اس صفحہ میں سورہ Aal-i-Imraan کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ آل عمران کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 30 یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ج وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ ج اس کا نقشہ سورة الزلزال میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ تو جس نے ایک ذرے کے ہم وزن نیکی کی ہوگی وہ اس کو بچشم خود دیکھ لے گا۔ اور جس نے ایک ذرے کے ہم وزن برائی کی ہوگی وہ اس کو بچشم خود دیکھ لے گا۔تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہٗ اَمَدًام بَعِیْدًا ط۔اس وقت ہر انسان یہ چاہے گا کہ کاش میرے اور میرے اعمال نامے کے درمیان بڑا فاصلہ آجائے اور میری نگاہ بھی اس پر نہ پڑے۔وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط۔یعنی تقویٰ اختیار کرنا ہے تو اس کا کرو ‘ ڈرنا ہے تو اس سے ڈرو ‘ خوف کھانا ہے تو اس سے کھاؤ ! وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌم بالْعِبَادِ ۔یہ تنبیہات warnings وہ تمہیں بار بار اسی لیے دے رہا ہے تاکہ تمہاری عاقبت خراب نہ ہو۔
آیت 31 قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یہ آیت بہت معروف ہے اور مسلمانوں کو بہت پسند بھی ہے۔ ہمارے ہاں مواعظ و خطابات میں یہ بہت کثرت سے بیان ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ‘ میرا اتباع کرو ! اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ :یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
آیت 32 قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ یہ دو آیتیں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کے لیے دو الفاظ آئے ہیں اطاعت اور اتباع۔ اطاعت اگر نہیں ہے تو یہ کفر ہے۔ چناچہ اطاعت تو لازم ہے اور وہ بھی دلی آمادگی سے ‘ مارے باندھے کی اطاعت نہیں۔ لیکن اطاعت کس چیز میں ہوتی ہے ؟ جو حکم دیا گیا ہے کہ یہ کرو وہ آپ کو کرنا ہے۔ اتباع اس سے بلند تر شے ہے۔ انسان خود تلاش کرے کہ آنحضور ﷺ کے اعمال کیا تھے اور ان پر عمل پیرا ہوجائے ‘ خواہ آپ ﷺ نے ان کا حکم نہ دیا ہو۔ گویا اتباع کا دائرہ اطاعت سے وسیع تر ہے۔ انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس سے ہر طرح سے ایک مناسبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چناچہ وہ اس کے لباس جیسا لباس پہننا پسند کرتا ہے ‘ جو چیزیں اس کو کھانے میں پسند ہیں وہی چیزیں خود بھی کھانا پسند کرتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا حکم نہیں دیا گیا لیکن ان کا التزام پسندیدہ ہے۔ ایک صحابی رض ‘ کا واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے کرتے کے بٹن نہیں لگے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کا گریبان کھلا تھا۔ اس کے بعد ان صحابی رض نے پھر ساری عمر اپنے ُ کرتے کے بٹن نہیں لگائے۔ حالانکہ حضور ﷺ نے تو انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہ صحابی رض کہیں دور دراز سے آئے ہوں گے اور ایک ہی مرتبہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہوں گے ‘ لیکن انہوں نے اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کو جس شان میں دیکھا اس کو پھر اپنے اوپر لازم کرلیا۔اتباع کے ضمن میں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ اگرچہ دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں کہ انہیں جس درجے میں محمد رسول اللہ ﷺ نے پورا فرمایا اس درجے میں پورا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ‘ پھر بھی اس کی کوشش کرتے رہنا اتباع کا تقاضا ہے۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے کوئی مکان نہیں بنایا ‘ کوئی جائیداد نہیں بنائی ‘ جیسے ہی وحی کا آغاز ہوا ‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے کوئی دنیوی کام نہیں کیا ‘ کوئی تجارت نہیں کی۔ آپ ﷺ نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اور اپنی توانائی کی ایک ایک رمق اللہ کے دین کی دعوت اور اس کی اقامت میں لگا دی۔ سب کے لیے تو اس مقام تک پہنچنا یقینامشکل ہے ‘ لیکن بہرحال بندۂ مؤمن کا آئیڈیل یہ رہے اور وہ اسی کی طرف چلنے کی کوشش کرتا رہے ‘ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور زیادہ سے زیادہ وسائل فارغ کرے اور اس کام کے اندر لگائے تو اتباعکا کم سے کم تقاضا پورا ہوگا۔ البتہ جہاں تک اطاعتکا تعلق ہے اس میں کوتاہی قابل قبول نہیں۔ جہاں حکم دے دیا گیا کہ یہ حلال ہے ‘ یہ حرام ہے ‘ یہ فر ض ‘ ہے یہ واجب ہے ‘ وہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں۔ اگر اطاعت ہی سے انکار ہے تو اسے قرآن کفر قرار دے رہا ہے۔ اتباع کا معاملہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کا اتباع کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ‘ میری پیروی کرو۔ دیکھو ‘ میرے شب و روز کیا ہیں ؟ میری توانائیاں کن کاموں پر لگ رہی ہیں ؟ دنیا کے اندر میری دلچسپیاں کیا ہیں ؟ ان معاملات میں تم میری پیروی کرو۔ اس کے نتیجے میں تم اللہ تعالیٰ کے محب سے بڑھ کر محبوببن جاؤ گے اور اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ وہ یقیناً غفور اور رحیم ہے۔ باقی اطاعت تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ‘ کی بہرصورت کرنی ہے۔ اگر یہ اس اطاعت سے بھی منہ موڑیں تو اللہ تعالیٰ کو ایسے کافر پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ اطاعت رسول ﷺ کا انکار تو کفر ہوگیا۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کا ثلث اوّل مکمل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس سورة مبارکہ کی پہلی 32 آیات تمہیدی اور عمومی نوعیت کی ہیں۔ ان میں دین کے بڑے گہرے اصول بیان ہوئے ہیں ‘ نہایت جامع دعائیں تلقین کی گئی ہیں اور محکمات اور متشابہات کا فرق واضح کیا گیا ہے۔
سورة آل عمران کے نصف اوّل کا دوسرا حصہ 31 آیات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں خطاب براہ راست نصاریٰ سے ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جو تم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبود بنا لیا ہے اور تثلیث Trinity کا عقیدہ گھڑ لیا ہے یہ سب باطل ہے۔ عیسائیوں کے ہاں دو طرح کی تثلیث رائج رہی ہے۔۔ i خدا ‘ مریم اور عیسیٰ علیہ السلام۔۔ اور ii خدا ‘ روح القدس اور عیسیٰ علیہ السلام۔ یہاں پر واضح کردیا گیا کہ یہ جو تثلیثیں تم نے ایجاد کرلی ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ تمہاری کج روی ہے۔ تم نے غلط شکل اختیار کی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہت برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ہاں ان کی ولادت معجزانہ طریقے پر ہوئی ہے۔ لیکن ان سے متصلاً قبل حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت بھی تو معجزانہ ہوئی تھی۔ وہ بھی کوئی کم معجزہ نہیں ہے۔ اور پھر حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت بھی تو بہت بڑا معجزہ ہے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ چناچہ اگر کسی کی معجزانہ ولادت الوہیت کی دلیل ہے تو کیا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی الٰہ ہیں ؟ تو یہ ساری بحث اسی موضوع پر ہو رہی ہے۔آیت 33 اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔اِصطفاء کے معنی منتخب کرنے یا چن لینے selection کے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی اصطفاء ہوا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک دلیل موجود ہے جو تخلیق آدم کے ضمن میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پہلے ایک نوع species وجود میں آئی تھی اور اللہ نے اس نوع کے ایک فرد کو چن کر اس میں اپنی روح پھونکی تو وہ آدم علیہ السلام بن گئے۔ چناچہ وہ بھی چنیدہ selected تھے۔ اِصطفاء کے ایک عام معنی بھی ہوتے ہیں ‘ یعنی پسند کرلینا۔ ان معنوں میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اور نوح علیہ السلام کو اور ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کو اور عمران کے خاندان کو تمام جہان والوں پر ترجیح دے کر پسند کرلیا۔ تاریخ بنی اسرائیل میں عمران دو عظیم شخصیتوں کے نام ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام بھی عمران تھا اور حضرت مریم کے والد یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا کا نام بھی عمران تھا۔ یہاں پر غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد مراد ہیں۔ لیکن آگے چونکہ حضرت مریم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ آرہا ہے ‘ لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہاں پر حضرت مریم علیہ السلام کے والد کی طرف اشارہ ہو۔
آیت 34 ذُرِّیَّۃً م بَعْضُہَا مِنْم بَعْضٍ ط حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ‘ اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پورا خاندان بنی اسماعیل ‘ بنی اسرائیل اور آل عمران ان کی اولاد میں سے ہیں۔
آیت 35 اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا عمران کی بیوی یعنی حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ بہت ہی نیک ‘ متقی اور زاہدہ تھیں۔ جب ان کو حمل ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کیا کہ پروردگار ! جو بچہ میرے پیٹ میں ہے ‘ جسے تو پیدا فرما رہا ہے ‘ اسے میں تیری ہی نذر کرتی ہوں۔ ہم اس پر دنیوی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے اور اس کو خالصتاً ہیکل کی خدمت کے لیے ‘ دین کی خدمت کے لیے ‘ تورات کی خدمت کے لیے وقف کردیں گے۔ ہم اپنا بھی کوئی بوجھ اس پر نہیں ڈالیں گے۔ انہیں یہ توقع تھی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا۔ مُحَرَّرًا کے معنی ہیں اسے آزاد کرتے ہوئے۔ یعنی ہماری طرف سے اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اسے ہم تیرے لیے خالص کردیں گے۔فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ ج اے اللہ تو میری اس نذر کو شرف قبول عطا فرما۔
آیت 36 فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُہَآ اُنْثٰی ط۔یعنی میرے ہاں تو بیٹی پیدا ہوگئی ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ بیٹا پیدا ہوگا تو میں اس کو وقف کر دوں گی۔ اس وقت تک ہیکل کے خادموں میں کسی لڑکی کو قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ط۔اسے کیا پتا تھا کہ اس نے کیسی بیٹی جنی ہے !وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی ج !اس جملے کے دونوں معنی کیے گئے۔ اوّلاً : اگر یہ قول مانا جائے حضرت مر یم علیہ السلام کی والدہ کا تو ترجمہ یوں ہوگا : اور لڑکا لڑکی کی مانند تو نہیں ہوتا۔ اگر لڑکا ہوتا تو میں اسے خدمت کے لیے وقف کردیتی ‘ یہ تو لڑکی ہوگئی ہے۔ ثانیاً : اگر اس قول کو اللہ کی طرف سے مانا جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ کوئی بیٹا ایسا ہو ہی نہیں سکتا جیسی بیٹی تو نے جنم دی ہے۔ اور اب مریم علیہ السلام کی والدہ کا کلام شروع ہوا :وَاِنِّیْ سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَاِنِّیْ اُعِیْذُہَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔اے اللہ ! تو اس لڑکی مریم علیہ السلام کو بھی اور اس کی آنے والی اولاد کو بھی شیطان کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھیو !
آیت 37 فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ شرف قبول عطا فرمایا بڑے ہی خوبصورت انداز میں۔ وَّاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًالا وَّکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ط حضرت زکریا علیہ السلام ان کے سرپرست مقرر ہوئے اور انہوں نے حضرت مریم علیہ السلام کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ وہ حضرت مریم علیہ السلام کے خالو تھے۔ آپ علیہ السلام وقت کے نبی تھے اور اسرائیلی اصطلاح میں ہیکل سلیمانی کے کاہن اعظم Chief Priest بھی تھے۔ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَلا وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ج محراب سے مراد وہ گوشہ یا حجرہُ ہے جو حضرت مریم علیہ السلام کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام ان کی دیکھ بھال کے لیے اکثر ان کے حجرے میں جاتے تھے۔ آپ علیہ السلام جب بھی حجرے میں جاتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس کھانے پینے کی چیزیں اور بغیر موسم کے پھل موجود ہوتے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ یہاں رزق سے مراد مادی کھانا نہیں ‘ بلکہ علم و حکمت ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام ان سے بات کرتے تھے تو حیران رہ جاتے تھے کہ اس لڑکی کو اس قدر حکمت اور اتنی معرفت کہاں سے حاصل ہوگئی ہے ؟قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ط یہ انواع و اقسام کے کھانے اور بےموسمی پھل تمہارے پاس کہاں سے آجاتے ہیں ؟ یا یہ علم و حکمت اور معرفت کی باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوتی ہیں ؟قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط۔یہ سب اس کا فضل اور اس کا کرم ہے۔