اس صفحہ میں سورہ Al-Israa کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الإسراء کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 8 عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَااگر تم نے پہلے کی طرح ہماری نا فرمانیوں اور احکام شریعت سے اعراض کی روش اختیار کی تو ہم بھی اسی طرح پھر تمہیں سزا دیں گے۔ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًانافرمانیوں کی سزا دنیا میں تو ملے گی ہی جبکہ جہنم کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا۔ جس طرح جانوروں کو گھیر کر باڑے میں بند کردیا جاتا ہے اسی طرح آخرت میں اللہ کے نافرمانوں کو اکٹھا کر کے جہنم کے قید خانے میں دھکیل دیا جائے گا۔ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ !
آیت 9 اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ یاد رکھو ! اب راہ ہدایت وہی ہوگی جس کی نشان دہی یہ کتاب کرے گی جسے ہم اپنے آخری رسول پر نازل کر رہے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے قصر رحمت میں داخل ہونے کا ”شاہدرہ“ ایک ہی ہے اور وہ ہے یہ قرآن۔ اب اگر تم اللہ کے دامن رحمت میں پناہ لینا چاہتے ہو تو اس قرآن کے راستے سے ہو کر آؤ۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ کی رحمت کے دروازے ایک بار پھر تمہارے لیے کھل جائیں گے اور جو رفعتیں اور برکتیں اس آخری نبی کی امت کے لیے لکھی گئی ہیں تم بھی ان میں حصہ دار بن جاؤ گے۔
آیت 10 وَّاَنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًایہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جہاں کہیں بھی اعمال کی خرابی کی بات ہوتی ہے وہاں ایمان بالآخرت کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ اس رکوع کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ یہاں بنی اسرائیل کے عروج وزوال کے آئینے میں جو تصویر دکھائی گئی ہے اس میں ہمارے لیے ایک دعوت فکر ہے۔ الحمد للہ ! آج ہم امت محمد امت مسلمہ ہیں ‘ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک زمانے میں بنی اسرائیل بھی امت مسلمہ ہی تھے۔ وہ بحیثیت نسل آج بھی ایک قوم کے طور پر موجود ہیں مگر انہیں امت مسلمہ کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے۔ اب ان لوگوں کی حیثیت سابقہ امت مسلمہ کی ہے اور پچھلے دو ہزار برس سے یہ لوگ بہت زیادہ سختیوں کا شکار رہے ہیں۔ ہمیں ان کی قومی تاریخ کے نشیب و فراز کا جائزہ لے کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کون سے عوامل تھے اور ان کے عقائد و اعمال کی وہ کون سی خرابیاں تھیں جن کے باعث وہ لوگ اللہ کے ہاں مغضوب و معتوب ٹھہرے۔ یہاں دوسرا نکتہ یہ ذہن نشین کرنے کے لائق ہے کہ سابقہ اور موجودہ امتوں کے درمیان مقابلے کے لیے میدان تیزی سے تیار ہو رہا ہے اور یوں سمجھئے کہ دو پتنگیں اوپر چڑھ رہی ہیں ‘ جن کے درمیان پیچ پڑنے والا ہے۔ بنی اسرائیل اپنے انتہائی زوال کو پہنچنے کے بعد بحیثیت ایک قوم کے پچھلے ایک سو سال سے مادی لحاظ سے رو بہ ترقی ہیں۔ ان کی پتنگ 1917 ء میں بالفور Balfor ڈیکلریشن کی منظوری سے اوپر چڑھنا شروع ہوئی اور 1948 ء میں اسرائیل کی ریاست معرض وجود میں آگئی۔ 1966 ء میں اس کی مزید توسیع عمل میں آئی اور اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے گئے۔ عرب دنیا کا واحد ملک عراق تھا جس سے اسرائیل کو خطرہ ہوسکتا تھا ‘ اسے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس پورے خطے میں اب کوئی ایسا ملک نہیں جو اسرائیل کی طاقت کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو مسلم دنیا بھی اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھونے کے بعد اب بیداری کی طرف مائل ہے اور اس امت کے اندر نئی زندگی پیدا ہونے کا وقت قریب نظر آتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد 1924 ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ گویا ہمارے زوال کی انتہا تھی۔ اس کے بعد عالم اسلام میں آزادی کی تحریکیں چلیں اور متعدد مسلم ممالک یورپی اقوام کے تسلط سے آزاد ہوگئے۔ مزید برآں امت مسلمہ میں بہت سی احیائی تحریکیں اٹھیں مثلاً پاک و ہند میں جماعت اسلامی ‘ مصر میں الاخوان المسلمون ایران میں فدائی تحریک اور انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی وغیرہ ‘ اور اس طرح اس کی نشأۃِ ثانیہ کے عمل کا آغاز ہوگیا۔ چناچہ پچھلی صدی سے امت مسلمہ کی صفوں میں زوال اور احیائی عمل پہلو بہ پہلو چل رہے ہیں۔ جیسے سورة الرحمن میں متوازی چلنے والے دو دریاؤں کی مثال دی گئی ہے : مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ ”اس نے دو دریا رواں کیے جو آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرسکتے“۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سابقہ اور موجودہ امت مسلمہ کی صورت میں دو پتنگیں فضا میں تیر رہی ہیں اور ان کا آپس میں کسی وقت بھی پیچ پڑ سکتا ہے۔ یہ تمام تفصیلات ان لوگوں کے علم میں ہونی چاہئیں جو دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔ انہیں زمان و مکان کے اعتبار سے درست ادراک ہونا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ان کے دائیں بائیں کیا حالات ہیں ؟ ماضی میں کیا ہوتا رہا ہے ابھی سامنے کیا کچھ ہے اور مستقبل میں کیا امکانات ہیں ؟
آیت 11 وَيَدْعُ الْاِنْسَان بالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بالْخَيْرِ یعنی انسان اللہ سے دعا کر رہا ہوتا ہے کہ اے اللہ ! میرے لیے یوں کر دے یوں کر دے۔ حالانکہ اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ اپنے لیے مانگ رہا ہے وہ اس کے لیے مفید ہے یا مضر۔ اس طرح انسان اپنے لیے اکثر وہ کچھ مانگ لیتا ہے جو اس کے لیے الٹا نقصان دہ ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں فرمایا گیا ہے : عَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ”ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے شر ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“۔ چناچہ بہتر لائحہ عمل یہ ہے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے انسان اپنے معاملات اس کے حوالے کر دے کہ اے اللہ ! میرے معاملات تیرے سپرد ہیں کیونکہ میرے نفع و نقصان کو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے : سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را !دعائے استخارہ میں بھی ہمیں تفویض امر کا یہی انداز سکھایا گیا ہے :اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ‘ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ 1”اے اللہ ! میں تیرے علم کی بدولت تجھ سے خیر چاہتا ہوں اور تیری قدرت کی برکت سے طاقت مانگتا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے فضل عظیم کا ‘ بیشک تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے اور میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں تو سب کچھ جانتا ہے اور میں کچھ بھی نہیں جانتا اور تو ہر قسم کے غیب کو جاننے والا ہے۔“بہرحال انسان کا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرنے کے بجائے اپنی عقل اور سوچ پر انحصار کرتا ہے اور اس طرح اپنے لیے خیر کی جگہ شر کی دعائیں کرتا رہتا ہے۔وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًااپنی اس جلد بازی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ شر کو خیر اور خیر کو شر سمجھ بیٹھتا ہے۔
آیت 12 وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ دن کو روشن بنایا تاکہ اس کی روشنی میں تم لوگ آسانی سے کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرسکو۔وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا یہ دن اور رات کا الٹ پھیر ہی ہے جو نظام الاوقات کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور دنوں سے ہفتے مہینے اور پھر سال بنتے ہیں۔
آیت 13 وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ”طاءِر“ کا لفظ عربی میں عام طور پر شگون نحوست اور بد قسمتی کے لیے بولا جاتا ہے لیکن یہاں پر خوش بختی اور بد بختی دونوں ہی مراد ہیں۔ یعنی کسی انسان کا جو بھی مقسوم و مقدور ہے زندگی میں اچھا برا جو کچھ بھی اسے ملنا ہے جیسے بھی اچھے برے حالات اسے پیش آنے ہیں اس سب کچھ کے بارے میں اس کا جو کھاتہ ”اُمّ الکتاب“ میں موجود ہے اس کا حاصل اس کی گردن میں چپکا دیا گیا ہے۔ گردن میں چپکانے کے الفاظ کا استعمال محاورۃً بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کچھ مادی حقیقت بھی ہو۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی گردن میں کسی gland کی صورت میں واقعی کوئی مائیکرو کمپیوٹر نصب کر رکھا ہو۔ واللہ اعلم !وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًاان الفاظ سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اندر ہی کوئی ایسا سسٹم لگا دیا گیا ہے جس میں اس کے تمام اعمال و افعال ریکارڈ ہو رہے ہیں اور قیامت کے دن ایک chip کی شکل میں اسے اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس chip کے اندر اس کی زندگی کی ساری فلم موجود ہوگی ایک ایک حرکت جو اس نے کی ہوگی ایک ایک لفظ جو اس نے منہ سے نکالا ہوگا ایک ایک خیال جو اس کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا ایک ایک نیت جو اس کے دل میں پروان چڑھی ہوگی سب ڈیٹا پوری تفصیل کے ساتھ اس میں محفوظ ہوگا۔ روز قیامت اس chip کو کھول کر کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور کہا جائے گا :
آیت 14 اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًاتمہاری زندگی کی کتاب کا ایک ایک ورق اس قدر تفصیل سے تمہارے سامنے موجود ہے کہ تم خود ہی اپنا حساب کرسکتے ہو۔ تمہارا سارا debit/credit تمہارے سامنے ہے۔
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىروز قیامت ہر کسی کو اپنی بداعمالیوں کا بوجھ ذاتی طور پر خود ہی اٹھانا ہوگا۔ اس سلسلے میں کوئی کسی کی کچھ مدد نہیں کرسکے گا۔ سب اپنے اپنے اعمال کا انبار اپنے اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوں گے۔وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًایہ اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ کسی بھی قوم پر عذاب استیصال اس وقت تک نہیں بھیجا گیا جب تک کہ اس قوم کی ہدایت کے لیے اور حق و باطل کا فرق واضح کردینے کے لیے کوئی رسول مبعوث نہیں کردیا گیا۔ البتہ چھوٹے چھوٹے عذاب اس قانون سے مشروط نہیں۔ قرآن میں قوم نوح قوم ہود قوم صالح وغیرہ کی مثالیں بار بار بیان کی گئی ہیں جن سے اس اصول کی واضح نشاندہی ہوتی ہے کہ کسی قوم کو عذاب کے ذریعے اس وقت تک مکمل طور پر تباہ و برباد نہیں کیا جاتا جب تک اللہ کا مبعوث کردہ رسول اس قوم کے لیے حق کا حق ہونا بالکل واضح نہ کر دے اور اس سلسلے میں اس قوم پر اتمام حجت نہ ہوجائے۔ یہی مضمون سورة النساء آیت 165 میں اس طرح بیان ہوا ہے : رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ للنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ”اس نے بھیجے رسول خوشخبری دینے والے اور خبردار کرنے والے تاکہ نہ رہے لوگوں کے لیے اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت رسولوں کے بعد۔“
فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًایہاں کسی بستی پر عذاب استیصال کے نازل ہونے کا ایک اصول بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس کا سبب وہاں کے دولت مند اور خوشحال لوگ بنتے ہیں۔ یہ لوگ علی الاعلان اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دیدہ دلیری کے سبب ان کی رسی مزید دراز کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی عیاشیوں اور من مانیوں میں تمام حدیں پھلانگ کر پوری طرح عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں عوام انہیں ان کے کرتوتوں سے باز رکھنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ ایک وقت آتا ہے جب وہ بھی ان کے ساتھ جرائم میں شریک ہوجاتے ہیں اور یوں ایسا معاشرہ اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ایسے میں صرف وہی لوگ عذاب سے بچ پاتے ہیں جو نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہے ہوں۔