سورہ یٰسین (36): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Yaseen کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ يس کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ یٰسین کے بارے میں معلومات

Surah Yaseen
سُورَةُ يسٓ
صفحہ 445 (آیات 71 سے 83 تک)

أَوَلَمْ يَرَوْا۟ أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَآ أَنْعَٰمًا فَهُمْ لَهَا مَٰلِكُونَ وَذَلَّلْنَٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ وَلَهُمْ فِيهَا مَنَٰفِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ ءَالِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ أَوَلَمْ يَرَ ٱلْإِنسَٰنُ أَنَّا خَلَقْنَٰهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِىَ خَلْقَهُۥ ۖ قَالَ مَن يُحْىِ ٱلْعِظَٰمَ وَهِىَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا ٱلَّذِىٓ أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلشَّجَرِ ٱلْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَآ أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ أَوَلَيْسَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ بِقَٰدِرٍ عَلَىٰٓ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ ٱلْخَلَّٰقُ ٱلْعَلِيمُ إِنَّمَآ أَمْرُهُۥٓ إِذَآ أَرَادَ شَيْـًٔا أَن يَقُولَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ فَسُبْحَٰنَ ٱلَّذِى بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
445

سورہ یٰسین کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ یٰسین کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے اِن کے لیے مویشی پیدا کیے اور اب یہ ان کے مالک ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yaraw anna khalaqna lahum mimma AAamilat aydeena anAAaman fahum laha malikoona

اولم یروا انا ۔۔۔۔۔ ما یسرون وما یعلنون (71 – 76)

کیا یہ دیکھتے نہیں ؟ اللہ کی نشانیاں تو ان کے سامنے موجود ہیں اور سب کو نظر آتی ہیں۔ نہ ان سے اوجھل ہیں اور نہ دور ہیں۔ اور نہ یہ نشانیاں اس قدر پیچیدہ ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لئے کسی بڑے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ انعامات جو اللہ نے انسانوں کے لیے پیدا کیے اور انسانوں کو ان کا مالک بنایا ، ان میں سے جانور ہیں جن کو انسانوں کے تابع بنایا جن پر انسان سوار ہوتے ہیں ، ان میں سے بعض نعمتوں کو کھاتے اور پیتے ہیں ۔ اور بعض سے بعض دوسرے فائدے اٹھاتے ہیں اور یہ سب امور اللہ کی تدابیر اور تقادیر کے مطابق ہے۔ اور پھر اللہ نے انسانوں کے اندر مختلف صلاحیتیں اور خصوصیات و دیعت فرمائیں۔ پھر جانوروں کو مختلف خصائص اور صلاحیتیں دیں۔ انسانوں کو یہ قدرت دی کہ وہ ان کو اپنا تابع فرمان بنائیں اور ان سے فائدے اٹھائیں۔ چناچہ وہ سدھائے گئے تابع فرمان بنائے گئے اور ان سے انسانوں کی مختلف حاجات و ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ انسانوں کے اندر یہ قدرت نہ تھی کہ وہ ازخود ان نعمتوں کو پیدا کرسکتے۔ سب نعمتیں تو بڑی بات ہے اگر تمام انسان جمع ہوجائیں اور وہ ایک مکھی کی تخلیق کرنا چاہیں تو وہ بھی نہ کرسکیں گے۔ نیز اللہ نے چونکہ مکھی کے اندر یہ خاصیت نہیں رکھی کہ وہ انسانوں کے تابع ہوجائے اس لیے آج تک انسان مکی کو تابع نہ کرسکے۔

افلا یشکرون (36: 73) ” پھر کیا یہ شکر گزار نہیں ہوتے “۔ جب انسان ان معاملات کے بارے میں اس انداز سے سوچتا ہے اور قرآن کریم کی روشنی میں ان امور پر غور کرتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ تو اللہ کے انعامات کے اندر ڈوبا ہوا ہے اور اس پر اللہ کے کرم کی ہر وقت بارش ہو رہی ہے۔ اس کے ماحول کی ہر چیز اس کے لیے رحمت ہے۔ جب بھی وہ کسی حیوان پر سوار ہوتا ہے ، یا گوشت کا کوئی ٹکڑا کھاتا ہے ، یا دودھ کا ایک گھونٹ پیتا ہے یا سوت ، اون اور ریشم کا کوئی کپڑا پہنتا ہے ، یا گھی اور پنیت استعمال کرتا ہے یا اپنے انعامات کو کام میں لاتا ہے تو اسے گہرا شعور حاصل ہوتا ہے کہ خالق کائنات کی رحمت کس قدر وسیع ہے اور اس کے انعامات کا دائرہ کسی قدر بڑا ہے۔ غرض یہ شعور اور بھی پختہ ہوجاتا ہے جب انسان اس جہاں کی تازہ اور باسی فصلوں اور پھلوں کو استعمال کرتا ہے اور اسی شعور کے نتیجے میں انسانی زندگی پوری کی پوری حمد و ثنا ہوجاتی ہے۔ قدم قدم پر اس شعور کی وجہ سے انسان عبادت اور بندگی کرتا ہے اور رات دن اللہ کا ثنا خواں ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم نے اُنہیں اس طرح اِن کے بس میں کر دیا ہے کہ اُن میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wathallalnaha lahum faminha rakoobuhum waminha yakuloona

اردو ترجمہ

اور اُن کے اندر اِن کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں پھر کیا یہ شکر گزار نہیں ہوتے؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walahum feeha manafiAAu wamasharibu afala yashkuroona

اردو ترجمہ

یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اِنہوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنا لیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ اِن کی مدد کی جائے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waittakhathoo min dooni Allahi alihatan laAAallahum yunsaroona

لیکن لوگوں کے اندر یہ شعور نہیں ہے اس لیے وہ شکر نہیں بجا لاتے بلکہ انہوں نے الٹا اللہ کی مخلوق میں دوسری چیزوں کو اللہ کے سوا الٰہ اور مددگار بنا رکھا ہے۔

واتخذوا من دون ۔۔۔۔۔ جند محضرون (36: 74 – 75) ” انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنا لیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے گی۔ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے بلکہ یہ لوگ الٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں “۔ ماضی میں یوں ہوتا تھا کہ بت اور آستانے پوجے جاتے تھے ، یا درختوں اور ستاروں کی پوجا کی جاتی تھی۔ فرشتوں ، اور جنوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ ماضی کی بت پرستی آج بھی بعض علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن جو لوگ اس مظاہر پرستی میں مبتلا نہیں ہیں وہ بھی خالص توحید کے قائل نہیں ہیں۔ آج اکثر لوگ اللہ کے سوا دوسری کھوٹی اور جھوٹی قوتوں سے خائف ہیں اور اللہ کے سوا دوسرے سہاروں پر اعتماد کرتے ہیں ۔ شرک کے بہرحال بہت سے رنگ ہوتے ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف سے اس کے رنگ ڈھنگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔

یہ لوگ ان الہوں کی بندگی اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے یہ لوگ کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ حالانکہ عملاً صورت حالات یہ ہوتی تھی کہ ان کے الہوں کے خلاف اگر کوئی کچھ اقدام کرتا تھا تو یہ لوگ اپنے الہوں کی امداد کے لیے کھڑا ہوجاتے تھے اور اپنے الہوں کی حمایت کرتے تھے۔ اصل میں تو یہ لوگ اپنے کھوٹے خداؤں کے مددگار ہوتے تھے۔

اردو ترجمہ

وہ اِن کی کوئی مدد نہیں کر سکتے بلکہ یہ لوگ الٹے اُن کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yastateeAAoona nasrahum wahum lahum jundun muhdaroona

وھم لھم جند محضرون (36: 75) ” وہ اپنے الہوں کے لیے حاضر باش فوجدار تھے “۔ یہ اب کی سوچ اور فکر کی انتہائی کمزوری تھی۔ آج بھی لوگوں کی اکثریت اسی سوچ میں مبتلا ہے۔ اور صرف شکل و صورت کے اعتبار سے ہی اختلاف ہے۔ اصل سوچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج جو لوگ بڑے بڑے سرکشوں اور ڈکٹیٹروں کا الہہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ ازمنۃ سابقہ کے بتوں کے پجاریوں سے کہیں دور نہیں ہیں۔ دراصل یہ لوگ ان بتوں کے فوجدار ہیں۔ یہ لوگ ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو پوجتے بھی ہیں۔ اور ان کی حمایت و مدافعت بھی کرتے ہیں۔

بت پرستی بہرحال بت پرستی ہے۔ اس کی شکل و صورت مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ہر دور میں موجود ہوتی ہے۔ اور جب بھی عقیدہ توحید میں اضطراب پیدا ہوتا ہے بت پرستی کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ شرک اور جاہلیت لے لیتی ہے۔ انسانوں کی فلاح اور نجات صرف توحید خالص میں ہے جس کے اندر صرف اللہ ہی کو الٰہ سمجھا جائے۔ صرف اس کی بندگی کی جائے۔ اور صرف اسی پر بھروسہ کیا جائے اور اطاعت اور تعظیم بھی اسی کی کی جائے۔

اردو ترجمہ

اچھا، جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں، اِن کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fala yahzunka qawluhum inna naAAlamu ma yusirroona wama yuAAlinoona

فلا یحزنک ۔۔۔۔۔ وما یعلنون (36: 76) ” اچھا جو باتیں یہ بنا رہے ہیں وہ تمہیں رنجیدہ نہ کریں ۔ ان کی چھپی اور کھی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں “۔ اس میں خطاب رسول اللہ ﷺ کو ہے ۔ آپ کے مخاطب وہی لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے سوا دو سروں کو الہہ بنار کھا تھا ۔ اور یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ۔ لہٰذا یہ لوگ نصیحت بھی نہ لیتے تھے ۔ حضور سے کہا گیا کہ آپ ان کی فکر نہ کریں ۔ اللہ ان کے بارے میں خوب جانتا ہے ۔ وہ تحریک اسلامی کے خلاف اور بت پر ستی کے حق میں جو تدابیر اختیار کررہے ہیں ، وہ ہماری نظر وں میں ہیں ۔ لہٰذا اے رسول آپ پر ان باتوں کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ ان کے معاملات قدرت المبیہ کے سامنے کھلے ہیں اور اللہ کی قدرت ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔

تحریک اسلامی کے کارکن جب یہ عقیدہ رکھیں تو ان کا معاملہ بہت ہی سہل ہوجاتا ہے ۔ وہ چونکہ صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہتا ۔ کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ ظاہر و باطن سے واقف ہے ۔ یہ کہ وہ اللہ کے قبضے میں ہیں ، اللہ کی نظروں میں ہیں اگر چہ بظاہر یہ بات نظر نہ آتی ہو۔

اردو ترجمہ

کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalam yara alinsanu anna khalaqnahu min nutfatin faitha huwa khaseemun mubeenun

اس آخری سبق کا یہ تیسرا حصہ ہے ۔ اس میں حشر ونشر کے مسئلہ کو لیا گیا ہے ۔

اولم یرالانسان ۔۔۔۔۔ لہ کن فیکون (77-82)

اس حصے میں بات کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ انسان کو خود اپنے وجود اور اپنی ذات کی طرف دیکھنا چاہئے ۔ اس کی تخلیق کا آغاز کس طرح ہوا ، وہ کس طرح بڑا ہوا اور سن بلوغ کو پہنچا۔ یہ سب مراحل جو اس کی زندگی میں طے ہوئے وہ اس کی نظر وں میں ہیں ۔ وہ دیکھتارہا ہے ۔ کیا اس سے وہ کوئی سبق اور نصیحت نہیں لے رہا ہے ۔ کیا خود انسانی زندگی تخلیق وتشکیل سے وہ یہ سبق نہیں اخذاکر سکتا کہ اللہ کے لیے دوبارہ اٹھا نا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر چہ وہ مٹ جائے اور اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں ۔

اولم یر ۔۔۔۔۔ خصیم مبین (36: 77) ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالو بن کر کھڑا ہوگیا۔

سوال یہ ہے کہ وہ نطفہ کیا چیز ہے جس کے بارے میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ انسان کا اصل قریب ہے ۔ یہ ایک حقیر پانی سے مرکب ہے ، یہ کوئی ٹھوس چیز ہے اور نہ اس کی کوئی قیمت ہے ۔ یہ ایک پانی ہے جس میں ہزارہا خل سے ہوتے ہیں ۔ ان ہزار ہا خلیوں میں سے صرف ایک جنین بنتا ہے ۔ اور یہ ایک جنین پھر انسان بنتا ہے ۔ یہ پھر اپنے رب اور خالق کے ساتھ گستاخانہ باتیں کرتا ہے۔ رب کی مخالفت کرتا ہے اور اپنے خالق سے برہان و دلیل کا مطالبہ کرتا ہے ۔

حالا ن کہ وہ خالق قدیر ہی ہے جس نے اس قدر حقیر چیز سے انسان کو بنایا اور ” خصیم مبین “ اور صریح جھگڑالوبن گیا ۔ ذراغور تو کیا جائے کہ یہ انسان کی اسے کیا بن گیا ۔ ذرا اس کے آغاز اور انجام پر غور کیا جائے ۔ کیا اس قدرت ” قادرہ “ کے سامنے یہ کوئی مشکل کام ہے کہ وہ اجزائے جسم کو دوبارہ یکجا کردے۔ اگر چہ وہ مرمٹنے کے بعد زمین میں بکھر گئے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے کہتا ہے "کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wadaraba lana mathalan wanasiya khalqahu qala man yuhyee alAAithama wahiya rameemun

وضرب ۔۔۔۔۔ خلق علیم (36: 78-79) ” وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے ۔ کہتا ہے ” کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں “۔ اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے “ کس قدر سادہ منطق ہے یہ ؟ نہایت فطری استدلال ۔ ایسا استدلال جو مشاہدہ کے مطابق نظر آتا ہے ۔ یہ نطفہ جو کچھ کہ وہ ہے کیا وہ بوسیدہ ہڈیوں سے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے ۔ کیا انسان اسی نطفے سے نہیں بنا اور کیا انسان کی پیدائش ثالی کا عمل پیدائش ادل کا عمل نہیں ہے اور جس ذات نے اسے حقیر نطفے کو ایک انسان بنایا اور اسے وہ شخصیت دی کہ وہ صریح جھگڑالو بن گیا تم وہ ذات ان بوسیدہ ہڈیوں سے انسان کو تیار نہیں کرسکتی اور انہی ہڈیوں اور اجزاء سے ایک خلق جدید تیار نہیں کرسکتی ؟ یہ معاملہ تو بہت ہی آسان اور ظاہر ہے ۔ اور اس قدر ظاہر ہے کہ اس پر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چہ جائیکہ کوئی اس پر مباحثہ کرے ۔

قل یحییھا۔۔۔۔ خلق علیم (36: 79) ” اس سے کہو ، انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے “۔

اس کے بعد اللہ کی قدرت خالقہ کی ماہیت کا ایک نمونہ انہیں بتایا جاتا کہ یہ بات ان کے ذہن میں بیٹھ جائے ۔ اللہ کی یہ صنعت کاری ان کے مشاہدہ اور ان کے روز مرہ کے معمولات میں سے ہے اور یہ اسے آزماتے رہتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

اس سے کہو، اِنہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا، اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul yuhyeeha allathee anshaaha awwala marratin wahuwa bikulli khalqin AAaleemun

اردو ترجمہ

وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allathee jaAAala lakum mina alshshajari alakhdari naran faitha antum minhu tooqidoona

الذی جعل۔۔۔۔ توقدون (36: 80 ) ” وہ جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو “۔ یعنی یہ سادی ابتدائی مشاہدہ ہی اللہ کی قدرت مذکورہ کی تصدیق کر دے گا۔ یہ مشاہدہ تم لوگ روز کرتے ہو لیکن اس کی حقیقت نہیں پاتے ہو۔ یہ سرسبز درخت جو پانی کے رس سے بھرا ہوا ہے جب اس کا ایک حصہ دوسرے سے رگڑا جاتا ہے تو اس سے آگ پیدا ہوتی ہے اور یہ درخت بھی پھر اس آگ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ باوجود اپنی سرسبزی اور تروتازگی کے۔ اور وہ گہری تحقیق کہ درخت کے اندر جو طبیعی حرارت کا خزانہ ہوتا ہے ، جو وہ سورج کی تاب کاری سے جذب کرتا ہے اور وہ اسے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوتا ہے حالانکہ وہ پانی کے رس سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اور ان درختوں کے رگڑ سے پھر وہ آگ پیدا ہوتی ہے جس طرح جلنے کے عمل سے آگ پیدا ہوتی ہے تو اس حقیقی علم و معرفت سے یہ حقیقت اور کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہرے بھرے درخت سے آگ کس طرح نمودار ہوتی ہے۔ خالق کائنات ہی نے درختوں کے اندر یہ کمالات ودیعت فرمائے جس نے ہر چیز کو اسکی تخلیق دی اور پھر اسے حکم دیا کہ وہ ان مقاصد کو پورا کرے جن کے لئے پیدا کیا گیا۔ ہاں یہ ہماری بےراہ روی ہے کہ ہم اس مخلوق کو اسی زاویہ نظر سے نہیں کھلتے اور نہ وہ ہماری راہنمائی اس خالق اور صانع کی طرف کرتے ہیں۔ اگر ہم کھلے دلوں اور گہری نظروں کے ساتھ دیکھیں تو یہ اسرار و رموز ہماری دسترس میں ہیں اور ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم انہیں سمجھیں ، اللہ کی بندگی کریں اور ہر وقت اللہ کی حمد و ثنا کرتے رہیں۔

اس کے بعد دلائل قدرت الہیہ بیان کیے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ تخلیق کا یہ عمل کس قدر سادہ ہے اور اسی طرح اللہ کے لوگوں کا دوبارہ پیدا کرنا کس قدر آسان ہے۔

اردو ترجمہ

کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اِس پر قادر نہیں ہے کہ اِن جیسوں کو پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awalaysa allathee khalaqa alssamawati waalarda biqadirin AAala an yakhluqa mithlahum bala wahuwa alkhallaqu alAAaleemu

اولیس الذی۔۔۔۔۔ الخلق العلیم (36: 81) ” کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کردیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے کیوں نہیں ! جبکہ وہ ماہر خلاق ہے “۔

آسمان اور زمین اور یہ وسیع کائنات تو ایک عجیب مخلوق ہے۔ یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اور اس میں لاکھوں ملین اجناس و اصناف مخلوقات موجود ہیں ، بعض اس قدر باریک کہ ہم ان کے حجم ہی کو نہیں پکڑ سکتے۔ نہ ہم ان کی حقیقت کو پاسکتے ہیں ۔ اور ان کے بارے میں آج تک ہم بہت کم جانتے ہیں۔ یہ زمین اس سورج کے کہکشاں میں سے ایک چھوٹا سا تابع سیارہ ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔ اس میں ہم سورج کی روشنی اور حرارت سے رہتے ہیں اور ہمارا یہ سورج جس کہکشاں کے تابع ہے ، اس کے اندر ایک کروڑ ستاروں میں سے سورج ایک ہے جس سے ہماری قریب کی یہ دنیا بنتی ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اس جہاں میں کئی اور کہکشاں ہیں۔ اور کئی ایسی دنیا ئیں ہیں جس طرح ہماری قریب کی دنیا ہے۔ ماہرین فلکیات ابھی تک ایک کروڑ کہکشاؤں تک شمار کرسکتے ہیں اور یہ شمار انہوں نے اپنی محدود طاقت والی دوربینوں سے کیا ہے ۔ اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ کئی اور کہکشاں دریافت ہوں گے جب طاقتور رصدگاہیں اور بہت ہی دور تک دکھانے والی دوربینیں بنا دی جائیں گی۔ ہماری اس کہکشاں اور اس سے قریب ترین کہکشاں کے درمیان فاصلہ کتنا ہے ؟ سات لاکھ پچاس ہزار نوری سال کا فاصلہ ہے۔ اور ایک نوری سال کا فاصلہ کیا ہوتا ہے یعنی 26 ملین میل۔ کہتے ہیں کہ طبعی مواد کا ایک عظیم ڈھیر یا گور تھا اور اس کے بکھرنے سے یہ سورج بنے ہیں۔ یہ ہے اللہ کی وسیع کائنات اور اس کی وسیع کرسی اور اس کے بارے میں ہمارے حقیر اور محدود معلومات۔

یہ سورج جن کو گنا نہیں جاسکتا ان میں سے ہر ایک کا ایک مدار یا آسمان اور فلک ہے جس کے اندر یہ سورج چلتا ہے اور ان سورجوں میں سے ہر سورج کے اپنے تابع اجرام ہیں جن کے اپنے اپنے مدار ہیں۔ وہ ان مداروں میں اپنے اپنے سورجوں کے گرد گھومتے ہیں۔ جس طرح ہماری زمین ہمارے سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ تمام گھومنے والے اربوں سورج اور چاند اور ستارے نہایت ہی دقیق اور متعین رفتار کے ساتھ چلتے ہیں اور کبھی اپنی رفتار اور مدار کو نہیں بدلتے۔ ایک لمحہ کے لیے نہیں رکتے۔ اگر ایسا ہوجائے تو کائنات کے تمام مجموعے جو اس وقت ان فضاؤں میں تیر رہے ہیں ، سب باہم متصادم ہوجائیں اور یہ تمام نظام درہم برہم ہوجائے۔

یہ فضا جس میں اربوں اجرام فلکی چکر لگا رہے ہیں اور جن کی تعداد بھی ابھی تک معلوم نہیں ، یوں ہیں جس طرح چھوٹے چھوٹے ذرے ہیں۔ نہ ان کی تصویر کشی ہو سکتی ہے اور نہ یہ دائرہ تصور میں آسکتے ہیں۔ یہ اس قدر وسیع و عریض کائنات کے حصے ہیں جس کے تصور ہی سے سر چکرا جاتا ہے۔ اولیس الذی۔۔۔۔ یخلق مثلھم (36: 81) ” وہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے “۔ لوگوں کی تخلیق تو ایک معمولی بات ہے جبکہ یہ کائنات بہت ہی وسیع اور عظیم ہے۔

بلی وھو الخلق العلیم (36: 81) ” ہاں وہ ماہر خلاق ہے “۔ اللہ نے یہ سب چیزیں پیدا کیں وہ ان کے علاوہ اور چیزوں کو بھی پیدا کرسکتا ہے اور بغیر کسی تکلیف اور محنت کے۔ اللہ کے لیے چھوٹی یا بڑی چیز کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اردو ترجمہ

وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Innama amruhu itha arada shayan an yaqoola lahu kun fayakoonu

انما امرہ ۔۔۔۔ کن فیکون (36: 82) ” وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے “۔ یہ چیز زمین ہو یا آسمان ہوں ، مچھر ہو یا پسو ہو ، یا چیونٹی ، یہ سب چیزیں اللہ کے حکم کے سامنے یکساں ہوتی ہیں۔ کن فیکون۔

اللہ کے سامنے مشکل و آسان کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ کے لیے قریب و بعید یکساں ہیں۔ صرف ارادے کا متوجہ ہونا ہوتا ہے

ادھر ارادہ ہوا ادھر وہ چیز ہوگئی۔ وہ جو بھی ہو۔ اللہ اس طرح بیان کرتا ہے کہ لوگ اللہ کے اعمال و افعال کو سمجھ جائیں۔ ورنہ انسان کی محدود قوت مدرکہ کے لیے چیزوں کا سمجھنا ہی مشکل ہے۔

اب اس سورت میں انسان کے قلب و نظر کی تاروں پر ایک آخری ضرب لگائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ضرب ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کیا ہے۔

اردو ترجمہ

پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fasubhana allathee biyadihi malakootu kulli shayin wailayhi turjaAAoona

فسبحن الذی۔۔۔۔ ترجعون (83) ” “۔ لفظ ملکوت سے خالق و مخلوق کے تعلق کی اہمیت اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کی ہر چیز مطلقا اللہ کی ملکیت ہے اور اس کائنات کی تمام مملوکات پر اللہ کا مکمل قبضہ اور کنٹرول ہے۔ دوسری بات یہ کہ تمام چیزوں کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ آخری ضرب ہے اور اس سورت کی نہایت عظیم اور ہولناک فضا کے لیے یہ نہایت ہی مناسب تنبیہہ ہے۔ اس سورت کا موضوع بھی نہایت ہی عظیم اور اہم ہے۔ اور اس کے اندر جو حقائق اور دلائل بھی لائے گئے ہیں وہ بھی بہت ہی عظیم اور ہولناک ہیں اور اس عظیم حقیقت سے مربوط و متعلق ہیں جن کی تفصیلات اور موضوع اس سورت میں دی گئی ہیں۔

445