سورۃ الحشر (59): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hashr کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحشر کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحشر کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hashr
سُورَةُ الحَشۡرِ
صفحہ 546 (آیات 4 سے 9 تک)

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ ۖ وَمَن يُشَآقِّ ٱللَّهَ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَآئِمَةً عَلَىٰٓ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ ٱللَّهِ وَلِيُخْزِىَ ٱلْفَٰسِقِينَ وَمَآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْهُمْ فَمَآ أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُۥ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ كَىْ لَا يَكُونَ دُولَةًۢ بَيْنَ ٱلْأَغْنِيَآءِ مِنكُمْ ۚ وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ لِلْفُقَرَآءِ ٱلْمُهَٰجِرِينَ ٱلَّذِينَ أُخْرِجُوا۟ مِن دِيَٰرِهِمْ وَأَمْوَٰلِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًا وَيَنصُرُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلصَّٰدِقُونَ وَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلْإِيمَٰنَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِى صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ أُوتُوا۟ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
546

سورۃ الحشر کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحشر کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika biannahum shaqqoo Allaha warasoolahu waman yushaqqi Allaha fainna Allaha shadeedu alAAiqabi

ذلک ................ العقاب (95 : 4) ” یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا ، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کی سزا دینے میں بہت سخت ہے “۔ المشاقہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کی طرف اور اس کی سائیڈ لینے کی بجائے جانب مخالف میں چلے گئے ہیں۔ اللہ کی جانب یہ تھی کہ وہ رسول اللہ کی طرف ہوجاتے۔ کیونکہ یہی اللہ کی طرف تھی۔ آیت کے آخر میں یہ کہا کہ جو اللہ کے مقابلہ کرتا ہے تو اس میں ضمنار سول کا مقابلہ بھی آجاتا ہے۔ یہ عجیب اور مضحکہ خیز منظر ہے کہ کمزور بندے رب ذوالجلال کے مقابلے پر اتر آئیں اور اللہ کے مقابلے میں قلعہ بند ہوں۔ یہ نہایت ہی خوفناک منظر ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں میں کمزور مخلوق اللہ کے غضب کو دعوت دے۔ اللہ تو شدید غضب والا ہے۔

یہاں ایک اہم بات ہے بنی نضیر کے بارے میں۔

الذین ................ الکتب (95 : 2) ” وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے کافرہوتے ہیں “۔ اور اس سورت میں اس بار بار تکرار آئی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اللہ کے دین کا انکار کردیا ہے جو اللہ نے حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا تھا۔ یہودی حضرت محمد ﷺ کے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ یہاں ان کے لئے کفر کی صفت کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ یہی کفر ان کی اس سزا کا سبب تھا اور یہ بھی بتانا مقصود تھا کہ مسلمان ان کے خلاف جو ایکشن لے رہے ہیں اس کا اخلاقی جواز موجود ہے کہ یہ بھی دوسرے کافروں کی طرح کافر ہیں۔ اور اس وجہ سے ان پر عذاب آیا۔ لہٰذا۔

الذین .................... الکتب (95 : 2) کا فقرہ بہت ہی بامقصد ہے۔

اس کے بعد اہل ایمان کو بعض واقعات پر مطمئن کیا جاتا ہے ، کہ ایک تو یہ کفر کرنے والے تھے ، دوسرے یہ رسول اور اللہ سے دشمنی کرنے والے تھے ، اس لئے جنگی ایکشن کے دوران ان کے جو باغات کاٹے گئے یا جلائے گئے یا چھوڑے گئے ، تو اس کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا۔ اور یہودی اس سلسلے میں جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں مومنین کو اس سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔

اردو ترجمہ

تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا اور (اللہ نے یہ اذن اس لیے دیا) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma qataAAtum min leenatin aw taraktumooha qaimatan AAala osooliha fabiithni Allahi waliyukhziya alfasiqeena

لینہ (95 : 5) کھجور کے بہترین درختوں کو کہتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بہترین قسم تھے جسے سب جانتے تھے۔ مسلمانوں نے یہودیوں کے باغات میں سے بعض کو کاٹا تھا۔ بعض کو چھوڑدیا تھا۔ ان کے دلوں میں ایک خلجان تھا ، یعنی کاٹنے پر ، اور چھوڑنے پر۔ جبکہ اس سے قبل اور اس کے بعد مسلمانوں کے لئے جنگی ضابطہ یہی رہا کہ تحریق اور بربادی سے گریز کیا جائے۔ اس لئے اس واقعہ میں جو کچھ ہوا اس کی استثنائی حالت کے لئے یہ آیت آئی تاکہ مسلمانوں کے دل مطمئن ہوجائیں۔ آیت نے کہہ دیا کہ اگر باغات جلانے کو تم نے چھوڑا ہے اور اس سے اجتناب کیا ہے تو یہ بھی اللہ کا اذن تھا اور اگر کاٹ کر جلایا ہے تو یہ بھی اذن الٰہی تھا۔ کیونکہ اس مہم کی نگرانی اللہ براہ راست کررہا تھا۔ اس لئے اللہ نے مسلمان لشکروں سے ایسا کروایا۔ ان کے ہاتھوں تعذیر کو ظاہر کیا۔ لہٰذا یہ سب کاروائیاں اس کی مرضی سے ہوئیں۔ ان سے اللہ ان فاسقوں کو ذلیل کرنا چاہتا تھا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیارے باغات گر رہے تھے اور جل رہے تھے اور جو چھوڑے گئے تھے وہ بھی ان کے لئے باعث حسرت تھے کہ چھوڑ کر جارہے تھے۔ اللہ کی منشا تھی کہ دونوں طرح ان کو حسرت سے دو چار کرے۔

جن مومنین کے دل میں خلجان تھا کہ یہ تخریب وتحریق کیوں ہوئی ، ان کو اطمینان ہوا ، ان کو تسلی ہوگئی کہ یہ تو اللہ کی منشا تھی۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ تو دست قدرت کے آلات محض تھے۔

اس سورة کا یہ دوسرا پیراگراف بھی ایک نہایت ہی اہم مسئلے کو لیتا ہے کہ اس واقعہ میں جو اموال ہاتھ لگے اور حضور کی طرف پلٹے یا ایسے ہی واقعات بعد کے زمانے میں پیش آئیں تو ان کا حکم کیا ہے۔ یعنی وہ اموال جو جنگ اور قتال کے بغیر ہاتھ آجائیں۔ یا ایسے واقعات جن میں قدرت الٰہیہ نے مسلمانوں کے لئے اموال فراہم کیے۔ اور مسلمانوں نے اس میں کوئی زیادہ جنگی کاروائی نہ کی ہو۔

اردو ترجمہ

اور جو مال اللہ نے اُن کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama afaa Allahu AAala rasoolihi minhum fama awjaftum AAalayhi min khaylin wala rikabin walakinna Allaha yusallitu rusulahu AAala man yashao waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

وما افاء اللہ .................................... رحیم (01) (95 : 6 تا 01)

” اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (نیز وہ مال) ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیں (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (اور وہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ” اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لئے کوئی بغض نہ رکھ ، ہمارے رب ، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ “

ان آیات میں فے کا حکم بیان ہوا یا فے جیسے دوسرے اموال کا۔ نیز ان آیات میں امت مسلمہ اور اسلامی سوسائٹی کی ایک نہایت ہی اہم صفت اور اس کی دائمی حالت کو بیان کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کی امتیازی صفت رہی ہے اور امت کی پوری تاریخ میں اس کی امتیازی شان رہی ہے۔ یہ امت کی وہ خصوصیت رہی ہے جس کو اس نے مضبوطی سے پکڑے رکھا ہے۔ کسی دور میں بھی خدا کے فضل سے امت سے یہ صفت جدا نہیں ہوئی ہے۔ یہ صفت امت مسلمہ کی کسی نسل ، کسی قوم ، کسی شخص مسلم سے ایک طویل اسلامی تاریخ میں کبھی جدا نہیں ہوئی ہے۔ پھر اس دنیا میں جن جن علاقوں میں مسلمان ہیں ان میں سے کسی علاقے میں بھی مسلمانوں سے یہ صفت الگ نہیں ہوئی ہے اور یہ وہ عظیم حقیقت ہے اور اس پر گہرا غور کرنا چاہیے۔

وما آفاء ........................ شیء قدیر (95 : 6) ” اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں ، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے ، تسلط عطا فرما دیتا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔

اوجفتم (95 : 6) ایجاف سے ہے۔ ایجاف کے معنی ہیں گھوڑے کو تیزی سے دوڑانا۔ رکاب کے معنی اونٹ کے ہیں۔ مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ بنو نضیر نے اپنے پیچھے جو مال چھوڑے ہیں انہوں نے اس پر گھوڑے نہیں دوڑائے اور نہ اونٹوں پر تیز سفر کرکے انہوں نے اسے حاصل کیا ہے۔ لہٰذا ان اموال کا حکم مال غنیمت کا نہیں ہے۔ مال غنیمت میں تو مجاہدین کا 5/4 حصہ ہوتا ہے اور 5/1 حصہ اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا ہوتا ہے۔ جب کہ جنگ بدر کے اموال عنائم کے بارے میں اللہ نے فیصلہ کیا۔ اس فے کا حکم یہ ہے کہ یہ سب کا سب اللہ رسول اللہ ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کا ہے۔ اور اس میں تصرف حضور اکرم ﷺ کریں گے اور آیت میں جن رشتہ داروں کا ذکر ہے ، ان سے مراد رسول اللہ کے قرابت دار ہیں۔ اس لئے کہ صدقات ان کے لئے جائز نہ تھے اور زکوٰة میں ان کا حصہ نہ تھا اور نبی ﷺ کی کوئی دولت نہ تھی جسے ورثاء پالیتے اور ان میں فقراء بھی تھے ، جن کی کوئی آمدن نہ تھی۔ اس لئے ان کے لئے عنائم کے خمس میں حصہ رکھا گیا تھا جیسا کہ فے اور فے کی قسم کے اموال میں ان کا حصہ رکھا گیا تھا۔ رہے دوسرے لوگ تو ان کے احکام معروف ومعلوم ہیں اور یہ فنڈز حضور اکرم ﷺ کے تصرف خاص میں تھے۔

یہ تو تھا فے کا حکم جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان آیات میں اس حکم اور ان حالات پر اکتفا نہیں کیا گیا جن میں یہ حکم جاری ہوا بلکہ یہاں ایک دوسری حقیقت کا بھی اظہار کردیا گیا ہے۔

ولکن اللہ .................... من یشاء (95 : 6) ” بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط عطا کرتا ہے “۔ لہٰذا یہ اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ ہے۔ جس کا ظہور ہوگیا۔

واللہ ........................ قدیر (95 : 6) ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “۔

یوں رسولوں کا معاملہ تقدیر الٰہی کا اظہار قرار پاتا ہے اور اللہ کی تقدیر کے چکروں میں رسولوں کا مقام بھی متعین کیا جاتا ہے کہ رسولوں کا ظہور اور غلبہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہوتی۔ دست قدرت یہ کام کرتا ہے۔ اگرچہ رسول بشر ہیں لیکن وہ اللہ کے ساتھ براہ راست مربوط ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اپنے نظام قضاوقدر کا ظہور کرتا ہے اور رسول جو کام کرتے ہیں وہ اذن الٰہی سے کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ مقدر ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق حرکت بھی نہیں کرتے۔ وہ کوئی کام اپنی مرضی یا اپنے مفادات سے نہیں کرتے۔ وہ جنگ ، جہاد یا امن ، مصالحت یا مخاصمت صرف اللہ کے حکم سے کرتے ہیں اور وہ اللہ کی تقدیر کا ظہور ہوتا ہے اور اللہ کی تقدیر ان کے تصرفات اور ان کی حرکات سے ظاہر ہوتی ہے۔ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ اللہ کا فعل ہوتا ہے اور اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔

اردو ترجمہ

جو کچھ بھی اللہ اِن بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ma afaa Allahu AAala rasoolihi min ahli alqura falillahi walilrrasooli walithee alqurba waalyatama waalmasakeeni waibni alssabeeli kay la yakoona doolatan bayna alaghniyai minkum wama atakumu alrrasoolu fakhuthoohu wama nahakum AAanhu faintahoo waittaqoo Allaha inna Allaha shadeedu alAAiqabi

ما افاء اللہ .................... العقاب (95 : 7) ” جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ بستیوں کے لوگوں سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے “۔

یہ آیت اس حکم کو بتارہی جس کا ذکر ہم نے پہلے کردیا ہے۔ اس حکم کی علت بیان کرتے ہوئے اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ دراصل اسلام کے نظام اقتصادی کا ایک عظیم اصول ہے۔

کئی لا یکون ........................ منکم (95 : 7) ” تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان میں گردش نہ کرتا رہے “۔ اور اس کی علت کے بیان میں سالام کے دستوری نظام کا ایک دوسرا اعلیٰ ترین اصول بیان کردیا۔

وما اتکم .................... فانتھوا (95 : 7) ” جو کچھ رسول تمہیں دے ، وہ لے لو ، اور جس چیز سے وہ تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ “۔ اگرچہ یہ دو اصول فے کی تقسیم کے ضمن میں وارد ہیں لیکن اسلام کے اقتصادی نظام اور اسلام کے دستوری نظام میں یہ بہت اہم اصول ہیں اور ان دونوں ہی پر دراصل اسلام کا اقتصادی اور دستوری نظام قائم ہے۔

پہلا قاعدہ اسلام کا اقتصادی اصل الاصول ہے اور اسلام کے اقتصادی نظریات اس پر مبنی ہیں۔ اسلام انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن انفرادی ملکیت پر یہ ایک پابندی اور چیک ہے۔ یعنی اسلام انفرادی ملکیت کو اس قدر وسیع آزادی نہیں دیتا کہ کچھ محدود مالدار لوگ ہی دراصل تمام دولت اور مفادات کو اپنی طرف سرمایہ کے زور سے کھینچ لیں۔ اور مال چند چوٹی کے لوگوں کے درمیان گردش کرے۔ اس لئے ہر وہ صورت حال جس کے اندر دولت صرف امراء کے درمیان گردش کرتی وہ اسلام کے نظریہ اقتصاد کے خلاف ہے۔ اور یہ اجتماعی عدل کے بھی خلاف ہے۔ اسلامی سوسائٹی کے اندر اجتماعی اور معاشی روابط اس طرح تشکیل پاتے ہیں کہ اس میں دولت چند محدود لوگوں ہی کے اندر گردش نہیں کرتی۔

اسلام نے اپنا اقتصادی نظام ان اصولوں کی بنیاد پر قائم کیا۔ اس نے زکوٰة فرض کی ، یہ اڑھائی فیصد اصل سرمایہ اور منافع دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ اور 011 یا 021 تمام زرعی پیداواروں پر عائد ہوتا ہے۔ اسی طرح مویشیوں میں اور ان خزانوں میں جو زمین سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ شرح دراصل بہت ہی بڑی شرح ہے۔ پھر مجاہدین کے لئے 54 حصہ رکھا ہے خواہ فقیر ہوں یا غنی ہوں ، جبکہ فے صرف فقراء کے لئے رکھا ہے۔ اسی طرح اسلام نے زمین کی پیداوار کے اندر مالک اور مضارع کو شریک قرار دیا ہے اور امام کو یہ اختیار دیا کہ وہ لوگوں کی ضرورت سے زائد اموال ان سے لے کر فقراء میں تقسیم کردے۔ اور اگر بیت المال کو ضرورت ہو تو لوگوں کے اموال میں بیت المال کا حصہ مقرر کردے۔ پھر اسلام نے ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ، ربا کو حرام قرار دیا اور ربا اور ذخیرہ اندوزی دونوں ہی اصل ذرائع ارتکاز دولت ہیں۔ غرض اسلام کا اقتصادی نظام اسی عظیم قاعدے پر قائم ہے کہ دولت چند اغنیاء کے اندر ہی گردش نہ کرے بلکہ تمام فقراء تک اس کا پھیلاؤ ہو۔ اور یہ قاعدہ انفرادی ملکیت پر حاوی ہے۔

اس طرح اسلام انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہے۔ نہ سرمایہ دارانہ نظام اسلامی نظام سے ماخوذ ہے کیونکہ رہا اور ذخیرہ اندوزی کے سوا کوئی سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہوتا۔ اسلامی نظام ایک خاص نظام ہے جو اللہ علیم وخبیر کی طرف سے ہے۔ یہ الگ پیدا ہوا ، الگ چلا ، اور آج بھی وہ تمام دوسرے اقتصادی نظاموں سے الگ تھلگ ہے۔ یہ ایک منفرد ، متوازن ، عادلانہ اور تمام حقوق وواجبات کا خیال رکھنے والا نظام ہے۔ اور یہ نظام اس کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ اس لئے کہ اس کائنات کا خالق اللہ ہے ، انسان کا خالق اللہ ہے اور اس اقتصادی نظام کا خالق بھی اللہ ہے۔

دوسرا اصول اسلام کے دستوری نظام کا ہے کہ شریعت کا ماخذ خدا اور رسول اور قرآن اور سنت ہیں۔

وما اتکم .................... فانتھوا (95 : 7) ” جو کچھ رسول تمہیں دے ، وہ لے لو ، اور جس چیز سے وہ تمہیں روکے اس سے رک جاؤ “۔ اسلامی دستور اور قوانین کا یہ اصل الاصول ہے۔ اسلام کا قانونی نظام اس سے لیا گیا ہے کہ شریعت من جانب اللہ ہے اور اللہ کی جانب سے رسول لے کر آیا ہے۔ اور یہ قرآن اور سنت سے عبارت ہے۔ پوری امت مسلمہ معہ امام وقت مل کر بھی ان تعلیمات کی خلاف ورزی کے مجاز نہیں جو قرآن وسنت میں ہیں۔ اگر کوئی خلاف قرآن اور سنت قانون بنائے گا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی کیونکہ اس قسم کا قانون اپنے پہلے جواز ہی کو کھو بیٹھتا ہے ۔ یہ نظریہ تمام انسانی ودساتیر اور قانون سازی کے نظریات سے یکسر مختلف ہے۔ کیونکہ ان نظریات کے مطابق قوم قانون سازی کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ یوں کہ کوئی قوم جو قانون چاہے ، اپنے لئے بنا سکتی ہے۔ اور جو قوم جو چاہے دستور و قانون بنا دے۔ لہٰذا اسلامی دستور نظام اقتدار کا سرچشمہ قرآن وسنت ہیں۔ جن کو رسول اللہ ﷺ نے پیش فرمایا ہے۔ امام امت کا نائب ہے۔ نہ امام اور نہ قوم رسول اللہ کی لائی ہوئی شریعت محمدی کی مخالفت کے مجاز ہیں۔

اب اگر کوئی مسئلہ قرآن وسنت میں نہ ہو تو اسے قرآن وسنت کے دوسرے اصولوں کی روشنی میں یوں حل کیا جائے گا کہ اس سے قرآن وسنت میں موجود کسی اصول کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ یہ اصول شریعت کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک شرعی اصول ہے۔ لہٰذا ہر صورت میں سرچشمہ قانون قرآن اور سنت ہیں۔ اور دوسرے قوانین وقواعد اسی وقت معتبر ہوں گے جب وہ قرآن اور سنت کے کسی مسلمہ قاعدے کے خلاف نہ ہوں۔ امت کا اقتدار اس قاعدے کے اندر محدود ہے۔ یاد رہے کہ امام امت بھی اسی قاعدے کا پابند ہے۔ یہ ایک منفرد نظام قانون ہے اور کسی انسانی سوسائٹی کے ہاں اس قسم کا کوئی قانون نظام نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں قانونی نظام بھی نظام کائنات کی طرح ایک فطری نظام ہوتا ہے۔ جس طرح کائنات کے لئے اللہ نے نظام فطرت وضع کیا ہے۔ اسی طرح انسانوں کے لئے اللہ نے نظام شریعت وضع کیا ہے تاکہ انسان کا بنایا ہوا قانون نظام فطرت سے ٹکرانہ جائے اور جو قانون بھی آج تک انسانوں کے بنائے ہیں وہ نظام فطرت سے ٹکرائے ہیں۔

ان دونوں اصولوں کو اس آیت میں اللہ سے مربوط کیا گیا ہے اور لوگوں کو دعوت دی ہے کہ ان اطاعت میں وہ اللہ سے ڈریں۔

واتقو ................ العقاب (95 : 7) ” اللہ سے ڈرو ، اللہ سخت سزا دینے والا ہے “۔ یہ وہ بڑی ضمانت ہے جو اسلامی قانون کو حاصل ہے ، اس لئے اسے توڑنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا۔ نہ اس سے بھاگنے کی کوئی گنجائش ہے۔ کیونکہ مومنین کو علم ہے کہ اللہ تو دیکھتا ہے۔ اعمال سے خبردار ہے۔ تمام لوگوں کو اسی طرف لوٹنا ہے ، اور اگر خلاف ورزی کی گئی تو وہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ مال کو پھیلانا ہے اور اسے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہیں دینا ہے۔ اور شریعت کے جو احکام خدا اور رسول نے دیئے ہیں انہوں نے انہیں لینا ہے اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے منع ہونا ہے اور اس سلسلے میں کوئی سستی اور کوئی تسابل نہیں کرنا ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کے سامنے جانا ہے۔

اب رسول اللہ نے اس فے کو مہاجرین میں تقسیم کیا اور صرف دو غریب انصاریوں کو اس میں شریک فرمایا۔ یہ ایک خاص اقدام تھا اور اس کا مقصد یہی تھا کہ دولت صرف دولت مندوں میں جمع نہ ہوجائے۔

کئی لا یکون .................... منکم (95 : 7) ” تاکہ وہ مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے “۔ حکم تو عام تھا کہ وہ فقراء کے لئے ہے خواہ مہاجر ہوں یا انصار یا بعد میں آنے والے ہوں ، چناچہ اگلی آیات میں اس پر بات ہوتی ہے۔

قرآن کریم احکام محض ایک خشک ایکٹ کی طرح بیان نہیں کرتا۔ وہ اسے زندہ اور عام بیان کے انداز میں دیتا ہے۔ وہ ایک زندہ حکم ہوتا ہے زندہ انسانوں پر نافذ ہوتا ہے اور حکم کے اندر ہی اس کے اخلاقی پہلو اور اسباب بھی دیئے جاتے ہیں۔

اردو ترجمہ

(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lilfuqarai almuhajireena allatheena okhrijoo min diyarihim waamwalihim yabtaghoona fadlan mina Allahi waridwanan wayansuroona Allaha warasoolahu olaika humu alssadiqoona

للفقرائ ........................ الصدقون (95 : 8) ” ان غریب مہاجرین کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمربستہ رہتے ہیں۔ یہی راست باز لوگ ہیں “۔

یہ ایک ایسی تصویر ہے جس میں مہاجرین کے خدوخال اچھی طرح ثبت کردیئے گئے ہیں وہ اپنے گھروں اور مال سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ ان کی مشرکین کی اذیت اور ان کی سختی نیز رشتہ داروں اور اہل خاندان کی طرف سے سرد مہری کی وجہ سے گھر بار چھوڑنا پڑا اور ان کا کوئی قصور اس کے سوا نہ تھا کہ وہ کلمہ طیبہ کے قائل تھے اور صرف اللہ کو رب جانتے تھے۔

یبتغون .................... ورضوانا (95 : 8) ” یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں “۔ ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے۔ صرف اس کے بھروسہ پر جی رہے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ اس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود وہ حضور ﷺ کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں۔

وینصرون ................ ورسولہ (95 : 8) ” اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ ہیں “۔ اپنے دلوں کے ساتھ ، اپنی تلواروں کے ساتھ۔ اور پھر نہایت ہی مشکل حالات میں انہوں نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔

اولئک ھم الصدقون (95 : 8) ” یہی راست باز لوگ ہیں “۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے کلمہ ایمان ادا کیا اور پھر اپے عمل سے اس کی تصدیق کی۔ وہ اللہ کے ساتھ سچے تھے کہ انہوں نے اللہ کو اختیار کیا۔ رسول اللہ کے ساتھ سچے تھے کہ انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اور سچائی کے ساتھ بھی مخلص تھے کیونکہ ان کی صورت میں سیچائی چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔

اردو ترجمہ

(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دیدیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena tabawwaoo alddara waaleemana min qablihim yuhibboona man hajara ilayhim wala yajidoona fee sudoorihim hajatan mimma ootoo wayuthiroona AAala anfusihim walaw kana bihim khasasatun waman yooqa shuhha nafsihi faolaika humu almuflihoona

والذین ........................ المفلحون (95 : 9) ” جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں “۔

یہ ہے انصار کی ایک خوبصورت تصویر جس کے اندر ان کے اہم خدوخال نہایت ہی نمایا کرکے دکھائے گئے ہیں یہ مجموعہ صفات اگر عملاً مدینہ میں واقع نہ ہوا تھا اور عملاً اپنے انتہاؤں تک نہ گیا ہوتا تو لوگ اسے افسانہ سمجھتے اور لوگ کہتے یہ بہترین تخیل ہے۔

والذین ................ من قبلھم (95 : 9) ” جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے “۔ یعنی مدینة الرسول (ﷺ) ۔ میں یہ انصار تھے جو ایمان لاکر یہاں مقیم تھے۔ اسی طرح انہوں نے ایمان کو بھی یہاں مقیم کردیا تھا۔ گویا مدینہ منزل ایمان ویقین تھا۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت اشارتی تعبیر ہے۔ انصار نے ایمان کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا یہ اس کی بہترین تصویر ہے۔ یہ ایمان کا گھر تھا ، یہ ایمان کا وطن تھا ، یہاں مومنین کے دل اٹکے ہوئے تھے اور یہاں ان کے قلوب اور روح کو سکون ملتا تھا۔ یہاں لوٹ کر وہ مطمئن ہوتے تھے جس طرح ایک شخص گھر آکر مطمئن ہوتا ہے لہٰذا مدینہ دار الایمان تھا۔

یحبون .................... اوتوا (95 : 9) ” یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے “۔ تاریخ انسانی میں کوئی ایسا اجتماعی واقعہ نہیں ہے کہ کسی قوم نے مہاجرین کا اس طرح استقبال کیا ہو جس طرح انصار نے مدینہ میں مہاجرین کا کیا۔ نہایت محبت ، ایثار ، سخاوت ، مروت کے ساتھ۔ انہوں نے ان کو اپنے مال میں شریک کیا۔ مکانوں میں ٹھہرایا اور ان کی تمام ذمہ داریاں قبول کیں۔ روایات میں آتا ہے کہ کوئی مہاجر کسی انصاری کے گھر بذریعہ نامزدگی نہیں ٹھہرا بلکہ ہر شخص پر قرعہ اندازی ہوئی۔ کیونکہ جب کوئی مہاجر آتا تو کئی لوگ آجاتے کہ ہمارے ہاں ٹھہرے گا۔

ونا یجدون ................ اوتوا (95 : 9) ” جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے “۔ یعنی جن صورتوں کے اندر مہاجرین کو زیادہ دیا گیا۔ یہاں فے سب کا سب ان کے لئے مخصوص کردیا گیا تو اس کی وجہ سے وہ اپنے دلوں میں حاجت محسوس نہیں کرتے۔ یہاں تنگی یا حسد کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس سے ان کے دلوں کی پاکیزگی کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے دلوں کے اندر کوئی ضرورت ، حاجت یا کوئی چیز بھی وہ نہیں محسوس کرتے۔

ویوثرون ................ خصاصة (95 : 9) ” اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں “۔ دل کی تنگی ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ یہ ہر بھلائی کے دروازے کو بند کردیتی ہے کیونکہ کسی نہ کسی صورت میں مالی تاوان کا مطالبہ کرتی ہے۔ جذبات کو دبانے کا مطالبہ کرتی ہے اور محنت صرف کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور بعض اوقات بھلائی کے راستے میں جان تک دینے کا مطالبہ ہوا کرتا ہے۔ کوئی بخیل کبھی نیکی کا کام نہیں کرسکتا ، وہ تو ہر وقت لینے کی فکر میں ہوتا ہے۔ دنیا کچھ بھی نہیں ہے اور جو شخص دل کی تنگی سے بچ گیا ، اس کے سامنے سے گویا ایک بڑی رکاوٹ دور کردی گئی اور وہ نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے ہوئے۔ دادودہش کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

546