اس صفحہ میں سورہ Al-Furqaan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفرقان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 33 وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِءْنٰکَ بالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا ”قرآن حکیم کو جزءً ا جزءً ا نازل کرنے میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ جب کبھی بھی مخالفین اور معترضین کی طرف سے کوئی اعتراض یا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وحی کے ذریعے اس کا مبنی برحق اور مفصل جواب آپ ﷺ کو بتادیا جاتا ہے۔
آیت 35 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗٓ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ وَزِیْرًا ”حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد اور معاونت کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام کو ان کے مددگار کے طور پر رسالت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ وزیر ”وِزر“ بوجھ سے ہے ‘ یعنی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں معین و مددگار۔
آیت 36 فَقُلْنَا اذْہَبَآ اِلَی الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاط فَدَمَّرْنٰہُمْ تَدْمِیْرًا ”یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا اور ان لوگوں کے مسلسل انکار کے باعث بالآخر انہیں سمندر میں غرق کر کے نیست و نابود کردیا گیا۔
وَاَعْتَدْنَا للظّٰلِمِیْنَ عَذَابًا اَلِیْمًا ”یعنی پیغمبروں کی تکذیب کرنے والی ان قوموں کو عذاب استیصال کی صورت میں نقد سزا تو دنیا ہی میں مل گئی تھی مگر اصل عذاب ابھی ان کا منتظر ہے۔ یہ عذاب انہیں آخرت میں ملے گا اور وہ بیحد تکلیف دہ ہوگا۔
آیت 38 وَّعَادًا وَّثَمُوْدَا وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًام بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا ””اصحاب الرس“ کے بارے میں صراحت نہیں ملتی کہ یہ کون سی قوم تھی اور ان کا زمانہ اور علاقہ کون سا تھا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کو کسی کنویں میں بند کردیا تھا۔ اس لیے انہیں کنویں والے کہا گیا ہے۔
آیت 39 وَکُلًّا ضَرَبْنَا لَہُ الْاَمْثَالَز ”اپنے اپنے وقت پر ان سب قوموں کو راہ ہدایت پر لانے کے لیے ان کے ماحول اور حالات کے مطابق ہم ٹھوس دلائل اور واضح حقائق پر مبنی تعلیمات ان کے سامنے پیش کرتے رہے۔
آیت 40 وَلَقَدْ اَتَوْا عَلَی الْقَرْیَۃِ الَّتِیْٓ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ط ”اس سے سدوم اور عامورہ کی بستیاں مراد ہیں جن کی طرف حضرت لوط علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے ‘ جس کا ذکر قرآن حکیم میں کئی جگہ آیا ہے۔اَفَلَمْ یَکُوْنُوْا یَرَوْنَہَا ج ”سفر شام کے دوران آتے جاتے قریش کے تجارتی قافلے جب ان بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتے ہیں تو کیا یہ لوگ انہیں نگاہ عبرت سے نہیں دیکھتے ؟بَلْ کَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا ”اصل بات یہ ہے کہ انہیں بعث بعد الموت پر یقین نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے عبرت انگیز حقائق پر سے یہ لوگ بغیر کوئی سبق حاصل کیے اندھوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔
آیت 41 وَاِذَا رَاَوْکَ اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ط ”قریش مکہ کے ہاں حضور ﷺ کی دعوت کی مخالفت کا یہ بھی ایک طریقہ تھا کہ وہ بات سننے کے لیے کبھی سنجیدہ نہ ہوتے اور آپ ﷺ کی دعوت کو ہمیشہ مذاق میں اڑا دیتے۔ نہ وہ آپ ﷺ کی بات کو کبھی سنجیدگی سے سنتے ‘ نہ کبھی اس پر غور کرتے اور نہ ہی اس کا کوئی سنجیدہ جواب دیتے۔اَہٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلًا۔ ”یہ اور اس طرح کے دوسرے جملوں کے ذریعے وہ لوگ آپ ﷺ کا تمسخر اڑاتے تھے۔
آیت 42 اِنْ کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ اٰلِہَتِنَا لَوْلَآ اَنْ صَبَرْنَا عَلَیْہَا ط ”اگر ہم نے اپنے ان معبودوں کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار نہ کر رکھا ہوتا تو یہ شخص ضرور ہمیں ان سے برگشتہ کر کے راستے سے بھٹکا دیتا۔ وَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ حِیْنَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ”انہیں بہت جلد یہ حقیقت معلوم ہوجائے گی کہ اصل گمراہ کون تھا ؟ جنہیں یہ گمراہی کا الزام دیتے ہیں وہ یا یہ خود !
آیت 43 اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰٹہُ ط ”یہاں شرک کی ایک بہت اہم قسم بیان ہوئی ہے ‘ جو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس پر بڑے بڑے موحدینّ کو غور کرنا چاہیے کہ دراصل شرک صرف ”یا علی مدد !“ کا نعرہ لگانے یا قبر پرستی تک ہی محدود نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ کے کسی واضح حکم کے مقابلے میں خواہش نفس پر عمل پیرا ہونا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ انسان کو اس کا نفس ہر وقت دنیا سمیٹنے اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کے حسین خواب دکھاتا ہے۔ وہ حرام کو اپنانے کے لیے ُ پر کشش تو جیہات پیش کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آج کے بینک کا سود حرام نہیں ہے ‘ پرانے دور میں تو سود کو اس لیے حرام کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے سے غرباء کا استحاصل ہوتا تھا ‘ آج کے بینکنگ نظام پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ‘ آج تو بینک کی معاونت کے بغیر کوئی کاروبار چل ہی نہیں سکتا ‘ اس لیے بینک کے تعاون سے فلاں کاروبار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ چناچہ اگر کسی شخص نے اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال کر اپنے نفس کی بات مان لی تو گویا وہ اپنے نفس کا بندہ بن گیا۔ اب اس کا نفس ہی اس کا ”مطاع“ ہے اور جو کوئی بھی کسی کا اصل مطاع ہوگا وہی اس کا معبود ہوگا۔عبادت در اصل مکمل غلامی کا نام ہے۔ جس طرح ایک غلام اپنے آقا کا ہر حکم ماننے کا پابند ہے اسی طرح ایک بندے عبد پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے معبود کی مکمل فرمانبرداری کرے اور اس کے کسی بھی حکم سے سرتابی نہ کرے۔ عبادت کا یہ مفہوم سورة المؤمنون میں درج فرعون کے اس جملے سے اور بھی واضح ہوجاتا ہے : وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ کہ ان دونوں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی قوم ہماری غلام اور اطاعت شعار ہے۔ اب اگر کوئی شخص زبان سے توحید پرستی کا دعویٰ کرے ‘ لَا اِلٰہ الاَّ اللّٰہ کے وظیفے کرے اور چلے ّ کاٹے ‘ لیکن عملاً اطاعت اور فرمانبرداری اپنے نفس کی کرے تو حقیقت میں وہ توحید پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہے اور اس کا نفس ہی اصل میں اس کا معبود ہے۔