اس صفحہ میں سورہ Al-Hijr کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحجر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت نمبر 57 تا 60
یہاں سیاق کلام میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں فرشتوں سے اچھا خاصا تکرار کیا ، جیسا کہ سورة ہود میں بتایا گیا ہے بلکہ یہاں فرشتے پوری کی پوری بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتا دیتے ہیں کیونکہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) اور آل لوط پر رحمت خداوندی کی تصدیق کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاں ان کی بیوی کے بارے میں فیصلہ ذرا مختلف ہے ، وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے (غابرین یعنی پیچھے قوم کے ساتھ رہ جانے والوں سے ہوگئی اور اس کا انجام قوم کے ساتھ ہوا ۔ یہ لفظ غبرہ سے نکلا ہے ، جس کا اطلاق اس دودھ پر ہوتا ہے جو مویشی کو دونے کے بعد اس کے تھنوں میں رہ جاتا ہے ) چناچہ فرشتے قوم لوط کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔
آیت نمبر 61 تا 66
یہ فرشتے جلدی سے لوط (علیہ السلام) کو بتا دیتے ہیں کہ وہ فرشتے ہیں ، وہ اس کام کے لئے آگئے ہیں جس میں ان کی قوم شک میں مبتلا تھی ، یعنی یہ کہ بد اعمالیاں کر رہے ہیں اس پر ان کا کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ وہ اللہ کے عذاب کو بروئے کار لانے کے لئے آئے ہیں اور جب فرشتے آجاتے ہیں تو پھر اللہ کے عذاب کے نزول میں دیر نہیں ہوتی۔ وہ فوراً آتا ہے اس لیے یہاں بھی بات جلد ختم کی جا رہی ہے۔
قال انکم قوم منکرون (15 : 62) ” آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں “۔ یہ بات حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس لیے کہی کہ ان کو ان مہمانوں کے بارے میں پریشانی لاحق ہوگئی تھی ، وہ اپنی قوم کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ ان کو یقین تھا کہ یہ قوم ان کے مہمانوں کے ساتھ برا سلوک کرے گی۔ نیز یہ کہ وہ اپنی قوم میں کمزور ہیں اور لوگ طاقتور اور فساق و فجار ہیں ، یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ تم عجیب لوگ ہو کہ اس گاؤں میں آگئے ہو حالانکہ یہ لوگ جس فسق و فجور میں مبتلا ہیں اور تم جیسے لوگوں کے ساتھ وہ جو سلوک کرتے ہیں وہ معروف و مشہور ہے لیکن فرشتوں نے وضاحت کردی :
قالوا بل ۔۔۔۔ فیہ یمترون (63) واتینک ۔۔۔۔۔ لصدقون (64) (15 : 63- 64) ” انہوں نے جواب دیا نہیں بلکہ ہم وہی چیز لے کر آئے ہیں جس آنے کے میں یہ لوگ شک کر رہے تھے۔ ہم تم سے سچ کہتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ تمہارے پاس آئے ہیں۔ ان تاکیدان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس معاملے میں کس قدر بےبس ہوگئے تھے اور ان کی بےچینی کا عالم کیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ ایک طرف سے وہ اپنے مہمانوں کے حوالے سے ذمہ دار ہیں اور دوسری جانب وہ قوم کے مقابلے میں بےبس ہیں۔ چناچہ فرشتوں نے نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں ان کو تسلی دی اور ان کو فائنل ہدایات دینے سے قبل ان کو اچھی طرح مطمئن کردیا کہ اب ان لوگوں کا وقت ختم ہے۔
فاسر باھلک ۔۔۔۔۔۔ حیث تومرون (15 : 65) ” لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ تم میں سے کوئی بات پلٹ کر نہ دیکھے۔ بس سیدھے چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے “۔ سری ، رات کے سفر کو کہتے ہیں۔ رات کا قطعہ یعنی اس کا ایک حصہ ، حضرت لوط (علیہ السلام) کو حکم تھا کہ اپنے اہل و عیال کو لے کر رات کے وقت نکل جائیں ، صبح سے پہلے پہلے ، حضرت خود ان کے پیچھے پیچھے جائیں۔ ان میں سے کوئی تذبذب نہ کرے ، پیچھے نہ دیکھے یعنی اپنے علاقے کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ انسان جب اپنا محبوب علاقہ چھوڑتا ہے تو وہ نکلنے میں سست روی اختیار کرتا ہے۔ بار بار پیچھے دیکھتا ہے اور یہاں چونکہ صبح کے وقت ہی عذاب آنے والا تھا اور وقت مقرر تھا اس لیے ان کو بروقت نکلنے کی سخت تاکید کی گئی ۔
وقضینا الیہ۔۔۔۔۔ مصبحین (15 : 66) ” اور اسے ہم نے اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی “۔ یہ عظیم فیصلہ تھا اور پیغمبر کو قبل از وقت اس سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ صبح سے پہلے پہلے ان کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ جب ان کی جڑ کٹ گئی تو شاخیں خود بخود کٹ گئیں۔ یہ انداز تعبیر ایسا ہے کہ اس سے ان کا مکمل استیصال ظاہر ہوتا ہے ، لہٰذا اہل اسلام کو سختی سے ہدایت کی گئی کہ ان میں سے کوئی پیچھے نہ دیکھے۔ یہ نہ ہو کہ کفار کی طرح یہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آجائے۔ کیونکہ پیچھے رہنے والے عمومی عذاب سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
یہاں سیاق کلام میں اس انجام کو دوسرے واقعات سے قبل ہی پیش کردیا گیا کیونکہ سورة کے موضوع اور محل کا تقاضا ہی یہ تھا۔ اس کے بعد وہ واقعات دے دئیے جو مہمانوں کی آمد کے موقع پر پیش آئے۔
انہوں نے جب سنا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر چاند جیسے چہروں والے نوجوان لڑکے آئے ہوئے ہیں ، (بعض روایات میں آیا ہے کہ ان مہمانوں کے بارے میں اطلاع خود حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے ان اوباشوں کو دی تھی ) تو یہ لوگ بہت خوش ہوئے کہ خوب شکار ملا ہے۔
آیت نمبر 67
اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ فسق و فجور اور فحاشی وبے حیائی کی حدیں پار کر گئے تھے اور یہ قوم سب کی سب اخلاقی مریض تھی۔ یہ منظر کس قدر عجیب و شرمناک ہے کہ یہ لوگ گروہ در گروہ آرہے ہیں ، خوشیاں منا رہے ہیں اور اعلانیہ کہہ رہے کہ آج خوب شکار ہاتھ آیا ہے۔ ایک تو برائی اور بےراہ روی ہے ، دوسرے یہ کہ یہ اعلانیہ اور دیدہ دلیری سے کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی صحت مند انسانی معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایک فرد تو یہ رویہ کبھی کبھار اختیار کرسکتا ہے لیکن وہ بھی اپنی بیماری کو چھپاتا ہے۔ وہ یہ بےراہ لذت خفیہ طور پر حاصل کرسکتا ہے اور اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے شرمندگی سے بچا سکتا ہے ۔ لیکن ایک پورا معاشرہ اعلانیہ ایسا کرے اس لیے کہ اگر جنسی لذت سے کوئی سلیم الفطرت شخص جائز حدود کے اندر بھی لطف اندوز ہوتا ہے تو وہ بھی خفیہ طور پر ایسا کرتا ہے۔ بعض حیوانات بھی جنسی ملاپ کو چھپاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو دیکھو کہ یہ لوگ میلے ٹھیلے کی طرح اعلانیہ اس فحاشی کے لئے جا رہے ہیں ، اس کا اعلانیہ مطالبہ کرتے ہیں ، ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور اجتماعی شکل میں اس کام کے لئے آتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حالت ہے کہ انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔
ان حالات میں ، نہایت بےبسی کے حالات میں ، حضرت لوط (علیہ السلام) نہایت ہی کربناک اور اندوہناک حال پریشانی میں کھڑے ہیں ، وہ اپنے مہمانوں اور اپنی آبرو بچانے کی سعی کرتے ہیں ، وہ انہیں انسانی شرافت اور انسانی قدروں کا واسطہ دے رہے ہیں ، وہ ان کو خدا سے ڈراتے ہیں ، وہ اللہ کا واسطہ دے رہے ہیں ، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کے دل خدا خوفی سے عاری ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان لوگوں میں نہ آدمیت کا احساس ہے ، نہ انسانی شعور ہے ، اور نہ ان کے اندر خدا خوفی اور تقویٰ نام کی کوئی چیز ہے۔ لیکن وہ اس حالت پریشانی میں بھی بہرحال اپنی آخری کوشش کرتے ہیں اور انہیں انسانیت کا واسطہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو مہمان ہیں اور خدا سے ڈراتے ہیں کہ تمہارے جو ارادے ہیں وہ خدا کے حکم کے خلاف ہیں ، بہرحال وہ سعی کرتے ہیں۔
آیت نمبر 68 تا 69
حضرت لوط (علیہ السلام) کی یہ دلدوز اپیل ، بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میں انسانی جذبات کو ابھارے اور یہ کہ وہ شرم محسوس کریں ، اس کے جواب میں انہوں نے مزید دیدہ دلیری شروع کردی۔ انہوں نے خود حضرت لوط (علیہ السلام) کو ڈانٹ پلانا شروع کردی کہ وہ اس قسم کے لوگوں کو اپنا مہمان بناتے ہیں جو ہمارے کام کے ہیں۔ گویا مجرم وہ نہیں ہیں بلکہ اصل مجرم حضرت لوط (علیہ السلام) ہیں کہ وہ ان کے سامنے ایک ایسا شکار لاتے ہیں جس کے مقابلے میں وہ اپنے آپ پر کوئی ضبط نہیں کرسکے۔
آیت نمبر 70
لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو راہ فطرت سلیم بہرحال دکھاتے جا رہے ہیں۔ وہ ان کو متوجہ کرتے ہیں کہ خالق حیات کا انتظام کیا گیا ہے۔ بقائے نسل کے علاوہ یہ راہ دونوں جنسوں کے لئے مفید ، فرحت بخش اور باعث سکون بھی ہے ۔ قانون اور فطرت کے دائرے کے اندر۔ چناچہ حضرت انہیں راہ راست پر لانے کی یوں سعی فرماتے ہیں :