اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 234 وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًاج قبل ازیں آیت 228 میں مطلقہ عورت کی عدت تین حیض بیان ہوئی ہے۔ یہاں بیوہ عورتوں کی ‘ عدت بیان کی جا رہی ہے کہ وہ شوہر کی وفات کے چار ماہ دس دن بعد تک اپنے آپ کو شادی سے روکے رکھیں۔فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ بالْمَعْرُوْفِ ط عدت گزار چکنے کے بعد وہ آزاد ہیں ‘ جہاں مناسب سمجھیں نکاح کرسکتی ہیں۔ اب تم انہیں روکنا چاہو کہ ہماری ناک کٹ جائے گی ‘ یہ بیوہ ہو کر صبر سے بیٹھ نہیں سکی ‘ اس سے رہا نہیں گیا ‘ اس طرح کی باتیں بالکل غلط ہیں ‘ اب تمہارا کوئی اختیار نہیں کہ تم انہیں روکو۔
آیت 235 وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَآءِ اَوْ اَکْنَنْتُمْ فِیْ اَنْفُسِکُمْ ط کسی عورت کا عدت کے دوران نکاح تو نہیں ہوسکتا ‘ نہ ہی اسے واضح طور پر پیغام نکاح دیا جاسکتا ہے ‘ البتہ اشارے کنائے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مجھے اس میں دلچسپی ہے۔ یا پھر یہ بات اپنے دل ہی میں پوشیدہ رکھی جائے اور عدت ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ آخر تمہیں ان کا خیال تو آئے گا کہ یہ عورت بیوہ ہوگئی ہے ‘ اب میں اس سے شادی کرسکتا ہوں۔ کوئی آدمی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ جو میرے دل میں بیوہ کے بارے میں خیال آ رہا ہے اور اس سے نکاح کی رغبت پیدا ہو رہی ہے تو شاید میں گناہگار ہوگیا ہوں۔ یہاں اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ایسے خیال کا آنا گناہ نہیں ہے ‘ یہ قانون فطرت ہے۔ وَلٰکِنْ لاَّ تُوَاعِدُوْہُنَّ سِرًّا ایسا نہ ہو کہ خفیہ ہی خفیہ نکاح کی بات پکیّ ہوجائے۔اِلَّا اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ط۔ بس کوئی ایسی معروف بات کہہ سکتے ہو جس سے انہیں اشارہ مل جائے۔وَلاَ تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ ط۔ یعنی اللہ کی مقرر کردہ عدت جب تک پوری نہ ہوجائے۔ یہاں کتاب سے مراد قانون شریعت ہے۔ کتاب اللہ میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر کردی گئی ‘ اس کا پورا ہونا ضروری ہے ‘ اس سے پہلے نکاح نہیں ہوسکتا۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ ج ۔ اس کی پکڑ سے بچنے کی کوشش کرو۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۔ اللہ غفور ہے ‘ بخشنے والا ہے ‘ کوئی خطا ہوگئی ہے تو استغفار کرو ‘ تو بہ کرو ‘ اللہ معاف فرمائے گا۔ اور وہ حلیم ہے ‘ تحمل کرنے والا ہے ‘ فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ ڈھیل دیتا ہے ‘ مہلت دیتا ہے کہ اگر چاہو تو تم توبہ کرلو۔
آیت 236 لاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنُّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً ج۔ اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو اس حال میں طلاق دینا چاہے کہ نہ تو اس کے ساتھ خلوت صحیحہ کی نوبت آئی ہو اور نہ ہی اس کے لیے مہر مقرر کیا گیا ہو تو وہ دے سکتا ہے۔ وَّمَتِّعُوْہُنَّ ج۔ اس صورت میں اگرچہ مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہے ‘ لیکن مرد کو چاہیے کہ وہ اسے کچھ نہ کچھ مال و متاع دنیوی کپڑے وغیرہ دے دلا کر فارغ کرے۔عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ج۔ جو وسعت والا ہے ‘ غنی ہے ‘ جس کو کشائش حاصل ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے اور جو تنگ دست ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق۔مَتَاعًام بالْمَعْرُوْفِ ج۔ یہ ساز و سامان دنیا جو ہے یہ بھی بھلے انداز میں دیا جائے ‘ ایسا نہ ہو کہ جیسے خیرات دی جارہی ہو۔ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ۔ نیکی کرنے والے ‘ بھلے لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمہ داریّ ہے۔
آیت 237 وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اس صورت میں مقرر شدہ مہر کا آدھا تو تمہیں دینا ہی دینا ہے۔اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ یعنی کوئی عورت خود کہے کہ مجھے آدھا بھی نہیں چاہیے یا کوئی کہے کہ مجھے چوتھائی دے دیجیے۔اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ط۔ اور یہ گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ اسے کھول سکتا ہے۔ عورت از خود طلاق دے نہیں سکتی۔ لہٰذا مردوں کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اس معاملے میں فراخ دلی سے کام لیں۔وَاَنْ تَعْفُوْآ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ط وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اس کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے : اور تمہارے درمیان ایک کو دوسرے پر جو فضیلت ہے اس کو مت بھولو۔ یعنی اللہ نے جو فضیلت تم مردوں کو عورتوں پر دی ہے اس کو مت بھولو۔ چناچہ تمہارا طرز عمل بھی ایسا ہونا چاہیے کہ تم اپنے بڑے ہونے کے حساب سے ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کو زیادہ دو۔ تم نے ان کا جتنا بھی مہر مقرر کیا تھا وہ نصف کے بجائے پورا دے دو اور انہیں معروف طریقے سے عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کرو۔