سورہ لقمان (31): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Luqman کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ لقمان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ لقمان کے بارے میں معلومات

Surah Luqman
سُورَةُ لُقۡمَانَ
صفحہ 412 (آیات 12 سے 19 تک)

وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا لُقْمَٰنَ ٱلْحِكْمَةَ أَنِ ٱشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ حَمِيدٌ وَإِذْ قَالَ لُقْمَٰنُ لِٱبْنِهِۦ وَهُوَ يَعِظُهُۥ يَٰبُنَىَّ لَا تُشْرِكْ بِٱللَّهِ ۖ إِنَّ ٱلشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُۥ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَٰلُهُۥ فِى عَامَيْنِ أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوَٰلِدَيْكَ إِلَىَّ ٱلْمَصِيرُ وَإِن جَٰهَدَاكَ عَلَىٰٓ أَن تُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِى ٱلدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَٱتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَىَّ ۚ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ يَٰبُنَىَّ إِنَّهَآ إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِى صَخْرَةٍ أَوْ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ أَوْ فِى ٱلْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ يَٰبُنَىَّ أَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ وَأْمُرْ بِٱلْمَعْرُوفِ وَٱنْهَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَٱصْبِرْ عَلَىٰ مَآ أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ وَٱقْصِدْ فِى مَشْيِكَ وَٱغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ ٱلْأَصْوَٰتِ لَصَوْتُ ٱلْحَمِيرِ
412

سورہ لقمان کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ لقمان کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad atayna luqmana alhikmata ani oshkur lillahi waman yashkur fainnama yashkuru linafsihi waman kafara fainna Allaha ghaniyyun hameedun

ولقد اتینا لقمن ۔۔۔۔۔ غنی حمید (12)

حضرت لقمان حکیم کی زبانی یہاں عقیدہ توحید ، عقیدہ آخرت اور دوسری اخلاقی تعلیمات یہاں دی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نبی تھے اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ نبوت کے منصب کے بغیر ایک عبد صالح تھے زیادہ تر مفسرین اس دوسری رائے کی طرف گئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ایک حبشی غلام تھے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نوبہ کے رہنے والے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے ججوں میں سے ایک جج تھے۔ وہ جو بھی ہوں قرآن نے ہمیں یہ اطلاع دی ہے کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کو اللہ نے حکمت عطا کی تھی اور اس حکمت اور فلسفے کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔

ولقد اتینا ۔۔۔۔ اشکر للہ (31: 12) ” ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کے شکر گزار بنو “۔ چناچہ قرآن کریم ہمیں اس قصے کے ضمن میں یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت اور اطلاع کہ شکر تو شکر کرنے والے کیلئے ایک ذخیرہ ہے۔ اس کے نتیجے میں خود شاکر کو نفع ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تو غنی بادشاہ ہے کوئی شکر کرے یا نہ کرے اس کی بادشاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اللہ تو بذات خود محمود اور قابل ستائش ہے ، چاہے کوئی اس کی حمد و ثنا کرے یا نہ کرے

ومن یشکر۔۔۔۔۔ غنی حمید (31: 12) ” جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بےنیاز ہے “۔ لہٰذا بہت بڑا احمق ہے وہ جو حکمت کے مخالف ہو اور وہ اپنے لیے یہ سرمایہ جمع نہ کرتا ہو۔

اب مسئلہ توحید ایک تقریر کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کے سامنے کی۔

اردو ترجمہ

یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا "بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala luqmanu liibnihi wahuwa yaAAithuhu ya bunayya la tushrik biAllahi inna alshshirka lathulmun AAatheemun

واذ قال لقمن ۔۔۔۔۔ لظلم عظیم (13)

یہ ایک ایسا وعظ ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے کیونکہ کوئی والد اپنے بیٹے کے لیے اچھائی کے سوا اور کوئی ارادہ ہی نہیں کرسکتا۔ ایک والد اپنے بیٹے کے لیے ناصح مشفق ہی ہو سکتا ہے۔ یہ ہیں لقمان حکیم جو اپنے بیٹے کو شرک سے منع کرتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ شرک دراصل ایک عظیم ظلم ہے۔ وہ اس بات کو دو بار اپنی تقریر میں دہراتے ہیں ۔ ایک بار تو وہ شرک سے روک کر اس کی علت بتاتے ہیں اور دوسری تاکید لفظ ان اور لام تاکید کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جو حضرت محمد ﷺ اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں اور وہ ہیں کہ ناحق مجادلہ کرتے ہیں اور اس عقیدے پر زور دینے کی وجہ سے حضرت پر الزامات عائد کرتے ہیں کہ شاید ان کی کوئی ذاتی غرض اس سے وابستہ ہے ، مثلاً یہ کہ حضرت محمد ﷺ حکمران بننا چاہتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بڑا آدمی بننا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان کی یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ حضرت لقمان اپنے بیٹے کے سامنے یہی تقریر کرتے ہیں اور ان کو شرک سے رکنے کا امر کرتے ہیں ظاہر ہے کہ کوئی والد کم از کم اپنے بیٹے سے کوئی غلط بات نہیں کرسکتا۔ لہٰذا یہ نصیحت ہر قسم کے ظن اور گمان سے پاک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے بھی حکمت دی گئی وہ عقیدہ توحید کا قائل ہوتا ہے۔ عقیدہ توحید سے غرض خیر ہی خیر ہے اور کچھ بھی نہیں اور یہ ایک نفسیاتی استدلال ہے۔

چونکہ یہ والد کی جانب سے اپنے بیٹے کو ایک مشفقانہ وعظ تھا ، اس لیے یہ بھی بتا دیا گیا کہ جب والد اپنی اولاد کے حق میں اس قدر مخلص اور مشفق ہوتا ہے تو تمام انسانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ والدین کا تم پر حق ہے۔ یہ تقریر بھی نہایت ہی محبت بھرے الفاظ میں ہے۔ یہ باپ اور بیٹے ، والدین اور اولاد کے تعلق کو نہایت ہی شفیقانہ اور اشاراتی انداز میں بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود نظریاتی تعلق اور نظریاتی روابط کو نسب اور خون کے تعلق سے مقدم رکھا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wawassayna alinsana biwalidayhi hamalathu ommuhu wahnan AAala wahnin wafisaluhu fee AAamayni ani oshkur lee waliwalidayka ilayya almaseeru

ووصینا الانسان بوالدیہ ۔۔۔۔۔ بما کنتم تعملون (14 – 15)

قرآن کریم میں بار بار اولاد کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا خیال رکھیں اور رسول اللہ ﷺ کے نصائح میں بھی اس کی بار بار تاکید آتی ہے لیکن اس کے مقابلے میں والدین کو اپنے کو اپنی اولاد کے بارے میں بہت کم ہدایت دی گئی ہے۔ جو نصیت کی گئی ہے وہ زندہ درگور کرنے کی بری رسم کے سلسلے میں ہے جبکہ یہ رسم بہت ہی محدود علاقوں میں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں پر رحم و شفقت ہر انسان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ اللہ نے سلسلہ حیات کو جاری رکھنے کے لیے والدین کے اندر یہ داعیہ رکھ دیا ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کریں۔ والدین ، اپنے جسم ، اپنے اعصاب اور اپنی عمریں بچوں کے لئے کھپا دیتے ہیں۔ وہ اپنی ہر قیمتی چیز اپنے بچوں پر قربان کردیتے ہیں اور اس راہ میں جو بھی مشکلات آجائیں اف نہیں کرتے اور نہ شکوہ کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات والدین لاشعوری طور پر بچوں کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں بلکہ وہ بچوں پر نہایت ہی خوشی خوشی سے سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ اس طرح گویا یہ سب کچھ والدین اپنے لیے کرتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کے لیے فطرت انسانی خود کفیل ہوتی ہے ، مزید کسی وصیت اور تاکید کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ رہا لڑکا اور اولادتو ان کو بار باد یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس نسل کا خیال رکھیں جس نے تم پر سب کچھ قربان کردیا ہے ، جس نے سب تدبیریں تمہارے لیے کیں اور خواب ٹمٹماتے چراغ ہیں یا چراغ سحری ہیں جنہوں نے اپنی عمر ، اپنے جسم اور اپنی روح کو کشید کرکے تمہاری زندگی کا ساماں تیار کیا ہے اور جہاں تک بچوں اور اولاد کا تعلق ہے وہ والدین کی قربانیوں کا پورا معاوضہ نہیں دے سکتے اگرچہ وہ اپنی عمر ہی والدین کے لئے وقف کردیں۔ ذرا اس پر تاثیر کو دیکھیں۔

حملتہ امہ وھنا علی وھن وفصلہ فی عامین (31: 14) ” اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے “۔ اس قربانی اور اس نیکی کی تصویر اس سے اچھی نہیں بنائی جاسکتی۔ والدہ اپنے فریضہ طبیعی کی رو سے زیادہ قربانی دیتی ہے اور بچوں کے لیے اس کی محبت ، شفقت اور نرمی باپ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ حافظ ابوبکر بزار نے اپنی سند میں یہ روایت کی ہے بذریعہ مریدہ اور اس کے والد کا ایک شخص طواف میں تھا اور اپنی ماں کو اٹھا کر طواف کرا رہا تھا تو اس نے نبی ﷺ سے دریافت کہ کیا میں نے اس کا حق ادا کردیا ہے ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ، ایک سانس کے برابر بھی نہیں۔ یوں ایک سانس کے برابر بھی نہیں۔ حمل کے دور میں اور وضع حمل کے دور میں ، جب کہ وہ اسے ضعف جھیل کر اٹھا رہی تھی۔ اس خوشگوار شکر گزاری کے سائے میں متوجہ کیا جاتا ہے کہ منعم اول کا شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پہلا شکر اللہ کا ہے اور دوسرا والدین کا ہے۔

ان اشکرلی ولو الدیک (31: 14) ” کہ میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا “۔ اور ان حقائق کے ساتھ یہ اہم حقیقت بھی یاد رکھو۔

الی المصیر (31: 14) ” میری ہی طرف تمہیں پلٹنا ہے “۔ اور وہاں یہی سازو سامان تمہیں فائدہ دے گا۔

لیکن والدین اور اولاد کے اس تاکیدی تعلق کے باوجود اور اولاد کی جانب سے اس حرمت اور ادب کے باوجود یہ تعلق ثانوی ہے۔ اس سے قبل نظریاتی تعلق ہے۔ لہٰذا اولاد کو یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ نظریات کے سلسلے میں والدین کے احکام اور خواہش کو بھی رد کیا جاسکتا ہے۔

وان جاھدک علی ۔۔۔۔۔ فلا تطمعھما (31: 15) ” لیکن اگر رہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان “ ۔ کیونکہ والدین کی اطاعت کی سرحد یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے آگے رب تعالیٰ کی اطاعت کا حکم ہے اور نظریاتی تعلق باپ بیٹے کے تعلق سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اس لیے والدین کسی کو مشرک بنانے کے جو احکام دیں ، جدوجہد کریں ، دباؤ ڈالیں ، مطالبے کریں ، ناراض ہوں ، تو ان کی یہ بات نہیں مانی جاسکتی کیونکہ اولاد جانتی نہیں ہے کہ اللہ کا کوئی شریک بھی ہے۔ لہٰذا حکم یہ ہے کہ یہاں سے آگے والدین کی اطاعت نہیں ہے۔ خالق کی اطاعت ہے۔

لیکن نظریاتی اختلاف اور نظریات کے بارے میں والدین کی عدم اطاعت کے حکم کے باوجود والدین کی عزت و احترام اور

ان کے ساتھ شفقت کا برتاؤ ضروری ہے۔

وصاحبھما فی الدنیا معروفا (31: 15) ” دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ “۔ یہ دنیا کی زندگی تو ایک مختصر سفر ہے۔ اصل سفر یہ ہے۔

واتبع سبیل من اناب الی (31: 15) ” مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے “۔ یعنی اہل ایمان کی پیروی کرو۔ اور اس مختصر سفر کے بعد پھر تم نے اللہ کے سامنے حاضری دینی ہے ۔

ثم الی مر جعکم فانبئکم بما کنتم تعلمیون (31: 15) ” پھر تم سب کو پلٹنا میری طرف ہے ۔ پھر میں تمہیں بتادوں گا کہ تم کیسے عمل کرکے آئے ہو “۔ اور ہر شخص کے لیے وہاں جزاء ہوگی اس کے اعمال کی چاہے اس نے شکر کیا یا کفر کیا ۔ شرک کی راہ اختیار کی یا توحید کا راستہ اپنایا۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت اور سورة عنکبوت کی آیت جو اس کے مثابہ ہے اور سورة احقاف کہ ایک آیت جس کا یہی مضمون ہے ، یہ آیات حضرت سعد ابن ابی وقاص اور اس کی ماں کے حق میں نازل ہوئیں ۔ (میں نے بیسویں پارے میں سورة عنکبوت کی آیت کے ضمن میں تفصیلات دی ہیں ) بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت سعد ابن ملک ؓ کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ طبرانی نے اسے کتاب العشرۃ میں نقل کیا ہے جو انہوں نے داؤدابن سے بند سے روایت کی ہے ۔ مسلم کی حدیث میں سعد ابن ابی وقاص کا قصہ آیا ہے اور راجح بات یہی ہے لیکن مفہوم اور حکم تمام ایسے حالات پر عام ہوگا ۔ مطلب یہ ہے کہ تعلقات میں بھی درجات میں اور فرائض میں بھیدرجات ہیں ۔ ہر حکم اور ہر تعلق کی اپنی قدرت و قیمت ہوتی ہے لہٰذا اسلام میں اللہ کا رابطہ سب سے پہلا رابطہ ہے اور اللہ کے حقوق سب سے اونچادرجہ رکھتے ہیں قرآن کریم مراتب کر اس ذوق کو بار بار بتاتا ہے کہ اگر فرق مراتب نہ کئی خوندیقی ۔ اور باربار ماکید اس لیے کی جاتی ہے کہ اس معاملے میں کوئی اجمال واشکال نہ رہے ۔ یہ تو تھا جملہ معترضہ حضرت لقمان کی تقریر میں ۔ اس کے بعد ان کی تقریر اور نصیحت پھر شروع ہوتی ہے۔ اور یہ مسئلہ بعث بعد الموت اور حشر و نشر اور جزاء و سزا کے بارے میں ہے کہ وہاں سب کو جزاء و سزا ملے گی اور یہ بہت ہی عادلانہ ہوگی لیکن اس اصول کو محض اصول کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ایک کائناتی تمثیل اور تصویر کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس قدر موثر انداز میں جس سے انسانی شعور بےحد متاثر ہوتا ہے اور اس تصویر میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اس کائنات کے ذرے ذرے کو جانتا ہے اس لیے ہر کسی کے اجزائے جسم کے تمام ذرات کو وہ لا سکتا ہے۔

اردو ترجمہ

لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain jahadaka AAala an tushrika bee ma laysa laka bihi AAilmun fala tutiAAhuma wasahibhuma fee alddunya maAAroofan waittabiAA sabeela man anaba ilayya thumma ilayya marjiAAukum faonabbiokum bima kuntum taAAmaloona

اردو ترجمہ

(اور لقمان نے کہا تھا کہ) "بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا وہ باریک بیں اور باخبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya bunayya innaha in taku mithqala habbatin min khardalin fatakun fee sakhratin aw fee alssamawati aw fee alardi yati biha Allahu inna Allaha lateefun khabeerun

یبنی انھا ان ۔۔۔۔۔ ان اللہ لطیف خبیر (16)

اگر کوئی اللہ کے علم کی جامعیت اور مانعیت کو محض اصولی الفاظ میں بیان کر دے اور اللہ کو بہت قدرتوں والا کہہ دے اور یہ کہ اسے ذرے ذرے کا حساب لینا والا کہہ دے تو وہ اس قدر موثر نہیں ہوسکتا جس طرح یہ مصور انداز تعبیر موثر اور دلنشین ہے یہ قرآن کریم کا مخصوص انداز تعبیز ہے کہ نہایت معنوی اور ذہنی امور کو مصور کردیا جاتا ہے۔ (دیکھئے میری کتاب التصویر النبی) ۔ رائی کا دانہ بہت ہی چھوٹا ، گم گشتہ ، بےحقیقت اور بےوزن ہوتا ہے۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ پھر یہ دانہ کسی چٹان (مخرہ) میں ہو کہ وہاں تک پہنچنے کی کوئی راہ بھی نہ ہو یا وہ سماوات میں ہو ، جن کی دوریوں کے تصور ہی سے سر چکرا جاتا ہے ، جن کے اندر بڑے بڑے عظیم الجثہ کر ات کے وزن تیر رہے ہیں یا اس زمین کے اندر وہ رائی کے دانہ کہیں غبار میں پڑا ہوا تو اسے بھی ڈھونڈ لائے گا۔ پس ذرا تصور کرلو اس کے علم وقدرت کے بارے میں۔ وہ بہت ہی باریک بیں ہے۔

یات بھا اللہ ان اللہ لطیف خبیر (31: 16) اس مضمون کے ساتھ لطیف کا لفظ بہت ہی موزوں ہے۔ اور خیال اس ہولناک ، عظیم اور وسیع و عریض کائنات کی وادیوں میں اس رائی کے دانے کے پیچھے سرپٹ دوڑ رہا ہے اور یہ اللہ کے علم اور قدرت کے تصویر پر احاطہ کرنے سے عاجز رہ جاتا ہے ، اس لیے وہ اللہ کی طرف مڑ کر اپنی عاجزی کا اقرار کرتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ اللہ ہر خفیہ بات کا جاننے والا ہے اور وہ بات ذہن نشین ہوجاتی ہے جسے پورا قرآن انسان کے ذہن میں بٹھانے کے درپے ہے کہ ” وہ “ دیکھ رہا ہے۔ نہایت ہی بہترین انداز میں اور دلنشیں اسلوب ہیں۔ حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت جاری رکھے ہوتے ہیں۔ اللہ پر پختہ ایمان لانے اور دل سے ہر قسم کے شرک کا شائبہ تک دور کرنے اور عقیدہ آخرت ثابت کرنے اور اسلامی نظریہ حیات دل میں بٹھانے کے بعد اب وہ اسلامی عقیدے کے تقاضے سامنے لاتے ہیں ، وہ تقاضے یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لیے نماز پڑھیں ، یہ معراج المومنین ہے۔ لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھنے کیلئے ان کو اسلام کی دعوت دیں۔ جو بھی دعوت دیتا ہے اسے مشکلات پیش آتی ہیں ، اس لیے مشکلات پر صبر کرو۔

اردو ترجمہ

بیٹا، نماز قائم کرنے کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya bunayya aqimi alssalata wamur bialmaAAroofi wainha AAani almunkari waisbir AAala ma asabaka inna thalika min AAazmi alomoori

یبنی اقم الصلوۃ ۔۔۔۔۔۔ من عزم الامور (17) یہ اسلامی نظریہ حیات کا راستہ ہے کہ اللہ کو وحدہ لاشریک سمجھنا ، یہ شعور پیدا کرنا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ اس بات کا متمنی ہونا کہ اصل اجز اس کے پاس ہے۔ اس پر بھروسہ کرنا کہ وہ عدل کرے گا اور اس کے عذاب سے ہر وقت ڈرنا اور اس کے بعد لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینا ، ان کی اصلاح کرنا اور ان کو معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا اور ان تمام امور سے قبل اپنے آپ کو کفر کے ساتھ معرکہ آرائی کے لیے تیار کرنا اور اس راہ میں مادی تیاری سے زیادہ اہم تیاری اخلاقی تیاری ہے۔ اور وہ اقامت صلوٰۃ اور اس کے بعد پیش آنے والی مشکلات پر صبر ، کیونکہ لوگ دعوت کے مقابلے میں کج روی اختیار کرتے ہیں۔ دعوت کے ساتھ عناد رکھتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں۔ اذیت میں لسانی اذیت اور دست درازی کی دونوں اذیتیں شامل ہیں۔ مال کی آزمائش اور جان کی آزمائش۔

ان ذلک من عزم الامور (31: 17) ” یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے “۔ عزم الامور کا مفہوم ہے راستے میں تردد ہونے کے بعد جب کوئی کسی طرف عزم کرلیتا ہے اور پھر راستہ طے کرتا ہے۔ اب حضرت لقمان اپنی نصیحت کو نطریات و عبادات کے بعد اخلاقیات کی حدود میں داخل کرتے ہیں۔ جو کسی بھی داعی کا بہترین زادراہ ہے کیونکہ دعوت الی اللہ دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان دوسروں کو حقیر سمجھے اور اپنے آپ کو برتر سمجھے اور پھر دعوت دیتے وقت اگر امیر بن جائے تو وہ لوگوں پر اپنی قیادت مسلط کرے اور اگر ایک آدمی دعوت الی الخیر کا کام بھی نہیں کرتا اور پھر بھی وہ بڑا بنتا ہے اور لوگوں سے اونچا رہتا ہے تو یہ بہت ہی زیادہ قبیح حرکت ہے۔

اردو ترجمہ

اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tusaAAAAir khaddaka lilnnasi wala tamshi fee alardi marahan inna Allaha la yuhibbu kulla mukhtalin fakhoorin

ولا تصعر خدک ۔۔۔۔۔ لصوت الحمیر (18 – 19) صعر ایک بیماری ہے جب اونٹ کو لگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن ٹیڑھی کرلیتا ہے۔ قرآن کریم مغرور شخص کے فعل کو صعر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔ کبر اور سرتابی کے عمل کو صعر کہا گیا یعنی اپنے رخساروں کو لوگوں سے کبر و غرور کی وجہ سے پھیر دینا۔ زمین پر اکڑ کر چلنے کے معنی ہیں غرور اور استکبار کے ساتھ چلنا۔ بھولا ہوا اور لوگوں کو کچھ نہ سمجھنے والا ، یہ ایسی حرکت ہے جسے اللہ بھی مکروہ سمجھتا ہے اور لوگ بھی اسے برا سمجھتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے بارے میں اونچا خیال رکھتا ہے اور اپنی رفتار میں اس کا اظہار کرتا ہے۔

ان اللہ لا یحب کل مختال فخور (31: 18) ” اللہ کسی خود پسند اور فخر جتلانے والے کو پسند نہیں کرتا “۔

اکڑ کر چلنے کی ممانعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ اعتدال کے ساتھ چلو۔

واقصد فی مشیک (31: 19) ” اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو “۔ قصد سے مراد میانہ روی ہے۔ یعنی وہ اقتصادی پالیسی جس میں اسراف نہ ہو ، کیونکہ جو شخص اکڑ کر چلتا ہے ، گردن مروڑ کر چلتا ہے اور اپنے آپ کو اونچا سمجھتا ہے وہ اپنی قوت کو ضائع کرتا ہے۔ گویا اسراف کرتا ہے۔ قصد سے مراد ارادہ بھی ہوسکتا ہے یعنی تمہارے چلنے کی حرکت بامقصد ہو اور تمہاری منزل متعین ہو۔ اور کڑ کو خود پسندی سے چلنے والا شخص ماسوائے دکھاوے کے اور اپنے ذہن میں بڑائی کے کوئی اور مقصد نہیں رکھتا اور یہ کوئی مقصد نہیں ہے ، یعنی اگر چلتے ہو تو کسی مقصد سے سادہ طریقے سے چلو۔ دھیمی آواز میں شائستگی ہوتی ہے۔ اس میں جو شخص بات کرتا ہے وہ اعتماد سے بات کرتا ہے اور اسے اپنی بات کی سچائی کا یقین ہوتا ہے۔ اونچی اور گرجدار آواز سے بات کرنے والا شخص عموماً بےادب ہوتا ہے یا اسے اپنی بات پر یقین نہیں ہوتا۔ یا وہ اپنی شخصیت کی کمزوری کو شور و شغب میں چھپانا چاہتا ہے۔ جھوٹا شخص ہمیشہ جوش و خروش دکھاتا ہے۔ قرآن کریم کا اپنا اسلوب ہے ، یہاں بےمقصد اونچی آواز کی قباحت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک نہایت ہی مکروہ ، حقیر اور احمقانہ صورت پیش کی جاتی ہے۔

ان انکر الاصوات لصوت الحمیر (31: 19) ” سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے “۔ یوں ہر اونچی آواز کو دگدھوں کی آواز سے تشبیہ دے کر ، اسے قابل نفرت بنا دیا گیا اور یوں ہر عقلمند اور مہذب شخص اسے حقیر اور قابل نفرت سمجھنے لگتا ہے۔ یہ حقارت آمیز تصویر جس شخص کی نظروں میں ہو ، وہ کبھی بھی گدھوں کی آواز کی طرح آواز نہیں نکالے گا۔ یوں یہ دوسرا سفر ختم ہوتا ہے جس کے اندر پہلے ہی مسئلے پر بحث کی گئی ہے۔ یہ بحث نہایت ہی متنوع اور جدید سے جدید اسلوب میں کی گئی ہے ، قرآن کے اپنے انداز تصویر کشی میں۔

اردو ترجمہ

اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waiqsid fee mashyika waoghdud min sawtika inna ankara alaswati lasawtu alhameeri
412