سورہ سبا (34): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Saba کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ سبإ کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ سبا کے بارے میں معلومات

Surah Saba
سُورَةُ سَبَإٍ
صفحہ 433 (آیات 40 سے 48 تک)

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ أَهَٰٓؤُلَآءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا۟ يَعْبُدُونَ قَالُوا۟ سُبْحَٰنَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا۟ يَعْبُدُونَ ٱلْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ فَٱلْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَلَا ضَرًّا وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلنَّارِ ٱلَّتِى كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتُنَا بَيِّنَٰتٍ قَالُوا۟ مَا هَٰذَآ إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ءَابَآؤُكُمْ وَقَالُوا۟ مَا هَٰذَآ إِلَّآ إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ إِنْ هَٰذَآ إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ وَمَآ ءَاتَيْنَٰهُم مِّن كُتُبٍ يَدْرُسُونَهَا ۖ وَمَآ أَرْسَلْنَآ إِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِن نَّذِيرٍ وَكَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا۟ مِعْشَارَ مَآ ءَاتَيْنَٰهُمْ فَكَذَّبُوا۟ رُسُلِى ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ۞ قُلْ إِنَّمَآ أَعِظُكُم بِوَٰحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا۟ لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَٰدَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا۟ ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيدٍ قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِىَ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ قُلْ إِنَّ رَبِّى يَقْذِفُ بِٱلْحَقِّ عَلَّٰمُ ٱلْغُيُوبِ
433

سورہ سبا کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ سبا کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور جس دن وہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا "کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayawma yahshuruhum jameeAAan thumma yaqoolu lilmalaikati ahaolai iyyakum kanoo yaAAbudoona

ویوم یحشرھم جمیعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنتم بھا تکذبون (40 – 42)

ان فرشتوں کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے یا ان کو وہ اللہ کے ہاں سفارشی بناتے تھے۔ اب ان کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ، فرشتے اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ گویا یہ بندگی اور عبادت ان کی جانب سے لغو اور کالعدم حرکت تھی۔ گویا یہ ہوئی ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بندگی دراصل شیطان کی بندگی کرتے تھے تو گویا شیطان کی بندگی کرتے تھے۔ جنوں کی بندگی تو عربوں میں ۔۔۔ تھا۔ بعض لوگ ایسے تھے جو جنوں کی بندگی بھی کرتے تھے اور ان سے استعانت بھی کرتے تھے۔

بل کانوا یعبدون الجن اکثرھم بھم مومنون (34: 41) ” دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے تھے “۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ قصہ سلیمان (علیہ السلام) کا ان مسائل کے ساتھ تعلق ہے۔ یہ قرآن کریم کا خاص انداز ہے کہ قصص سورة کے موضوع سے مربوط ہوتے ہیں۔

یہ منظر اسکرین پر چل رہا تھا کہ اچانک کلام کا اسلوب بدل جاتا ہے اور براہ راست خطاب شروع ہوجاتا ہے اور یہ شرمسار کنندہ باتیں ان سے کہی جاتی ہیں۔

فالیوم لا یملک بعضکم لبعض نفعا ولاضرا (34: 42) ” آج تم میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان “۔ نہ فرشتے کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ نہ یہ کفار ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ وہ آگ جس کی ظالم تکذیب کرتے تھے اور جس کے بارے میں وہ مطالبہ کرتے تھے کہ لاؤ وہ آگ ، اسے اب وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے۔

ونقول للذین ۔۔۔۔۔ بھا تکذبون (34: 42) ” اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے “۔ یہاں یہ سبق ختم ہوجاتا ہے جس کا مرکزی مضمون حساب و کتاب ، سزا و جزاء اور قیام قیامت ہے ، جس طرح دوسرے اسباق کا بھی یہی مضمون رہا ہے۔

اردو ترجمہ

تو وہ جواب دیں گے کہ "پاک ہے آپ کی ذات، ہمارا تعلق تو آپ سے ہے نہ کہ اِن لوگوں سے دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لائے ہوئے تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo subhanaka anta waliyyuna min doonihim bal kanoo yaAAbudoona aljinna aktharuhum bihim muminoona

اردو ترجمہ

(اُس وقت ہم کہیں گے کہ) آج تم میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے کہ اب چکھو اس عذاب جہنم کا مزہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faalyawma la yamliku baAAdukum libaAAdin nafAAan wala darran wanaqoolu lillatheena thalamoo thooqoo AAathaba alnnari allatee kuntum biha tukaththiboona

اردو ترجمہ

اِن لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ "یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو اُن معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں" اور کہتے ہیں کہ "یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا" اِن کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہیں نے کہہ دیا کہ "یہ تو صریح جادو ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha tutla AAalayhim ayatuna bayyinatin qaloo ma hatha illa rajulun yureedu an yasuddakum AAamma kana yaAAbudu abaokum waqaloo ma hatha illa ifkun muftaran waqala allatheena kafaroo lilhaqqi lamma jaahum in hatha illa sihrun mubeenun

درس نمبر 198 ایک نظر میں

اس سورة کے اس آخری سبق کا آغاز مشرکین اور نبی ﷺ اور قرآن کریم کے بارے میں ان کے اقوال سے ہوتا ہے۔ ان کو یہ بات یاد دلائی جاتی ہے کہ ان جیسے لوگوں کا انجام کیا ہوا کرتا ہے۔ انسانی تاریخ کی ایسی اقوام کی داستانوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو ان سے زیادہ قوی ، زیادہ علم والی اور زیادہ مالدار تھیں ، جن کو اس دنیا ہی میں پکڑ لیا گیا۔

اس کے بعد عقل و خرد کے تاروں پر مسلسل شدید ترین ضربات لگائی جاتی ہیں۔ پہلی ضرب میں ان کو یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ ذرا تنہائی میں ، تمام رکاوٹوں اور پردوں کو ہٹا کر جو انہیں صحیح فکر و نظر سے روکتے ہیں اللہ کے بارے میں سوچیں۔ دوسری ضرب میں ، ان کو اس حقیقت پر غور کرنے کے لئے دعوت دی گئی ہے کہ وہ دیکھیں کہ نبی کریم ﷺ ان لوگوں کو مسلسل جو دعوت دے رہے ہیں اس دعوت میں ان کا کوئی مفاد بھی نہیں ہے اور آپ ان سے اجر بھی طلب نہیں کرتے تو آخر یہ لوگ حضور ﷺ کی دعوت میں شک کیوں کرتے ہیں اور منہ کیوں موڑتے ہیں۔ اس کے بعد قل قل قل سے یہ ضربات مسلسل لگائی جاتی ہیں اور یہ اس قدر زور دار ہیں کہ اگر کسی دل میں ذرہ برابر بھی شعور ہو تو وہ متاثر ہوئے نظر نہیں رہ سکتا۔

اور یہ سبق قیامت کے ایک نہایت ہی متحرک منظر پر ختم ہوتا ہے جو نہایت ہی متحرک ہے اور سابقہ ضربات کے ساتھ مناسب ہے۔

درس نمبر 198 تشریح آیات

43 ۔۔۔ تا۔۔۔ 54

اردو ترجمہ

حالانکہ نہ ہم نے اِن لوگوں کو پہلے کوئی کتاب دی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama ataynahum min kutubin yadrusoonaha wama arsalna ilayhim qablaka min natheerin

واذا تتلی علیھم ایتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فکیف کان نکیر (43 – 45)

ان لوگوں کے سامنے رسول اللہ ﷺ نہایت واضح سچائی پیش فرماتے تھے لیکن وہ اس کا مقابلہ ماضی کے افسانوں سے کرتے تھے۔ یہ چند پارینہ رسم رواج تھے اور اوہام و خرافات تھے جو انہوں نے سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے اندر کوئی جامعیت اور ربط بھی نہ تھا۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ قرآن مجیس سیدھی سادی سچائی پیش کر رہا ہے اور قرآن کی تعلیمات ایک مکمل اور مربوط نظام زندگی ہیں اور معقول اور دل کو لگتی ہیں تو انہوں نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ ان کے آباؤ اجداد سے منقول خرافات ، غیر معقول ، رسم و رواج اس معقول نظام زندگی کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ یہ نئی تعلیم ان کے تمام سرمایہ رسوم کے لیے خطرہ ہے۔

ما ھذا الا ۔۔۔۔۔ یعبد اباء کم (34: 43) ” کہ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ان معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ داد کرتے آئے ہیں “۔ لیکن صرف یہ الزام لگا دینا تو کافی نہ تھا کیونکہ صرف یہ بات کہ آباء و اجداد کے معبودوں سے روکتا ہے سب لوگوں کے لیے مسلم نہ ہوسکتی تھی۔ اس لیے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک دوسرا الزام بھی لگایا کہ جو تعلیمات حضرت محمد ﷺ پیش کر رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔

وقالوا ما ھذا الا افک مفتری (34: 43) ” اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو محض ایک جھوٹ گھڑا ہوا ہے “۔ افک کے معنی جھوٹ اور افتراء کے ہیں۔ لیکن مفتری کا لفظ بطور تاکید لائے ہیں تاکہ ابتداء ہی سے قرآن کی قدر و قیمت میں کمی کردی کیونکہ جب قرآن کریم کے حقیقی مصدر ہی کو مشکوک بنا دیا گیا تو اس کی قدروقیمت ظاہر ہے کہ کم ہوجاتی ہے۔ اور مزید یہ الزام۔

وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔ سحر مبین (34: 43) ” ان کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو صریح جادو ہے “۔ اور یہ الزام انہوں نے اس لیے لگایا کہ قرآن ایک نہایت موثر کلام تھا۔ جو اس کو سنتا اس کی دینی دنیا میں بھونچال آجاتا۔ اس لیے صرف یہ بات بھی کافی نہ تھی کہ یہ جھوٹ اور گھڑا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے اثر کی تاویل یہ کی کہ یہ کھلا جادو ہے۔ یہ مسلسل الزامات تھے۔ ایک کے بعد دوسرا الزام اور یہ الزامات بھی وہ اللہ کے قرآن پر لگا رہے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں پر اس کا اثر نہ ہو لیکن یہ لوگ جو الزام لگاتے تھے ان میں سے کسی پر خود ان کے ساتھ کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ سب جھوٹے الزامات تھے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے تھے۔ جو لوگ یہ الزامات لگاتے تھے وہ کبراء اور سردار تھے۔ یہ کبراء اور سردار خود پوری طرح یقین رکھتے تھے کہ قرآن کریم خدا کی سچی کتاب ہے۔ یہ کتاب انسانی طاقت سے باہر ہے۔ بڑے سے بڑے متکلمین بھی اس قسم کا کلام لانے سے عاجز آگئے تھے۔ ہم نے ظلال القرآن میں ایسے لوگوں کی کئی روایات دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ اور قرآن کے بارے میں ان کی اصل رائے کیا تھی۔ اور یہ روایات بھی ہم نے بتا دیں کہ وہ قرآن کریم کے بارے میں اور اس کے خلاف کیا کیا تدابیر کرتے تھے۔

قرآن کریم نے ان کی اس کمزوری کو کھول دیا۔ اور یہ کہا کہ یہ عرب توامی تھے ، یہ اہل کتاب نہ تھے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کی تعلیمات کے بارے میں کوئی فیصلہ کن بات کرسکیں۔ یہ لوگ وحی کے بارے میں بھی نہ جانتے تھے۔ اس لیے یہ لوگ وحی کے بارے میں بھی کوئی ماہر لوگ نہ تھے۔ نیز ان کے پاس حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول بھی نہیں آیا تھا کہ یہ اس بارے میں کوئی ماہرانہ رائے دے سکیں۔ لہٰذا وہ رسول اللہ ﷺ ، قرآن اور وحی کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں وہ ایسی باتیں ہیں جس موضوع پر ان کو کوئی علم نہیں۔

وما اتینھم من ۔۔۔۔۔ من نذیر (34: 44) ” حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو پہلے کوئی کتاب نہ بھیجی تھی کہ یہ اسے پڑھتے ہوں اور نہ تم سے پہلے ان کی طرف کوئی متنبہ کرنے والا بھیجا تھا “۔ ان کے دلوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ ذرا ان سے پہلے کے ان لوگوں کے انجام پر غور کرو جنہوں نے تکذیب کی۔ تم لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں بہت کم قوت والے ہو۔ وہ علم والے تھے ، مال والے تھے ، قوت والے تھے اور ترقی یافتہ تھے لیکن جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو ان کو عذاب الٰہی نے گھیر لیا اور وہ بہت ہی سخت پکڑ میں آگئے۔

وکذب الذین ۔۔۔۔۔ کان نکیر (34: 45) ” ان سے پہلے گزرے ہوئے لوھ جھٹلاچکے ہیں جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا اس کا عشر عشیر بھی ان کے پاس نہیں ہے مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی “ اللہ کی یہ سزا نہایت ہی تباہ کن تھی۔ ان منکرین میں سے بعض لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں قریش جانتے بھی تھے لہٰذا ان کو یہ یاد دہانی کافی تھی۔ لیکن یہاں طنزیہ انداز میں سوال کیا گیا ہے۔

فکیف کان نکیر (34: 45) ” میری سزا کیسی تھی “۔ چونکہ مخاطبین کو معلوم تھا کہ یہ سز اکیسی تھی اس لیے یہ سوالیہ انداز نہایت موثر ہے۔

ان لوگوں کو نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ یہ دعوت دی جاتی ہے کہ سچائی کے ساتھ تم حق کو تلاش کرو اور سچائی کے بارے میں جو جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو اور جو دعوت تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں خارجی موثرات سے آزاد ہو کر سوچو اور اس کی قدروقیمت معلوم کرو۔

اردو ترجمہ

اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھٹلا چکے ہیں جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا تھا اُس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے ہیں مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو کہ میری سزا کیسی سخت تھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wakaththaba allatheena min qablihim wama balaghoo miAAshara ma ataynahum fakaththaboo rusulee fakayfa kana nakeeri

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، اِن سے کہو کہ "میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کونسی بات ہے جو جنون کی ہو؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul innama aAAithukum biwahidatin an taqoomoo lillahi mathna wafurada thumma tatafakkaroo ma bisahibikum min jinnatin in huwa illa natheerun lakum bayna yaday AAathabin shadeedin

قل انما اعظکم ۔۔۔۔۔ عذاب شدید (46) ” “۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں غور رو ، اور یہ غور اپنی ذاتی خواہشات کو ایک طرف رکھ کر دو ۔ اپنی مصلحتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے غور کرو۔ دنیا کے حالات اور میلانات سے ہٹ کر کرو ، اور ان وسوسوں اور خلجانات سے ہٹ کر گرجو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں ، یہ سب چیزیں انسان کو اللہ سے دور کرتی ہیں ، غرض تمہاری سوسائٹی اور تمہارے معاشرے کے اندر راسخ تصورات سے ہٹ کر تم اللہ کے معاملے پر غور کرو۔

یعنی دعوت اسلامی کے مضمون کو سادہ انداز میں لو ، اپنے رائج تصورات کے حوالے سے نہ لو۔ نہ خالص منطقی اور فلسفیانہ انداز میں لو جس میں لفاظی تو بہت ہوتی ہے لیکن سیدھی سادہ حقیقت کو جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ منطقیانہ سوچ کے بجائے فطرت کی سنجیدہ سوچ کا راستہ اختیار کرو۔ جس میں شورو شغب کم ہوتا ہے اور خلط مبحث نہیں ہوتا نہ سوچ میں ٹیڑھ ہوتی ہے اور نہ فکر میں گدلاپن ہوتا ہے بلکہ صاف و شفاف سوچ ہوتی ہے۔

لیکن فطری انداز میں تلاش حقیقت بھی دراصل حقیقت کی تلاش ہی ہوتی ہے۔ جبکہ یہ سوچنے کا سیدھا سادہ طریقہ ہوتا ہے۔ جس پر معاشرے کے رائج افکار اثر انداز نہیں ہوتے ، نہ معاشرے کے اندر رائج غلط رسم و رواج اثر ڈالتے ہیں صرف خدا کا خوف اور اللہ کی نگرانی ہی بڑی موثر ہوتی ہے۔ اس سوچ کا راستہ صرف ایک ہی ہے خدا کا راستہ ، خدا کے سامنے جھکنے کا راستہ ، خدا کی رضا کا راستہ۔ اور بےلوث راستہ جس میں کوئی ذاتی خواہش ، کوئی مصلحت ، کوئی مفاد موثر نہ ہو ، خالص انداز میں فطری سوچ جس پر

کوئی خارجی عوامل اثر انداز نہ ہوں۔ یعنی صرف اللہ کے لیے سوچ۔

ان تقوموا للہ مثنی وفرادی (34: 46) ” خدا کے لیے تم اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ “۔ دو دو اس طرح کہ دعوت اسلامی کے مسئلے پر ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرہ کرو ، یعنی محدود تعداد میں شوروشغب سے علیحدہ ہوکر مذاکرہ کرو ، عوام الناس کی بھیڑ سے الگ ہوکر۔ حالات اور عوام سے متاثر ہوئے بغیر کیونکہ عوام الناس وقتی حالات سے متاثر ہوتے جاتے ہیں ، اور اکیلے غور کرو ، جو غوروفکر کا سب سے موثر طریقہ ہے۔

ثم تتفکروا ما بصاحبکم من جنۃ (34: 46) ” سوچو کہ تمہارے صاحب میں آخر کون سی بات ہے جو جنون کی ہو “۔ آپ کے سامنے تو وہ عقل ، تدبر اور نہایت ہی دانائی کی بات کرتا ہے۔ اور آخر وہ کون سی بات ایسی کرتا ہے جس سے معلوم ہو کہ اس کی عقل میں فرق ہے۔ وہ تو نہایت ہی مضبوط ، قوی اور واضح بات کرتا ہے۔

ان ھو الا نذیر لکم بین یدی عذاب شدید (34: 46) ” وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے “۔ شدید ترین عذاب کے واقع ہونے کا امکان انسان کو غوروفکر پر آمادہ کرتا ہے اور ڈرانے والے نے متنبہ بھی کردیا تاکہ جو بچنا چاہتا ہے ، بچ جائے۔ مگر ایک شخص چلاتا ہے کہ آگ لگ گئی ہے بھاگو۔ اگر کوئی نہیں بھاگتا تو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے جبکہ آواز دینے والا ہے بھی سچا شخص اور نہایت ہی بہترین کردار کا مالک ہے۔

امام احمد نے ابو نعیم شیر سے عبد اللہ ابن بریدہ ہے ، اس نے اپنے باپ سے ، کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ہم پر نکلے تو تین بار آواز دی لوگو ، تمہیں معلوم ہے کہ میری اور تمہاری مثال کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا اللہ اور رسول اللہ خوب جانتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میری اور آپ لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک قوم کو کسی دشمن کے حملے کا خطرہ ہو۔ انہوں نے ایک آدمی بھیجا کہ وہ حالات معلوم کرکے بتائے۔ یہ شخص دیکھ رہا تھا کہ دشمن آگیا۔ وہ چلانے لگا اور اسے ڈر تھا کہ لوگوں کو اس کی آواز پہنچنے سے پہلے ہی اسے دشمن پکڑ نہ لے۔ تو اس نے دور ہی سے کپڑا ہلایا ، لوگو ، دشمن آگیا ، دشمن آگیا ، لوگو تم پر حملہ ہوگیا “۔ اور ایک دوسری روایت میں حضور ﷺ سے مروی ہے کہ میں اور قیامت ایک ہی ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ قیامت مجھ سے بھی پہلے آجائے ۔ یہ تو تھی پہلی ضرب ۔ اب دوسری ضرب ملاحظہ ہو۔

اردو ترجمہ

اِن سے کہو، "اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul ma saaltukum min ajrin fahuwa lakum in ajriya illa AAala Allahi wahuwa AAala kulli shayin shaheedun

قل ما سالتکم۔۔۔۔۔ کل شیئ شھید (47) ” “۔ پہلے تو آپ نے ان کو دعوت دی کہ تم لوگ اکیلئے یا دو دو مل کر تحریک اسلامی پر غور کرو کہ تمہارے ساتھی کی دعوت میں آخر جنوں کی کیا بات ہے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ لوگوں کے ڈرانے میں اس قدر مگن ہیں اور لوگوں کو شدید عذاب سے ڈرا رہے ہیں۔ آخر اس میں ان کا مفاد کیا ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں ۔ حضور ﷺ کو کیا فائدہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف ان لوگوں کی سوچ اور قوت استدلال کو نہایت ہی موثر انداز میں متوجہ کیا جاتا ہے۔

قل ما سالتکم من اجر فھو لکم (34: 47) ” کہو میں اگر تم سے کوئی اجر مانگتا ہوں تو وہ تم ہی لے لو “۔ یہ اجر تمہیں ہی مبارک ہو۔ یہ نہایت ہی طنز یہ انداز ہے اور اس میں ان کے لیے سرزتش بھی ہے ۔

ان اجری الا علی اللہ (34: 47) ” میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے “۔ اسی نے مجھے اس کام پر لگایا ہے ۔ وہی معاوضہ دے گا ۔ میں اسی سے امید رکھتا ہوں اور جو شخص اللہ کے عطیہ کا امید وار ہو ، اس کے نزدیک پھر اہل دنیا کا ہر عطیہ حقیر اور بےقیمت ہوجاتا ہے ۔ اس کے بارے میں ایسا شخص سوچتاہی نہیں ہے ۔

وھو علی کل شئی شھید (34: 47) ” وہ ہر چیز پر گواہ ہے “۔ وہ جانتا ہے ، دیکھتا ہے اور اس سے کوئی چیز خفیہ نہیں ہوتی ۔ وہ میرے اوپر گواہ ہے ۔ میں جو کچھ ساچتا ہوں ، جو کچھ کہتا ہوں اور جو کچھ کرتا ہوں۔ اب تیسرا مضراب :

اردو ترجمہ

ان سے کہو "میرا رب (مجھ پر) حق کا القا کرتا ہے اور وہ تمام پوشیدہ حقیقتوں کا جاننے والا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul inna rabbee yaqthifu bialhaqqi AAallamu alghuyoobi

قل ان ربی ۔۔۔۔ الغیوب (48) ” “۔ یعنی میں جو چیز لے کر آیا ہوں وہ حق ہے ۔ یہ وہ مضبوط حق ہے جسے اللہ قوت سے پھینکتا ہے ۔ اس سچائی کے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتا ہے جسے اللہ زور دار انداز سے نازل کررہا ہو ۔ یہ ایک نہایت ہی مجسم اور مصور انداز تعبیر ہے ۔ گویا حق کے گولے برس رہے ہیں ، بمباری ہورہی ہے اور کسی کو ہمت نہیں ہے کہ اس کے سامنے کھڑا ہوسکے ۔ اللہ سچائی کے گولے پھینک رہا ہے جو علام الغیوب ہے ۔ وہ علم سے یہ گولے پھینک رہا ہے ۔ علم کے ساتھ ان کا رخ کسی کی طرف کرتا ہے ۔ اس کا نشانہ خطا نہیں ہوتا ۔ کوئی چیز اس سے غائب نہیں ہے اور کوئی چیز اس سچائی کی ذد سے بچ نہیں سکتی اس لیے کہ رکاوٹ بننے والی کوئی چیز سامنے نہیں ہے ۔ اللہ کے سامنے نشانہ کھلا ہے ۔

433