اس صفحہ میں سورہ Al-Ahzaab کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الأحزاب کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
ینساء النبی لستن ۔۔۔۔۔ ان اللہ کان لطیفا خبیرا (32 – 34)
۔ جب اسلام آیا تو اس وقت عربی معاشرے میں ، تمام دوسرے جاہلی معاشروں کی طرح حالت یہ تھی کہ عورت کو سامان تعیش سمجھا جاتا تھا اور فقط شہوات وانی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی نقطہ نظر سے اسے ایک گری ہوئی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ نیز عربی معاشرے میں جنسی اعتبار سے بھی بڑی بےقاعدگی اور افراتفری پائی جاتی تھی اور نظام خاندانی میں ثبات نہ تھا جس طرح اس سورة میں ہم نے تفصیلات دی ہیں۔
پھر جاہلیت کے زمانے میں عورت کی صنف کی طرف نہایت گری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور ذوق جمال بھی نہایت گرا ہوا تھا۔ ننگے اجسام کی طرف زیادہ توجہ تھی اور اعلیٰ اور پاکیزہ ذوق جمال مفقود تھا۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار کے اندر یہ خصوصیات اچھی طرح نظر آتی ہیں جو عورت کے جسم خصوصا عورتوں کے اندامہائے نہانی کے بارے میں تھیں اور پھر نہایت ہی عریاں افعال اور معانی سے متعلق اشعار سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
جب اسلام آیا تو اس نے عورت کو معاشرے میں ایک باعزت مقام دیا اور مرد اور عورت کے درمیان تعلق کے معاملے میں انسانی پہلو کو زیادہ اہمیت دی۔ کیونکہ مرد اور عورت کا تعلق محض جسمانی بھوک کو فرو کرنے ہی کا تعلق نہیں ہوتا اور نہ خون اور گوشت کے جوش کو ٹھنڈا کرنا مطلوب ہوتا ہے بلکہ مرد اور عورت کا تعلق دراصل دو انسانی شخصیات کا اتصال ہے جن کو نفس واحد سے پیدا کیا گیا ہے اور ان کے درمیان محبت اور شفقت پیدا کی گئی ہے۔ ان کے ملاپ کی وجہ سے دونوں کو راحت اور سکون ملتا ہے اور دونوں کے ملاپ کا ایک ہدف مقرر ہے اور اس وقت سے مقرر ہے جب سے اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ پھر اس کا مقصد زمین کی آبادی ہے۔ اس میں انسان نے سنن الہیہ کے مطابق جو فرائض ادا کرنے ہیں ، ان کا ادا کرنا ہے۔
اسلام نے خاندانی تعلقات کو لیا اور خاندانی تعلقات کو اس طرح منظم کیا کہ اسلام کی اجتماعی تنظیم کے لیے اسے اساس بنایا اور پھر خاندان کو ایک ایسی نرسری قرار دیا جس کے اندر آیندہ نسلوں کے لیے پودے تیار ہوتے ہیں اور اس نرسری کی نشوونما اور ارتقا اور تربیت کے لیے تمام ضروریات فراہم کیں اور اسے بچانے ، پاک و صاف رکھنے کے انتطامات کیے ، خصوصاً نئی نسل کے شعور اور خیالات کو پاک و صاف رکھنے کے لیے۔
اسلام کے نظام قانون میں خاندانی نظام کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ قانون سازی کی گئی ہے اور قرآن کریم کی کئی آیات اس کے لیے مخصوص ہیں۔ قانونی اقدامات کے علاوہ بھی اسلام کے نظام اجتماعی کے اس ابتدائی یونٹ کو محفوظ کرنے کے لئے اسلام نے مسلسل ہدایات دی ہیں ، خصوصاً اس یونٹ کی روحانی تطہیر کے لیے اور اس میں دو اصناف کے جنسی تعلق کے زوایہ سے ، اس تعلق کو عریانی ، بےراہ روی سے پاک کیا گیا اور محض جسمانی ملاپ کے لیے بھی سخت ہدایات دی گئیں۔
اس سورة میں بھی اجتماعی تنظیم اور خاندانی نظام کی پختگی کے لیے آیات کا ایک بڑا حصہ وقف ہے۔ آیات زیر بحث میں نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کو خطاب ہے۔ ان کا نبی ﷺ کے ساتھ تعلق ، ان کا لوگوں کے ساتھ تعلق ، ان کا اللہ کے ساتھ تعلق ، اور ان کے بارے میں اللہ کے ارادے کا ذکر کیا گیا ہے۔
انما یرید اللہ لذھب ۔۔۔۔۔ ویطھرکم تطھیرا (33: 33) (اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے “۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہی کہ وہ کون سے وسائل ہیں جن کے ذریعہ اللہ نبی ﷺ کے اہل بیت کو پاک کرنا چاہتے ہیں اور اہل بیت کیلئے ان کو لازمی قرار دیتے ہیں جبکہ ازواج مطہرات نبی ﷺ کی بیویاں ہیں اور وہ اس زمین کی تمام عورتوں سے زیادہ پاک ہیں۔ ظاہر ہے کہ تمام دوسری عورتیں ان وسائل اور ان اقدامات کی بہت زیادہ محتاج ہیں۔ کیونکہ اگر ازواج مطہرات کو ان وسائل کی ضرورت تھی جو نبی ﷺ کے گھر میں رہتی تھیں تو دوسری بیویوں کو ان کے بدرجہ اتم ضرورت ہے۔
پہلا وسیلہ یہ ہے کہ ازواج مطہرات کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ تم نہایت ہی اونچے مرتبہ اور منصب اور مقام پر فائز ہوچکی ہو۔ تم تمام نساء عالم سے بلند مرتبہ ہو ، لہٰذا سب سے پہلے تم اپنے اس مقام بلند کا خیال رکھو اور اس کے تقاضے پورے کرو۔
ینسآء النبی لستن کا حد من النکآء ان اتقیتن (33: 32) ” نبی ﷺ کی بیویو ، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو “۔ اگر تم خدا کا خوف کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہ رہو گی۔ تم تو ایسے مقام پر بیٹھی ہو جو قابل رشک ہے اس میں تمہارے ساتھ عام عورتیں شریک نہیں ہیں ، اور نہ تم اس میں کسی کو شریک کرتی ہو۔ لیکن یہ امتیاز تمہیں تقویٰ سے حاصل ہوگا کیونکہ محض نبی ﷺ کے ساتھ قرابت داری کچھ چیز بھی نہیں ہے بلکہ تقویٰ کے ساتھ اس قرابت داری کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے خود اپنے نفوس کے اندر۔
یہ وہ دو ٹوک سچائی ہے جس کے اوپر یہ دین قائم ہے۔ اس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اپنے رشتہ داروں کے سامنے کردیا کہ لوگو ، تمہیں رسول اللہ ﷺ کی رشتہ داری کہیں دھوکہ میں نہ ڈالے۔ کیونکہ رسول خدا ﷺ تمہارے معاملے میں کچھ اختیارات نہیں رکھتے۔ ” اے فاطمہ بنت محمد ! اے صفیہ بنت عبد المطلب ! اے اولاد عبد المطلب ! میں تمہارے حق میں اللہ کے ہاں کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ جہاں تک میرے مال کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں تم جو چاہتے ہو ، مجھ سے مانگ لو “۔ (مسلم) دوسری روایت میں ہے ” اے اہل قریش ، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔ اے اولاد بنی کعب اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، اے فاطمہ بنت محمد ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ! خدا کی قسم میں اللہ کے ہاں تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ ہاں میرے ساتھ تمہاری قرابت ہے اور اس کا حق میں ادا کرتا رہوں گا “۔ (مسلم ترمذی)
جب ان کو ان کی منزلت اور مقام سے آگاہ کردیا گیا کہ اس مقام تک وہ صرف تقویٰ سے پہنچ سکتی ہیں تو اب اللہ تعالیٰ وہ ذرائع بیان فرماتے ہیں جن کے ذریعہ اللہ اہل بیت نبی کو مکمل طور پر پاک و صاف کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مکمل تطہیر پیش نظر ہے۔
فلا تحضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض (33: 32) “ تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی شخص لالچ میں نہ پڑجائے “۔ اللہ ازواج مطہرات کو پہلا حکم یہ دیتے ہیں کہ جب ان کو غیر محرم لوگوں سے بات کرنا پڑے تو ان کی زبان میں وہ لچک نہیں ہونا چاہئے کہ جو نرم اور دبی زبان میں بات کریں تو سننے والے کے لیے شہوت انگیزی کا باعث ہو۔ کیونکہ بالعموم نرم باتوں سے مردوں کو اشتہا پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کے اندر تحریک ہوتی ہے اور بیمار دل اور کمزور اخلاق کے لوگ برے خیالات دلوں میں لاسکتے ہیں۔
ذرا یہاں غور کریں کہ وہ کون خواتین ہیں جن کو اللہ یہاں ڈرا رہا ہے۔ یہ ازواج مطہرات ہیں۔ امہات المومنین ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ کوئی طمع کرسکتا ہے اور نہ کسی بیمار کی بیماری کا اثر ان پر پڑ سکتا ہے۔ بظاہر انسان یہی سوچ سکتا ہے۔ پھر یہ تنبیہ کس دور میں ہے ؟ نبی ﷺ کے دور میں ، ان ممتاز اور برگزیدہ صحابہ کرم کے دور میں جن کے معیار کے لوگ نہ پہلے گزرے اور نہ بعد میں ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس خدا نے مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا وہ تو جانتا تھا کہ عورت اگر دبی اور نرم زبان میں نازو انداز سے بات کرے تو لوگوں کے دلوں میں غلط خیالات پیدا کرسکتی ہے اور دلوں میں فتنہ پیدا ہوسکتا ہے۔ خصوصاً وہ دل جو پہلے سے مریض ہوں وہ تو فوراً اشتعال میں آسکتے ہیں اور یہ مریض دل ہر دور اور عہد میں موجود ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور ایسے مریض ہر عورت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں چاہے وہ نبی آخر الزمان کی زوجہ محترمہ ہو امہات المومنین میں سے ہو۔ کوئی ماحول اس وقت تک پاک اور صاف نہیں ہوسکتا جب تک گندگی کے اسباب کا سدباب نہ کیا جائے۔
اور ہم آج جس معاشرے میں رہتے ہیں ، اس کا حال کیا ہے ؟ یہ معاشرہ پہلے سے مریض ، ناپاک اور گرا ہوا ہے جس میں قدم قدم پر فتنے ہیں۔ ہر طرف شہوت انگیزیاں ہیں ، خواہشات پھڑ پھڑاتی پھرتی ہیں۔ اس ماحول میں ہمیں کیا کرنا چاہئے جس میں ہر طرف سے شہوت کو اٹھایا جاتا ہے ، جگایا جاتا ہے ، اور جنس کو گرم سے گرم تر کیا جاتا ہے۔ اس معاشرے اور اس زمانے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہمارا دور جس میں عورتوں کا لہجہ نہایت لوچ دار ، جن کی آواز نہایت ہی مائع ، نسوانیت کے تمام فتنے مجتمع کیے ہوئے ، جنسی کشش کے تمام فتنے پیدا کیے ہوئے ، نہایت ہی خوش الحافی اور فتنہ سامانی کے ساتھ ہر جگہ حاضر۔ ایسی عورتیں کہاں پاک ہیں اور پاکی کی فضا کہاں ہے۔ یہ تو اپنی حرکات ، اپنی آواز اور اپنی عریانی کے ذریعہ ان تمام گندگیوں میں ملوث ہیں جن سے اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو پاک کرنا چاہتے ہیں اور جس سے اللہ اپنے مختار بندوں کو پاک کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں عریانی اور اختلاط کس قدر خطرناک ہے !
وقلن قولا معروفا (33: 32) ” بلکہ صاف سیدھی بات کرو “۔ پہلے ان کو نرم اور لوچدار آواز سے منع کیا گیا اور اب یہاں کہا گیا کہ وہ سیدھی سادی بات کریں معروف طریقے کے مطابق۔ جس طرح عام طور پر ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ ان باتوں میں کوئی منکر بات نہ ہو۔ بعض اوقات نرم لہجے سے زیادہ موضوع گفتگو بھی بےراہ روی پر آمادہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا کسی اجنبی مرد اور عورت کے درمیان لب و لہجے کا اشارہ بھی نہ ہو۔ نہ ان کے درمیان گپ شپ ہو ، نہ مزاح اور غیر سنجیدہ گفتگو ہو ، تاکہ اس کے نتیجے میں کچھ دوسرے امور کی طرف میلان نہ ہو ، اور قریباً یا بعید ! لوگ غلط راستوں پر نہ پڑجائیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور اپنی مخلوق کے مزاج اور طبیعت کے بارے میں بہت ہی اچھا جانتا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو امہات المومنین کو یوں مخاطب کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے دور کے اجنبی لوگوں کے ساتھ اس انداز میں گفتگو کریں جبکہ وہ خیر القرون تھا۔
وقرن فی بیوتکن (33: 33) ” اور اپنے گھروں میں وقار سے رہو “۔ قرن ، وقریقر سے ہے معنی ہیں بھاری ہوا ، اپنی جگہ پر ٹھہر گیا۔ اس کے لغوی معنی یہ نہیں کہ گھروں کے اندر بندر ہیں اور گھروں سے باہر ہی نہ نکلیں۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے اس طرح کی عورت کی اصل جگہ اسکا گھر ہے۔ یہ ان کا مقر ہے اور اس کے سوا وہ اگر کہیں پائی جائیں تو وہ عارضی حالت ہوگی اور استثنائی صورت ہوگی۔ اس پر وہ قائم و دائم نہیں رہیں گی۔ باہر محض ضرورت سے نکلنا ہوگا۔
بیت اور گھر عورت کا وہ مستقر اور جائے آرام ہے جو اللہ نے اس کے لیے ازروئے تخلیق و فطرت پسند فرمایا ہے۔ جس میں وہ اپنی فطرت سے منحرف نہیں رہتی ، غلط کاریوں میں ملوث نہیں ہوتی اور جہاں وہ ان مشقت آمیز فرائض میں نہیں جتی ہوتی ازروئے فطرت اس کے لیے تیار نہیں کیے۔ جہاں وہ اس کام میں لگی ہوتی ہے جس کے لیے دراصل اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ ” اس لیے کہ اسلام گھر کے لیے ایک مخصوص فضا مہیا کر دے اور تاکہ بچوں کی پرورش اس فضا میں خوب سے خوب تر ہو سکے۔ اللہ نے مرد پر بیوی کا نفقہ لازم کیا ، اور اسے لازمی قرار دیا تاکہ ماں کو معاشی جدوجہد نہ کرنا پڑے اور اسے محنت و مزدوری میں وقت نہ لگانا پڑے ، وہ پوری طرح مطمئن ہو کر بچوں کی تربیت کرسکے اور گھر کے نظام اور سخاوت اور خوشی کو دوبالا کرسکے۔ وہ عورت جو محنت کرکے تھکی ہاری ہوئی ہوتی ہے ، جسے اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں اور جس کے اوقات اور مصروفیات بیرون خا نہ ہوں اور اس کی قوتیں وہاں خرچ ہوتی ہوں ، اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ گھر کو خوشیاں دے سکے۔ اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ ناتواں بچوں کی پوری تربیت کرسکے۔ جو عورتیں ملازمت کرتی ہیں ، ان کے گھر ، ہوٹل اور بیکریوں سے زیادہ کوئی مقام نہیں رکھتے۔ ان کے اندر وہ کشش نہیں ہوتی جو گھر میں ہوتی ہے۔ حقیقی گھر تو وہ ہوتا ہے جس کی تخلیق ایک گھریلو عورت کرتی ہے اور گھر کی کشش بھی وہی ہوتی ہے جس کا منبع ایک اچھی بیوی ہو۔ گھر کی محبت کا سرچشمہ ماں ہوتی ہے۔ وہ بیوی ، وہ ماں یا وہ عورت جو اپنا وقت ملازمت میں گزارتی ہے وہ گھر کو تنگی اور حزن و ملال کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتی “۔ (اسلام اور عالمی سلامتی)
” عورت کا گھر سے نکلنا کسی گھرانے کے لئے بہت ہی بڑا حادثہ ہوتا ہے اور کبھی کبھار اس کی حقیقی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن اگر کسی کو ضرورت نہ ہو تو اس صورت میں یہ عقل و خرد کے لیے ایک لعنت ہے اور اس کا رواج ان زمانوں میں ہوا جن میں شروفساد اور بےراہ روی اور گمراہی بڑھ گئی اور انسانیت نے ہزیمت اختیار کرلی “۔ (ایضا)
رہا عورت کا بغیر کسی ضرورت کے یا بغیر کسی ملازمت کے گھر سے نکلتا اور مرد و زن کا بازاروں اور گلیوں میں اختلاط اختیار کرنا تو یہ وہ ہزیمت ہے جس کے بعد انسانیت گندگی کے دلدل میں گر جاتی ہے اور انسان حیوان کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں عو رتیں نماز کے لیے نکلتی تھیں اور اب بھی شرعا اس کی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن وہ ایک ایسا دور تھا جس میں لوگ عفت اور پاکیزگی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ۔ لوگوں کے اند خدا خوفی تھی اور عورت نماز کے لیے پوری طرح لپٹ کر نکلتی تھی ۔ یوں کہ لوگ اسے پہچان نہ سکیں اور اس وقت خواتین اپنے مقامات فتنہ ہر گزنہ ظاہر کو تی تھیں اس کے باوجود حضرت عائشہ ؓ نے اس دور میں ان کا نکلنا ناپسند فرمایا۔
صحیحین میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا مومنین کی بیویاں حضور ﷺ کے ساتھ نماز صبح میں شریک ہوتی تھیں ۔ پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی واپس ہوتی تھیں اور اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں ۔ اور صحیحین ہی میں ان کی روایت ہے کہ اگر حضور ﷺ وہ دور پاتے جس میں عورتوں نے نئی نئی باتیں ایجاد کرلی ہیں تو ان کو اسی طرح منع فرماتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کیا گیا ۔
سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے دور میں عورتوں نے کیا نیا فیشن اختیار کرلیا تھا ؟ اور وہ کیا تبدیلیاں تھیں کہ اگر حضور ﷺ دیکھتے تو عورتوں کو نماز سے منع کردیتے ۔ ذرا قیاس کرو کہ یہ خیر القرون تھا اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ولا تبرجن تبرجن الجاھلیۃ الاولی (33: 33) ” اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو “۔ یعنی جب کوئی تم میں سے باہر نکلنے پر مجبور ہو۔ اس سے قبل گھروں میں ٹک کر رہنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جاہلیت کے دور میں عورتیں زیب وزینت کی نمائش کرتی تھیں لیکن روایات میں اس سج دھج کی جو صورتیں مروی ہیں وہ سب کی سب بہت سادہ اور سنجیدہ ہیں۔ آج کے دور میں عورتوں نے جو عریانی اختیار کر رکھی اس کا دور جاہلیت سے بھی کوئی موازنہ نہیں ہے۔
مجاہد کہتے ہیں ” جاہلیت میں عورتیں نکلتی تھیں اور مردوں کے اندر پھرتی تھیں یہ تھا تبرج جاہلیہ “۔ قتادہ کہتے ہیں ” یہ ناز و انداز سے چلتی تھیں ، اس سے منع کیا گیا “۔ مقاتل ابن حیان کہتے ہیں ” عورتیں سروں پر دوپٹہ ڈالتی تھیں ، اور اسے یوں نہ لپیٹتی تھیں کہ وہ گردن کے زیورات کو ڈھانپ لے یا کانوں کے زیورات چھپالے اس وقت گردن کا زیور اور کان کا زیور ظاہر ہوتے تھے “
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں ” عورت مردوں میں اس طرح نکلتی کہ اس کا سینہ کھلا ہوتا ، اور اس کے اوپر کچھ نہ ہوتا ، بعض اوقات اس کی گردن اور بالوں کی مینڈھیاں ننگی ہوتیں اور کان کے بندے بھی ظاہر ہوتے۔ اللہ نے مومنات کو حکم دیا کہ وہ ان چیزوں کو ظاہر نہ کریں۔
یہ تھی جاہلیت کی سج دھج اور قرآن اس وقت کے برے آثار سے اسلامی معاشرے کو پاک کرنا چاہتا تھا تاکہ فتنے کے تمام عوامل اسلامی معاشرے سے ناپید ہوجائیں اور اسلامی معاشرے کے آداب ، تصورات اور اس کا اجتماعی شعور اور ذوق بلند اور پاکیزہ ہو۔ ہم نے اسلامی معاشرے کی تطہیر میں ” ذوق “ کی تطہیر کو بھی شامل کیا ہے کیونکہ جسم انسانی کو ننگا دیکھنا ایک ایسا ذوق ہے ، جو نہایت ہی غلیظ اور پسماندہ ذوق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ذوق سنجیدہ اور مستقل اور منظم ذوق جمال کے مقابلے میں بددیانہ ہے۔ اس بددیانہ ذوق میں روح ، عفت اور شعور کا ذوق مفقود ہوتا ہے۔
یہ کہ اسلامی معیار انسانی سطح کو بلند کرتا ہے اور انسان کو ترقی یافتہ بناتا ہے۔ سنجیدگی اور وقار اپنی جگہ ایک خوبصورتی ہے۔ یہ حقیقی حسن ہوتا ہے لیکن اس حقیقی حسن کے ادراک و شعور سے سطحی اور جاہلی ذوق محروم ہوتا ہے۔ کیونکہ گرے ہوئے جاہلی ذوق کے مطابق حسن صرف گوشت و پوست میں ہوتا ہے اور جاہلی ذوق کا داعیہ یہی ذوق ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیات یہاں جاہلی سج دھج کی طرف اشارہ کرکے یہ بتاتی ہیں کہ یہ گری ہوئی جاہلیت کی باقیات ہیں اور جو لوگ جاہلیت کے دور کو لے کرکے آگے بڑھ گئے ہیں وہ اس معیار سے بلند ہوجاتے ہیں اور ان کا شعور اور ان کا ذوق جمال بھی جاہلیت کی سطح سے بلند ہوتا ہے۔ جاہلیت کسی متعین زمانے کا نام نہیں ہے۔ زمانہ جاہل نہیں ہوتا ، لوگ جاہل ہوتے ہیں ۔ جاہلیت ایک حالت کا نام ہے۔ اس میں لوگوں کے خاص تصورات ہوتے ہیں اور یہ حالت ، یہ تصورات اور یہ رسم و رواج ہر زمان و مکان میں ہو سکتے ہیں۔
اس معیار کے مطابق ہم آج دور جاہلیت میں ہیں۔ بالکل اندھی جاہلیت میں۔ جس کا احساس غلیظ ہے ، شعور غلیظ ہے جس کے تصورات حیوانی ہیں اور مقام انسانی سے فروتر گندگی میں لت پت مقام کو یہ شعور پسند کرتا ہے۔ جس کے اندر کوئی طہارت ، پاکیزگی اور برکت نہیں ہوتی۔ انسانیت اس میں ڈولی ہوئی ہے اور وہ اس معیار کے مطابق تطہیر نہیں چاہتی جس کے مطابق اسلام انسانی معاشرے کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ اسے جاہلیت اولیٰ کے باقیات کو زائل کرنا چاہتا ہے اور یہ کام قرآن اور اسلام نے اہل بیت نبوی ﷺ سے شروع کیا ہے تاکہ وہ عام مسلمانوں کے لیے طہارت ، لطافت اور روشنی کا مینار ہو۔
قرآن کریم نبی ﷺ کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یہ اقدامات کریں۔ ازواج مطہرات کے دلوں کو اللہ سے جوڑ دیں ، اور ان کا نصب العین بلند افق پر متعین کردیں۔ نہایت روشن ، نہایت پاکیزہ اور یوں وہ اس روشن مینار تک بتدریج بلند ہوجائیں۔
واقمن الصلوۃ واتین الزکوۃ واطعن اللہ ورسولہ (33: 33) ” نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دو ، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو “۔ اللہ کی بندگی اجتماعی طرز اور اجتماعی اخلاق کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ انسان اعلیٰ اور بلند اخلاقی اور اجتماعی سطح تک بلند ہو سکتا ہے۔ اللہ کی بندگی ہی سالک کے لیے زاد راہ ہے۔ سالک کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی بندگی کے لیے مدد لے۔ لہٰذا اللہ سے تعلق کی ضرورت ہے جہاں سے انسان کو مدد ملے اور اللہ کے ساتھ ایسے تعلق کی ضرورت ہے جس سے دل صاف اور پاک ہوتا رہے۔ اللہ کے ساتھ ایسے مضبوط رابطے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے متعارف طرز عمل سے اور موجودہ معاشرے کے رسم و رواج سے بالا ہوجائے۔ اس کے اندر یہ سوچ اور یہ شعور ہو کہ اللہ سے رابطہ لوگوں اور پورے معاشرے اور اپنے خاندان سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اس تعلق کی وجہ سے انسان میں یہ جذبہ پیدا ہو کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی تعلق باللہ کی طرف دعوت دے۔ یہ نہ ہو کہ ایک شخص اسلام کی روشنی سے خبردار ہوتے ہوئے بھی دوسرے لوگوں کا پیرو کار بن جائے اور وہ اس کی قیادت ظلمت اور تاریکی کی طرف کریں جو عموماً اللہ سے تعلق کٹ جانے کی وجہ سے ہر طرف چھا جاتی ہے۔
اسلام ہی ہر قسم کے مراسم عبودیت ، ہر قسم کے اخلاق و آداب ، ہر قسم کے قوانین اور ہر قسم کے دستوری انتظامات کا حامل دین ہے۔ یہ تمام امور ایک نظریہ حیات کے فریم ورک کے اندر ہیں اور یہ تمام امور اس فریم ورک میں رہتے ہوئے اسلامی نظریہ حیات کے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ یہ سب شعبے باہم توافق کے ساتھ ایک ہدف کی طرف بڑھتے ہیں اور اسی ہم آہنگی اور توافق سے دین اسلام کا مجموعی ڈھانچہ تیار ہوتا ہے۔ ان تمام عناصر کی موجودگی اور توافق کے بغیر یہ دین ہرگز قائم نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ حکم دیا گیا کہ تم نماز کو قائم کرو ، زکوٰۃ دو ، اور اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کے
اندر تمام شعوری سمت ، تمام اخلاقی ہدایات ، ہر قسم کا طرز عمل ، خاندان اور اجتماعی معاملات میں رویہ سب کے سب سمٹ آتے ہیں۔ کیونکہ اسلام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کوئی ان کو قائم نہ کرے اور یہ مجموعی اطاعت شعاری ایک خاص مقصد کے لیے ہے۔
انما یرید اللہ لیذھب ۔۔۔۔۔ تطھیرا (33:33) ” اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے “۔ اس تعبیر میں کئی اشارات ، سب کے سب محبت ، شفقت ، وارفتگی اور نرمی سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ ” تم اہل بیت نبی “ ہو۔ اہل بیت میں تصریح تو نہیں لیکن نبی کے گھر کی طرف اشارہ ہے۔ گویا دنیا میں یہی ایک عظیم گھرانا ہے اور یہ گھرانا اس صفت کا مستحق ہے۔ جب ” البیت “ کہہ دیا تو گویا مراد بیت النبی ہے۔ یہی اشارات خانہ کعبہ کے بارے میں قرآن میں ہوتے ہیں۔ اسے بھی ” البیت “ ” البیت الحرام “ کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں بیت نبی کو بھی البیت کہا گیا۔ گویا یہ عظیم گھرانا ہے ، یہی گھرانا ہے۔
اور پھر یہ تعبیر کہ اے اہل بیت تم سے اللہ گندگی کو پوری طرح دور کرکے صاف کرنا چاہتا ہے یعنی نبی کے گھرانے کو پاک کرنے کا کام خود اللہ نے سنبھال لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور کسی گھر کی تطہیر کے کام کی ذمہ داری خود لیتا ! گویا یہ اہل بیت نبی کا نہایت ہی بلند مرتبہ ہے۔ یہ وہ ذات کہہ رہی ہے جس نے پوری کائنات کو کن فیکون سے بنا دیا۔ اور وہ عزیز و جبار اور علی کل شئ قدیر ہے اور وہ اس کام کو کرنا چاہتا ہے تو یہ اہل بیت کے لیے بڑا اعزاز بھی ہے۔
یہ بات اللہ اپنی اس کتاب میں کہہ رہے ہیں جو آسمانوں پر پڑھی جاتی ہے۔ زمین پر پڑھی جاتی ہے۔ ہر دور اور ہر جگہ پڑھی جاتی ہے اور جس کی پیروی ہر دور میں کئی ملین لوگ کرتے چلے آئے ہیں اور جس کی تلاوت ہر وقت کئی ملین لوگ کرتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ اوامر اور یہ ہدایات یہاں تطہیر اور پاکی کا وسیلہ بنائے جا رہے ہیں اور ان کے ذریعہ اس گھرانے کو پاک کرنا مقصود ہے۔ تطہیر تطہر سے ہے ، گندگی تب دور ہوتی ہے جب کوئی ایسے وسائل اختیار کرے جس سے وہ دور ہو اور یہ کام لوگ خود کریں اور اپنی عملی زندگی کی تطہیر کریں۔ لوگوں کے اندر پاکیزگی کا شعور ہو اور وہ متقی ہوں ، ان کا طرز عمل پاکیزہ ہو۔ وہ پوری طرح اسلام میں داخل ہو کر اپنی زندگی کا رخ اسلام کی طرف کردیں اور اس کے اہداف اسلامی ہوں۔
اور یہ بحث نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کو مزید ہدایات پر ختم ہوتی ہے کہ ازواج مطہرات کو پھر یاد دلایا جاتا ہے کہ تمہارا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ دوسری عورتوں سے تم ممتاز ہو۔ اس لیے کہ تم سرورکونین ﷺ کے گھرانے کی فرد ہو۔ تمہارے گھروں کے اندر قرآن نازل ہو رہا ہے۔ جو حکمت و دانائی پر مشتمل ہے۔ گویا تمہارے گھر حکمت و دانائی کے مقامات نزول ہیں۔ نور ہدایت اور ایمان کی بارشیں وہاں ہو رہی ہیں۔
واذکرن ما یتلی فی ۔۔۔۔۔ کان لطیفا خبیرا (33: 34) ” یاد رکھو ، اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں بیشک اللہ لطیف اور باخبر ہے “۔ یہ وہ بلند مرتبہ ہے جس کا ان کو یاد دلانا ہی کافی ہے۔ ہر کوئی اس مرتبہ بلند کو محسوس کرتا ہے۔ یہ اللہ کا دیا ہوا بہت بڑا مقام ہے اور وہ انعام ہے جس کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ نصیحت اس خطاب اور تقریر کے آخر میں دہرائی جاتی ہے جو ازواج مطہرات کے سامنے اس وقت کی گئی جب ان کو اختیار دیا جاتا تھا کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم دنیا اور اس کی زوال پذیر آرائشوں کو پسند کرتی ہو یا اللہ اور رسول اللہ اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو۔ دکھایا جاتا ہے کہ غور کرلو ، اللہ نے تمہیں بہت ہی بڑی نعمت دی ہے اور یہ پوری زندگی اس کے مقابلے میں کوئی چیز بھی نہیں ہے۔
نبی کے گھرانے کے بعد اب اسلامی سوسائٹی کے اندر تطہیر کے اسباب بھی نہایت تفصیل اور باریکی کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ اس میں مرد اور عورتیں دونوں برابر ہیں۔
ان المسلمین والمسلمت ۔۔۔۔۔۔ مغفرۃ واجرا عظیما (35)
یہ تمام صفات جو اس آیت میں جمع کردی گئی ہیں یہ نفس انسانی کی تربیت اور تشکیل میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ صفات کیا ہیں ، اسلام ، ایمان ، اطاعت امر ، راست بازی ، صبر ، اللہ کے آگے جھکنا ، صدقہ دینا ، روزے رکھنا ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنا۔ یہ تمام صفات ایسی ہیں کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل میں بہت اہم ہیں اسلام سر تسلیم ختم کردینے کا نام ہے ، ایمان کے معنی یقین اور تصدیق کے ہیں اور ان کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔ ہر ایک دوسرے کے لیے ایک شکل ہے۔ اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردینے کا مطلب انتہائی اور گہری تصدیق ہے۔ اور جہاں سچی تصدیق ہو وہاں سر تسلیم خم کرنا کود بخود پایا جاتا ہے۔
قنوت کے معنی اطاعت امر کے ہیں لیکن اس اطاعت کے پیچھے ایمان اور اسلام موجود ہو۔ یہ اطاعت اور اس کا داعیہ اندر سے ہو ، محض جبر یہ نہ ہو۔ خوشی سے ہو ، اکراہ سے نہ ہو۔ صدق ایک مسلمان کی عمومی صفت ہے اور ایک عمومی لباس ہے۔ اور جو سچا نہ ہو وہ امت مسلمہ سے خارج تصور ہوتا ہے۔ دوسری جگہ ہے۔
انما یفتری الکذب الذین لا یومنون بآیات اللہ ” جھوٹ وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے “۔ جھوٹا اسلامی صفوں سے نکال دیا جاتا ہے کیونکہ امت کی صف سچوں کی صف ہے۔
صبر وہ صفت ہے جس کے سوا ایک مسلم اور مومن اپنے فرائض سرانجام دے ہی نہیں سکتا۔ مومن ہر وقت صبر کا محتاج ہے ، قدم قدم پر۔ نفسانی خواہشات پر صبر ، دعوت اسلامی کی راہ میں مشکلات پیش آنے پر صبر۔ لوگوں کے اذیت دینے پر صبر۔ دلوں کی کمزوریوں ، دلوں کی تلون اور کجی پر صبر ، ابتلاء ، امتحان اور مشکلات پر صبر ، خوشی اور غم پر صبر۔ غرض ہر صورت میں صبر اور سنجیدگی ایک مشکل اور ضروری کام ہے۔
خشوع اور خشیت دلی اور ظاہری اعضاء دونوں کی صفت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قلب اور اعضاء دونوں اللہ کی کبریائی ، اللہ کی ہیبت اور عظمت کو محسوس کر رہے ہوں اور اللہ سے ڈرتے ہوں۔ روزہ کو بھی مومن کی صفت قرار دیا گیا ہے ۔ اشارہ اس طرح ہے کہ روزہ رکھنا اور اس کا انتظام اور استقبال کرنا مومنین کی صفات میں سے ہے۔ روزہ کے ذریعہ خواہشات ، ضروریات کی چاہت کو ایک محدود وقت کے لیے روکنا مطلوب ہوتا ہے اس میں صبر بھی شامل ہے۔ قوت ارادی کی پختگی بھی مطلوب ہے اور انسانی صفات کا حیوانی صفات پر غلبہ مطلوب ہے۔
حفظ فروج ، شرم گاہوں کی حفاظت کرنا ، اور اس طرح پاکیزگی اختیار کرنا اور گہرے فطری میلانات پر قابو پائے رکھنا جو انسانی ذات کا حصہ ہوتے ہیں اور اس کے اندر گہرائی تک موجود ہوتے ہیں ۔ یہ میلانات اس قدر قوی ہوتے ہیں کہ ان پر قابو وہی لوگ پاسکتے ہیں جن کو اللہ کی نصرت اور معاونت حاصل ہو۔ پھر اس کے ذریعہ سوسائٹی میں مردوزن کے باہم تعلق کی تنظیم بھی مطلوب ہے۔ اور انسان کو اعلیٰ اور ارفع مقاصد کی طرف متوجہ کرنا مطلوب ہے۔ مرد اور عورتوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے جنسی میلانات اور خواہشات کو شریعت کے تابع بنائیں۔ اس میں بہت بلند حکمت کار فرما ہے اور انسان اس ضابطہ کی پابندی سے اس زمین پر اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرسکتا ہے۔
اللہ کا ذکر کثیر۔ یہ وہ صفت ہے جس سے انسان کی پوری زندگی مربوط ہوجاتی ہے۔ زندگی کے اعمال نظریہ حیات سے مربوط ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک انسان کا دل بر وقت اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اس نے اللہ کی رسی اور رابطہ مضبوطی سے پکڑا ہوتا ہے۔ اس کا کوئی خیال ، کوئی تصور اور عمل اس رابطے سے باہر نہیں ہوتا۔ پھر اللہ کی یاد سے اس کا دل نور ربانی سے منور ، پاک اور صاف ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی پوری زندگی صاف ستھری اور روشن ہوتی ہے۔
جن لوگوں میں یہ صفات جمع ہوجائیں وہ مل کر ایک ایسی شخصیت بناتی ہیں جو ایک کامل شخصیت ہوتی ہے ۔ اس دنیا میں بھی ممتاز اور آخرت میں۔
اعد اللہ لھم مغفرۃ واجرا عظیما (33: 35) ” اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے “۔ یوں ان آیات نے ایک مسلم اور مسلمہ کی شخصیت کے بنیادی عناصر یہاں گنوائے ہیں۔ یہ آیت ان ہدایت کے بعد آئی ہے جو اس سبق کے آغاز میں نبی ﷺ کو دی گئیں۔ یہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خصوصاً عورتوں کا بھی ذکر کیا گیا تاکہ یہ بتایا جائے کہ بحیثیت مسلمان اور انسان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور معاشرے میں جو اسلامی حیثیت مرد کی ہے وہ عورت کی بھی ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات ، ایمان ، عبادت ، اخلاق اور زندگی کے ہر طرز عمل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔