اس صفحہ میں سورہ An-Nahl کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ النحل کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 119 ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ عَمِلُوا السُّوْۗءَ بِجَــهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌجو لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر یا نادانی میں کوئی گناہ کر بیٹھیں ‘ پھر توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں اور غلط روش سے باز آجائیں تو ایسے لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ ضرور غفورو رحیم ہے۔
آیت 120 اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اَمَّ یَوُمُّ کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں۔ سورة یوسف آیت 45 میں اُمَّۃ کا لفظ وقت اور مدت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ ۔ وقت اور زمانے کے بھی ہم پیچھے چلتے ہیں تو گویا اس کا قصد کرتے ہیں۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے بھی انسان اس کا قصد کرتا ہے۔ اس حوالے سے لفظ اُمَّۃ وقت اور راستے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بہت سے لوگ ایک نظریے کا قصد کر کے اکٹھے ہوجائیں تو انہیں بھی اُمَّۃ کہا جاتا ہے ‘ یعنی ہم مقصد لوگوں کی جماعت۔ چناچہ اسی معنی میں سورة البقرۃ کی آیت 143 میں فرمایا گیا : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۔ اس لحاظ سے آیت زیرنظر میں لفظ امت کا مفہوم یہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ایک راستہ بنانے والے ‘ اور ایک ریت ڈالنے والے تھے ‘ اور اس طرح آپ اپنی ذات میں گویا ایک امت تھے۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا اور پوری دنیا کفر کے راستے پر گامزن تھی تو آپ تن تنہا اسلام کے علمبردار تھے۔
آیت 124 اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَي الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ دراصل بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عبادت کے لیے جمعہ کا دن ہی مقرر فرمایا تھا مگر انہوں نے اپنی شرارت کی وجہ سے اس کی ناقدری کی اور اسے چھوڑ کر ہفتہ کا دن اختیار کرلیا۔ چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس حیثیت میں ہفتہ کا دن ہی مقرر کردیا۔
آیت 125 اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ یہ دعوت الی الحق کا طریقہ اور اس کے آداب کا ذکر ہے جیسا کہ سورة یوسف ‘ آیت 108 میں فرمایا گیا : قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ” اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ میں خود بھی اور میرے پیروکار بھی اس راستے پر گامزن ہیں۔“ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَـبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ اپنے موضوع کے حوالے سے یہ بہت عظیم آیت ہے۔ اس میں انسانی معاشرے کے اندر انسانوں کی تین بنیادی اقسام کے حوالے سے دعوت دین کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں ‘ مگر عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تشریح کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔کسی بھی معاشرے میں علم و دانش کی بلند ترین سطح پر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اس معاشرے کا دانشور طبقہ intelligentsia یا ذہین اقلیت intellectual minority کہا جاتا ہے۔ اس طبقے کی حیثیت اس معاشرے یا قوم کے دماغ کی سی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے بہت چھوٹی اقلیت پر مشتمل ہوتے ہیں مگر کسی معاشرے کی مجموعی سوچ اور اس کے مزاج کا رخ متعین کرنے میں ان کا کردار یا حصہ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو جذباتی تقاریر اور خوش کن وعظ متاثر نہیں کرسکتے ‘ بلکہ ایسے لوگ کسی سوچ یا نظر یے کو قبول کرتے ہیں تو مصدقہ علمی و منطقی دلیل سے قبول کرتے ہیں اور اگر رد کرتے ہیں تو ایسی ہی ٹھوس دلیل سے رد کرتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں بیان کردہ پہلا درجہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہے ”حکمت“۔ یہ علم و عقل کی پختگی کی بہت اعلیٰ سطح ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت 269 میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کو ’ خیر کثیر ‘ قرار دیا ہے : وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا۔ قرآن میں تین مقامات البقرۃ 129 ‘ آل عمران : 164 اور الجمعہ : 2 پر ان مراحل اور درجات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت حضور نے اپنے صحابہ کی تربیت فرمائی۔ ان میں بلند ترین مرحلہ یا درجہ حکمت کا ہے۔ حکمت کے سبب کسی انسان کی سوچ اور علم میں پختگی آتی ہے ‘ اس کی گفتگو میں جامعیت پیدا ہوتی ہے اور اس کی تجزیاتی اہلیت بہتر ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ کسی سے بات کرتے ہوئے یا کسی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے معروضی صورت حال ‘ مخاطب کے ذہنی رجحان اور ترجیحات کا درست تجزیہ کرنے کے بعد اپنی گفتگو کے نکات اور دلائل کو ترتیب دیتا ہے۔ اسے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ کس وقت اسے کیا پیش کرنا ہے اور کس انداز میں پیش کرنا ہے۔ کون سا نکتہ بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے اور کون سی دلیل ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ بہر حال کسی بھی معاشرے کے وہ لوگ جو علم ‘ عقل اور شعور میں غیر معمولی اہلیت کے حامل ہوں ‘ ان کو دعوت دینے کے لیے بھی کسی ایسے داعی کی ضرورت ہے جو خود بھی علم و حکمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو اور ان سے برابری کی سطح پر کھڑے ہو کر بات کرسکے۔ کیونکہ جب قرآن اپنے مخالفین کو چیلنج کرتا ہے : ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ البقرۃ ”اپنی دلیل لاؤ اگر تم واقعی سچے ہو“۔ تو ایسی صورت میں ہمارے مخالفین کو بھی حق ہے کہ وہ بھی ہم سے دلیل مانگیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم عقل اور منطق کی اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر ان کی تسلی و تشفی کا سامان فراہم کریں۔ لہٰذا آیت زیر نظر میں دعوت و تبلیغ کا پہلا درجہ حکمت بیان کیا گیا ہے جس کا حق ادا کرنے کے لیے داعی کا صاحب حکمت اور حکیم ہونا لازمی ہے۔حکمت کے بعد دوسرا درجہ ”موعظہ حسنہ“ کا ہے ‘ یعنی اچھا خوبصورت وعظ۔ یہ درجہ عوام الناس کے لیے ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ذہنوں میں عقل اور منطق کی چھلنیاں نہیں لگی ہوتیں۔ چناچہ ایسے لوگوں کے لیے منطقی مباحث اور فلسفیانہ تقاریر ”تکلیف مالا یطاق“ کے مترادف ہیں۔ ان کے دل کھلی کتاب اور ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں ‘ آپ ان پر جو لکھنا چاہیں لکھ لیں۔ ایسے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے ان کے جذبات کو اپیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پر تاثیر وعظ اور خلوص و ہمدردی سے کی گئی بات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ان کو احساس ہوجاتا ہے کہ داعی ہم پر اپنے علم کا رعب نہیں ڈالنا چاہتا ‘ ہم پر دھونس نہیں جمانا چاہتا ‘ وہ ہم سے اظہار نفرت نہیں کر رہا ‘ ہماری تحقیر نہیں کر رہا ‘ بلکہ اس کے پیش نظر ہماری خیر خواہی ہے۔ چناچہ داعی کے دل سے نکلی ہوئی بات ”از دل خیزد ‘ بردل ریزد“ کے مصداق سیدھی ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ دعوت حق کا تیسرا درجہ جَادِلْہُمْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ان عناصر کے لیے ہے جو کسی معاشرے میں خلق خدا کو گمراہ کرنے کے مشن کے علمبردار ہوتے ہیں۔ آج کل بہت سی تنظیموں کی طرف سے باقاعدہ پیشہ وارانہ تربیت سے ایسے لوگ تیار کر کے میدان میں اتارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خلوص و اخلاص سے کی گئی بات کو کسی قیمت پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہر حال میں اپنے نظریے اور موقف کی طرف داری کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے ‘ چاہے وہ کسی علمی و عقلی دلیل سے ہو یا ہٹ دھرمی سے۔ ایسے لوگوں کو مسکت جواب دے کر لاجواب کرنا ضروری ہوتا ہے ‘ ورنہ بعض اوقات عوامی سطح کے اجتماعات میں ان کی بحث برائے بحث کی پالیسی بہت خطرناک ہوسکتی ہے ‘ جس سے عوام الناس کے ذہن منفی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثہ کے عمل کو ہمارے ہاں ”مناظرہ“ کہا جاتا ہے ‘ جبکہ قرآن نے اسے ”مجادلہ“ کہا ہے۔ بہرحال قرآن نے اپنے پیروکاروں کے لیے اس میں بھی اعلیٰ معیار مقرر کردیا ہے کہ مخالفین سے مجادلہ بھی ہو تو احسن انداز میں ہو۔ اگر آپ کا مخالف کسی طور سے گھٹیا پن کا مظاہرہ بھی کرے تب بھی آپ کو جواب میں اچھے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں ‘ جیسا کہ سورة الانعام کی آیت 108 میں حکم دیا گیا : وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ”اور جن کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کہ کہیں یہ بھی بغیر سوچے سمجھے مخالفت میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگ جائیں“۔ آج کل مختلف مذاہب کی تنظی میں مثلاً عیسائی مشنریز باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام کو ہدف بنانے کے لیے کچھ خاص موضوعات اور مسائل کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتی ہیں۔ یہ لوگ ایسے موضوعات و مسائل پر مناظرے کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کے ذریعے سپیشلسٹ specialist تیار کرتے ہیں۔ ایسے پیشہ وارانہ لوگوں کے مقابلے اور مجادلے کے لیے داعیانِ حق کو خصوصی تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
آیت 127 وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰهِ یہ حکم براہ راست رسول اللہ کے لیے ہے اور آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اس سلسلے میں حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر جس قدر اعتماد ہوگا جیسا اس پر توکل ہوگا جتنا پختہ اس کے وعدوں پر یقین ہوگا اسی انداز میں انسان صبر بھی کرسکے گا۔وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ یہ لوگ اپنے کرتوتوں کے سبب عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ چناچہ آپ ان کے انجام کے بارے میں بالکل رنجیدہ اور فکر مند نہ ہوں اور نہ ہی ان کی سازشوں اور گھٹیا معاندانہ سرگرمیوں کے بارے میں سوچ کر آپ اپنا دل میلا کریں۔
آیت 128 اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہوئے درجۂ احسان پر فائز ہوگئے ہیں اللہ کی معیت نصرت اور تائید ان کے شامل حال رہے گی۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا تو یہ مشرکین آپ کو کچھ گزند نہیں پہنچا سکتے۔ کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہے مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے ! بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذِّکر الحکیم