سورہ کہف (18): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Kahf کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الكهف کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ کہف کے بارے میں معلومات

Surah Al-Kahf
سُورَةُ الكَهۡفِ
صفحہ 302 (آیات 75 سے 83 تک)

۞ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِىَ صَبْرًا قَالَ إِن سَأَلْتُكَ عَن شَىْءٍۭ بَعْدَهَا فَلَا تُصَٰحِبْنِى ۖ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّى عُذْرًا فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰٓ إِذَآ أَتَيَآ أَهْلَ قَرْيَةٍ ٱسْتَطْعَمَآ أَهْلَهَا فَأَبَوْا۟ أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُۥ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِى وَبَيْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا أَمَّا ٱلسَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَٰكِينَ يَعْمَلُونَ فِى ٱلْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا ٱلْغُلَٰمُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَآ أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَٰنًا وَكُفْرًا فَأَرَدْنَآ أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَوٰةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا وَأَمَّا ٱلْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَٰمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِى ٱلْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُۥ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَٰلِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَآ أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُۥ عَنْ أَمْرِى ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا وَيَسْـَٔلُونَكَ عَن ذِى ٱلْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُوا۟ عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
302

سورہ کہف کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ کہف کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

اُس نے کہا " میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala alam aqul laka innaka lan tastateeAAa maAAiya sabran

موسیٰ ؑ کی بےصبری۔حضرت خضر ؑ نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے حضرت موسیٰ ؑ کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہہ فرمائی۔ اسی لئے حضرت موسیٰ ؑ نے بھی اس بار اور ہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا، یقینا آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں۔ ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آجاتا اور اس کے لئے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے کرتے۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ پر کاش کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹ جائے۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا۔

اردو ترجمہ

موسیٰؑ نے کہا " اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں لیجیے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala in saaltuka AAan shayin baAAdaha fala tusahibnee qad balaghta min ladunnee AAuthran

اردو ترجمہ

پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جوگرا چاہتی تھی اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا موسیٰؑ نے کہا " اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faintalaqa hatta itha ataya ahla qaryatin istatAAama ahlaha faabaw an yudayyifoohuma fawajada feeha jidaran yureedu an yanqadda faaqamahu qala law shita laittakhathta AAalayhi ajran

ایک اور انوکھی بات۔دو دفعہ کے اس واقعہ کے بعد پھر دونوں صاحب مل کر چلے اور ایک بستی میں پہنچے مروی ہے وہ بستی ایک تھی یہاں کے لوگ بڑے ہی بخیل تھے۔ انتہا یہ کہ دو بھوکے مسافروں کے طلب کرنے پر انہوں نے روٹی کھلانے سے بھی صاف انکار کردیا۔ وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک دیوار گرنا ہی چاہتی ہے، جگہ چھوڑ چکی ہے، جھک پڑی ہے۔ دیوار کی طرف ارادے کی اسناد بطور استعارہ کے ہے۔ اسے دیکھتے ہی کمرکس کر لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے مضبوط کردیا اور بالکل درست کردیا پہلے حدیث بیان ہوچکی ہے کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹا دیا۔ زخم ٹھیک ہوگیا اور دیوار درست بن گئی۔ اس وقت پھر کلیم اللہ ؑ بول اٹھے کہ سبحان اللہ ان لوگوں نے تو ہمیں کھانے تک کو نہ پوچھا بلکہ مانگنے پر بھاگ گئے۔ اب جو تم نے ان کی یہ مزدوری کردی اس پر کچھ اجرت کیوں نہ لے لی جو بالکل ہمارا حق تھا ؟ اس وقت وہ بندہ الہٰی بول اٹھے لو صاحب اب مجھ میں اور آپ میں حسب معاہدہ خود جدائی ہوگئی۔ کیونکہ بچے کے قتل پر آپ نے سوال کیا تھا اس وقت جب میں نے آپ کو اس غلطی پر متنبہ کیا تھا تو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ اب اگر کسی بات کو پوچھوں تو مجھے اپنے ساتھ سے الگ کردینا اب سنو جن باتوں پر آپ نے تعجب سے سوال کیا اور برداشت نہ کرسکے ان کی اصلی حکمت آپ پر ظاہر کئے دیتا ہوں۔

اردو ترجمہ

اُس نے کہا "بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qala hatha firaqu baynee wabaynika saonabbioka bitaweeli ma lam tastatiAA AAalayhi sabran

اردو ترجمہ

اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amma alssafeenatu fakanat limasakeena yaAAmaloona fee albahri faaradtu an aAAeebaha wakana waraahum malikun yakhuthu kulla safeenatin ghasban

اللہ کی مصلحتوں کی وضاحت۔بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کے انجام سے حضرت خضر کو مطلع کردیا تھا اور انہیں جو حکم ملا تھا حضرت موسیٰ ؑ کو اس راز کا علم نہ تھا اس لئے بظاہر اسے خلاف سمجھ کر اس پر انکار کرتے تھے لہذا حضرت خضر نے اب اصل معاملہ سمجھا دیا۔ فرمایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے میں تو یہ مصلحت تھی کہ اگر صحیح سالم ہوتی تو آگے چل کر ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر ایک اچھی کشتی کو ظلما چھین لیتا تھا۔ جب اسے وہ ٹوٹی پھوٹی دیکھے گا تو چھوڑ دے گا اگر یہ ٹھیک ٹھاک اور ثابت ہوتی تو ساری کشتی ہی ان مسکینوں کے ہاتھ سے چھن جاتی اور ان کی روزی کمانے کا یہی ایک ذریعہ تھا جو بالکل جاتا رہتا۔ مروی ہے کہ اس کشتی کے مالک چند یتیم بچے تھے۔ ابن جریج کہتے ہیں اس بادشاہ کا نام حدوبن بدو تھا۔ بخاری شریف کے حوالے سے یہ راویت پہلے گزر چکی ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ عیص بن اسحاق کی نسل سے تھا توراۃ میں جن بادشاہوں کا صریح ذکر ہے ان میں ایک یہ بھی ہے، واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma alghulamu fakana abawahu muminayni fakhasheena an yurhiqahuma tughyanan wakufran

اللہ کی رضا اور انسان۔پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس نوجوان کا نام حیثور تھا۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے حالانکہ اس کی زندگی ان کے لئے ہلاکت تھی۔ پس انسان کو چاہے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں۔ مومن جو کام اپنے لئے پسند کرتا ہے، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لئے پسند فرماتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے (فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا 19؀) 4۔ النسآء :19) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لئے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہ دراصل تمہارے لئے بھلا اور مفید ہو۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں۔

اردو ترجمہ

اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Faaradna an yubdilahuma rabbuhuma khayran minhu zakatan waaqraba ruhman

اردو ترجمہ

اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں اس دیوار کے نیچے اِن بچّوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچّے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پرکیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waamma aljidaru fakana lighulamayni yateemayni fee almadeenati wakana tahtahu kanzun lahuma wakana aboohuma salihan faarada rabbuka an yablugha ashuddahuma wayastakhrija kanzahuma rahmatan min rabbika wama faAAaltuhu AAan amree thalika taweelu ma lam tastiAA AAalayhi sabran

اللہ کی حفاظت کا ایک انداز۔اس آیت سے ثابت ہوا کہ بڑے شہر پر بھی قریہ کا اطلاق ہوسکتا ہے کیونکہ پہلے (اِذَآ اَتَيَآ اَهْلَ قَرْيَـةِ 77؀) 18۔ الكهف :77) فرمایا تھا اور یہاں فی المدینۃ فرمایا۔ اسی طرح مکہ شریف کو بھی قریہ کہا گیا ہے۔ فرمان ہے (وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِيْٓ اَخْرَجَتْكَ ۚ اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13؀) 47۔ محمد :13) اور آیت میں مکہ اور طائف دونوں شہروں کو قریہ فرمایا گیا ہے چناچہ ارشاد ہے (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31؀) 43۔ الزخرف :31) آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ اس دیوار کو درست کردینے میں مصلحت الہٰی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا مال دفن تھا۔ ٹھیک تفسیر تو یہی ہے گویہ بھی مروی ہے کہ وہ علمی خزانہ تھا۔ بلکہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ جس خزانے کا ذکر کتاب اللہ میں ہے یہ خالص سونے کی تختیاں تھیں جن پر لکھا ہوا تھا کہ تعجب ہے اس شخص پر جو تقدیر کا قائل ہوتے ہوئے اپنی جان کو محنت ومشقت میں ڈال رہا ہے اور رنج وغم برداشت کر رہا ہے۔ تعجب ہے کہ جو جہنم کے عذابوں کا ماننے والا ہے پھر بھی ہنسی کھیل میں مشغول ہے۔ تعجب ہے کہ موت کا یقین رکھتے ہوئے غفلت میں پڑا ہوا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ یہ عبارت ان تختیوں پر لکھی ہوئی تھی لیکن اس میں ایک راوی بشر بن منذر ہیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ مصیصہ کے قاضی تھے ان کی حدیث میں وہم ہے۔ سلف سے بھی اس بارے میں بعض آثار مروی ہیں۔ حسن بصری ؒ فرماتے ہیں یہ سونے کی تختی تھی جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد قریب قریب مندرجہ بالا نصیحتیں اور آخر میں کلمہ طیبہ تھا۔ عمر مولیٰ غفرہ سے بھی تقریبا یہی مروی ہے۔ امام جعفر بن محمد ؒ فرماتے ہیں اس میں ڈھائی سطریں تھیں پوری تین نہ تھیں، الخ۔ مذکور ہے کہ یہ دونوں یتیم بوجہ اپنے ساتویں دادا کی نیکیوں کے محفوظ رکھے گئے تھے۔ جن بزرگوں نے یہ تفسیر کی ہے وہ بھی پہلی تفسیر کے خلاف نہیں کیونکہ اس میں بھی ہے کہ یہ علمی باتیں سونے کی تختی پر لکھی ہوئی تھیں اور ظاہر ہے کہ سونے کی تختی خود مال ہے اور بہت بڑی رقم کی چیز ہے۔ واللہ اعلم۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کرلیتے ہیں۔ جیسے قرآن میں صراحتا مذکور ہے دیکھئے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیکی عملا بیان ہوئی ہے۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا واللہ اعلم۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں۔ دیکھئے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے فاردنا اور فاردت کے لفظ ہیں واللہ اعلم۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھیں سراسر رحمت تھیں۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الہٰی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی نہیں کئے بلکہ احکام الہٰی بجا لایا۔ اس سے بعض لوگوں نے حضرت خضر کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے تھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ولی اللہ تھے۔ امام ابن قتیبہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیا بن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح ؑ تھا۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے، لقب خضر ہے۔ امام نووی ؒ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعزیت کے لئے آپ تشریف لائے تھے لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی ہے (وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ 34؀) 21۔ الأنبیاء :34) ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ اور دلیل آنحضرت ﷺ کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الہٰی اگر میری جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر حضرت خضر ؒ زندہ ہوتے تو آنحضرت ﷺ تمام جن وانس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ نے تو یہاں تک فرمایا کہ اگر موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ (زمین پر) ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا۔ آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت خضر کو خضر اس لئے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سبزہ اگ آیا۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مرادیہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی۔ الغرض حضرت خضر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ کے سامنے جب یہ گھتی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کردی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لئے آپ جلدی کر رہے تھے۔ چونکہ پہلے شوق ومشقت زیادہ تھی اس لئے لفظ لم تستطع کہا اور اب بیان کردینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لئے لفظ لم تسطع کہا۔ یہی صفت آیت (فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا 97؀) 18۔ الكهف :97) میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کرسکے۔ پس چڑھنے میں تکلیف بہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لئے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کردی۔ واللہ اعلم حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں اس لئے کہ مقصود صرف حضرت موسیٰ ؑ کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لئے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک ہے۔

اردو ترجمہ

اور اے محمدؐ، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayasaloonaka AAan thee alqarnayni qul saatloo AAalaykum minhu thikran

کفار کے سوالات کے جوابات۔پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد ﷺ سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ سے نہ بن پڑیں۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی بہ نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہوگئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور ﷺ سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی۔ تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لئے آئے ہو۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھالے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ۔ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بیکار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں۔ تعجب ہے کہ امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے میں تھا۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے۔ آپ پر ایمان لایا تھا، آپ کا تابعدار بنا تھا۔ انہی کے وزیر حضرت خضر ؑ تھے۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ حضرت میسح ؑ سے تقریبا تین سو سال پہلے تھا اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کردیے ہیں۔ وہب کہتے ہیں یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سنیگ سے تھے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا یہ لوگ مخالف ہوگئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مرگئے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی۔ ساتھ ہی قوت لشکر آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے۔ ہر چیز کا اسے علم دے رکھا تھا۔ زمین کے ادنی اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے۔ تمام زبانیں جانتے تھے۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی اس کی زبان بول لیتے تھے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار ؒ سے حضرت امیر معاویہ ؓ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہر چیز کا سامان دیا تھا۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ ہے اس لئے بھی کہ حضرت کعب ؒ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کردیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو با رہا سامنے آچکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بےسند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ، خرافات، تحریف، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر ﷺ کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں۔ افسوس انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور فساد پھیل گیا۔ حضرت کعب ؒ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہربات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہی دی۔ دیکھئے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں (وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ 23۔) 27۔ النمل :23) وہ ہر چیز دی گئی تھی اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموما جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا اسی طرح حضرت ذوالقرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کردیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عزوجل نے حضرت ذوالقرنین کو دے رکھے تھے واللہ اعلم۔ حضرت علی ؓ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق ومغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لئے مسخر کردیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کردیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی۔

302