سورۃ الاسراء (17): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Israa کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإسراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الاسراء کے بارے میں معلومات

Surah Al-Israa
سُورَةُ الإِسۡرَاءِ
صفحہ 290 (آیات 76 سے 86 تک)

وَإِن كَادُوا۟ لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ ٱلْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَٰفَكَ إِلَّا قَلِيلًا سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا أَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِدُلُوكِ ٱلشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ ٱلَّيْلِ وَقُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا وَمِنَ ٱلَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِۦ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰٓ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِى مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَٱجْعَل لِّى مِن لَّدُنكَ سُلْطَٰنًا نَّصِيرًا وَقُلْ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَٰطِلُ ۚ إِنَّ ٱلْبَٰطِلَ كَانَ زَهُوقًا وَنُنَزِّلُ مِنَ ٱلْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ ٱلظَّٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا وَإِذَآ أَنْعَمْنَا عَلَى ٱلْإِنسَٰنِ أَعْرَضَ وَنَـَٔا بِجَانِبِهِۦ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ ٱلشَّرُّ كَانَ يَـُٔوسًا قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِۦ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلرُّوحِ ۖ قُلِ ٱلرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّى وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِۦ عَلَيْنَا وَكِيلًا
290

سورۃ الاسراء کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الاسراء کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kadoo layastafizzoonaka mina alardi liyukhrijooka minha waithan la yalbathoona khilafaka illa qaleelan

واذالا یلبثون خلفک الا قلیلا (71 : 67) ” اگر وہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں گے “۔ کیونکہ یہ اللہ کی جاری وساری سنت ہے۔

اردو ترجمہ

یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Sunnata man qad arsalna qablaka min rusulina wala tajidu lisunnatina tahweelan

سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تحد لسنتنا تحویلا (71 : 77) ” یہ ہمارا مستقبل طریق کار ہے جو ان سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پائو گے “۔

اللہ تعالیٰ نے یہ اٹل قانون بنایا ہے کہ جو قوم رسول کو ملک بدر کردیتی ہے اللہ اے نیست و نابود کردیتا ہے۔ کیونکہ رسولوں کا ملک بدر کرنا اس قدر بڑا جرم ہے کہ اسے سرزنش کے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ اللہ کی اس کائنات کو اس کے اٹل قوانیں اور سنن چلا رہے ہیں اور لوگوں کے انفرادی اعمال کا اس میں کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ یہ کائنات محض اتفاقات کے مطابق نہیں چل رہی ہے کہ کچھ واقعات ہوجائیں اور گزر جائیں اور یہ کائنات یونہی چل رہی ہو۔ بلکہ اس کائنات کو اللہ کے اٹل قوانین کنٹرول کرتے ہیں۔ چونکہ عالم بالا میں ، بعض حکمتوں کی بنا پر یہ طے تھا کہ قریش کو بلاک اور نیست و نابود نہیں کرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام کو طبیعی خوارق عادت معجزات نہیں دیے اور نہ قریش کو ہمت دی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو زبردستی یا حالات سے مجبور کر کے مکہ سے نکال دیں بلکہ بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ اس آبادی کو خود ہی چھوڑ دیں۔ یوں اللہ کی سنت جاری وساری رہی۔

اس کے بعد نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اللہ سے لو لگائے رکھیں ، اللہ سے نصرت اور معاونت طلب کرتے رہے اور جس راہ کو آپ ﷺ نے اپنایا ہے اس پر چلتے رہیں۔ حق کا بول بالا ہوگا اور باطل مغلوب اور زائل ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

اردو ترجمہ

نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لے کر اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aqimi alssalata lidulooki alshshamsi ila ghasaqi allayli waqurana alfajri inna qurana alfajri kana mashhoodan

دلوک الشمس سے مراد ہے سورج کا غروب کی طرف مائل ہونا یعنی غروب آفتاب سے لے کر اندھیرے تک۔ یہ حکم خاص نبی ﷺ کو ہے۔ جہاں تک پانچ فرض نمازوں کا تعلق ہے تو ان کے اپنے اوقات ہیں اور تواتر سے احادیث رسول کے ذریعہ ثابت ہیں۔ نیز آپ ﷺ کی عملی سنت بھی متواتر ہے۔ بعض نے دلوک الشمس سے مراد زوال آفتاب لیا ہے یعنی آسمان کے درمیان سے آفتاب کا گزر جانا اور غسق اللیل کی تفسیر بعض لوگوں نے اول لیل سے کی ہے۔ اور قرآن الفجر سے مراد صبح کی نماز کی گئی ہے۔ اور یوں اس آیت سے زوال آفتاب سے رات کے اندھیروں تک۔ دلوک الشمس الی غسق الیل (71 : 87) سے ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں لی گئی ہیں اور تہجد کا حکم حضور اکرم ﷺ کے لئے مخصوص کیا گیا ہے اور یہ آپ ﷺ کے لئے نفل یعنی زائد حکم ہے۔ لیکن ہماری رائے پہلی تفسیر ہی کی طرف جاتی ہے۔ یعنی اس آیت کے تمام احکام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مختص ہیں اور پانچ نمازوں کے اوقات احادیث متواترہ اور سنت عملیہ متواترہ سے ثابت ہیں۔

اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل (71 : 87) ” یعنی نما زقائم کرو جب سورج غروب کی طرف جھکنے لگے اور رات آنے لگے اور تاریکیاں چھانے لگیں “۔ اور صبح کے وقت کا قرآن پڑھو۔

ان قرآن الفجر کان مشھودا (71 : 87) ” اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر شہود ہوتا ہے “۔ ان دونوں اوقات کی اپنی خصوصیات بھی ہیں۔ دن کا جانا اور شب کا آنا یا رات کا جانا اور دن کا آنا ، نفس انسانی پر دونوں اوقات گہری تاثیر چھوڑتے ہیں۔ جب رات آتی ہے تو اس میں تاریکیاں آگے بڑھتی ہیں اور جب دن نمودار ہوتا ہے تو روشنیاں آگے بڑھتی ہیں۔ دونوں اوقات میں قلب اور فکر و نظر پر مخصوس اثرات ہوتے ہیں۔ دونوں اوقات میں انسانی دماغ اس کائناتی نظام پر غوروفکر کرنے کے لئے مائل ہوتا ہے۔ انسان اس ناموس فطرت کے بارے میں سوچتا ہے کہ یہ ناموس چل رہا ہے اور اٹل ہے۔ نماز کی طرح صبح کے وقت قرآن کے مطالعے کا بھی نفس انسانی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ذہن میں تازگی آجاتی ہے۔ نہایت سکون اور ٹھندے دل سے انسان سوچتا ہے اور سمجھتا ہے روشنی آرہی ہوتی ہے ، زندگی کی نبض متحرک ہوجاتی ہے اور زندگی بھرپور طور پر حرکت میں آجاتی ہے۔

اردو ترجمہ

اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لیے نفل ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کر دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina allayli fatahajjad bihi nafilatan laka AAasa an yabAAathaka rabbuka maqaman mahmoodan

ومن الیل فتحجد بہ نافلۃ لک (71 : 97) ” اور رات کو قرآن کے ساتھ تہجد پڑھو یہ تمہارے لئے نفل ہے “۔ تہجد سے مراد پچھلی رات کی وہ نماز ہے جو رات کے اول حصے میں سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور بہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے یعنی رات کو قرآن کے ساتھ تہجد پڑھو کیونکہ قرآن مجید نماز کی روح ہے اور نماز کی بنیادی عنصر ہے۔

عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا (71 : 97) ” بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کردے “۔ یعنی نماز کی پابندی ، قرآن فجر کی تلاوت اور تہجد گزاری اور اللہ کے ساتھ اس پختہ اور دائمی تعلق کی وجہ سے۔ کیونکہ مقام محمود تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے۔ جب مقام محمود تک پہنچنے کے لئے اللہ محمد مصطفیٰ ﷺ اور برگزیدہ رسول کا حکم دیتا ہے کہ وہ نماز پڑھیں ، قرآن کی تلاوت کریں اور تہجد پر عمل پیرا رہیں تو دوسری لوگ ان عبادات کے زیادہ محتاج ہیں اور وہ اپنے لئے مقرر مراتب تک تب ہی پہنچ سکتے ہیں جب وہ ان عبادات پر اچھی طرح عمل پیرا ہوں۔ یہی صحیح راستہ اور یہی تحریک اسلامی کے کارکنوں کا زاد راہ ہے۔

اردو ترجمہ

اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqul rabbi adkhilnee mudkhala sidqin waakhrijnee mukhraja sidqin waijAAal lee min ladunka sultanan naseeran

وقل رب ……نصیرا (71 : 08) ۔ ” اور دعا کرو ، کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے “۔ یہ دعا ہے جو اللہ اپنے نبی ﷺ کو سکھاتا ہے تاکہ وہ ان الفاظ میں اللہ کو پکارے۔ اور آپ ﷺ کے بعد آپ کی امت کو بھی معلوم ہو کہ وہ کس طرح اللہ کو پکارے اور کن معاملات میں اللہ کی طرف متوجہ ہو ، سچائی کے ساتھ دخول اور سچائی کے ساتھ خروج کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ میرا دل اور آخر ، اور اولیٰ اور آخری کے مابین تمام مراحل میں مجھے سچائی پر قائم رکھ۔ اور یہاں سچائی کی دعا کی اہمیت یوں بڑھ جاتی ہے کہ جس مرحلے میں یہ آیات آئیں اس میں داخل کردیں اور ظاہر ہے کہ یہ اللہ پر افتراء ہوتا۔ نیز سچائی کا اپنا پر تو اور رنگ ہوتا ہے ، مثلاً ثابت قدمی ، اطمینان ، پاکیزگی معاملات ، اخلاص وغیرہ سب کے سب سچائی کے رنگ ہیں۔

واجعل لی من لدنک سلطنا نصیرا (71 : 08) ” اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے “۔ ایک قوت ، ہیبت مجھے حاصل ہوجائے ، جس کی وجہ میں زمین کے اقتدار پر قابض ہوجائوں اور مشرکین کی قوت کو مغلوب کرلوں۔

من لدنک (71 : 08) یعنی (اپنی طرف سے) میں یہ رنگ ہے کہ اللہ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کا گہرا قرب ہے۔ اور آپ ﷺ صرف اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور صرف اس سے مدد کے طلبگار ہیں اور اللہ ہی حمایت و حفاظت میں اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔

کوئی بھی داعی صرف اللہ ہی سے اقتدار کا طالب ہوتا ہے اور ایک داعی سے لوگ صرف اس صورت میں خوف کھاتے ہیں کہ وہ الٰہی قوت سے مسلح ہو۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی حاکم اور صاحب اقتدار نبی ﷺ یا کسی داعی کی حمایت پر کمربستہ ہوجائے بلکہ کسی دنیاوی قوت سے پہلے داعی کو الٰہی قوت سے لیس ہونا ضروری ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی تحریک اور دعوت بعض اوقات اہل اقتدار اور صاحب قوت لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیتی ہے ، اور وہ دعوت کے سپاہی بن جاتے ہیں اور دعوت کی خدمت کرتے ہیں اور فلاح پاتے ہیں۔ لیکن اگر دعوت اور تحریک کسی بادشاہ یا صاحب اقتدار کے تابع ہو اور اس کی سپاہ گری کا کام کرے اور کسی شخص کی خدمت گار ہو تو وہ دعوت کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دعوت اسلامی تو امر الٰہی ہے ، اور اسے اعلیٰ وارفع ہونا چاہیے۔ اور اہل اقتدار اور ذی جائو لوگوں کو اس کا خادم ہونا چاہیے۔

اردو ترجمہ

اور اعلان کر دو کہ "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqul jaa alhaqqu wazahaqa albatilu inna albatila kana zahooqan

وقل ……(71 : 18) ” اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے “۔ یعنی اللہ کی جانب سے جو اقتدار نبی اور داعیوں کو ملتا ہے اس کی بدولت۔ اے نبی ﷺ اعلان کردو کہ یہ اقتدار اب آہی گیا اور اس کی وجہ سے باطل گویا مٹ ہی گیا کیونکہ حق اپنے اندر قوت ، سچائی اور ثبات رکھتا ہے۔ اور باطل کے مزاج میں کمزوری اور مٹنا ہے۔ سچائی کا مزاج یہ یہ کہ وہ زندہ رہے ، پھلے پھولے اور قائم و دوائم رہے اور باطل کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ مٹ جائے ، ختم ہوجائے اور اس کا نام و نشان تک نہ رہے۔

” باطل مٹنے والا ہے “۔ یہ ایک الٰہی حقیقت ہے اور اللہ اسے نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں بیان فرما تا ہے۔ اگرچہ بظاہر باطل رائج نظر آئے ، اس کی حکومت ہو اور اس کا رعب ہو ، کیونکہ باطل پھلا اور پھولا نظر آتا ہے لیکن اس کا موٹاپا بیماری کا موٹاپا ہوتا ہے۔ وہ چونکہ بےحقیقت ہوتا ہے اس لئے اس کے غبارے سے جلد ہی ہوا نکل جاتی ہے۔ اور اس پر کبھی کسی قوم کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن باطل ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے کہ لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرکے ان کو مرعوب کردے اور ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے کہ وہ مستقل اور پختہ اور ایک عظیم نظام نظر آئے لیکن اسکی مثال ایسی خود روگھاس کی ہوتی ہے جو جلد ہی خشک ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ کسی خشک گھاس اور پھوس کو آگ لگ جائے تو یکدم شعلے آسمانوں تک پھیل جاتے ہیں لیکن جلد ہی وہ شعلے بیٹھ جاتے ہیں اور راکھ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جبکہ ایک مضبوط انگارہ دھکتا رہتا ہے اور اس کی چنگاریاں دیر تک راکھ میں بھی دبی رہتی ہیں یا اس طرح کہ وہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔ یکدم پھول جاتا ہے لیکن جلدی بیٹھ جاتا ہے اور پانی جو ایک حقیقت رکھتا ہے اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

ان الباطل کان زھوقا (71 : 18) ” بیشک باطل مٹنے ہی والا ہے “۔ کیونکہ باطل کے اندر باقی رہنے والے عناصر ہی نہیں ہوتے۔ بعض خارجی عوامل ہوتے ہیں جن سے وہ وقتی طور پر فائدہ لیتا ہے۔ اس کا وجود غیر طبیعی ہوتا ہے۔ جب یہ خارجی عوامل ختم ہوتے ہے اور یہ خارجی سہارے دور ہوتے ہیں یا کمزور پڑتے ہیں تو یہ دھڑام سے گرتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں تک حق اور سچائی کا تعلق ہے اس کی ذات کے اندر اس کے دوام کا سامان ہوتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ لوگوں کی خواہشات نفس سچائی کے خلاف ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ماحول سچائی کے خلاف ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات وقت کے اہل اقتدار سچائی کے خلاف ہوتے ہیں۔ لیکن حق کا ثبات اس کا سکون و اطمینان آخر کار اسے فتح سے ہمکنار کرتا ہے اور اس کے بقاء کا ضامن ہوتا ہے اس لئے کہ یہ حق اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کا نام ہی حق ہے اور اللہ چونکہ زندہ باقی اور لازوال ہے اس لئے سچائی اور حق بھی لازوال ہے۔

ان الباطل کان زھوقا (71 : 18) ” بیشک باطل مٹنے والا ہے “۔ اس کے پیچھے بعض اوقات بڑی قوت ہوتی ہے اور وقت کا اقتدار بھی اس کا حامی ہوتا ہے لیکن اللہ کا وعدہ سچا ہے ور اللہ کی قوت اور سلطنت اور اقتدار بزرگ و برتر ہے۔ جن اہل ایمان نے ایمان کا حقیقی ذائقہ چکھ لیا ہوتا ہے وہ اللہ کے وعدے کی مٹھاس اور اللہ کے اس وعدے کی سچائی کو محسوس کرتے ہیں۔ کون ہے جو اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا ہے اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ سچی بات کرنے والا ہے۔

اردو ترجمہ

ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wanunazzilu mina alqurani ma huwa shifaon warahmatun lilmumineena wala yazeedu alththalimeena illa khasaran

وتنزل من القران ما ھو شفاء ورحمۃ للمومنین (71 : 28) ” ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے “۔ یقینا قرآن میں شفاء ہے۔ یقینا قرآن میں رحمت الٰہی کے خزانے میں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں ایمان کی تازگی داخل ہوچکی ہو ، ان کے دل روشن ہوچکے ہوں اور وہ قبولیت حق کے لئے کھل گئے ہیں اور وہ روح قرآن کو اپنے اندر جذب کر رہے ہوں اور ان کے دلوں میں سکون اور سکینت اور طمانیت داخل ہوچکی ہو۔

قرآن کریم تمام وسوسوں ، تمام حیرانیوں ، اور تمام بےچینیوں کی دوا ہے ور اس میں ان روحانی بیماریوں کی شفاء ہے۔ یہ بندے کے دل کو اللہ سے جوڑتا ہے۔ یوں اسے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اسے یہ شعور ملتا ہے کہ وہ اللہ کی حمایت میں ہے اور حالت امن و سلامتی میں ہے۔ اس طرح وہ اللہ سے راضی ہو کر راضی رہتا ہے۔ زندگی خوشی سے گزارتا ہے اور زندگی کے جو حالات بھی ہوں ان میں راضی رہت ا ہے۔ بےچینی بھی ایک قسم کا مرض ہے ، حیرانی بھی ایک مرض ہے۔ وسوسہ بھی ایک بیماری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اہل ایمان کے لئے رحمت ہے۔

اسی طرح قرآن مجید ، ہوائے نفس ، گندگی ، لالچ ، حسد اور شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے مقابلے میں بھی شفاء ہے۔ یہ قلبی اور روحانی بیماریاں ہیں جن کے نتیجے میں دلی بیماریاں ضعف اور تکان پیدا ہوتی ہے۔ اور انسانی روح اور دل بوسیدہ ہو کر ٹوٹ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مومنین کے لئے شفاء و رحمت ہے۔

قرآن کریم میں شعور اور فکر کی بےلگامی کا بھی علاج ہے۔ عقل و فکر کے انتشار سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ قرآن انسان کو بےفائدہ کاموں میں اپنی جسم و عقل کی قوتوں کے خرچ کرنے سے روکتا ہے۔ اور مفید اور ترقی کے کاموں میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے لئے آزاد چھوڑتا ہے۔ وہ انسان کے لئے ایک صحت مند اور مضبوط منہاج زندگی تجویز کرتا ہے۔ انسانی سرگرمیاں فائدہ مند اور محفوظ ہوتی ہیں اور لغزشوں اور بےراہ رویوں سے قرآن انسان کو بچاتا ہے۔ جسمانی میدان میں بھی قرآن انسان کو اعتدال کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ حکم دیتا ہے ہے کہ اپنی قوتوں کو اعتدال کے ساتھ صحت مند میدانوں میں خرچ کرو ، نہ جسمانی قوتوں پر غیر ضروری پابندی ہے اور نہ ان کے استعمال میں بےراہ روی کی اجازت دی گئی ہے۔ لہٰذ اجسمانی قوت کی بھی حفاظت کی جاتی ہے ، تاکہ وہ صحت مند میدانوں میں صرف ہو۔ لہٰذا یہ اہل ایمان کے لئے ایک قسم کی رحمت ہے۔

پھر قرآن شریف میں ان اجتماعی بیماریاں کا بھی علاج ہے جن سے کسی سوسائٹی کے اجتماعی نظام میں خلل اور بیماری پیدا ہوتی ہے ، جن سے سوسائٹی کا امن اور سلامتی تباہ ہوجاتی ہے۔ اور افراد معاشرہ کے درمیان کوئی اطمینان نہیں رہتا۔ قرآن ہدایات پر عمل کے بعد اسلامی سوسائٹی اسلام کے اجتماعی عدل اور اجتماعی سلامتی اور امن کے زیر سایہ ، نہایت ہی اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے ، لہٰذا اس مفہوم میں بھی قرآن رحمت اور شفاء ہے۔

ولا یزید الظلمین الا خسارا (71 : 28) ” مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا “۔ کیونکہ ظالم اس نسخہ و شفاء سے استفادہ نہیں کرتے ، جو اس قرآن کے اندر موجود ہے۔ پھر ظالم یوں بھی خسارے میں ہوتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان قرا ان کے ریعہ سربلندی حاصل کرتے چلے جاتے ہیں ، وہ دل ہی دل میں کڑھتے ہیں اور ان کو زبردست غصہ آتا ہے ، مگر بےبس ہوتے ہیں اور جہاں ان کا بس چلتا ہے وہ وہاں ظلم و ستم کا ریکارڈ قائم کردیتے ہیں۔ پھر وہ دنیا میں مسلمانوں کے مقابلے میں مغلوب ہوجاتے ہیں لہٰذا وہ خسارے میں ہیں اور آخرت میں ان کے کفر کی وجہ سے ان کو عذاب ہوگا نیز وہ جن سرکشیوں میں غرق تھے اور ان پر اصرار کرتے تھے ان کی وجہ سے انہیں سخت سزا ہوگی۔ لہٰذا اس سے بڑا اور کیا خسارہ ان کو ہوسکتا ہے۔ اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ ظالموں کے لئے خسارے کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہ ہوگا۔

اور جب انسان اللہ کی رحمت اور شفاء سے محروم کردیا جائے اور جب اسے اس کی خواہشات نفس اور سفلی جذبات اور میلانات کے حوالے کردیا جائے۔ اگر وہ مالی لحاظ سے خوشحالی ہو تو وہ مغرور ، متکبر اور سرکش ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا ، اللہ کو یاد نہیں کرتا ، اور اگر اس پر کوئی مصیبت یا بدحالی آجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور قنوطی ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی تاریک ہی تاریک نظر آتی ہے۔

اردو ترجمہ

انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha anAAamna AAala alinsani aAArada wanaa bijanibihi waitha massahu alshsharru kana yaoosan

زیادہ دولت مندی انسان کو سرکش اور مغرور بنا دیت ہے۔ الایہ کہ کوئی دولت مند یہ یقین رکھتا ہو کہ اس دولت کا عطا کرنے والا اللہ ہے اور وہ اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہو۔ لیکن اگر بدحالی آجائے تو انسان مایوس ہوجاتا ہے اور اس پر قنوطیت چھا جاتی ہے۔ الایہ کہ کسی کا تعلق باللہ مضبوط ہو ، وہ امید کرتا ہے کہ اللہ اس کی مشکلات دور کردے گا تو ایسا شخص اللہ کے رحم و فضل سے مایوس نہیں ہوتا۔ وہ ہر وقت اللہ کے فضل و کرم کا امیداوار اور خوش اور شاکر رہتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی کیا اہمیت ہے۔ غرض مشکلات اور خوشحالی دونوں مین ایمان اللہ کی رحمت اور شفاء ہے۔

اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ہر فریق اپنی طرز زندگی پر جما ہوا ہے ، اب اپنی خواہشات و روایات کے مطابق ہر شخص چلتا ہے اور ہر شخص کے طرز عمل کے بارے میں فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ "ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul kullun yaAAmalu AAala shakilatihi farabbukum aAAlamu biman huwa ahda sabeelan

یہاں نہایت ہی نرم الفاط میں تنبیہ کی گئی ہے اور ہر شخص کا ڈرایا گیا ہے کہ وہ اپنے رحجان ، طرز عمل اور نظام زندگی کے بارے میں اچھی طرح غور کرلے ، احتیاط کرے اور یہ تسلی کرلے کہ اس کا طرز عمل ، نظام فکر اور نظام زندگی اسلامی ہدایات کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہے تو اسے اللہ کے راستے کی طرف لوٹ آنا چاہیے۔

بعض لوگ رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے تھے کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ لیکن قرآن کریم کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ہدایت دیتا ہے کہ جن کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ اور انسانی عقل اور قوت مدر کہ ان ہدایات یا ان موضوعات کو سمجھ سکے اور سہولت کے ساتھ اپنی گرفت میں لے سکے۔ لہٰذا اسلام اور قرا ان فکری قوت کو ان موضوعات پر ضائع نہیں کرتا جن کا انسان کو کوئی فائدہ نہیں ، کوئی ضرورت نہیں یا جن موضوعات پر عقل کو رسائی حاصل نہیں ہے جب ان لوگوں نے روح کے بارے میں پوچھا اللہ نے سیدھا سادا جواب دیا کہ روح امر الٰہی ہے اور اس سلسلے میں تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے ۔

اردو ترجمہ

یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہو "یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wayasaloonaka AAani alrroohi quli alrroohu min amri rabbee wama ooteetum mina alAAilmi illa qaleelan

اس آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ عقل انسانی پر روح کا انکشاف بند کردیا گیا ہے اور اسے روح کے میدان میں کام نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ یہاں عقل کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار اور اس حد تک محدود رہے جس تک وہ ادراک کرسکتا ہے ، کیونکہ بغیر حقیقی علم و ادراک کے بےتک باتیں کرنے سے حقیقت تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ پھر عقل کی قوت کو ایسے کام میں کھپانا جس کا ادراک عقل کے لئے ممکن ہی نہ ہو ، ایک بےمقصد کام ہے۔ روح در حقیقت اللہ کے غیوب میں سے ایک غیب ہ۔ اللہ کے سوا اس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہے۔ نہ اس کا ادراک کوئی کرسکتا ہے۔ اور نہ وہ وسائل انسان کو دئیے گئے ہیں بلکہ یہ ایک لاہوتی راز ہے ، جو اس بشری ڈھانچے میں رکھا گیا ہے ۔ اور بعض دوسری مخلوقات کو بھی دیا گیا ہے ، جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے۔ پھر انسان کا علم قادر مطلق کے علم کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز اس قدر گہرے ہیں کہ انسانی عقل کے دائرہ ادارک سے ماوراء ہیں۔ انسان اس کائنات کا مدبر نہیں ہے کیونکہ انسانی قوت اور طاقت اس کائنات پر حاوی نہیں ہے انسان کو تو صرف اس قدر قوت اور حکمت دی گئی ہے جس کے ساتھ وہ اس کرہ ارض پر خلافت فی الارض کا وظیفہ پورا کرسکے۔ اور یہاں وہ کام کرسکے جس کے بارے میں اللہ کی مرضی ہے کہ وہ کرے اور وہ اپنا کام اپنے محدود علم کے مطابق کرے۔

انسان نے اس کرہ ارض پر بیشمار ایجادات کی ہیں لیکن وہ آج تک روح کی حقیقت معلوم کرنے سے صاف عاجز ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ روح کیا ہے ؟ کس طرح یہ روح انسانی ڈھانچے میں ڈالی جاتی ہے۔ کس طرح یہ نکل جاتی ہے یہ پہلے کہاں تھی ، نکل کر کہاں جاتی ہے۔ الایہ کہ علیم وخبیر نے اس سلسلے میں بذریعہ وحی جو علم دیا ہے وہ انسان کا ماخذ علم ہے۔

قرآن کریم میں جو کچھ نازل ہوتا ہے وہ یقینی علم ہے کیونکہ وہ علیم وخبیر کے یقینی ذریعے سے آیا ہے ، اگر اللہ چاہتا تو انسانیت کو اس سے محروم رکھتا اور وہ پیغام ہی انسانوں کے پاس نہ بھیجتا جو اس نے بھیجا لیکن یہ اللہ کا رحم و کرم تھا کہ اس نے وحی الٰہی کے نزول کا سلسلہ شروع کیا۔

اردو ترجمہ

اور اے محمدؐ، ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تم کو عطا کیا ہے، پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ پاؤ گے جو اسے واپس دلا سکے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walain shina lanathhabanna biallathee awhayna ilayka thumma la tajidu laka bihi AAalayna wakeelan

اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ پر اپنا احسان جتلاتا ہے کہ اس نے ازراہ کرم تو پر وحی نازل کی۔ اور پھر قرآن کریم کو محفوظ رکھا۔ رسول اللہ سے زیادہ یہ احسان انسانوں پر ہے کیونکہ انسانیت پوری کی پوری اس قرآن کی بدولت رحمت اور ہدایت سے سرفراز ہے۔ اور نسلاً بعد نسل یہ سرچشمہ نور و ہدایت ضوفشاں ہے۔ جس طرح روح اللہ کے اسرار میں سے ہے اور کوئی انسان اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ، اس طرح یہ قرآن بھی اللہ کی معجزانہ صفت ہے اور کوئی انسان بلکہ تمام مخلوق بھی جمع ہوجائے تو اس کی نقل نہیں اتارسکتی۔ اور انس و جن و جو ظاہری اور خفیہ مخلوقات ہیں دونوں جمع ہو کر بھی اگر سعی کریں تو قرآن جیسی کتاب ان کے لئے لانا ممکن نہیں ہے۔ اگر چہ وہ ایک دوسرے کے سچے معاون کیوں نہ بن جائیں۔

290