اس صفحہ میں سورہ Al-Maaida کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ المائدة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 6 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصّلٰوۃِ یعنی نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو۔وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ط یہاں پر واضح رہے کہ اَرْجُلَکُمْ اور اَرْجُلِکُمْ دونوں قراءتیں مستند ہیں ‘ لہٰذا اہل تشیّع اس کو مستقلاً ‘ اَرْجُلِکُمْپڑھتے ہیں اور ان کے نزدیک اس میں پاؤں پر مسح کا حکم ہے۔ چناچہ وہ وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُم وَاَرْجُلِکُمْ کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں : اور مسح کرلیا کرو اپنے سروں پر بھی اور اپنے پاؤں پر بھی۔ لیکن اہل سنت کے نزدیک یہ اَرْجُلَکُمہے اور اِلَی الْکَعْبَیْنِکے اضافے سے یہاں پاؤں کو دھونے کا حکم بالکل واضح ہوگیا ہے۔ اگر صرف مسح کرنا مطلوب ہوتا تو اس میں کوئی حد بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا اِلَی الْکَعْبَیْن کی شرط سے یہ ٹکڑا فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِق کے بالکل مساوی ہوگیا ہے۔ جیسے ہاتھوں کا دھونا ہے کہنیوں تک ‘ ایسے ہی پاؤں کا دھونا ہے ٹخنوں تک۔ اس حکم میں وضو کے فرائض بیان ہوئے ہیں۔وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا ط یعنی پورے جسم کا غسل کرو۔ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضآی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ یہ استعارہ ہے قضائے حاجت کے لیے۔ عام طور پر لوگ قضائے حاجت کے لیے نشیبی جگہوں پر جاتے تھے۔ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا یعنی پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو۔
آیت 7 وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ ایک میثاق وہ تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا ‘ اب ایک میثاق یہ ہے جو اہل ایمان سے ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ سورة شروع ہوئی تھی یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآسے ‘ یعنی اہل ایمان سے خطاب ہے ‘ لہٰذا اس میثاق میں بھی اہل ایمان ہی مخاطب ہیں۔ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز سورۃ البقرۃ کی آخری آیت سے پہلے والی آیت میں اہل ایمان کا یہ اقرار موجود ہے : سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ۔ اب جو مسلمان بھی سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہتا ہے وہ گویا ایک میثاق اور ایک ‘ بہت مضبوط معاہدے کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندھ جاتا ہے۔ یعنی اب اسے اللہ کی شریعت کی پابندی کرنی ہے۔
آیت 8 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز یہاں پر سورة النساء کی آیت 135 کا حوالہ ضروری ہے۔ سورة النساء کی آیت 135 اور زیر مطالعہ آیت المائدۃ : 8 میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے ‘ فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب عکسی ہے دونوں سورتوں کی نسبت زوجیت بھی مدّ نظر رہے۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ اور یہاں الفاظ ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز۔ ایک حقیقت تو میں نے اس وقت بیان کردی تھی کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ گویا اللہ اور قسط مترادف ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : قسط کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور دوسری جگہ فرمایا : اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ کے گواہ بن جاؤ اور دوسری جگہ قسط کے گواہ بن جاؤ فرمایا۔ تو گویا اللہ اور قسط ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر آئے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ اس آیت سے ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ معاشرے میں عدل قائم کرنے کا حکم ہے۔ انسان فطرتاً انصاف پسند ہے۔ انصاف عام انسان کی نفسیات اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ آج پوری نوع انسانی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انصاف ہی کے لیے انسان نے بادشاہت سے نجات حاصل کی اور جمہوریت کو اپنایا تاکہ انسان پر انسان کی حاکمیت ختم ہو ‘ انصاف میسر آئے ‘ مگر جمہوریت کی منزل سراب ثابت ہوئی اور ایک دفعہ انسان پھر سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی لعنت میں گرفتار ہوگیا۔ اب سرمایہ دار اس کے آقا اور ڈکٹیٹربن گئے۔ اس لعنت سے نجات کے لیے اس نے کمیونزم Communism کا دورازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی متعلقہ پارٹی کی آمریت One Party Dictatorship اس کی منتظر تھی۔ گویا رست ازیک بند تا افتاد دربندے دگر یعنی ایک مصیبت سے نجات پائی تھی کہ دوسری آفت میں گرفتار ہوگئے۔ اب انسان عدل اور انصاف حاصل کرنے کے لیے کہاں جائے ؟ کیا کرے ؟ یہاں پر ایک روشنی تو انسان کو اپنی فطرت کے اندر سے ملتی ہے کہ اس کی فطرت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور اپنی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے وہ عدل قائم کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے ‘ مگر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے اور وہ یہ ہے کہ العدل اللہ کی ذات ہے جس کا دیا ہوا نظام ہی عادلانہ نظام ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں ‘ اس کے وفادار ہیں ‘ لہٰذا اس کے نظام کو قائم کرنا ہمارے ذمے ہے ‘ ہم پر فرض ہے۔ چناچہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز میں اسی بلند تر منزل کا ذکر ہے۔ یہ صرف فطرت انسانی ہی کا تقاضا نہیں بلکہ تمہاری عبدیت کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کے رشتے کا تقاضا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ‘ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ‘ جو بھی اسباب و ذرائع میسر ہوں ان سب کو جمع کرکے کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے ! یعنی اللہ کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس دین میں جو تصور ہے عدل ‘ انصاف اور قسط کا اس عدل و انصاف اور قسط کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ یہ ہے اس حکم کا تقاضا۔ اب دیکھئے ‘ وہاں سورۃ النساء آیت 135 میں کیا تھا : اے ایمان والو ! انصاف کے علمبردار اور اللہ واسطے کے گواہ بن جاؤ۔ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اگرچہ اس کی تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔انصاف سے روکنے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل مثبت تعلق یعنی محبت ہے۔ اپنی ذات سے محبت ‘ والدین اور رشتہ داروں وغیرہ کی محبت انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ میں اپنے خلاف کیسے فتویٰ دے دوں ؟ اپنے ہی والدین کے خلاف کیونکر فیصلہ سنا دوں ؟ سچی گواہی دے کر اپنے عزیز رشتہ دارکو کیسے پھانسی چڑھا دوں ؟ لہٰذا وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ۔۔ فرما کر اس نوعیت کی تمام عصبیتوں کی جڑکاٹ دی گئی کہ بات اگر حق کی ہے ‘ انصاف کی ہے تو پھر خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جا رہی ہو ‘ تمہارے والدین پر ہی اس کی زد کیوں نہ پڑ رہی ہو ‘ تمہارے عزیز رشتہ دار ہی اس کی کاٹ کے شکار کیوں نہ ہو رہے ہوں ‘ اس کا اظہار بغیر کسی مصلحت کے ڈنکے کی چوٹ پر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا عامل منفی تعلق ہے ‘ یعنی کسی فرد یا گروہ کی دشمنی ‘ جس کی وجہ سے انسان حق بات کہنے سے پہلو تہی کرجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بات تو حق کی ہے مگر ہے تو وہ میرا دشمن ‘ لہٰذا اپنے دشمن کے حق میں آخر کیسے فیصلہ دے دوں ؟ آیت زیر نظر میں اس عامل کو بیان کرتے ہوئے دشمنی کی بنا پر بھی کتمانِ حق سے منع کردیا گیا :وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ rّ تمہارا کوئی عمل اور کوئی قول اس کے علم سے خارج نہیں ‘ لہٰذا ہر وقت چوکس رہو ‘ چوکنے رہو۔ آیت زیر نظر اور سورة النساء کی آیت 135 کے معانی و مفہوم کا باہمی ربط اور الفاظ کی عکسی اور reciprocal ترتیب کا حسن لائقِ توجہ ہے۔