سورۃ الاحزاب (33): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Ahzaab کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأحزاب کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الاحزاب کے بارے میں معلومات

Surah Al-Ahzaab
سُورَةُ الأَحۡزَابِ
صفحہ 424 (آیات 44 سے 50 تک)

تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُۥ سَلَٰمٌ ۚ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذْنِهِۦ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا وَبَشِّرِ ٱلْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ ٱللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا وَلَا تُطِعِ ٱلْكَٰفِرِينَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَدَعْ أَذَىٰهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِيلًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا نَكَحْتُمُ ٱلْمُؤْمِنَٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِنَّآ أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَٰجَكَ ٱلَّٰتِىٓ ءَاتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّٰتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَٰلَٰتِكَ ٱلَّٰتِى هَاجَرْنَ مَعَكَ وَٱمْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِىِّ إِنْ أَرَادَ ٱلنَّبِىُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِىٓ أَزْوَٰجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
424

سورۃ الاحزاب کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الاحزاب کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tahiyyatuhum yawma yalqawnahu salamun waaAAadda lahum ajran kareeman

آیت 44 { تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌج وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا } ”جس دن وہ اس سے ملیں گے تو ان کی دعا ”سلام“ ہوگی ‘ اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لیے بہت با عزت اجر۔“

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu inna arsalnaka shahidan wamubashshiran wanatheeran

آیت 45 { یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا } ”اے نبی ﷺ ! یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔“ اس آیت کے الفاظ نبوت اور رسالت کے درمیان ربط وتعلق کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ نبوت اور رسالت کے تعلق یا فرق کو کسی شخص کے کسی محکمے کے لیے منتخب ہونے اور پھر اس محکمے کے اندر کسی مخصوص منصب پر اس کے ”تقرر“ کی مثال سے سمجھنا چاہیے۔ مثلاً جو لوگ مقابلے کے امتحان میں کامیاب قرار پاتے ہیں وہ سی ایس پی کیڈر cadre کے لیے منتخب ہوجاتے ہیں۔ لیکن محض اس کیڈر میں منتخب ہوجانے سے ان میں سے کسی کو نہ تو کوئی اختیار ملتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن جب ان میں سے کسی کا کسی منصب یا عہدے پر تقرر کردیا جاتا ہے ‘ مثلاً کسی جگہ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے تعینات کردیا جاتا ہے ‘ تو اس منصب کے اختیارات بھی اسے حاصل ہوجاتے ہیں اور اس سے متعلقہ ذمہ داریاں بھی اس کے کندھوں پر آجاتی ہیں۔ اس مثال کے حوالے سے یوں سمجھئے کہ نبوت ایک ”کیڈر“ ہے ‘ جبکہ رسالت ایک خصوصی ”تقرر“۔ یعنی نسل ِانسانی میں سے جو لوگ نبوت کے لیے منتخب ہوئے وہ سب انبیاء قرار پائے۔ لیکن جب ان میں سے کسی نبی کو کسی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تو انہیں رسالت مل گئی اور اس ”تقرر“ کے بعد وہ رسول بن گئے۔ اسی اصول کے تحت حضور ﷺ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور پہلی وحی کے ساتھ ہوا ‘ جبکہ آپ ﷺ کی رسالت کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ ﷺ کو باقاعدہ تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پہلی وحی ان آیات پر مشتمل تھی : { اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۔ ”پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پید ا کیا۔ اس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھئے اور آپ ﷺ کا رب بہت کریم ہے۔ وہ ذات جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے۔ اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا۔“ ان پانچ آیات کے اندر نہ تو آپ ﷺ کو تبلیغ کا کوئی حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس لیے بجا طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ اس وحی کے ذریعے صرف آپ ﷺ کی نبوت کا ظہور ہوا تھا ‘ جبکہ آپ ﷺ کی رسالت کا آغاز اس وحی سے ہوا : { یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ المدثر ”اے چادر میں لپٹنے والے ! اٹھئے اور خبردار کیجیے ‘ اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے“۔ ان آیات میں گویا آپ ﷺ کو لوگوں تک پیغام پہنچانے کا واضح حکم دے کر باقاعدہ ”رسالت“ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ چناچہ زیر مطالعہ آیت میں حضور ﷺ کو ”نبی“ کی حیثیت سے مخاطب کر کے منصب ِرسالت عطا کرنے کے ذکر یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ سے جہاں نبوت اور رسالت کا فرق واضح ہوجاتا ہے وہاں اس نکتے کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ پہلے آپ ﷺ کو نبوت عطا ہوئی اور بعد میں رسالت۔ آیت میں رسالت کے حوالے سے حضور ﷺ کی جن تین ذمہ داریوں شہادت علی الناس ‘ تبشیر اور انذار کا ذکر کیا گیا ہے ان کی وضاحت قرآن کی بہت سی دوسری آیات میں بھی ملتی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت 143 میں آپ ﷺ کی ”شہادت“ کی ذمہ داری کے حوالے سے یوں فرمایا گیا : { وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط } ”اور اے مسلمانو ! اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت ِوسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہو“۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ مضمون ان ہی الفاظ میں آیا ہے ‘ البتہ الفاظ کی ترتیب ذرا مختلف ہے : { لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ } ”تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔“ اسی طرح تبشیر اور انذار کے حوالے سے بھی قرآن میں بہت سی آیات آئی ہیں ‘ صیغہ واحد میں بھی اور جمع کے صیغہ میں بھی۔

اردو ترجمہ

اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WadaAAiyan ila Allahi biithnihi wasirajan muneeran

آیت 46 { وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا } ”اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔“ یہاں پر بِـاِذْنِہٖ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے ”مامور من اللہ“ ہو کر آتا ہے۔ ویسے تو اللہ کا جو بندہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے وہ داعی الی اللہ ہے ‘ لیکن ایک عام داعی اور ایک رسول کی دعوت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق اس مثال سے سمجھئے کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنا ہر شہری کا فرض ہے۔ یہ گویا اصول شہریت ہے اور عام طور پر گلی محلے میں ایک دوسرے کو اس کی تلقین بھی کی جاتی ہے ‘ اجتماعی طور پر بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ماحول صاف رہے اور آلودگی نہ پھیلے ‘ اور اس کوشش کے اثرات معاشرے کے اندر کسی نہ کسی حد تک نظر بھی آتے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کا مقابلہ یا موازنہ اس محکمے کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جسے حکومت کی طرف سے خصوصی اختیارات کے ساتھ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہو ‘ اس محکمے کے چھوٹے بڑے کارندے اسی کام پر مامور ہوں اور اسی کام کی تنخواہ لیتے ہوں۔ اسی طرح سے ملک کے دفاع کی مثال لی جاسکتی ہے۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق خود کو دفاعِ وطن کے لیے تیار رکھے ‘ لیکن اس فرض کی ادائیگی کے لیے جب باقاعدہ ایک فوج تیار کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ چناچہ اس پہلو سے زیر مطالعہ آیت میں بِاِذْنِہٖ کے لفظ سے رسالت کے فرضِ منصبی کی اہمیت کو خصوصی طور پر اجاگر کیا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ کوئی عام داعی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کام کے لیے خصوصی طور پر مامور کر کے بھیجا ہے۔

اردو ترجمہ

بشارت دے دو اُن لوگوں کو جو (تم پر) ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wabashshiri almumineena bianna lahum mina Allahi fadlan kabeeran

آیت 47 { وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ فَضْلًا کَبِیْرًا } ”اور آپ ﷺ اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔“

اردو ترجمہ

اور ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tutiAAi alkafireena waalmunafiqeena wadaAA athahum watawakkal AAala Allahi wakafa biAllahi wakeelan

آیت 48 { وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ اَذٰٹہُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ } ”اور آپ ﷺ ان کافروں اور منافقوں کی باتوں کا دھیان نہ کریں اور ان کی ایذا رسانی کو نظر انداز کردیں اور اللہ پر توکل ّکریں۔“ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا } ”اور اللہ کافی ہے آپ ﷺ کے لیے مددگار کے طور پر۔“ یہ لوگ جو چاہیں منصوبے بنا لیں اور جس قدر چاہیں آپ ﷺ کے خلاف کوششیں کرلیں ‘ یہ آپ ﷺ کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے۔

اردو ترجمہ

اَے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo itha nakahtumu almuminati thumma tallaqtumoohunna min qabli an tamassoohunna fama lakum AAalayhinna min AAiddatin taAAtaddoonaha famattiAAoohunna wasarrihoohunna sarahan jameelan

آیت 49 { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ } ”اے اہل ایمان ! جب تم مومن خواتین سے نکاح کرو ‘ پھر انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ انہیں چھوئو“ اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیات 236 اور 237 میں قبل از خلوت طلاق کی صورت میں مہر سے متعلق ہدایات ہم پڑھ چکے ہیں۔ مذکورہ آیات کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مہر مقرر نہ ہوا ہو اور خلوت سے قبل ہی شوہر اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے تو ایسی صورت میں وہ اسے کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔ اور اگر مہر مقرر ہوچکا ہو اور قبل از خلوت طلاق کی نوبت آجائے تو اس صورت میں مرد کے لیے آدھے مہر کی ادائیگی لازمی ہوگی۔ اب اس آیت میں قبل از خلوت طلاق کی صورت میں عدت ّکے مسئلے کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ { فَمَا لَـکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا } ”تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کی تم انہیں گنتی پوری کرائو۔“ عدت کا مقصد تو یہ ہے کہ سابق شوہر سے حمل کے ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق ہوجائے۔ چناچہ جب خلوت ِصحیحہ کی نوبت ہی نہیں آئی اور حمل ہونے کا کوئی امکان ہی پیدا نہیں ہوا تو عدت کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ { فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا } ”پس انہیں کچھ دے دلا کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دو۔“

اردو ترجمہ

اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں، اور تمہاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیؐ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبیؐ اسے نکاح میں لینا چاہے یہ رعایت خالصۃً تمہارے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں (تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha alnnabiyyu inna ahlalna laka azwajaka allatee atayta ojoorahunna wama malakat yameenuka mimma afaa Allahu AAalayka wabanati AAammika wabanati AAammatika wabanati khalika wabanati khalatika allatee hajarna maAAaka waimraatan muminatan in wahabat nafsaha lilnnabiyyi in arada alnnabiyyu an yastankihaha khalisatan laka min dooni almumineena qad AAalimna ma faradna AAalayhim fee azwajihim wama malakat aymanuhum likayla yakoona AAalayka harajun wakana Allahu ghafooran raheeman

آیت 50 { یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ } ”اے نبی ﷺ ! ہم نے آپ کے لیے حلال ٹھہرایا ہے آپ کی ان تمام ازواج کو جن کے مہر آپ نے ادا کیے ہیں“ { وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلَیْکَ } ”اور ان کو بھی جو آپ ﷺ کی ملک یمین باندیاں ہیں ‘ ان سے جو اللہ نے آپ ﷺ کو بطور ’ فے ‘ عطا کیں“ جیسے مصر کے فرمانروا مقوقس نے حضرت ماریہ قبطیہ علیہ السلام کو آپ ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ { وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ } ”اسی طرح آپ ﷺ کو نکاح کرنا جائز ہے اپنے چچا کی بیٹیوں سے اور اپنی پھوپھیوں کی بیٹیوں سے ‘ اور اپنی ماموئوں کی بیٹیوں اور اپنی خالائوں کی بیٹیوں سے“ { الّٰتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ } ”جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔“ { وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ } ”اور وہ مومن عورت بھی جو ہبہ کرے اپنا آپ نبی ﷺ کے لیے“ { اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا } ”اگر نبی ﷺ اسے اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔“ یعنی وہ مسلمان خاتون جو مہر کا تقاضا کیے بغیر خود کو آپ ﷺ کی زوجیت کے لیے پیش کرے اور آپ ﷺ اسے قبول فرمائیں۔ { خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ } ”یہ رعایت خالص آپ ﷺ کے لیے ہے ‘ مومنین سے علیحدہ۔“ اس سلسلے میں نبی مکرم ﷺ کو عام قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔ { قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ } ”ہمیں خوب معلوم ہے جو ہم نے ان عام مسلمانوں پر ان کی بیویوں اور ان کی باندیوں کے ضمن میں فرض کیا ہے“ ایک عام مسلمان ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح باندیوں کے بارے میں بھی ان پر طے شدہ قواعد و ضوابط کی پابندی لازم ہے۔ { لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ”تاکہ آپ ﷺ پر کوئی تنگی نہ رہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ اس موضوع کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ حضور ﷺ کے متعدد نکاح کرنے میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کا عمل دخل تھا۔ مثلاً حضرت عائشہ رض اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں اور اس کے بعد آپ رض ایک طویل مدت تک خواتین اُِمت کے لیے ایک معلمہ کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ نے بہت سے ایسے نکاح بھی کیے جن کی وجہ سے متعلقہ قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئے اور اس طرح اسلامی حکومت اور ریاست کو تقویت ملی۔ یہ مصلحتیں اس بات کی متقاضی تھیں کہ حضور ﷺ کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے ‘ تاکہ جو عظیم کام آپ ﷺ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپ جتنے نکاح کرنا چاہیں کرلیں۔

424