میں بہرحال اشارہ کردیا گیا ہے کہ رزق حسن شراب سے کوئی الگ چیز ہے اور یہ کہ شراب رزق حسن نہیں ہے۔ یہ دراصل تمہید تھی اس حکم کے لئے جو بعد میں تحریم شراب کے بارے میں نازل ہوا۔ اس آیت میں صرف واقعاتی تجربہ ہے کہ کھجوروں اور انگور اللہ نے پیدا کئے اور تم اس سے یہ یہ مصنوعات تیار کرتے ہو ، یہاں کسی چیز کی حلت اور حرمت سے بہرحال بحث نہیں ہے اگرچہ یہ حرمت کے لئے تمہید ضرور ہے

ان فی ذلک لایۃ لقوم یعقلون (16 : 67) “ یقیناً اس میں ایک نشانی ہے عقل سے کام لینے والوں کے لئے ”۔ لہٰذا عقل مند لوگ جب سمجھ لیتے ہیں تو وہ یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ بندگی کا سزاوار وہی خالق ہے جو یہ چیزیں پیدا کرتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں، اور درختوں میں، اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waawha rabbuka ila alnnahli ani ittakhithee mina aljibali buyootan wamina alshshajari wamimma yaAArishoona

آیت نمبر 68 تا 69

شہد کی مکھی اس الہام کے مطابق کام کرتی ہے جو خالق نے تخلیق کے وقت اس کی فطرت میں رکھ دیا ہے۔ یہ بھی وحی کی ایک قسم ہے اور یہ مکھی اس کے مطابق عمل پیرا ہے۔ یہ مکھیاں جس پیچیدہ انداز میں اپنا کام جاری رکھتی ہیں ، اسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ کس انجینئرنگ سے اپنا چھتہ تیار کرتی ہیں۔ وہ باہم تقسیم کار کس طرح کرتی ہیں اور پھر وہ عسل مصفیٰ کو کس طرح علیحدہ کرتی ہیں ؟

یہ اپنی فطرت کے مطابق گھر بناتی ہیں ، پہاڑوں میں ، درختوں کی شاخوں میں ، لوگ دیواروں پر جو بیل بوٹے چڑھاتے ہیں ان میں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ان کی فطرت کے مطابق زمین کے اندر راستے ہموار کیے ہیں کہ یہ عسل مصفیٰ شفاء للناس ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اس پر تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق نہایت ہی فنی انداز کی ہے۔ لیکن ایک مسلم کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے وہ شفاء للناس ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے بعض احادیث میں بھی عسل مصفیٰ کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ ہے

بخاری شریف نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا ، حضور ﷺ میرے بھائی کو اسہال ہو رہے ہیں تو حضور ﷺ نے فرمایا ، اسے شہد پلا دو ۔ تو اس نے اسے شہد پلا دیا۔ اس کے بعد وہ پھر آیا اور کہا ، حضور ﷺ میں نے اسے شہد پلایا مگر اس سے تو اس کے اسہال اور زیادہ ہوگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اسے شہد پلاؤ۔ وہ گیا اور اس نے اور شہد پلایا۔ پھر آیا اور کہا ، حضور ﷺ وہ تو اور بھی زیادہ ہو رہا ہے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تو سچ کہا ہے تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹ بول رہا ہے ، لہٰذا جاؤ اور اسے مزید شہد پلاؤ۔ وہ شخص گیا اور اس نے بھائی کو مزید شہد پلایا اور وہ تندرست ہوگیا۔

اس حدیث شریف کو پڑھ کر انسان حیرت زدہ ہوجاتا ہے کہ ایک رسول ایمان و ایقان کے کس اعلیٰ مقام پر ہوتا ہے۔ مریض کا بھائی بار بار اطلاع کرتا ہے کہ مرض میں اضافہ ہی ہو رہا ہے لیکن حضور اکرم ﷺ وہی علاج تجویز کرتے ہیں کیونکہ قرآن نے اسے شفاء کہا ہے۔ آخر کار قرآن کی بات عملاً سچی ثابت ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان تمام مسائل میں جن کا فیصلہ قرآن نے کردیا ہے اسی طرح کے ایمان و ایقان کا اظہار کریں۔ اگرچہ بظاہر صورت حالات قرآن کے حکم کے خلاف ہی کیوں نہ نظر آئے۔ کیونکہ ظاہری حالات کے مشاہدے میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن قرآنی حقائق کبھی غلط نہیں ہو سکتے اور آخر کار قرآنی حقائق ہی سچے ثابت ہوتے ہیں۔

اب ذرا طرز کلام کی فصاحت و مناسبت پر غور کریں۔ آسمانوں سے پانی اترنے کی نعمت ، گوبر اور خون کے درمیان سے بغیر دودھ کی پیدائش ، کھجوروں اور انگوروں سے شکرو شراب کی پیدائش ، شہد کی مکھی سے مختلف رنگوں کا شہد ، یہ تمام مشروبات ہیں اور ان مشروبات کا اخراج ایسے اجسام سے ہورہا ہے جو ان سے شکل و جنس میں بھی مختلف ہیں۔ چونکہ یہاں ذکر مشروبات کا تھا اس لیے جانوروں کے ضمن میں صرف دودھ کا ذکر کیا گیا کیونکہ وہ مشروب ہے تا کہ مضمون و مفہوم آپس میں متناسب ہوجائیں۔ آگے دوسرا سبق آرہا ہے۔ اس میں انعام کے ضمن میں چمڑوں ، بالوں اور اون کا بھی ذکر ہے کیونکہ وہاں خیموں اور گھروں کا مضمون ہے لہٰذا وہاں حیوانات کی ان چیزوں کا بھی ذکر کیا گیا جو اس مضمون اور منظر کے ساتھ متناسب تھیں۔ قرآن مجید کے اسلوب کلام کا یہ ایک بہت ہی اہم فنی پہلو ہے کہ وہ الفاظ کے ساتھ معنوی ہم آہنگی کا بھی خیال رکھتا ہے۔

اردو ترجمہ

اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma kulee min kulli alththamarati faoslukee subula rabbiki thululan yakhruju min butooniha sharabun mukhtalifun alwanuhu feehi shifaon lilnnasi inna fee thalika laayatan liqawmin yatafakkaroona

اردو ترجمہ

اور دیکھو، اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی بد ترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu khalaqakum thumma yatawaffakum waminkum man yuraddu ila arthali alAAumuri likay la yaAAlama baAAda AAilmin shayan inna Allaha AAaleemun qadeerun

اب روئے سخن جانوروں ، درختوں ، پھلوں ، شہد کی مکھیوں ، شہد کے انعامات کے مقابلے میں نفس انسانی کے قریب تر ، انسانی شخصیت کی گہرائیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے موضوع کی طرف مڑ جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف مراحل ، انسان کی عمر ، اس کا رزق ، اس کا جوڑا ، بچے اور پوتے وغیرہ جو انسانی دلچسپی کے مخصوص ترین موضوعات ہیں۔ انسان ایسی باتوں سے بہت ہی متاثر ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کے میدان ہیں۔

آیت نمبر 70 تا 73

ان حساس موضوعات میں سے پہلا موضوع انسانی زندگی ، انسانی موت اور زندگی کے مراحل کے بارے میں ہے اور یہ تمام انسانوں کی دلچسپی کا محبوب موضوع ہے۔ انسانی زندگی پر غور کرنے سے انسان یقیناً بعض اوقات سخت سے سخت دل انسان بھی نرمی کا احساس کرلیتے ہیں اور انسان سوچنے لگتا ہے کہ اس پر ہونے والے تمام انعامات تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جب انسان کے دل میں ان انعامات کے زوال کی بات ڈال دی جائے تو فطرت انسانی کے اندر ودیعت کردہ خدا خوفی کا احساس ، تقویٰ کا وجدان اور اس زندگی کے عطا کرنے والے کی طرف میلان پیدا ہو سکتا ہے۔ خصوصاً بڑھاپے کی صورت حالات میں جب انسان ارذل العمر میں داخل ہوتا ہے وہ علوم کو بھولنا شروع کردیتا ہے اور دوبارہ ایک بچے کی طرح سادہ ، عاجز اور انجان ہوجاتا ہے۔ جب انسان ایسے حالات پر سنجیدگی سے غور کرے تو وہ اپنے موجودہ جوانی ، قوت ، علم اور عزت و وقار پر سوچے تو وہ کافی حد تک راہ راست پر آسکتا ہے۔

ان اللہ علیم قدیر (16 : 70) “ بیشک اللہ علیم و قدیر ہے ”۔ یہ نتیجہ یہاں اس لیے بتایا گیا کہ انسان کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ مکمل ازلی اور ابدی علم صرف اللہ کا ہے اور حقیقی ازلی اور ابدی قدرت بھی صرف اللہ کے پاس ہے۔ انسان کا علم بھی محدود ہے اور زوال پذیر بھی ہے۔ انسان کی قدرت بھی محدود ہے اور قابل زوال بھی ہے ، اس کے علم اور اس کی قدرت میں بھی جزئی علم وقدرت۔

ان آیات میں دوسرا ٹچ انسان کے وسائل رزق سے متعلق ہے۔ رزق کے میدان میں ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان تفاوت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ رزق کے معاملے میں لوگوں کے درمیان فرق ہے اور اللہ نے بعض کو بعض پر برتری دی ہے اور یہ برتری بھی سنت الٰہیہ کے تابع ہے۔ مراتب میں یہ تفاوت بھی محض اتفاقی نہیں ہے بلکہ اس میں بھی اللہ کی گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑا عالم ، مفکر اور عقلمند ہوتا ہے لیکن وسائل رزق اور ان میں ترقی کی صلاحیتیں اس میں محدود ہوتی ہیں کیونکہ دوسرے شعبوں میں اللہ نے ایسے لوگوں کو قیمتی صلاحیتیں دی ہوئی ہوتی ہیں۔

اس کے مقابلے میں ایک دوسرا انسان بہت ہی سادہ ، باغی اور جاہلی نظر آئے گا لیکن حصول رزق اور اس کی ترقی کے میدان میں یہ شخص بہت ہی ماہر ہوگا۔ پھر لوگوں کے درمیان صلاحیتوں میں تفاوت اور تنوع پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات لوگ غور نہیں کرتے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ رزق کو صلاحیتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، حالانکہ حصول رزق بھی صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت ہوتی ہے۔ نیز بعض اوقات رزق کی فراوانی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے جبکہ رزق کی تنگی میں بھی بعض اوقات کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور اس حکمت کی بنا پر اللہ بعض لوگوں کو آزماتا ہے۔ بہرحال رزق اور وسائل رزق میں تفاوت ایک ایسی حقیقت ہے جو موجود ہے اور اس کا مدار صلاحیتوں کے اختلاف کی وجہ سے ہے۔ تاہم رزق کا اختلاف صلاحیتوں کے مطابق تب ہوگا جب معاشرے میں مواقع حصول رزق پر ظالمانہ کنٹرول اور مصنوعی تفاوت نہ ہو جس طرح آج کل کے فساد زدہ معاشروں میں ہے۔ اس آیت میں اشارہ اس معاشرے کی طرف ہے جو حضور ﷺ کے وقت دور جاہلیت میں موجود تھا۔ اس صورت حال کو ایک مثال کے طور پر پیش کر کے اللہ تعالیٰ مشرکانہ افکار کے نظام عقائد میں سے ایک عقیدے کی تصحیح فرماتا ہے۔ مکہ کے بت پرستانہ معاشرے میں یہ رواج تھا ، جس طرح ہم نے اس سے قبل اس کی تشریح کردی ہے کہ یہ لوگ اللہ کے دئیے ہوئے اموال میں سے بعض چیزوں کو بتوں کے لئے مخصوص کردیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھو ، تمہارے بھی غلام ہیں ، جس طرح تم اللہ کے غلام ہو ، (یاد رہے کہ اس وقت کے جاہلی معاشرے میں غلامی کا ادارہ موجود تھا ) ۔ تم ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ یہ غلام تمہاری کمائی میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوجائیں تو اللہ کس طرح یہ بات پسند کرے گا کہ اس کی مخلوقات و مملوکات میں سے بعض چیزیں ان لوگوں کی ہوجائیں جنہیں ناحق اللہ کی خدائی کے امور میں شریک کردیا گیا ہے۔

افبنعمۃ اللہ یجحدون (16 : 71) “ کیا یہ اللہ کے انعامات و احسانات کا انکار کرتے ہیں ”۔ اللہ نے تو ان پر انعامات کی بارش کردی اور انہوں نے مقابلے میں دوسروں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا۔ حالانکہ ان کی جانب سے شکر کا واحد طریقہ یہ تھا کہ وہ اللہ وحدہ کو الٰہ سمجھتے۔

یہ تیسری احساس جگانے والی تنبیہ نفس انسانی ، اس کے جوڑے ، بیٹوں ، پوتوں اور دوسری اولاد کے بارے میں ہے۔ سب سے پہلے ذکر مخالف جنس پر مشتمل جوڑنے اور ان کے باہم زندہ تعلق کے بارے میں ہے۔

جعل لکم من انفسکم ازواجا (16 : 72) “ جس نے تمہارے لیے تمہاری ہی ہم جنس بیویاں بنائیں ”۔ وہ تمہارے ہی نفس کا حصہ ہیں ، وہ تمہارا ہی حصہ ہیں ، یہ تم سے کوئی کم تر درجے کی مخلوق نہیں ہے کہ تمہیں عورتوں کی پیدائش سے شرم آتی ہے۔

وجعل لکم من ازواجم بنین وحفدۃ (16 : 72) “ اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کئے ”۔ انسان فانی ہے لیکن وہ اپنی ذات کا تسلسل بذریعہ اولاد و احفاد چاہتا ہے۔ حیات انسانی کا یہ پہلو نہایت ہی حساس ہے اور اس تار کو معمولی طور پر چھوٹے ہی سے زمزمہ حیات گونجنے لگتا ہے۔ وسائل رزق کے مقابلے میں اولاد و احفاد کا یہاں ذکر کیا گیا بطور نعمت تا کہ انسانی شعور کے سامنے یہ سوال رکھا جائے۔

افبالباطل یومنون وبنعمت اللہ ھم یکفرون (16 : 72) “ تو اب بھی یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں ”۔ یوں کہ وہ اللہ کے شریک قرار دیتے ہیں اور اللہ کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ یہ تمام انعامات اللہ کے عطا کردہ ہیں اور یہ نعمات اللہ کی الوہیت و حاکمیت پر گواہ بھی ہیں اور عملاً ان کی زندگی میں یہ نعمتیں موجود بھی ہیں اور ہر وقت ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کے سوا جو بھی ہے وہ باطل ہے۔ اور یہ الٰہ جن کو یہ پکارتے ہیں لا محالہ باطل ہیں ، محض اوہام ہیں ، ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ایسی سوچ اور مرتبے کا کوئی حق و حقیقت نہیں ہے۔ لہٰذا اس حرکت کا ارتکاب کر کے وہ انعامات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں ۔ جبکہ اس حقیقت کو وہ خود بھی اپنی فطری صلاحیت سے محسوس بھی کرتے ہیں اور احساس ہوتے ہوئے انکار کرتے ہیں۔

ویعبدون من ۔۔۔۔ یستطیعون (16 : 73) “ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو پوجتے ہیں جن کے ہاتھ میں نہ آسمانوں سے انہیں کچھ بھی رزق دینا ہے نہ زمین سے اور نہ یہ کام وہ کر ہی سکتے ہیں ”۔ یہ عجیب بات ہے کہ انسانی فطرت اس حد تک منحرف ہوجائے اور ایسی چیزوں کی بندگی کرے جن کے ہاتھ میں لوگوں کا رزق نہیں ہے اور نہ وہ ایک ہی دن کے لئے لوگوں کے رزق کا انتظام کرنے کے اہل ہیں۔ جبکہ یہ لوگ اللہ کو خالق ، رازق ، فریاد رس مانتے بھی ہیں اور اس کا انکار نہیں کرسکتے لیکن اس کے باوجود اللہ کے مماثل اور اس جیسی شخصیات کے قائل ہیں۔

اردو ترجمہ

اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصہ دار بن جائیں تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے اِن لوگوں کو انکار ہے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu faddala baAAdakum AAala baAAdin fee alrrizqi fama allatheena fuddiloo biraddee rizqihim AAala ma malakat aymanuhum fahum feehi sawaon afabiniAAmati Allahi yajhadoona

اردو ترجمہ

اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAllahu jaAAala lakum min anfusikum azwajan wajaAAala lakum min azwajikum baneena wahafadatan warazaqakum mina alttayyibati afabialbatili yuminoona wabiniAAmati Allahi hum yakfuroona
274